لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی وزیر آبی وسائل سید جاوید علی شاہ نے کہا ہے ملتان اور بہاولپور میں سب سیکرٹریٹ کے قیام اور وہاں 4 محکموں کی منتقلی پر بہت سا کام ہوچکا ہے انشاءاللہ مسلم لیگ ن ہی دونوں علیحدہ صوبے بنائے گی کسی اور کو یہ اعزاز نہیں دے گی۔ انہوں نے کہا کہ میری معلومات کے مطابق ان دونوں سب سیکرٹریٹس میں فی الحال 4 محکمے ریونیو، ہیلتھ، ایجوکیشن اور پولیس منتقل ہوں گے جس سے جنوبی پنجاب کے عوام کے مسائل بھی حل ہوں گے اور ان کی کافی حد تک شکایت دور ہو گی کہ انہیں ہرمسئلہ کے حل کے لئے لاہور جانا پڑتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چینل ۵ کے پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ جہاں تک میری ملاقات کا تعلق ہے یا جو پچھلے دنوں یہ واقعہ پیش آیا کہ کچھ لوگوں نے اس ایشو کو بنیاد بنا کر بظاہر کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنایا ہے۔ مجھے کسی کے خلاف ذاتی بیان دینے کی کوئی ضرورت نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اسمبلی کا ریکارڈ موجود ہے۔ 5 سال کا کہ جن لوگوں نے جنوبی پنجاب کی بنیاد پر محاذ میں شمولیت کااعلان کیا ہے کہ ان میں کسی ایک شخص نے کسی جگہ کھڑے ہو کرایک مرتبہ بھی جنوبی پنجاب کی بات کی ہو تو میں چیلنج کر کے کہتا ہوں کہ میں سیاست سے دستبرداری کا اعلان کروں گا۔ ایک مرتبہ بھی ان میں کوئی کھڑا نہیں ہوا۔ ان کا طریقہ کار اسمبلی میں بھی رہا ہے۔ پنجاب اپنے حجم کے حساب سے سمجھا جاتا ہے کہ یہ بڑا صوبہ ہے اس کی مزید تقسیم ہونی چاہئے مثلاً جنوبی پنجاب یا بہاولپور صوبہ۔ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ یہ کام کسی اور کے ہاتھوں ہو۔ پچھلے دنوں جب یہ لوگوںنے علیحدگی اختیار کی توچیف منسٹر پنجاب نے فوری ایک میٹنگ کی جس میں جنوبی پنجاب کے لوگوںنے شرکت کی۔ ان میں میں بھی شامل تھا ۔ اس میں یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ سامنے آئی کہ پاکستان مسلم لیگ ن 2012ءمیں قرارداد پاس کرچکی جوبہاولپور صوبے کے حق میں اور جنوبی پنجاب صوبہ کے حق میں تھی۔ میں سمجھتا ہوں پہلی ضرورت یہی ہے کہ وہ صوبہ جس کی تقسیم ہونی ہو وہ قرارداد پاس کرے۔ یہ آئینی تقاضا ہے۔انہوں نے کہا ہمیں کوئی انکار نہیں مگر یہ اس طرح نہیں ہوتا کہ فوری لکیر لگا دو اور صوبہ ادھر والاادھر اور ادھر والاادھر ہو جائے۔ اس کے لئے کوئی باڈی قائم ہو گی جو مختلف چیزوںکا تعین کرے گی اس میں فنانس کمیشن ہوتا ہے دوسرے کمیشنز بنتے ہیںجو باﺅنڈریز کا تعین کرتے ہیںکل کو صوبوں نے چلنا بھی ہے ان کے وسائل کا تعین دیکھا جاتا ہے یہ ان ساری چیزوں کو مدنظر رکھ کر صوبوں کا قیام عمل میں آتا ہے ورنہ تو آپ کے علم میں ہے اور آپ سے زیادہ کون جانتا ہے اور آپ سے زیادہ اس پر کس نے کام کیا ہے کہ جس طرح دریانکلتے کشمیر سے ہیں اوروہ ہمارے پاس آ گئے ہیںوہ آج تک ایشو بنے ہوئے ہیں اس طرح صوبوں کے مسائل بعینہ اس طرح ہوتے ہیں اور اس کو سوچ سمجھ کر کمشن قائم کر کے باﺅنڈریز کا تعین کرکے انشاءاللہ یہ ہماری پارٹی ہی کرے گی۔ مسلم لیگ ن کے ہاتھوں میں ہو گا اور یہ اعزاز ہم اورکسی کو نہیں جانے دیں گے۔ اس موقع پر ضیا شاہد نے کہا کہ جہاں تک خبریں کا تعلق ہے ہم تو سیاسی جماعت نہیں ہم تو اخبار چھاپتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کا کوئی بھی مسئلہ ہو جس میں بہاولپور بھی شامل ہے سابق ریاست بہاولپور بھی۔ ہمارے ادارے نے ہمیشہ ادارے عوام کے مسائل کی بات کی ہے اگر عوام کے مسائل ایک سب سیکرٹریٹ سے حل ہوتے ہیں تو اس پر بھی خوش ہیں اور اگرکسی سٹیج پر ظاہرہے کہ جس طرح آپ نے فرمایا کہ سارے مراحل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کے بعد نئی اسمبلیاں آنے کے بعد کوئی صوبے کی بات ہوتی ہے تو ہمیں اس پر بھی کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں۔ جو لوگ جنوبی پنجاب محاذ میں شامل ہوئے ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ مانتے ہیں جناب شہباز شریف اور جناب نواز شریف نے حتیٰ کہ ذوالفقار کھوسہ صاحب بھی جانتے ہیں کہ ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان تین ڈویژنوں کے بارے میں یہ ایک قرارداد منظور ہوئی تھی دوست محمد کھوسہ صاحب کلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے پیش کی تھی پنجاب اسمبلی میں جناب شہباز شریف اور جناب نواز شریف کے بہاولپور میں اعلانات کی روشنی میں یقینا ایک قرارداد بھی منظور ہوئی تھی بہاولپور صوبے کی بحالی کے سلسلے میں لیکن میرا سوال یہ ہے اور لوگوںکا بھی سوال یہ ہے کہ جناب شہباز شریف صاحب کو 10 سال گزر گئے اور ان وعدوںکو 5 سال گزر گئے یقینی طور پر پنجاب اسمبلی میں تو قرارداد ہوئی لیکن اگلا مرحلہ یعنی اس معاملے کو قومی اسمبلی میں لے کر جانا اور پھر سینٹ میں لے کر جانے اس پرکوئی کام نہیں ہوا لہٰذا اب کہا جا رہا ہے کہ ہمیں وقتی طور پر لولی پاپ نہ دیا جائے آپ یہ فرمائیں کہ آپ کابینہ کے بھی رکن اوربڑے سینئر عہدیدار ہیں فرمایئے کہ آخر 5 سال میں کیوں موقع نہیں مل سکا۔ آپ کی جماعت کو وہ پنجاب اسمبلی کی قرارداد کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں بھی لے کر جاتے۔اس پرسید جاوید شاہ نے کہا آپ نے فرمایا کہ کیا سیکرٹریٹ قائم کرنے کا ارادہرکھتے ہیں وزیراعلیٰ شہباز شریف یا نہیں۔ اس پر بہت حد تک کام ہوچکا ہے اور جو میری خبر ہے اس کے مطابق 4 شعبوں کو ریونیو، پولیس، ہیلتھ اور ایجوکیشن کو بہاولپور میں بھی ایک سیکرٹریٹ قائم کرنا چاہتے ہیں اور جنوبی پنجاب ملتان میں بھی ایک سیکرٹریٹ قائم کرنا چاہ رہے ہیں کہ آئی جی لیول کا بندہ آ کر لاہور میں بیٹھا ہے تو ایڈیشنل آئی جی کم از کم ان دو جگہوں پر ہوں۔اس طرح بورڈ آف ریونیو ان دو جگہوں پر موجود ہوں ایڈیشنل سیکرٹری ایجوکیشن اور ہیلتھ ان جگہوں پر ہوں ایک اہم مسئلہ جو لوگوںکے لئے پریشانی کا باعث بنتا ہے کہ مسائل کے لئے لاہور جانا پڑتا ہے اس پر بہت حد تک ریلیف ملے گا۔ انہوںنے کہا باقی رہی آپکی بات کہ پانچ سال میں ایساکیوں نہیںہوا کہ اس کو مزید آگے بڑھایا جاتا وفاقی حکومت تک یہ اس کو لے جایا جاتا ضیا شاہد صاحب آپ کے علم میں ہیں یہ باتیںکہ یہ حکومت پانچ سال میں ہم نے کس طرح گزاری ہے پہلے دن سے ہی جس طرح ہتھ کنڈے ہوئے۔ دھرنوں کی سیاست شروع ہوگئی اور کوئی دن ایسا نہیں کہہ سکتے جس سے آرام سے کوئی کام کرنے دیا گیا ہو مجھے یاد ہے کہ جب دھرنے اپنے جوبن پر تھے تو میری کسی ایسے دوست سے باتیں ہوتی رہیں جو بڑا ویل انفارم تھا تو انہوں نے کہا جاوید علی شاہ یہ دھرنے ورنے ختم ہو جائیں گے آخر کار جوڈیشل کو ہو گا۔ تو آپ دیکھیں کہ کیا ہو رہا ہے ۔ یہ چیزیں اس وقت ہوتی ہیں جب چیزیں بڑی صحیح طریقے سے چل رہی ہوں آرام سے چل رہی ہوں اور نیشنل اسمبلی میں یہ چیزیں پیش ہوں تو مسائل پھر حل ہوتے ہیں۔ یہ جو پانچ برس ملک میں بے یقینی کی کیفیت رہی ہے اس میں کوئی قدم اٹھانا انتہائی مشکل کام تھا۔ چیف ایڈیٹر خبریں ضیا شاہد نے کہاکہ جاوید علی شاہ صاحب آپ نے بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی مگر ہم سب کی خواہش ہے کہ عوام کے مسائل ہیں جو تجویز آپ کہہ رہے ہیں زیر غور ہے اور کل جناب شہباز شریف نے بھی میرے سوال کے جواب میں تصدیق کی۔ آج اخبار میں خبر چھپی بھی ہے ہمارے ہاں۔ ہماری صرف یہ خواہش ہے کہ جس حد تک ممکن ہو سکے الیکشن سے پہلے قبضے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور الیکشن کے بعد حل ہو سکیں۔ آپ تو خود ہمارے علاقے کے ہیں میں خود جنوبی پنجاب اور سابق ریاست بہاولپور سے اور ملتان سے میرا تعلق ہے ہم چاہتے ہیں عوام کے مسائل حل کرنے کی کوئی نہ کوئی شکل بن سکے۔ضیا شاہد نے کہاکہ جنوبی پنجاب میں انتظامی یونٹس کی تجویز مشاورت کے آخری مرحلے میںہے۔ ریذیڈنٹ ایڈیٹر ملتان نے بھی بتایا کہ 20 مئی تک کوئی مثبت فیصلہ سامنے آ جائے گا۔ طارق بشیر چیمہ نے شہباز شریف کا جنوبی پنجاب میں سب سے زیادہ فنڈز خرچ کرنے کا چیلنج قبول کیا ہے۔ میں نون لیگ سے گزارش کروں گا کہ رانا ثنائ، کوئی موثر رکن یا وزیر میرے پروگرام میں بھیجیں، ہم طارق چیمہ کو بھی مدعو کر لیں گے، آمنے سامنے بیٹھ کر بات کر لیں تا کہ معلوم ہو سکے کس کے پاس کیا دلائل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی پنجاب میں صوبوں کی بات نہیں کرتا، میں کہتا ہوں لوگوں کے مسائل حل کریں۔ پورے جنوبی پنجاب سے لوگوںکو ریونیو، پولیس، صحت و تعلیم کے مسئلے پر لاہور آنا پڑتا ہے۔ میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، بس اتنا چاہتا ہوں کہ لوگوں کو ان کے گھر کی دہلیز پر انصاف ملے۔