تازہ تر ین

بھارتی دہشتگردی سے زرخیز خطہ صحرابن چکا، ستلج ویلی اجڑ چکی :ضیاشاہد

بہاولنگر (نمائندگان خبریں) چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں ضیاشاہد نے بہاولنگر میں ستلج، بیاس، راوی کا پانی بند کرکے پاکستان کے خلاف آبی دہشت گردی کرنے اور پاکستان کو پانی کی کمی کے حوالے سے صحرا میں تبدیل کرنے کی سازش کے خلاف عوامی رابطہ مہم کے سلسلے میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نواب آف بہاولپور نے چولستان کو فوڈ باسکٹ آف پاکستان قرار دیکر جو نہروں کی منصوبہ بندی کی تھی وہ ستلج کے بند ہونے کے بعد ہرچیز ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ حکومت پاکستان نے پیسے وصول کرنے کے باوجود وہ نہریں نہیں بنائیں۔ جو ستلج کو بند کئے جانے کے بعد بنائی جانی تھیں۔ میرا بچپن جس بہاولنگر میں گزرا وہ بہت ہی خوبصورت اور سرسبز شہر تھا۔ یہاں بہت بڑا جنکشن تھا، ٹرینیں تھیں، شہر میںلائٹس نہیں تھیں لیکن سٹیشن روشن تھا۔ ہاکڑہ اُجڑ کر رہا گیا ہے۔ معلوم نہیں آپ کیوں سو رہے ہیں اور آپ کیسے جاگیں گے۔ آپ کے وکلاءیہ کیس عدالتوں میں کیوں نہیں لیکر جاتے۔ ہیڈتریموں سے آپ کے لئے جو نہر بننی تھی وہ کیوں نہیں بنی۔ بھارت پاکستان کو اس نہر کی رقم بھی ادا کر چکا ہے۔ آپ کے اراکین اسمبلی اس بات کو ایوانوں میں کیوں نہیں اٹھاتے۔ آپ کیوں سو رہے ہیں جبکہ آپ کا یہ زرخیز خطہ صحرا بن چکا ہے۔ بھارت پینے کا پانی بند نہیں کرسکتا مگر اس نے کردیا ہے۔ہماری کمزوری اور نااہلی کی وجہ سے پس رہے ہیں۔ وہ ہمارے دریاﺅں پر ڈیم پر ڈیم بناتا جا رہا ہے اور ہم تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ستلج ویلی اجڑ چکی ہے۔ جناب ضیاشاہد نے اپنے خطاب میں کہا کہ میرا بچپن اس شہر میں دن کو پڑھتے اور شام کو گلیوں میں کھیلتے گزرا۔ وہاں میرے دوستوں کی کمی نہیں رہی۔ دوست کی امی میری امی ہوتی تھی جہاں مجھے ہرطرف سے پیار ملتا تھا۔ آج مجھے کرشن چندر کے زمانے کی وہ بات یاد آرہی ہے کہ انسان چاند تک تو پہنچ گیا لیکن پڑوسی کے دل تک نہیں پہنچ سکا۔ انہوں نے کہا کہ میرے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں، میں اپنے بچپن کے شہر ، اپنے آباﺅ اجداد کے شہر کی خدمت کرنے اور اس شہر کو خوشحال کرنے کے لئے حاضر ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں پاکستان کے سب بڑے اخبارات کے ایڈیٹرز کے سب سے بڑے ادارے کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز کا چیئرمین ہوں۔ اس سے بڑا اور کیا اعزاز ہوگا، میں اس شہر کو کچھ لوٹانے کے لئے آیا ہوں۔ میرا شعبہ صحافت ہے اور میں صحافت کے پلیٹ فارم سے اس شہر کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ انہوںنے کہا کہ آئےے ملکر نعرہ بلند کرتے ہیں۔ اس ستلج کے سائے تلے ہم ایک ہیں، مجھے زندگی میں جب بھی موقع ملا میں نے اس شہر کا اپنے اوپر سے قرض اتارنے کی کوشش ضرور کی۔ ایک روز صوبائی وزیر آبپاشی عامر سلطان چیمہ کو بہاولنگر لے آیا تھا اور انہیں فورڈ واہ نہر کے کنارے بٹھا کر لوگوں کے مسائل سنوائے۔ وہ دن بھر بیٹھے رہے اور شام کو بول پڑے کہ اتنے آبادی کے مسائل پہلے کبھی نہیں سنے۔ انہوں نے ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے اپنا ماضی حاضرین کو بتاتے ہوئے کہا کہ میں 11ماہ کا تھا کہ میرے والد کاانتقال ہوگیا۔ ہم شکار پور میں رہتے تھے اور والد کے انتقال پر ہم بہاولنگر آگئے۔ میری والدہ نے دن رات محنت کرکے سب بہن بھائیوں کو پڑھایا۔ ایک بھائی پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھے اور دیگر نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس شہر کے لوگوں کو کیا ہوگیا ہے۔ اپنے حق کے لئے اکٹھے کیوں نہیں ہورہے۔ انہوںنے کہا کہ بہاولنگر میں جگر کے امراض، جلدی امراض اور پیٹ کے امراض بہت تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ زیرزمین پانی کی سطح تیزی سے گرتی اور زہریلی ہوتی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ساری زندگی ادارے بنائے۔ آج کل ہرطرف ایک ہی شور ہے جوکہ آف شور کا ہے۔ مگر الحمدللہ آف شور کے شور میں میرے خاندان کے کسی فرد کا نام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے 3 دریا فروخت نہیں کئے۔ یہ آپ لوگوں کو سمجھ لینا چاہےے ہم نے سندھ طارق معاہدے کے تحت صرف زرعی پانی بھارت کو دیا ہے۔ ہم نے گھریلو استعمال کا پانی، آبی حیات اور جنگلی حیات کا پانی بھارت کو نہیں دیاتھا مگر یہ بات کسی کو سمجھ نہیں آتی۔ میں نے اس کو بہت پڑھا، اس بارے بہت سی معلومات لیں، اس پر بہت کام کیا ہے۔ بھارت ہمارے 3دریاﺅں میں سے پانی لے رہا ہے تو پھر ہمیں کیوں نہیں دے رہا۔ معاہدے کا اطلاق دونوں فریقوں پر ہوتا ہے۔ ظلم کی انتہا دیکھیں بھارت نے ہمارا صاف پانی تو ہم سے لے لیا مگر ہمارے گندے پانی جس میں لاہور کی ہڈیالہ ڈرین بھی شامل ہے‘ بھارت سے گندا اور زہریلا پانی لے کر پاکستان آرہی ہے۔ جناب ضیا شاہد نے کہا کہ میں نے ابتدائی کام مکمل کرلیا ہے‘ اب مجھے پاکستانی عدالتوں کے ساتھ ساتھ عالمی عدالتوں میںبھی جانا ہے۔ اب مجھے دریائے ستلج میں کم از کم 25سے 30فیصد پانی ہر حالت میں بھارت سے لینا ہے۔ میں نے اب منصوبہ بندی کرلی ہے۔ عوامی محاذ پر آپ سرگرم ہو عالمی محاذ میں سنبھال لوں گا۔ پبلک پریشر آپ بنائیں مگر اس کیلئے آپ کو پہلے سمجھنا ہوگا‘ پڑھنا ہوگا‘ طلباءکو آگاہی لینا ہوگی۔ اساتذہ کو جاننا ہوگا کہ یہ مسئلہ ہے کیا۔ دانشوروں کو وقت نکال کر اس پر توجہ دینا ہوگی اور قطرے قطرے سے دریا بن کر اس میں ستلج کو بحال کرنا ہے۔ میں اپنے حصے کا کام شروع کرچکا ہوں آپ اپنے حصے کا کام مکمل کریں۔ ہم نے تریموں سے نہر بھی لینی ہے اور بھارت سے پانی بھی جو بھارت کو دینا پڑے گا۔اس موقع پر اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر محمدعلی درانی نے کہا کہ 1990ءمیں پرائیویٹ چینل نہیں ہوا کرتے تھے‘ اخبارات میں وہ ٹرینڈ نہیں تھا جو 1992ءمیں روزنامہ خبریں نے مظلوم کا ساتھ دے کر شروع کیا۔ آج ملک بھر میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا جہاں بھی ظلم کا واقعہ ہو اسے بے نقاب کرتا ہے اور یہ کریڈٹ جناب ضیا شاہد کو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہاولپور کی 3کروڑ آبادی پر جتنا ظلم ہورہا ہے اس کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے آج جناب ضیا شاہد ہمارے ساتھ موجود ہیں اور وہ شہر شہر قریہ قریہ ہمارے ساتھ کوشاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ 1کروڑ آبادی پر ظلم ہے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانا جناب ضیا شاہد کی سرشت میں شامل ہے۔ اس مسئلے کو بھارت نے آبی دہشت گردی کے کام سے منسلک کررکھا ہے اور اس آبی دہشت گردی کے اثرات ہیرو شیما اور ناگاساکی کے ایٹمی دھماکوں سے کم نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہیں۔ بھارت صریحاً یو این کنونشن اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہا ہے اور دریاکو بند کرنا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ یہ صرف پانی کی بندش نہیں بلکہ یہ بھارت نے عالمی جنگ چھیڑی ہے اس کے خلاف اقوام متحدہ اور او آئی سی میں آواز اٹھائی جانی چاہیے اور ہم بھارت کے اس حملے کے خلاف آواز لے کر آئے ہیں جیسے ظلم‘ ”خبریں“ اور جناب ضیا شاہد کی مداخلت کی وجہ سے ناممکن ہوگیا ہے۔ اسی طرح جناب ضیا شاہد صاحب کی مداخلت سے بھارت کیلئے ستلج کا پانی روکنا بھی ناممکن ہوگیا ہے۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کالم نگار اور دانشور محمد مکرم خان نے کہا کہ بیاس قیام پاکستان سے پہلے ہی ستلج میں گم ہوگیا تھا۔ ستلج قیام پاکستان کے بعد چلا گیا۔ یہ دریا کسی ایک کا بند نہیں ہوا ہر طبقے کیلئے بند ہے اور سب کیلئے بند ہے۔ یہ مسئلہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اٹھانے کا عزم لئے جناب ضیا شاہد میدان میں آئے۔ اس موقع پر اسد علی خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ جناب ضیا شاہد نے بہت بڑے کام کا بیڑا اٹھایا ہےاور جس طرح انہوں نے ہر مشکل کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اس کو بھی مکمل کریں گے اور ہم اپنی زندگیوں میں دیکھیں گے کہ ستلج چل پڑا ہے۔ آبی حیات کی واپسی ہوگئی ہے اور لوگوں کو میٹھا پانی میسر آرہا ہے۔ اس موقع پر رازش لیاقت پوری نے ستلج کی تباہی کو اپنے اشعار میں انتہائی خوبصورت انداز میں خوش الحانی سے پڑھا اور پورا ہال جذباتی ہوگیا۔ پاکستان تحریک انصاف بہاول نگر کے صدر ملک مظفر خان نے کہا کہ جو مقدمہ ہمیں لڑنا تھا وہ جناب ضیا شاہد لڑرہے ہیں۔ یہ ہر گھر اور ہر شخص کا مسئلہ ہے۔ ہم تیزی سے خشک سالی کی طرف جارہے ہیں اور جنوب پنجاب میں خوشحالی اسی تحریک سے آئے گی۔ مسلم لیگی رہنما رانا عبدالرﺅف نے بہاولپور آنے پر ضیا شاہد کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے صحافت کا انداز بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہاں زیرزمین پانی کی سطح گر رہی ہے۔ ہر 6ماہ میں بور گہرا ہوجاتا ہے اور اس کا پانی پینے کے قابل نہیں رہتا۔ راﺅ حشمت اللہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ مسئلہ ہمارا تھا مگر اسے اجاگر جناب ضیا شاہد نے کیا۔ اس موقع پر لوگ مسلسل نعرے لگاکر د ریائے ستلج کی بربادی کے معاملہ پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain