لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ اپنی صحافتی زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہوں کہ ایک نااہل وزیراعظم عدلیہ کے خلاف تحریک چلانے جا رہا ہے۔ زرداری دور میںوزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیجا گیا۔ نہ تو انہوںنے اور نہ ہی ان کی پارٹی نے کوئی تحریک چلائی اور ”عدلیہ مخالف بیانات دیئے۔ ایک مرتبہ فاروق احمد خان لغاری جب صدر ہوتے تھے۔ نوازشریف صاحب وزیراعظم تھے۔ دونوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے۔ جسٹس (ر) سجاد علی شاہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے ان کے پاس کچھ مقدمات لگے ہوئے تھے۔ جو کہ نوازشریف کے خلاف تھے۔ اس وقت لاہور سے کچھ لوگ اسلام آباد لے جائے گئے۔ ان لوگوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کر دیا اور جسٹس (ر) سجاد علی شاہ نے بھاگ کر دوسرے کمرے میں کنڈی چڑھا کر اپنی جان بچائی۔ جسٹس سجاد علی شاہ کے دو ساتھیوں نے کوئٹہ رجسٹری میں بیٹھ کر انہیں آﺅٹ کر دیا۔ لہٰذا انہیں گھر جانا پڑا۔ دو ایم این ایز طارق عزیز اور میاں منیر صاحب (جو اچھرے سے ایم این اے تھے) نے سپریم کورٹ پر اس حملے کی قیادت کی تھی۔ ان کے خلاف کیس چلا اور دونوں کو نااہل کر دیا گیا۔ لہٰذا ان کا سیاسی کیریئر بالکل ختم ہو گیا۔ موجودہ صورتحال میں ہمیں تحمل اور برداشت سے کام لینا چاہئے عدالتوں سے خلاف فیصلے آنے پر دوسری عدالتوں میں اپیلیں کرنی چاہئے۔ نظرثانی کی درخواست کرنی چاہئے۔ جب ملک کی اعلیٰ ترین کورٹس کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے وہاں نظام نہیں چل سکتے اب نوازشریف صاحب نے اپنی تحریک کو بدل کر ”عدل کی تحریک“ کا نام دے دیا ہے۔ انہوں نے بیان دیا ہے کہ عدلیہ کے خلاف نہیں چلیں گے۔ بلکہ ”تھنک ٹینکس“ بنائیں گے جو خراب قوانین کو درست کرے گا۔ ملک میں (ن) لیگ کی حکومت ہے۔ شاہد خاقان عباسی بھی نوازشریف ہی کے وزیراعظم ہیں میاں نوازشریف کے سعودی عرب چلے جانے کے بعد 8 سال تک چوہدری نثار علی خان نے لیڈر آف اپوزیشن کا کردار بڑی جرا¿ت اور ہمت سے نبھایا۔ وہ بھی بار بار کہتے رہے ہیں کہ عدلیہ کے خلاف تحریک نہ چلاﺅ۔ ظفر اللہ جمالی صاحب نے اس طرز عمل پر پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ لہٰذا (ن) لیگ کے اپنے اندر بھی ”ہاکس“ کی کمی نہیں ہے۔ لیکن قیادت یعنی نوازشریف صاحب ذہنی طور پر عدلیہ کے فیصلے کو قبول نہیں کر رہے وہ اب بھی پوچھتے ہیں ”کیوں نکالا“۔ مریم نواز نے 120 میں الیکشن مہم کے دوران اداروں پر بہت الزامات لگائے۔ اس طرح سعد رفیق بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ مسلم لیگ (ن) کا مزاج ہی ایسا ہے کہ قیادت کی مخالفت کرنے والا کوئی بھی نہیں ہوتا۔ بادشاہ کا جو حکم ملا اس کی تعمیل ضروری ہوتی ہے۔ دانیال عزیز اور طلال چودھری نے اسے ثابت بھی کر کے دکھایا۔ دانیال عزیز جو مشرف کے بھی وزیر تھے۔ نوازشریف کے آنے کے بعد ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ انہوں نے جی بھر کر اپنی بڑھاس نکالی، عمران خان کے متعلق تو انہوں نے اخبار نویس کو یہ کہہ دیا کہ وہ تیرا ”جوائی“ لگتا ہے۔ اس پر احتجاج ہوا طلال چوہدری اور دانیال عزیز پارٹی کے ”ہاکس‘’ ہیں۔ خواجہ آصف جب سے خارجہ کے وزیر بنے ہیں اب دھیمے ہو گئے ہیں۔ ایک اور بڑی تبدیلی آئی ہے۔ خواجہ سعد رفیق صاحب اٹھتے بیٹھتے بھٹو صاحب کی تعریف کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ دیگر ارکان بھی اب بینظیر شہید کی تعریف کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اب تاریخ نئے سرے سے لکھی جا رہی ہے۔ نیا انداز یہ ہے کہ بھٹو صاحب بالکل ٹھیک تھے۔ اور ضیاءالحق نے بالکل غلط کیا تھا۔ ضیاءالحق دور کے وزیراعلیٰ، وزیراعظم وزراءاب انہیں گالیاں دیتے نظر آ رہے ہیں۔ صحافیوں کو خصوصی طور پر بتایا جاتا تھا کہ آپ اسلام، عدلیہ اور فوج کے خلاف کوئی بات نہیں کر سکتے۔ فوج سپاہی کاحب الوطنی اور اپنے سپہ سالار کی محبت سے سرشار ہوتے ہیں۔ وہ اپنے سپہ سالار کا حکم فوراً پورا کرتے ہیں لہٰذا فوج کے خلاف تنقید کو خلاف آئین تصور کیا جاتا ہے۔ نواز شریف آٹھ سال سعودیہ رہے۔ ان کے اچھے تعلقات ہیں۔ اب بھی کہا جا رہا ہے کہ سعودی عرب، جس نے بے شمار دفعہ پاکستان کی مدد کی ہے۔ تیل کے ذریعے، تیل ادھار دینے کے سلسلے میں ہماری اکنامی کو بچایا ہے۔ وہ میاں شہباز شریف کے سلسلے میں ملک میں اہم کردار ادا کرے گا۔ ایک اور این آر او کروا دیا جائے جس کے ذریعے نوازشریف پر تمام مقدمات کو ختم کروا دیا جائے۔ کہا جا رہا ہے کہ شہباز شریف کو اسی مقصد کے لئے آگے لایا گیا ہے تا کہ وہ فوج اور عدلیہ کو بھی خوش رکھے۔ اور اپنی فیملی کے خلاف دائر مقدمات کو رفتہ رفتہ ختم کروانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ کوشش ہے کہ شہباز شریف سعودیوں کو راضی کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ طیارہ بھیج کر بلوانے کا مطلب یہ لگتا ہے کہ انہیں طلب کیا گیا ہے۔ نیم عریاں لڑکیوں کے ذریعے پاکستانی نوجوانوں کو پھانسنے کا ”را“ کی نئی کارروائی ہے۔ ایک صحافتی حملہ نہیں ہے بلکہ سیاسی وار ہے۔ اس سارے عمل کے پیچھے ایک سازش چھپی ہوئی ہے۔ جتنی لڑکیوں کے نام اس میں سامنے آئے ہیں وہ سب کی سب ”ہندو نام رکھتی ہیں۔ان میں درج ذیل نام شامل ہیں۔مثلاًپائل پٹیل، پنکی کماری، ریکھا سنگھ، اینجل چاندنی، پریا سنگھ پریہار، سمن سسرا، ریشماں پروین، پوجا سنگھ، کاویتا سنگھ، پوجا گاﺅتھ، نیتوکماری، نیشا کماری، پٹیل شیتل، سنیتا کماری، دیوسینی، کانیکاورشے، سیرارانی، سنگھیتا وگھانی، سونو سونانی، ریتو شرما وغیرہ۔ سوشل میڈیا پر ایسی لڑکیوں کی روزانہ کی بنیاد پر 30,20 تصاویر آ رہی ہیں۔ تصاویر کے نیچے ای میل ایڈریس اور بعض کے ساتھ تو ٹیلی فون نمبر بھی لکھے ہوئے ہیں۔ 70ءاور80ءکی دہائی میں روس کی خفیہ ایجنسی کے بی جی نے لڑکیوں کے ذریعے جاسوسی کا نظام پھیلایا۔ روس سے 10 ہزار لڑکیاں ٹرینڈ کر کے افغانستان بھیجی گئیں۔ جو اہم لوگوں کو قابو کر کے ان کے بارے معلومات ماسکو پہنچاتی تھیں دوسری جنگ عظیم میں جاسوسی کے لئے سب سے زیادہ لڑکیاں استعمال کی گئیں۔ اٹلی کے ایک دانشور نے ”دی پرنس“ کے نام سے کتاب لکھی جس میں حکمرانی کے اصول لکھے۔ ضیاءالحق نے بھی ہر طریقہ اختیار کیا۔ پانچ دنوں تک ٹی وی پر کرکٹ میچ دکھایا جاتا رہا۔ تا کہ لوگ سیاسی معاملات سے دور رہیں۔جنرل مجیب الرحمن نے مجھے بتایا کہ یہ فوج کی پالیسی ہے کہ لوگوں کا دھیان دوسری طرف لگا دو۔ ”دی پرنس“ میں لکھا ہے کہ جب عوام بادشاہ کے خلاف ہو جائیں تو میلے ٹھیلے اور کھیلوں کا انعقاد کرو۔ تا کہ لوگ دوسری طرف متوجہ ہو جائیں اور سب کچھ بھول جائیں۔ بھارت ایک قدم آگے ہے۔ بھارتی گورو جس کا نام ”چانکیا“ تھا اس نے کتاب میں لکھا مخالف راجہ کے محل میں خوبصورت لڑکیاں داخل کر دو۔ کوشش کرو خوبصورت لڑکی راجہ کے بستر تک پہنچ جائے۔ پھر تمہیں راجہ کی ایک ایک بات معلوم ہوتی رہے گی۔ ”را“ کی کوشش فحاشی نہیں بلکہ ایک منظم سازش ہے۔ جو ننگ دھڑنگ لباس میں دوستوں کو مدعو کر رہی ہے۔ اور دوستی کرنے کے لئے دعوت دے رہی ہے۔ اگر پانچ دس ہزار ہی مرد اس طرف راغب ہو جاتے ہیں اور کچھ بھارت بھی ہو آتے ہیں۔ تو وہ اپنے رابطوں کے حساب سے 50 ہزار اور لاکھ تک پھیل جائیں گے اور آسانی سے ”را“ کے لئے مخبری کریں گے۔ عشق محبت اور چیٹنگ میں وہ سب کچھ بھلا دیں گے۔ یہاں بیٹھ کر وہ ”را“ کے ایجنٹ بن جائیں گے۔ اسی ”را“ نے 50 بلین بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کے لئے مختص کئے ہیں ہماری آئی ٹی نے ایک مرتبہ ”گوگل“ پر پابندی لگا دی تھی۔ آئی ٹی منسٹری کو اس معاملے کو فوری طور پر پکڑنا چاہئے۔ دنیا ہماری فوج اور آئی ایس آئی کو مانتی ہے۔ یہ بہت اہل اور سمجھدار لوگ ہیں اسے فوری طور پر ”بلاک“ کریں۔