تازہ تر ین

احمد رشدی کو مداحوں سے بچھڑے35برس بیت گئے

لاہور (محمد نعیم سے) گلوکار احمد رشدی کی 35ویں برسی آج منائی جائے گی لیکن کچھ گلوکار ایسے ہیں جو آندھی طوفان کی طرح آئے اور اپنی کامیابی کے ایسے جھنڈے گاڑے کہ سب کو پیچھے چھوڑ گئے۔ ہماری انڈسٹری کی ”سنہری آواز“احمد رشدی ایسی ہی ایک روشن مثال ہیں۔ ان کے گھر والے ان کے گانا گانے کے خلاف تھے تاہم انہیں بچپن سے ہی گانے کا شوق تھا۔ انہوں نے اپنے فنی کریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان کراچی سے شروع کیا۔ریڈیو پر بچوں کے پروگرامز میں ان کی شرکت نے ان کو بہت زیادہ مقبول بنا دیا۔گیارہ اپریل 1983ءکو محض 48 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے احمد رشدی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ لیکن، اپنے پیچھے انمول گانوں کا خزانہ چھوڑ گئے۔

 

 

ساٹھ کی دہائی میں ہر
دوسری یا تیسری فلم میں ان کی آواز نمایاں ہو تی تھی یو ں تو احمد رشدی پاکستانی میوزیکل انڈسٹری کے ہرفن مولا تھے۔لیکن وہ شوخ و چنچل، پیروڈی، کامیڈی اور
چھیڑچھاڑ والے گیت گانے میںان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ وحید مراد نے اپنی آخری فلم ” ہیرو”جو ان کی وفات کے بعد ریلیز ہوئی تھی اس فلم کے لئے بھی احمد رشدی نے ایک اہم گیت ریکارڈ کروایا حالانکہ ان دنوں احمد رشدی بیمارتھے اور ان کے ڈاکٹرنے انہیں گانے سے منع کیا ہوا تھا لیکن وحید مراد کی خواہش پہ انہوں نے گانا ریکارڈ کروایا اس کے بول کچھ یوں تھے
بن کے مصرع غزل کا چلی آﺅ نا، ورنہ شاعر کا دل ٹوٹ جائیگا ، تم تو روٹھ ہی گئی یونہی جانے وفا، تیرا دیوانہ دنیا سے روٹھ جائے گا۔
احمد رشدی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے 1955 میں دیگر گلوکاروں کے ساتھ مل کر پاکستان کا قومی ترانہ پہلی مرتبہ گایا تھا۔انہوں نے فلم ’انوکھی‘ کے مقبول عام گانے ” بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی ہے گھوڑا گاڑی“ سے شہرت حاصل کی۔تاہم 1961 میں لاہور آنے کے بعد فلم ’سپیرن‘ کے گیت چاند سا مکھڑا گورا بدن، اور اگلے سال فلم ‘مہتاب’ کے گیت گول گپے والا آیا گول گپے لایا نے احمد رشدی کو صف اوّل کا گلوکار بنا دیا۔اس کے بعد انھوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور پلے بیک سنگنگ میں ان کے انداز کی انفرادیت ہمیشہ قائم رہی۔ 1963 سے 1977 کا دور احمد رشدی کے عروج کا عہد تھا، اسی عرصے میں انھوں نے فلم ’خاموش رہو‘ کے لئے حبیب جالب کی غزل میں نہیں مانتا گا کر جالب کو بھی پاکستان بھر میں مشہور کر دیا۔اس کے علاوہ اس عرصے میں انھوں نے، کیا ہے جو پیار تو پڑے گا نبھانا، دل کو جلانا ہم نے چھوڑ دیا، کبھی تو تم کو یاد آئیں گے وہ نظارے اور تجھے اپنے دل سے کیسے میں بھلا دوں جیسے یادگار گیت گائے۔احمدر شدی کو پاکستان کا پہلا پاپ سنگر ہونے اور سب سے زیادہ فلمی نغمے گانے کا اعزاز حاصل ہے۔
انہوں نے وحید مراد کے لیے تقریباً 150 گانے گائے جو بذات خود ایک ریکارڈ ہے۔ موسیقار ایم اشرف کی ترتیب کردہ دھنوں پر ایک سو سے زائد گانے اور مالا کے ساتھ ایک سو دوگانے گانا بھی ان ہی کا اعزاز ہے۔پانچ نگار ایوارڈز، بیسٹ سنگر آف ملینیئم، لائف ٹائم اچیومنٹ
ایوارڈ، لیجنڈ ایوارڈ، لکس اسٹائل ایوارڈ، اور 2003 میں ان کی وفات کے بیس سال بعد سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں ستارہءامتیاز سے نوازنا ان کی موسیقی کے میدان میں خدمات کا بہت کم اعتراف ہے۔
آج بھی شادی بیاہ ہو یا کوئی اور خوشی کا تہوار، ایک فاسٹ ٹریک ’کوکورینا‘ لازمی گایا، بجایا جاتا ہے اور یہ گانا جسے پاکستان فلم انڈسٹری کا پہلا ’پوپ سانگ‘ کہا جاتا ہے ساﺅتھ ایشیا کے پہلے پوپ سنگر احمد رشدی نے گایا تھا۔
جب احمد رشدی نے نورجہاں سمیت پاکستان کی صف اول کی تمام گلوکاراﺅں کے ساتھ ڈوئٹ گائے۔احمد رشدی نے 583 فلموں میں 5 ہزار سے زائد گانے گائے، جن میں ا±ردو کے علاوہ انگریزی، پنجابی، بنگالی، سندھی اور گجراتی زبانوں کے گانے بھی
شامل ہیں۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain