ملتان(سپیشل رپورٹر) ملک بھر کے تمام بڑے اورا ہم سیاسی گھرانوں کے افراد گزشتہ 50سال سے شوگرانڈسٹریز پرقابض ہیں اور ایوب دور سے ہی لائسنس چل رہے ہیں جبکہ یہ لائسنس صرف بااثر گھرانوں میں بھی تقسیم ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری سمیت کسی بھی صنعت پر اس طرح کی پابندی نہیں ہے مگرشوگر مل مالکان کسی دیگر کو اس کاروبار میں داخل مشکل
ہی سے ہونے دیتے ہیں۔ بھارت میں700سے زائد منی شوگرملز ہیں اور شوگرمل مالکان کھیتوں میں ہی بیلنے اورکڑاہے لگاکر راب حاصل کرکے حصوں ملوں میں شفٹ کرلےتے ہیں۔ اس طرح سڑکوں پربھی کئی ماہ رش نہیں رہتا جبکہ پاکستا ن میں چھوٹے پیمانے پر شوگرمل لگانے پرپابندی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سیلز ٹیکس کی مدمیں شوگرملیں50فیصد پروڈکشن پربھی بینکز ٹیکس ادا نہیں کرتیں جوکہ 6روپے 80پیسے فی کلو بنتا ہے اور اس حساب سے 340روپے فی من 50کلو بوری پربینکز ٹیکس بنتاہے۔ بتایاگیاہے کہ جتنا کوئی بااثر ہے اتنا ہی سیلز ٹیکس کم اورچوری مال کے ٹرک مل سے زیادہ نکالے جاتے ہیں۔ بہت سی انڈسٹریز میں موقع پر سیلز ٹیکس لیاجاتا ہے مگرشوگرملز کو یہ چھوٹ بھی خاص طورپرحاصل ہے کہ وہ ازخود پور ے مہینے کا سیلز ٹیکس مہینے کے آخرمیں جمع کردیں۔ اس طرح سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو براہ راست انہیں چیک بھی نہیں کرسکتا۔ بتایاگیاہے کہ سندھ کی بعض شوگرملیں80سے 90فیصد چینی بغیرسیلز ٹیکس کے ملوں کے باہر بھجواتی ہیں جبک پنجاب میں یہ شرح30سے 40فیصد سے زائد ہےں۔ سیلز ٹیکس کی شرح کاتعین توسب کےلئے ایک جیسا ہوتا ہے مگراس کی مالیت سیاسی پارٹیوں کے حساب سے ہوتی ہے۔ اپوزیشن میں شامل جماعتوں کے مل مالکان کوبعض اوقات زیادہ سیلز ٹیکس دیناپڑتاہے اور حکومت میں یہ سہولت بھی حاصل ہوجاتی ہے کہ سیلز ٹیکس کی مدمیں نمایاں بچت ہوجاتی ہے۔ بتایاگیاہے کہ پاکستان کی تمام شوگرملیں سالہا سال سے سیلز ٹیکس چوری میں ملوث ہیں اور کبھی ایف بی آر کے ذرائع نے اسے کنٹرول نہیں کیا۔ سیلز ٹیکس کی مد میں ہرسال حکومت کواربوں روپے کے نقصان ہوتا ہے شوگرمل مالکان کو 3500روپے میں پڑنے والی 100 کلو چینی کی اس وقت مارکیٹ میںقیمت4800روپے ہے اور ابھی ایکسپورٹ کاشوٹ چھوڑ کر اس قیمت میں اضافہ کیاجارہاہے اس حساب سے گزشتہ سال کے گنے میں، جبکہ عدالت کے حکم پر بند ہونیوالی تینوں ملیں بھی چل رہی تھیں، شوگرملوں کا منافع1300فی بوری بنتاہے اور اگراس میں سیلز ٹیکس کے فی سوپر680روپے بھی شامل کرلیے جائیں تو یہ منافع2000روپے فی بورتک پہنچ جاتا ہے۔ اس منافع میں رواں سال نمایاں اضافہ ہونے کاغالب امکان اس لیے پیدا ہوگیا ہے کہ شوگرمل مالکان180وپے سرکاری ریٹ والاگنا80روپے سے120روپے فی من میں خرید رہے ہیں اور اس پر15سے 20فیصد کٹوتی بھی کی جارہی ہے۔ 7شوگرملیں قومی اسمبلی کے حلقوں کے مطابق لگائی جاتی ہیں اور بتایا گیاہے کہ ایک ایک شوگرمل سے10سے 12افراد ذاتی ووٹ بن جاتے ہیں اوران کے زیرانتظام کاشتکاروں کے ہوتے ہیں اور یہ انہیں ادائیگی روک کراپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ پاکستان میں کسی عدالت نے آج تک کسی بھی حکومت سے گزشتہ 50برسوں میں یہ سوال نہیں پوچھا کہ شوگرملوں کے لائسنس کی پابندی کیوں لگائی گئی ہے اور چھوٹے پیمانے پر شوگرملوں کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی۔ کسی عدالت نے حکومتی حربوں کے خلاف کبھی فیصلہ نہیں دیا اور اگرچھوٹے کاشتکاروں نے گنے کی قیمت کے تعین کے حوالے سے مقدمہ لڑ کر ہائیکورٹ کے فیصلہ لے بھی لیا تو بھی ڈبل بنچ میں جہانگیر ترین کی طر ف سے13 سینئر وکیل عدالت میں پیش ہوئے اورحکم امتناعی لینے میں کامیاب ہوگئے۔ جوکہ گزشتہ چارسال سے نافذالعمل ہے اورعدالتی بھی کاشتکار کو اس کاحق دلوانے میں انصاف نہیں کرسکیں۔