لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ نواز شریف نے پہلے ہی کہا تھا کہ اگر استثنیٰ مل گیا تو میری اہلیہ بیمار ہے کچھ دن مزید لندن میں رکنا چاہوں گا۔ چیئرمین نیب نے بھی کہا تھا کہ 6,5 دن میں واپس آ جائیں گے۔ عدالت نے اب صرف ایک دن کی چھٹی منظور کرتے ہوئے استثنیٰ کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ میری معلومات کے مطابق نوازشریف کی اگلی پیشی 23 اپریل کو ہے اگر وہ نہیں آتے تو ظاہر ہے عدالت ان کو نوٹس جاری کرے گی پھر بھی نہیں آتے تو کوئی سخت ایکشن لیا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں نواز واپس آ جائیں گے۔ اگر واقعی ان کی اہلیہ بہت بیمار ہیں تو انہیں چاہئے کہ ان کا میڈیکل فوری عدالت میں پیش کریں کہ اس وجہ سے مجھے استثنیٰ چاہئے بہرحال فیصلہ عدالت نے ہی کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیب نے جو مشرف، مونس الٰہی و کامران شفیع سمیت دیگر افراد کی انکوائری کے لئے لسٹ نکالی ہے اس سے ظاہرہوتا ہے کہ وہ منتخب احتساب نہیں کر رہے۔ جس کے خلاف شواہد ملتے ہیں کارروائی کی جا رہی ہے۔ نیب کا طریقہ ہے کہ وہ اس وقت تک ایکشن نہیں لیتے جب تک کسی کے خلاف ثبوت نہ ہوں۔ نئی لسٹ میں شامل ناموں کے خلاف ثبوت و معقول دلائل ہوں گے تب ہی ان پر ہاتھ ڈالا گیا ہے۔ جب انصاف ہے تو سب کے لئے ہونا چاہئے۔ میرا نیب و عدلیہ سے سوال ہے کہ کئی سال سے سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی و راجہ پرویز اشرف پر بھی مقدمات چل رہے ہیں۔ ان کا کیا ہوا؟ عدالتوں سے درخواست ہے کہ سب کے ساتھ برابر کا سلوک کریں تا کہ یہ محسوس نہ ہو کر کسی کو نظرانداز بھی کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ساری زندگی کا تجربہ ہے کہ آدمی کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو وہ قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر حلف دینے سے گریز کرتا ہے لیکن اگر کوئی ایسا کر لے تو پھر چاہے وہ جھوٹ ہی بول رہا ہو اس کی بات مان لینی چاہئے اور معاملہ پروردگار پر چھوڑ دینا چاہئے۔ تحریک انصاف کی جن 3 خواتین نے اس طریقےسے اپننی صفائی پیش کی ہے، عمران خان کو مشورہ دوں گا کہ ان کی بات تسلیم کر لینی چاہئے۔ تاریخ اسلام یہی بتاتی ہے۔ عمران خان نے جن کارکنوں کو شوکاز نوٹس جاری کئے، انصاف کا تقاضہ ہےکہ انہیں صفائی کا موقع ملنا چاہئے پھر کوئی فیصلہ کریں۔ انہوںنے کہاکہ سندھ میں تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں، سول سوسائٹی کو احتجاج میں حصہ لینا چاہئے۔ پانی، بجلی، گیس کامسئلہ کسی ایک جماعت کا نہیں۔ احتجاج کی کال وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے دی تھی جبکہ عملدرآمد دوسری جماعتیں کر رہی ہیں۔ صوبائی حکومت لوگوںکو احتجاجکا راستہ دکھا کر خود اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں۔ چیف جسٹس جب کراچی جاتے ہیں وہ بھی ان مسائل پر برہم ہوتے ہیں۔ میرا کراچی میں گھر بھی ہے اور دفتر بھی، اس لحاظ سے میں بھی ان کے احتجاج میں شریک ہوں۔ جب تک ہم سب مل کر عوامکے احتجاج میں شامل نہیں ہوں گے، کامیابی نہیں ملے گی۔ سندھ کے مسائل پر چیف جسٹس نے نوٹس لیا، ذمہ داری پیپلزپارٹی کی ہے۔ شرم محسوس ہوتی ہے کہ ملک ریاضنے کہا تھا کہ ایک دفعہ ہم کراچی کا کچرا اٹھوا دیتے ہیں۔ یہ ذمہ داری سندھ حکومت کی ہے۔ اگرعوام کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں تو پھر انہیں حکمرانوں کی تقریروں سے کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ انہوں نے کہاکہ صرف خیبر پختونخوا ہی نہیںبلکہ آئی جی پنجاب نے بھی سکیورٹی واپس لے لی ہے۔ مجھے لوگوں نے بڑی دفعہ کہا کہ آپ بھی سکیورٹی لیں لیکن میں نے کبھی ایسا نہیں کیا کیونکہ پولیس کے وسائل عوام کے لئے ہیں۔ دباﺅ ڈال کر یا سفارشیں کروا کر غلط مراعات حاصل کرنا مذہبی، ذہنی، اخلاقی و قانونی طور پر غلط ہے۔ بچپن سے تربیت ہے کہ جو وقت مقرر ہے اس کے مطابق جانا ہے۔ قانون دان اظہر صدیق نے کہا ہے کہ بیماری یا کاروباری مسائل کی وجہ سے ملزم کو استثنیٰ ملتا ہے، خاندانی حد تک کسی کے بیمار ہونے پر استثنیٰ ملنے کی بہت کم گنجائش ہوتی ہے۔ نوازشریف اگر آئندہ پیشی پر نہیں ہوتے تو ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوں گے۔ وارنٹ جاری ہونے کے بعد ایگزیکٹو نے گرفتار کر کے پیش کرنا ہوتا ہے۔ ملزم ملک سے باہر ہے تو انٹرپول کی مدد حاصل کی جاتی ہے انٹرپول تعاون کر رہی ہے، دبئی سے کافی لوگوں کو لایا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حسن، حسین نواز اور اسحاقق ڈار کو پکڑنے کے معاملے میں وزارت قانون و خارجہ ملوث ہیں جو انٹرپول سے تعاون نہیں کر رہے۔ اگر کوئی تعاون نہیںکرتا تو نیب براہ راست رابطہ کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ عدالت کے حکم پر فوری کسی کا نام ای سی ایل میںڈال دیا جاتا ہے لیکن وزیر داخلہ احسن اقبال کابینہ کمیٹی کا سہارا نوازشریف کی وجہ سے لے رہے ہیں۔ اس طرح نہ صرف وہ اپنا حلف توڑ رہے ہیں بلکہ قانون کی بھی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ نیب کو چاہئے کہ وہ عدالت سے رجوع کریں۔ تحریک انصاف کے رہنما عارف علوی نے کہا ہے کہ ملک میں لاکھوں مقدمے چل رہے ہیں، ہر شخص قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر گواہی دے رہا ہے۔ کسی عدالت میں حلف کے بغیر گواہی نہی ہوتی، چور بھی سچ و جھوٹ بولتے ہیں۔ جن کارکنوں کو شوکازنوٹس گئے ہیں وہ وضاحت دیں گے۔ پی ٹی آئی خود عدالت نہیں، جیوری و پنچائت والا طریقہ کار چلے گا۔ پاکستان میں کرپشن کا جو حال ہے، ایسے حالات میں کارکنوں کو شوکاز نوٹس جاری کرنا گیم چینجر ہے۔ آئندہ کسی کی جرا¿ت نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ میں چیف جسٹس ضیا شاہد کا مشکور ہوں کہ انہوں نے کے پی پولیس کی کارکردگی کو سراہا۔ انہوں نے کہاکہ بچوں وبچیوں سے زیادتی کے بہت زیادہ کیسز ہو رہے ہیں، رپورٹ بہت کم ہوتے ہیں۔ سندھ حکومت سے جنسی تعلیم دینے کے حوالے سے درخواست کی ہے۔ بچوں اور ان کے والدین کو تربیت دینا بہت ضروری ہے۔گورنر سندھ محمد زبیر نے کہا ہے کہ کراچی میں بجلی کی صورتحال پہلے سے بہت بہتر ہے، زیادہ تر علاقوں میں بجلی نہیں جاتی۔ ان علاقوں میں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے جہاں لائن لاسز بہت زیادہ ہیں یا وہ بل ادا نہیں کرتے۔ کراچی 5,4 سال سے بجلی کے حوالے سے لاہور و اسلام آباد سمیت دیگر بڑے شہروں کی نسبت بہت بہتر ہے۔ حالیہ بحران کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کے آپس کے اختلافات کی وجہ سے ہوا۔ بات چیت ہوچکی ہے۔ ایک ہفتے میںبحران ختم ہو جائے گا۔ کے الیکٹرک ایک نجی ادارہ ہے جس کی نجکاری مشرف دور میں ہوئی۔ ملک میں یہ واحد ڈسٹری بیوشن و جنریشن کمپنی ہے جو پرائیویٹ سیکٹر میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شارٹ ٹرم میں پانی کی صورتحال بہتر ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ کراچی میں پانی کا سب سے بڑا منصوبہ بن رہا ہے جس میں وفاق صوبائی حکومت کے ساتھ 50 فیصد پارٹنر شپ کر رہا ہے۔ یہ منصوبہ مارچ 2019ءمیں مکمل ہو گا پھر پانی کی صورتحال کچھ بہتر ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ لاہور میں واٹر ٹینکر مافیا نہیں جبکہ کراچی میں ہے، آخر یہاں نظم و ضبط سے کام کیوں نہیں ہوتا۔ پانی کا منصوبہ جو وفاقی حکومت مل کر کر رہی ہے یہ ہماری ذمہ داری نہیں۔ وفاق صوبائی حکومتوںکو این ایف سی ایوارڈ کی مد میں پیسہ دے رہا ہے جو اس سال ڈبل سے بھی زیادہ دیں گے۔ یہ پیسہ عوام پر خرچ ہوتا نظر بھی آنا چاہئے۔ پنجاب اور سندھ میں زمین آسمان کا فرق ہے، شہباز شریف نے کراچی کے حوالے سے ٹھیک آفر کی ہے کہ موقع ملا تو یہاں کے مسائل ختم کریں گے۔