ملتان(خصوصی رپورٹ)وزیرخارجہ خواجہ آصف امریکہ میں بھارتی دہشتگرد کلبھوشن یادیو کو رہا کرنے کا وعدہ کرکے آئے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ نے خواجہ آصف پر دباﺅ ڈالا تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائیں جس کیلئے ضروری ہے کہ کلبھوشن یادیو کے کیس کو ختم کیاجائے اور اسے بھارت واپس جانے دیاجائے۔ خواجہ آصف نے بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کے پہلے مرحلے کے طور پر کلبھوشن کی بیوی اور ماں سے ملاقات کا اہتمام کروایا ہے۔ بعدازاں بھارتی دہشتگرد کو امریکی جاسوس اور ٹیرارسٹ ریمنڈ ڈیوس کی طرح فرار کرادیاجائے گا۔ کراچی کے اخبار امت کے مطابق جب وزیرخارجہ خواجہ آصف نے ستمبر2017ءکو امریکہ کا دورہ کیا تھا تو ان پر دباﺅ ڈالاگیا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائے جس کیلئے ضروری ہے کہ وہ کلبھوشن یادیو کو ہر ممکن ریلیف فراہم کرے اور اس کیس کو ختم کرنے کی کوشش کرے جس پر خواجہ آصف نے امریکی حکام کو ناصرف بھارتی دہشتگرد کلبھوشن یادیو کی اس کے اہلخانہ سے ملاقات کرانے کی یقین دہانی کرائی بلکہ کلبھوشن یادیو کو رہا کرانے کا بھی وعدہ کیا۔ ذرائع کے مطابق امریکہ کے اسی دورے میں خواجہ آصف نے امریکی حکام سے جماعت الدعوة کو دبانے کا بھی وعدہ کیا تھا۔ یاد رہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے واشنگٹن میں ایشیا سوسائٹی میں تقریر کرتے ہوئے خواجہ آصف نے اسلام پسندوں پر تو دہشتگردی کا الزام لگایا تھا لیکن پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں ملوث ”را“دہشتگرد کلبھوشن یادیو کا نام تک نہیں لیا تھا۔ خواجہ آصف حافظ محمد سعید اور ان کی جماعت الدعوة کو ہی نہیں حقانی نیٹ ورک کو بھی بوجھ قرار دے کر آئے تھے جبکہ یہ دونوں تنظیمیں پاکستان میں کسی بھی دہشتگردی کے واقعے میں کبھی بھی ملوث نہیں پائی گئیں۔ حافظ سعید کو پاکستان کی عدالتوں نے بھی بے گناہ قرار دیا ہے۔ خواجہ آصف نے یہ بیان دیا کہ ان کی حکومت کلبھوشن کی رحم کی اپیل پر فیصلہ کرسکتی ہے اور اگر کلبھوشن کی ماں اور بیوی سے ملاقات میں قونصلر ساتھ ہوگا تو اسے بھی ملاقات کا موقع دیاجائے گا۔ تاہم پیر کو کلبھوشن کی اپنی ماں اور بیوی سے ملاقات ہوئی تو بھارتی ہائی کمشن کا ڈپٹی ہائی کمشنران کے ساتھ تھا۔ اس پر ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ اس ملاقات میں بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر بطور مبصر موجود تھے۔ اس ملاقات کو قونصلر رسائی نہیں کہا جاسکتا اس لئے کہ یہ کلبھوشن کی اپنی ماں اور بیوی سے ملاقات تھی اور یہ آخری ملاقات نہیں تھی۔ ذرائع کے مطابق یہ رسائی اس کے باوجود دی گئی کہ دفترخارجہ جانتا ہے کہ اس طرح کی قونصلر رسائی کو تسلیم کرنے سے عالمی عدالت میں پہلے سے موجود مقدمے پر منفی اثر پڑسکتا ہے اس بیان سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ وزیرخارجہ خواجہ آصف کا مشن یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح کلبھوشن یادیو کو رہا کرایاجائے تاہم وزیرخارجہ کے اس مشن کو پاکستان کے قومی سلامتی کے محافظ اداروں کی تائید حاصل نہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ بھارت کلبھوشن کی رہائی کیلئے کافی عرصے سے پاکستان کی حکومت کے ساتھ بیک ڈورڈپلومیسی کررہا ہے۔ اپریل2017ءمیں بھارتی سٹیل ٹائی کون سجن جندال بھی کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی کا مطالبہ لے کر اسلام آباد میاں نوازشریف سے ملنے آیا تھا لیکن میاں نوازشریف مری میں موجود تھے تو جندال کو بغیر ویزے کے مری کے حساس علاقے تک رسائی دے دی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ محض انسانی ہمدردی یا اتفاق نہیں کہ کلبھوشن کو جیل کے بجائے دفتر خارجہ میں اپنی ماں اور بیوی سے ملوایا گیا ہے۔ اس کارروائی کی وجہ سے بھارت کے حوصلے بلند ہوں گے اور عالمی عدالت میں پاکستان کا مو¿قف کمزور ہوگا۔ ذرائع کے بقول کلبھوشن کے معاملے میں حکومت کی سنجیدگی اس سے بھی واضح ہوجاتی ہے کہ نہ تو سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کلبھوشن کا نام لیا اور نہ ہی موجودہ وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے کلبھوشن کی کارروائیوں کی مذمت کی ہے۔ذرائع نے بتایا کہ جب پاکستان کے قومی سلامتی نے ا یران سے آنے والے بھارتی دہشتگرد کو گرفتار کیا جو حسین مبارک پٹیل کے نام سے سفر کررہا تھا تو اس نے ابتدائی تفتیش میں ہی اداروں کو بتادیا تھا کہ اس کا نام کلبھوشن یادیو ہے۔ وہ بھارتی بحریہ کا افسر ہے اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشتگردی کا منصوبہ ساز ہے۔ اس اہم کامیابی پر اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف‘ وزیراعلیٰ بلوچستان ثناءاللہ زہری‘ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی بی نے مشترکہ طور پر اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف سے ملاقات کی اور ان سے درخواست کی کہ آپ اس اہم کامیابی کا ٹیلی وژن پر اعلان کریں کیونکہ اس وقت کوئی وزیرخارجہ نہیں تھا اور وزارت خارجہ کا قلمدان میاں نوازشریف کے پاس تھا۔ ذرائع کے مطابق یہ خبر سن کر میاں نوازشریف کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا تھا اور انہوں نے اس اہم کامیابی کا اعلان کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس کے بعد گرفتاری کا اعلان آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل اس وقت میجر جنرل عاصم باجوہ نے وزیراطلاعات سنیٹر پرویز رشید کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔ اس موقع پر پرویز رشید کا چہرہ ان کے دل کی داستان سنارہا تھا۔ ان کا چہرہ اترا ہوا تھا اور انہوں نے نہایت تھکے ہوئے لہجے میں کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر بتائیں گے کہ بات کیا ہے۔ میجر جنرل عاصم باجوہ نے ساری تفصیل بتائی اور بتایا کہ کلبھوشن یادیو کے پاس سے امریکی‘ ایرانی اور پاکستانی کرنسی کے علاوہ پاکستان کے نقشے برآمد ہوئے ہیں۔ اس گرفتاری کے بعد کئی بار مشیرخارجہ سرتاج عزیز میڈیا سے گفتگو میں یہ کہتے رہے کہ ہمارے پاس کلبھوشن کے خلاف کوئی سٹرونگ ثبوت موجود نہیں۔ یہ بیان انہوں نے کلبھوشن کی گرفتاری کے انکشاف کے بعد دیا تھا جبکہ اسی زمانے میں ایران کے صدر روحانی پاکستان آئے ہوئے تھے جن سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے شکوہ کیا تھا کہ کلبھوشن کو آپ کی حکومت نے پالا ہے۔ ایرانی میڈیا اس ملاقات کی تردید کرتا رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ کلبھوشن کی رہائی کیلئے بھارت اور امریکہ سرگرم ہوگئے ہیں اس لئے یہ خدشات موجود کہ کلبھوشن کو کسی بھی وقت ریمنڈ ڈیوس کی طرح سودے بازی کرکے رہا کروایاجاسکتا ہے۔ خیال رہے کہ ریمنڈڈیوس کی رہائی میں پنجاب حکومت کی مرضی ومنشا شامل تھی۔ دوسری جانب عسکری حلقوں کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ کلبھوشن یادیو کی پھانسی میں تاخیر تو ہوسکتی ہے لیکن اسے پاکستان سے باہر لے جانا آسان نہیں ہوگا۔ نوازلیگ کی حکومت ڈان لیکسن کے حوالے سے پہلے ہی اپنا کردار مشکوک بناچکی ہے اس معاملے پر پرویز رشید نے وزارت سے فارغ ہوئے۔ طارق فاطمی سے معاون خصوصی امورخارجہ کا عہدہ چھین لیا گیا اور راﺅ تحسین علی خان پرنسپل انفارمیشن آفیسر کے عہدے سے ہٹائے گئے اور انہیں ترقی بھی نہیں ملی۔
کلبھوشن