تازہ تر ین

یونیورسٹی اساتذہ سیاست ،خٓاندانی اختلافات وی سی کے اقدام خودکشی کی وجہ بنے :ذرائع

ملتان (سپیشل رپورٹر) زکریا یونیورسٹی کی اساتذہ کی سیاست ایک اور وائس چانسلر کو لے ڈوبی اور انہیں اس

حد تک ذہنی دباﺅ میں گزشتہ کئی ماہ سے مبتلا رکھا کہ انہوں نے دباﺅ برداشت نہ کرتے ہوئے دفتری اوقات کے دوران نیند کی 40 سے زائد گولیاں کھا کر خودکشی کی کوشش کی مگر بروقت طبی امداد اور معدہ واش کیے جانے پر ان کی زندگی تو بچ گئی مگر پہلے سے متاثر صحت کے مزید متاثر ہونے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔ اس سے قبل اس یونیورسٹی کے اساتذہ اور انتظامی افیسر سابق وائس چانسلر خواجہ ……….. کے ساتھ بھی اسی قسم کا سلوک کر چکے ہیں اور انہیں جیل کی ہوا کھانا پڑی۔ ذرائع کے مطابق وائس چانسلر زکریا یونیورسٹی ڈاکٹر طاہر امین پر دوطرفہ سخت دباﺅ تھا۔ اسلام آباد میں ان کی فیملی دو وجوہات سے ان سے ناراض تھی جن میں ایک وجہ تو ان کی دوسری شادی اور پھر طلاق اور دوسری وجہ نوکری سے استعفیٰ دے کر گھر نہ بیٹھنا اور یونیورسٹی کے اساتذہ کے ایک گروہ کے ہاتھوں مسلسل یرغمال بنے رہنا مگر گھر والوں کے سخت دباﺅ کے باوجود وائس چانسلر کے عہدے پر براجمان رہنا اور یہی وجہ ہے کہ اقدام خودکشی اور 36 گھنٹے گزرنے کے باوجود اس کی فیملی کا کوئی بھی فرد اسلام آباد سے ملتان نہ آیا حالانکہ نشتر کے ڈاکٹروں نے ازخود فون کر کے ان کی بیٹی کو اطلاع دی تھی۔ بتایا گیا ہے کہ ان کے بھائی مسعود امین بھی اپنی زندگی میں چار شادیاں کر کے چار طلاقیں دے چکے ہیں۔ یونیورسٹی میں اساتذہ کا ایک گروپ جس کے برین ڈاکٹر بسم اللہ ہیں اور تمام تر منصوبہ بندی انہی کی ہوتی ہے۔ انہیں سخت دباﺅ ڈال کر ریٹائرڈ ہونے کے بعد واپس یونیورسٹی میں کنٹریکٹ پر محض اس لیے رکھا گیا کہ اساتذہ کے گروپ کو منصوبہ سازی سے اکٹھا رکھا جائے۔ اس گروپ میں ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر روبینہ ترین، یونس ندیم، رانا ایاز، اسلم شاد سمیت ریٹائرڈ پروفیسر حضرات کو وائس چانسلر پر سخت دباﺅ ڈال کر کنٹریکٹ پر نوکریاں دی گئیں حالانکہ یونس ندیم کی عمر 67 سال سے زائد ہے اور وہ کسی طور پر بھی دوبارہ ملازمت حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ روبینہ ترین یونیورسٹی میں اپنی بیٹی اور داماد کو ملازمت دلوانے میں کامیاب ہو گئیں جبکہ یونس ندیم کے دو بیٹے اور ایک بیٹی باوجود اساتذہ کے اس گروپ کی کوشش کے یونیورسٹی میں ملازمتیں حاصل نہ کر سکے۔ اسی طرح رانا ایاز کی کوششیں بھی ضائع ہو گئیں۔ اساتذہ کے گروپ کے شدید پریشر نے وائس چانسلر ڈاکٹر طاہرامین کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا اور وہ یونیورسٹی سے جانا چاہتے تھے مگر یونیورسٹی کے گروپس انہیں باور کراتے تھے کہ وہ یونیورسٹی میں رہ کر نیب میں اپنے معاملات کلیئر کرائیں اگر وہ چلے گئے تو حالات بگڑ جائیں گے۔ اس گروپ نے انتہائی ناجائز طور پر پروفیسر مقرب اکبر کو کوالیفائی نہ ہونے کے باوجود وائس چانسلر پر دباﺅ ڈال کر انہیں پروفیسر بنوا دیا اور یہ غیرقانونی کام بھی وائس چانسلر کے لیے وبال بنا ہوا تھا پھر وائس چانسلر نے یونیورسٹی کے دو پروفیسر حضرات عابد لطیف اور طاہر سلطان کو قوائد سے ہٹ کر پارٹ ٹائم لیکچرز کے طور پر لاکھوں روپے کی غیرقانونی ادائیگی کی جو ان کے لیے مشکل پیدا کر رہی تھی اور وہ اب انکوائریاں بھگت رہے تھے۔ وائس چانسلر ڈاکٹر طاہر امین اس قدر نفسیاتی دباﺅ میں تھے کہ کئی کئی دن یونیورسٹی میں آتے ہی نہ تھے اور کوئی ایمرجنسی ڈاک ہوتی تو یہاں سے ملازمین لے کر اسلام آباد جاتے او ردستخط کروا کر لاتے۔ کئی ماہ کے اس مسلسل دباﺅ نے ایک علمی شخصیت کو اقدام خودکشی کرنے پرمجبور کر دیا کہ انہیں ان معاملات سے فرار کا اور کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ تمام راستے ان کے نزدیک بند ہو چکے تھے۔
اقدام خودکشی


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain