لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بڑے زبردست کام کئے ہیں لیکن مجھے ان کی بات سمجھ میں آئی کہ وہ ایک ملزم سے کہہ رہے ہیں کہ جے آئی نہ بنا دیں۔ وہ آگے سے کہتے ہی ںکہ مجھے جے آئی ٹی پسند نہیں۔ چیف جسٹس ااگے سے کہتے ہیں کہ پھر آپ فیصلہ کر دیں۔ اگر روش یہ چل نکلی کہ سپریم کورٹ نے آئندہ تمام ملزموں سے یہ پوچھنا شروع کر دیا کہ آپ خود ہی فیصلہ کر دیں کہ جو الزام آپ پر ہے آپ کے نزدیک اس کا کیا حل ہے تو پھر کیا بنے گا۔ میں سمجھتا ہو ںکہ یا تو انہو ںنے یہ کوئی ’طنزیہ طور پر یہ کہا ہے یا پھر انہوں نے یہ دیکھا ہے کہ یہ اس کے جواب میں کیا کہتے ہیں۔ کیونکہ میری سمجھ میں کم از کم یہ باات نہیں آئی کہ کم از کم کوئی عدالت جو ہے ملزم سے پوچھے کہ آپ کے خلاف جو الزامات ہیں خود آپ کے پاس اس کا کیا حل ہے اس مسئلے کو کیسے حل کریں۔ اگر ملزموں نے حل کرنا ہے کہ تو پھر سپریم کورٹ کی کیا ضرورت ہے یہ پاک پتن کی بہت سی الاٹمنٹوں کا ہے 1985ءکی غالباً یہ بات ہے زیادہ بہتر ہو گا کہ اگر ہم پاک پتن کے نمائندے سے پوچھیں کہ یہ ایشو کیا ہے۔
آصف زرداری صاحب نے کل بڑی زبردست بات کہہ دی کہ عمران خان کے بعد آنے والے حکمران عمران خان کو جیل میں ڈالیں گے۔ یہ بات طنزاً کہی ہے کہ اب چونکہ اب یہ سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ یہ روایت بن گئی ہے کہ جو آئے گا وہ اپنے سے سابقہ حکمرانو ںکو جیل میں ڈالے گا اور اب جس طرح سے کہا جا رہا ہے کہ آصف زرداری صاحب کی باری بھی آنے والی ہے اس لئے وہ کہہ رہے ہیں کہ جو عمران خان کے بعد آئے گا تو عمران خان کو جیل میں ڈالے گا۔ لہٰذا وہ پہلےسے اپنی صفائی دے رہے ہیں اگر وہ عوام کے اصل نمائندے ہیں تو انہوں نے اومنی گروپ اور اس ادارے نے اب انہوں نے کہا ہے کہ جو حکومت اور سرکاری محکموں نے ان کی ساری چینی کی کھپت روک دی ہے اور ان کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے پہلی بات تو ان کو یہ بتانی چاہئے کہ یہ کون سا طریقہ ہے جو حکمران ہو وہ اپنا کاروباری ادارہ بنایا جائے اور پھر صوبے کی ساری شوگر ملوں پر قبضہ کر لے خود انہوں نے خریدی کچھ زبردست حاصل کیں کچھ انہوں نے لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنی چینی کی ملیں ان کو دے دیں۔ بہر حال یہ قصہ بہت طویل ہے لیکن اخبارات میں وقتاً فوقتاً آتا رہا ہے کہ کس طرح سے اومنی گروپ نے یہ ملیں خریدیں۔ یہ بھی آ گیا کہ کہ یہ ملیں خریدنے والا انور مجید جو آصف زرداری صاحب کا قریبی دوست تھا اور ان کا فرنٹ مین بھی تھا ان کے ڈائریکٹر فنانس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے کوئی 230 ارب سے زیادہ منی لانڈرنگ کی ہے پاکستان سے باہر پیسے بھجوائے ہیں۔ آصف زرداری کو گرفتار کرنے پر آئے ہیں ذرا اس بات پر ہی نتارا کر لیں کہ ملوں پر قبضہ ہوا یا نہیں۔ یا منی لانڈرنگ ہوئی ہے یا نہیں ہے۔ زرداری نے بڑی خوفناک بات کہی ہے۔
صوبائی وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ آصف زرداری کو اس وقت نظر آ رہا ہے کہ احتساب کا سکنجہ ان کے حوالے سے کہہا جانے لگا۔ اومنی گروپ کے حوالہ معاملات فائنل ہو گئے ہیں ان کے جو فرنٹ مین تھے اور ان کی منی لانڈرنگ کے حوالہ سے مین ٹول تھے پھر اس کے بعد ان کے جعلی اکاﺅونٹ پکڑے جا چکے ہیں۔ وہ جعلی اکاﺅنٹ کسی چھبے نائی کے تھے، کسی مودے قصائی کے تھے کسی دلبر حلوائی کے تھے، کسی نانبائی کے تھے۔ یہ سارے انہوں نے بنائے ہوئے سے اور لوٹ مار کی ہوئی تھی ایان علی کی صورت میں اس طرح کی کئی اداکاراﺅں اور فنکاراﺅں کے ذریعے سے بھی انہوں نے اربوں کی منی لانڈرنگ کی۔ مخالفین کی شوگر ملوں پر قبضے کئے۔ سرکاری املاک پر قبضے کئے اس طرح کی ایک لمبی لسٹ ہے یہ بہت بڑے کریمینل ہیں اب ان کو نظر آ رہا ہےکہ اس پر عمران خان کوئی بارگین نہیں کر رہے ہیں جس طرح گزشتہ 10 سال سے دونوں نوازشریف اور آصف زرداری نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ”ہم تم ہوں گے بادل ہو گا رقص میں سارا جنگل ہو گا کے مصداق ان کے معاملات چلا رہے تھے اب عمران خان ایسی کوئی ڈیل کرنے کو تیار نہیں ہیں تو یہ دھمکیاں لگا رہے ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ شاید وزیراعظم ان کی دھمکیوں سے ڈر جائیں گے ان کو یہ نہیں پتہ کہ وہ بمبینو سینما کے ٹکٹ بلیک کرنے والے نہیں ہیں۔ وہ پاکستان کے ہیرو ہیں اس نے پاکستان کو نام اور مقام دیا ہے۔
ضیا شاہد نے سوال کیا کہ آصف زرداری صاحب نے یہ بتایا کہ اگر آنے والا حکمران عمران خان کو پکڑے گا تو کس بنیاد پر پکرے گا۔ تین مہینے ہوئے انہیں حکومت میں آئے ہوئے اس سے پہلے کوئی الزام ہے تو انہیں گرفتار نہیں کیا جا سکتا لیکن حکومت میں آنے کے بعد سکیورٹی واپس کی ہے پروٹوکول ختم کیا، وزیراعظم ہاﺅس میں رہائش اختیار کرنے سے انکار کیا ہے گورنر ہاﺅس کی دیواریں توڑنے کو کہا ہے اور غیر ضروری احراجات ختم کئے یہ ان الزامات پر پکڑے گا۔ کن الزامات پر پکڑے گا ان پر الزامات کیا لگائے گا۔ اور ان کے سخت ترین مخالف بھی ان پر کیا الزام لگاتے ہیں۔
فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ یہ ڈروبتے کو تنکے کا سہارا، یہ مکمل طور پر ڈوب چکے ہیں پارٹی تباہ حال ہے 350 ووٹوں کی پارٹی رہ گئی ہے قومی اسمبلی کے پنجاب کے کسی حلقےکے اندر ان کے 350 سے زیادہ ووٹ نہیں۔ بلوچستان سے فارغ ہیں۔ کے پی کے سے فارغ ہیں، کراچی سے پی ٹی آئی نے ان کا صفایا کر دیا ہے۔ اب یہ اندرون سندھ وڈیروں کی پارٹی رہ گئی ہے اب ان کو یہ ساری چیزیں نظر آ رہی ہیں ہمیں اب یہ بچنے کے لئے یہ کیوئی نہ کوئی ایسی بات کرتے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ نوازشریف سے ملیں گے نہیں کبھی شہباز شریف کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اسمبلی میں داخل ہوتے ہیں۔ ان کو اپنی سیاسی موت نظر آ رہی ہے۔ عمران خان کوئی ڈیل کرنے کو تیار نہیں۔ یہ چاہتے ہیں جیسے پہلے ڈیلیں ہوتی تھیں این آر او انہوں نے لیا اور نوازشریف سے مل ملا کر انہوں نے پچھلے 10 سال گزرے۔ کچھ دن موج میلہ کر لیں۔ کچھ دن باہر گزار لیں حالت یہ ہے کہ کھربوں روپے لوٹ مار کرنے کے باوجود کھربوں روپے لوٹنے والا آصف زرداری آج کھاتا کیا ہے یہ بھنڈی کے سوا کچھ نہیں کھا سکتا۔ یہ اللہ پاک کی مار ہے۔ یہ اللہ پاک کی سزا، اللہ پاک کا غضب ہے۔ یہ قوم کو میسج ہے کہ کرپشن بددیانتی، دھکے بازی، داداگیری اور نوسر بازی، ظلم کی انتہا کرو گے تو پھر انتہا یہ ہو گی کہ آج اس کو سہارا دے کر لوگ چلا رہے ہیں۔ عمران خان ان کی عمر کا ہے مگر وہ ایکٹو ہے، فیکٹو ہے، شارپ، بھاگتا دوڑتا ہے کیونکہ اس نے حرام کا مال نہیں کھایا ہوا، حرام کا مال نہیں کمایا ہوا۔
ضیا شاہد نے آج تک کبھی نہیں ہوا کہ کوئی حکومت جسے صرف 3 ماہ گزرے ہوں اس کے خلاف چارج لگایا جائے بلکہ کوشش کی جائے کہ اس کے خلاف ووٹ آف نو کانفری ڈینس لایا جا سکے۔ ابھی کون سا ایسا جرم کیا ہے موجودہ حکومت نے یہ جس سے یہ کہا جا سکے ساری پارٹیاں سر جوڑ کر آپس میں کہ کس طریقے سے ان کی حکومت کو کسی طریقے سے ختم کیا جا سکے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ عمران خان کبھی بھی اعظم سواری کو بچانے کی کوشش نہیں کریں گے، الزام ثابت ہوا تو یقین ہے عمران خان ضرور ایکشن لیں گے۔ زلفی بخاری پاکستان میں تھے نہ انہوں نے یہاں کاروبار کیا، کبھی حکومت میں نہیں رہے کوئی کرپشن کے چارجز بھی نہیں لہٰذا ان کے بارے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھایا، ان کے خلاف ساری سیاسی جماعتیں جو کہہ رہی ہیں وہ ایسا ہی ہے کہ آٹا گوندتی ہل کیوں رہی ہو۔ لندن میں نوازشریف کے 2 شہزادے موجود ہیں جن کا ثابت بھی نہیں ہوا کہ ان کے پاس پیسہ کہاں سے آیا۔ ان کا کوئی قصور نہیں تو زلفی بخاری کا لندن میں کاروبار کرنے پر کیا قصور نکل آیا۔ فیصلہ حق میں ہو یا خلاف اس کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔ عوام کا فیصلے کو تسلیم کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ کون مانے گا کہ نوازشریف کا اپنے بیٹوں سے کوئی تعلق نہیں وہ بے گناہ ہیں۔ ذوالفقار کھوسہ، چوہدری نثار کہہ چکے ہیں کہ وہ لندن میں نوازشریف کے فلیٹس میں رہائش اختیار کرتے تھے۔ نوازشریف نے اسمبلی تقریر میں کہا کہ ایک ایک پیسے کی رسید موجود ہے۔ جائیداد کی تفصیل بتائی۔ پھر قطری خط آ گیا، اب وہ ساری باتوں سے منکر ہو گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا پاکپتن زمین نوازشریف کے حکم پر سجادہ نشین غلام قطب الدین کے پاس رہی، زمین فروخت کر کے اربوں روپے حاصل کئے گئے۔ بنی گالا کے حوالے سے عمران خان کہہ چکے ہیں کہ جو واجبات بنتے ہیں وہ دینے کو تیار ہیں۔ عمران خان چیف ایگزیکٹو ہیں لیکن انہوں نے سی ڈی اے کو نہیں کہا کہ میرے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 برس سے سندھ میں پی پی کی حکومت ہے، 18 ویں ترمیم کے بعد تو صوبے کو جملہ اختیارات مل گئے۔ خورشید شاہ میٹر ریڈر سے کتنی ترقی کر گئے۔ پی پی حکومت میں تو ان کی چلتی ہی تھی، نوازدور میں بھی ان کو فرینڈلی اپوزیشن کہا جاتا تھا۔ انہوں نے کہا سانحہ ماڈل ٹاﺅن پر بننے والا لارجر بنچ بڑا تگڑا ہے، نامور اور مضبوط موقف رکھنے والے ججز شامل ہیں۔ یقین ہے لارجر بنچ جو بھی فیصلہ کرے گا وہ تاریخ ساز ہو گا۔ جتنے بھی بااثر افراد تھے شہباز شریف، چودھری نثار، رانا ثنائ، پرویز رشید وغیرہ سب کسی نہ کسی طریقے سے تحقیقاتی کمیٹیوں اور جے آئی ٹی سے صاف بچ نکلے تھے، اب فیصلہ سامنے آئے گا کہ کیا واقعی یہ قصور وار ہیں یا نہیں۔ مدعیان کا موقف تھا کہ ان کو بھی شامل تفتیش کیا جائے، اب لارجر بنچ فیصلہ دے گا کہ ان کو شامل تفتیش ہونا چاہئے یا نہیں۔
