تازہ تر ین

کوئی پابندی نہیں ،وفاقی حکومت 23مارچ سے اخبارات کو سرکاری اشتہارات جاری کر رہی ہے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میں پچھلے دنوں اسلام آباد، اشتہارات کی بندش کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں آتا جاتا رہا۔ وزیراطلاعات مریم اورنگزیب سے پوچھ لیتے ہیں کہ پچھلے دنوں میں دو بڑی ڈویلپمنٹ ہوئی ہیں ایک تو سینٹ کے الیکشن ہوئے اور دورے بلوچستان سے آزاد رکن چیئرمین سینٹ منتخب ہوئے۔ میاں نوازشریف نے اپنی تقاریر میں کہا ہے کہ کون سے 9 افراد تھے جنہوں نے پارٹی کے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ مریم صاحبہ آپ فرمائیں کہ آپ کے لیڈر کی جانب سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ چابی کے کھلونے ہیں، جن کی چابی جلد ختم ہو جائے گی۔ اب یہ بات چل رہی ہے کہ سینٹ کے الیکشن میں حصہ لینے والوں کو ”چابی والے کھلونے“ کہا گیا ہے۔ آخر اس میں چابی بھرنے والا کون تھا؟میں اور سرمد علی صاحب سپریم کورٹ میں پیش ہوئے ساڑھے پانچ گھنٹے تک سماعت جاری رہی۔ بالآخر چیف جسٹس صاحب نے ہمارے اسرار پر اشتہارات کی بندش کے حوالے سے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کوئی بندش نہیں لگائی۔ صرف سیاسی رہنماﺅںکی تصاویر پر بندش لگائی ہے۔ ہماری تنظیموں نے محسوس کیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ریلیز آرڈر ایشو ہونے کے باوجود اشتہارات روک لئے گئے۔ چیف جسٹس صاحب نے تو وضاحت کر دی ہے۔ صوبے کہہ رہے ہیں کہ ہم پابندی ختم کر دیں گے۔ لیکن آپ کی طرف سے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ اس فیصلے کی روشنی میں وفاقی وزیراطلاعات کی طرف سے اس معاملے پر کیا طریقہ کار آزمانے کا فیصلہ کیا ہے؟میں مریم اورنگزیب صاحبہ کو یقین دلاتا ہوں۔ میری عمران خان کے ساتھ چھ ماہ بعد ملاقات ہوئی تھی۔ عمران خان سے آخری ملاقات کو اب 3 ماہ سے زیادہ ہو گئے ہیں اس سے پہلے شاید 6 یا 8 ماہ بعد ہوئی تھی۔ مجھے کوئی خوف نہیں میرا جی چاہتا ہے کہ روزانہ ملاقات ہو۔ لیکن میں بھی مصروف ہوتا ہوں وہ بھی بھاگ دوڑ میں رہتے ہیں۔ میں انہیں روزانہ گائیڈ نہیں کرتا نہ ایسی بات ہے کہ وہ میری سنتے ہیں۔ وہ خود عقلمند ہیں۔مریم بی بی آپ فرمائیں۔ ابھی عمران صاحب کا یہ بیان سامنے آیا۔ کہ میں 8 شہروں سے الیکشن لڑوں گا۔ زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑنا۔ آپ کی پارٹی تو سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت بھی آپ کے پاس ہے۔ کیا شہباز شریف صاحب بھی 8 بجائے 16 سیٹوں سے الیکشن لڑیں گے یا نہیں؟
آصف علی زرداری جب جاتی عمرہ آئے تھے نوازشریف صاحب نے خود ان کو ہیلی پیڈ پر خوش آمدید کہا تھا۔ زبردست کھانے پیش کئے گئے۔ اس زمانے میں شہباز شریف سے پوچھا گیا تھا۔ آپ تو انہیں گھسیٹنے کی بات کرتے تھے۔ ہمیں پتہ چلا کہ انہوں نے اس پر معذرت کر لی ہے۔ شہباز شریف ذرا اس وقت جذبات میں آ گئے تھے۔ پاکستان سپریم کورٹ میں ایک نیا کیس شروع ہوا ہے۔ محمد علی درانی بھی اس میں درخواست گزار ہیں جس میں شکایت کی ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے کل ان کی شکایت پر آرڈر کیا ہے کہ 24 تاریخ سے ہم اسے روزانہ کی بنیاد پر سنیں گے۔ بہت اہم ایک ادارہ موجود ہے۔ جس سے دنیا کے دیگر ممالک بھی پیسے ادا کر کے اس کی سروس حاصل کرتے ہیں۔ جو پیسے لے کر دوسرے ملکوں میں موجود رقوم اور جائیدادوں کی تفاصیل مہیا کر دیتا ہے۔ جو دولت بینک کے ذریعے ٹرانسفر نہیں ہوئی ہوتیں۔ جسے منی لانڈرنگ کہتے ہیں۔ امریکہ کے ٹرمپ کے دور میں بھی۔ وہ لسٹیں اپنے ملک کی بھی منگوائی ہیں۔ بھارت نے مودی کی سربراہی میں اس ادارے سے رجوع کر کے انڈیا کے بہت سے لوگوں کے اکاﺅنٹس کی تفاصیل اور کہاں کہاں موجود ہیں منگوائی ہیں۔ اس پرمحمد علی درانی صاحب نے بھی ایک درخواست داغی ہوئی تھی۔ افتخار چودھری صاحب کے دورے پر معاملہ چل رہا تھا یہ کیس چل نہیں رہا تھا۔ میں نے درانی سے پوچھا یہ کیوں نہیں چل رہا۔ انہوں نے کہا مجھے بار بار کہا جا رہا ہے کہ ان لوگوں کے نام دیں جن کے بارے آپ یہ معلومات چاہتے ہیں درانی صاحب نے کہا میں نے جنرل درخواست دی ہے۔ اگر آپ اس ادارے سے رابطہ کریں۔ تو یہ ادارہ نہیں لے کر یہ معلومات فراہم کرتا ہے۔ ایک پراسرار واقعہ ہوا۔ محمد علی درانی نے اپنی درخواست کو روک لیا۔ آئین میں اس کے بہت سے طریقے ہیں۔ خود اپنے وکیل کو کہہ دیں کہ تاریخ لے لیں۔ میں نے ان سے پوچھا آپ نے اتنی اہم درخواست کیوں روکی ہوئی ہے۔ انہوں نے جواب دیا اس وقت کچھ فورسز یہ نہیں چاہتی کہ یہ فہرستیں آ جائیں۔ کیونکہ یہ پانامہ لیکس سے بھی بڑی لیکس ہوں گی۔ وہ ادارہ پوری دنیا میں صرف سوئٹزرلینڈ سے نہیں۔ فہرست فراہم کر دیتی ہے۔ اس میں ہمارے تمام ہی سیاست دان، بیورو کریٹس اور ہو سکتا ہے جرنیل بھی اس دوڑ میں شامل ہوں۔ اگر یہ معلومات آئیں تو پانامہ سے بڑی لیکس ہوں گی۔ اس کا دائرہ صرف آف شور کمپنیوں تک محدود تھا۔ میرا تو اکاﺅنٹس کسی ملک میں نہیں نہ ہی کوئی جائیداد ہے۔ جب ہمیں پتا چلا کہ سیف اللہ کے اتنی آف شور موجود ہیں میں تو بڑا حیران ہوا۔ بیرون ملک موجود اثاثوں کے بارے محمد علی درانی کے اس درخواست کے بارے سب سے بہتر افتخار چودھری ہی بتا سکتے تھے۔ کیونکہ اس میں بڑے بڑوں کے نام نکل آئے تھے۔ جوڈیشری ہو گی یا ایکس آرمی پرسن ہوں گے جن کی وجہ سے اس درخواست کو روکا گیا۔ اب چیف جسٹس صاحب نے اس پر سو موٹو ایکشن لے لیا ہے۔ درانی صاحب نے اپنی درخواست بھی اس کے اندر ڈال دی ہے۔ درانی صاحب نے اس ادارے کا نام کورٹ میں دے دیا ہے جسے یو این او نے بھی مانا ہے۔ بھارت امریکہ اپنے اپنے ملکوں کے افراد کی لسٹیں ان سے منگوا رہا ہے۔ بعض ایجنسیوں کی رپورٹس کے مطابق سنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کم از کم پنجاب کی حد تک دوبارہ جیت رہی ہے۔ شہباز شریف جوش میں اکثر جملے ”لڑھکا“ دیتے ہیں۔ آصف زداری کے بارے کہا کہ ان کی دولت واپس لائیں گے۔ جب ان کے حلقوں سے بات کریں تو وہ کہتے ہیں کہ پہلے اپنے پیسے تو لے آئیں۔ یہ دو بڑوں کی لڑائی ہے ایک طرف شیر دوسری طرف گینڈا ہے۔ ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔
وہ کب کے آئے بھی گئے بھی
نظر میں اب تک سما رہے ہیں
یہ چل رہے ہیں وہ پھر رہے ہیں
یہ آ رہے ہیں وہ جا رہے ہیں
ہم نے آنیاں جانیاں ساری عمر دیکھی ہیں۔ جس طرح پی پی پی اور تحریک انصاف نے اکٹھے ہو کر بلوچستان کی ”بوگی“ میں ووٹ ڈالے۔ لگتا ہے دونوں پارٹیوں کے لوگ سیانے ضرور ہوں گے۔ وہ ایک دوسرے سے لڑکر اپنے ووٹ ضائع نہیں کریں گے دو ایجنسیوں نے نوازشریف کی کامیابی کی نوید دے دی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آصف زرداری اور عمران خان اتنے نہ سمجھ نہیں ہیں کہ اس کی روشنی میں کوئی نئی حکمت عملی نہ اپنائیں۔ سینٹ کی حکمت عملی کے مطابق اب الیکشن کیلئے بھی حکمت عملی بنائی جا رہی ہے۔ میرے خیال کے مطابق اگلا وزیراعظم کون ہو گا۔ اور صدر کون ہو گا۔ اس کا تعین ہو چکا ہے۔ شیخوپورہ سے خبر آئی کہ تین سالہ بچہ گیارہ دن تک گم رہا۔ اور پولیس نے پہلے ایف آئی آر نہیں کاٹی۔ اگر رپورٹ ہو جاتی اور پولیس کارروائی کرتی تو شاید بچہ بچ جاتا۔ وہ گیارہ دن غائب رہا۔ بالآخر اس کی لاش نالہ ڈیک سے ملی۔ میں شیخوپورہ کے ڈی پی او سے درخواست کرتا ہوں۔ آپ کے چند تھانوں میں ہی ایسا کیوں ہوتا ہے۔ شاہدرہ سے ہمارے نمائندے نے ایک اور بچے کی خبر دی ہے کہ ایک بچے کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اس کی تصویر ٹی وی پر بھی آ گئی ہے۔ یہ چوتھا بچہ ہے۔ جو شیخوپورہ سے رپورٹ ہوا ہے ڈی پی او نے شاید کوئی گولڈ میڈل لینا ہے جو ان عناصر کے خلاف کارروائی نہیں کرنا چاہتے۔
وفاقی وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی اکثریتی پارٹی کے ساتھ کیا ہوا پنجاب میں 30 سیٹیں اور قومی اسمبلی میں اکثریت رکھنے والی پارٹی 47 ووٹ لے دونوں پارٹیز تحریک انصاف اور پی پی پی کو سنجرانی صاحب کے گھر کا پتہ بتایا گیا۔ میں کل الیکشن کمیشن میں گئی تھی۔ وہاں دیگر پارٹیوں کے رہنما بھی تھے۔ ہمارا موقف یہی تھا کہ الیکشن کمیشن کا فرض ہے کہ فیئر اینڈ فری الیکشن منعقد کروائے۔ جس کے لئے وہ ملکی اہم ایجنسیوں سے مدد بھی لے سکتے ہیں۔ 1990ءکی دہائی کو 2018ءمیں ریسٹ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ ہر کسی کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ پارٹی کے اندر کیا ہوا اور دیگر پارٹیوں نے کیا کیا۔ ہر پارٹی کو اس قسم کے عناصر کو اپنی پارٹیز سے نکالنا ہو گا۔ جو چند روپوں کے لئے عوامی سیٹ کا سودا کرتے ہیں۔ اس میں محض چند لوگوں کا فیصلہ نہیں چل سکتا۔ اس میں خیانت کرنا، غداری ہے۔ میں نے یہی موقف کل الیکشن کمیشن میں اختیار کیا تھا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دو پارٹیاں جن کا اس قدر اختلاف ہو۔ ایک دوسرے کو چور، ڈاکو، بیماری کے القابات دینے والے۔ یہ اچانک کیا معجزہ ہو گیا۔ کہ ایسے نظریات رکھنے والے یکدم اکٹھے ہو گئے۔ بلوچستان پہنچ گئے۔ ایک ماہ قبل وہاں کی حکومت ختم کر دی گئی۔ پھر تمام کے تمام ہی وہاں پہنچ گئے۔ یہی وہ اندیشے اور تحفظات ہیں جن کا اظہار میاں نوازشریف کر رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں۔ آپ بھی جانتے ہیں۔ اس قسم کے ”سنیاریو“ کو قائم کرنے کا محرک کیا تھا۔ ضیا صاحب: وفاق وہ حکومت ہے جو تصویر کسی اشتہار میں لگاتا ہی نہیں ہے وزیراعظم کے ایڈ پر ان کی تصویر نہیں چھپتی۔ وزیراعظم نے خود آرڈر دیا تھا کہ ان کی تصویر کسی ایڈ پر نہیں چھپے گی۔ اشتہار دینا پی آئی بی کے رول میں آتا ہے۔ پوری حکومت کے ”بی ہاف“ پر ہر منسٹری اشتہار دیتی ہے۔ اس میں کسی قسم کی بندش نہیں ہے ہم نے کسی کو اشتہار دینے سے نہیں روکا۔ انشاءاللہ 23 مارچ آ رہی ہے۔ وفاقی حکومت اپنی تشہیر کے لئے اشتہارات کا استعمال نہیں کرتی۔ صرف آگاہی کے لئے کرتی ہے۔ عوام جاننا چاہتی ہے کہ جن کو ووٹ دے کر اس منصب پر بھیجا۔ انہوں نے پاکستان کے لئے کیا کام کیا۔ پوری دنیا میں ایسا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کارپوریٹ ایجنسیاں بھی اپنے مقاصد کے لئے اشتہارات دیتی ہیں الیکٹرانک بھی اور پرنٹ بھی۔ وفاقی حکومت پاکستان اور صوبائی حکومت بھی یہ اشتہارات دیتی ہیں۔ عمران صاحب نے 100 ملک تو پورے کرنے ہیں۔ آہستہ آہستہ وہ 100 حلقوں کا بھی اعلان کریں گے۔ لیکن انہیں ہر حلقہ کے ایک ہی ووٹ ملنے والا ہے۔ وہ ایسے مضحکہ خیز باتیں کرتے رہے ہیں۔ آپ نے بھی ان کی بارہا رہنمائی کی ہے۔ آپ بھی پچھتاتے ہوں گے کہ کہاں وقت ضائع کیا۔ آپ بھی ان کی مزید رہنمائیں کریں کیونکہ ہم نے اور عوام نے انہیں ”سیرپ“ دینا چھوڑ دیا ہے۔ کیونکہ سینٹ الیکشن میں جو کردار اس نے ادا کیا ہے۔ اس سے وہ اپنے مقام سے ہٹ گئے ہیں آپ اس کی رہنمائی کریں تا کہ وہ واپس اس جگہ آ سکے جہاں سے اس نے سفر شروع کیا تھا۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain