لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میں نے دنیا کے بہت سے ممالک دیکھے ہیں دنیا کے ایسے ممالک جہاں مثلاً ناروے اور سویڈن جہاں 6 ماہ تک ڈم لائٹ رہتی ہے اور بہت ہی دفعہ لمبی ہوتی ہے وہاں بھی بجلی گھر سارے سال چلتے ہیں اور کبھی اِس طرح سے بجلی بند نہیں ہوتی اور اب ہمارے ہاں بجلی کا سارا سسٹم ہی فیل ہو گیا اور گیس کے بعد بجلی کا بحران شروع ہو گیا ہے۔ برطانیہ جیسا ملک ہے یورپ کے تقریباً سارے ممالک جو ہیں وہاں فوگ رہتی ہے اور اچانک بارش شروع ہو جاتی ہے لیکن میں نے آج تک ایسی خبریں نہیں سنیں کہ لندن آدھا تاریکی میں ڈوب گیا۔ یہ ہمارے ہاں نالائقوں کا ملک لگتا ہے۔ کرپشن کا ناسور کھا گیا ہے اس کو اب کہا جاتا ہے کہ سموگ کی وجہ سے بجلی کا نظام خراب ہے کتنے ملکوں میں سموگ ہوتی ہے ان میں تو ایسا نہیں ہوتا ہمارے بجلی گھر بھی ٹرپ ہو گئے۔ پہلے تو سنا تھا کہ ٹرانسفارمر ٹرپ ہوتا ہے اس کی جو وجہ بتا رہے ہیں وہ بڑی بیہودہ ہے کہ صفائی نہیں ہوتی۔ اللہ کا خوف کریں جو ملک اپنے اندر بجلی کا سسٹم صحیح نہیں کر سکا۔ بجلی کم ہے وہ تو اپنی جگہ مسئلہ ہے۔ وہ بھی آج ایک اچھی خبر ہے کہ ایران نے 3 ہزار میگا واٹ بجلی دینے کی پیش کش کی ہے اگر یہ بجلی ہمیں مل جائے تو بہت بڑا شاٹ فال ختم ہو سکتا ہے۔ یہ حکومت کی نالائقی ہے فوراً ان لوگوں کو نوٹس دے کہ ایک ماہ کے اندر سسٹم ٹھیک نہ کیا تو نوکری سے نکال باہر کریں گے۔
ضیا شاہد نے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ نے اچھا فیصلہ کیا ہے کہ 172 لوگوں کے نام ای سی ایل میں رہیں گے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، بیت المال اور عشر زکوٰة کا محکمہ ایک کرنا بھی اچھا فیصلہ ہے اورنج ٹرین کا جو ہم روزانہ 7 کروڑ جرمانہ دے رہے ہیں۔ یہ چین کے مرکزی بینک کا قرصہ ہے وزیراعظم ایک وفد بھیج کر ان کا منت ترلا کریں گے کہ ہمیں اتنے بڑے جرمانے سے بچائیں۔ یہ ہو سکتا ہے۔ ایک بری خبر ہے کہ پانی پر سبسڈی ختم کر دی گئی اب پانی کے ریٹس میں اضافہ ہو گا۔ گیس بحران ان سے نہیں سنبھلتا بجلی والوں سے بجلی کا بحران نہیں سنبھتا۔ ٹرانسفر، ٹرپ کرتے کرتے اب بجلی گھرہی ٹرپ کر گئے ہیں۔ یہ ملک کیسے چلے گا۔ یہاں کے ٹیکنیکل پروفیشنلز اس قسم کے ماہرین ہیں کہاں سے پرھے ہیں۔ نوازشریف کے دور میں تھر کا جو واقعہ ہوا تھا جس میں بچے دھڑا دھڑ مرنے لگے تھے اس میں بھی مرکزی حکومت نے نوازشریف کے زیر نگرانی جو امداد دی تھی وہ انہوں نے کہا تھا کہ یہاں کرپشن بہت ہے سندھ میں ہم سندھ حکومت کے ذریعے تقیسم نہیں کرنا چاہتے۔ سندھ حکومت کی نالائقی کا عالم یہ ہے کہ باقاعدہ خبریں چھپی تھیں کہ سرکاری گوداموں میں گندم کی بوریاں پڑی پڑی سڑ گئیں لیکن وہ اٹھا کر غریبوں میں تقسیم نہیں کی گئیں جو بھوک سے مر رہے تھے۔ لہٰدا اگر آج بھی ترقیاتی منصوبوں کے فیصلہ کیا گیا کہ میں سن رہا تھا کہ سندھ حکومت بے گھر لوگوں کے گھر بنائے گی۔ عمران خان نے اعلان کیا تھا 50 لاکھ گھر بناﺅں گا پتہ نہیں کب بنتے ہیں۔ میں یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ آپ فری نہیں دینا چیہتے تو قسطوں پر لوگوں کو دیں اور کسی بھی کنسورشیم بنا لیں ایک ملک سے دو ملکوں سے اور ان سے کہیں کہ آپ ہمارے ہاں سرمایہ کاری کریں چھوٹے گھر بنائیں اور آسان قسطوں پر دیں۔ اس سے روز گار بھی آئے گا۔ سندھ حکومت پچھلے 11,10 سال سے چل رہی ہے کراچی سے گندگی تو اٹھا نہیں سکے۔ ایک دفعہ بحریہ ٹاﺅن کے مالک ملک ریاض صاحب نے بھی اعلان فرمایا تھا کہ کراچی کی سڑکوں سے گندگی اٹھائیں گے۔ انہوں نے شروع کی تھا کچھ پروگرام لیکن وہ سڑکوں کی صفائی کر سکیں۔
پیپلزپارٹی نے کہا ہے کہ بے گھروں کے لئے گھر بنائیں گے‘ وہ کراچی سے کچرا تو اٹھا نہیں۔ بجلی کا مسئلہ تو حل نہیں کر سکے۔ یہ منصوبے کیسے چلائیں گے۔ کراچی سے تو فوج آتی ہے اگر کوئی پکڑ دھکڑ شروع ہوتی ہے یا اعلان بھی ہوتا ہے تو فوراً جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ سندھ حکومت کہتی ہے کہ صدارتی نظام لاکر ون یونٹ بنایا جا رہا ہے حالانکہ ایسی بات دور دراز تک نہیں ہے نہ ون یونٹ بن سکتا ہے نہ بنا رہا ہے۔ کیا صوبائی حکومت کے چیف ایگزیکٹو کونسا ایسا کام ہے جس میں وہ شامل نہیں ہوئے اور آصف زرداری کی زیرسرکردگی اتنا پیسہ باہر بھیج دیا جس کے ثبوت بھی آ گئے لیکن آصف زرداری کو پکڑا نہیں جا سکتا۔ نہ فریال تالپور کو پکڑا جا سکتا ہے نہ وہ بانکے شہزادے بلاول بھٹو صاحب کو کوئی ہاتھ لگا سکتا ہے۔ غریب آدمی کراچی اور سندھ کا جو ہاری ہے تکالیف کا شکار ہے لیکن یہ جو بڑے بڑے اوپر سے کھا گئے‘ پاکستان کو لوٹ لیا اور پیسہ سارا باہر بھیج دیا ان کو کوئی پکڑ نہیں سکتا‘ عدالتوں سے بھی ان کی حمایت کا تاثر مل رہا ہے۔
نیب کی طرف سے دو اپیلیں دائر کی گئی ہیں۔ العزیزیہ ریفرنس کی 7سال سزا نوازشریف کی کم ہے کیونکہ ان کے خلاف ثبوت زیادہ ہیں اور جو ان کا جرم ہے کافی بڑا ہے۔ دوسرا فلیگ شپ ریفرنس میں کافی ثبوت رہے ہیں اس کے باوجود نوازشریف کو سزا نہیں دی گئی۔ اس کے حوالہ بات کرتے ہوئے ضیاءشاہد نے کہا کہ کل ایک ٹی وی چینل سے اپنے مذاکرے مجھے لائن پر لیا تھا اور ان کا سوال یہ تھا کہ اگر نوازشریف صاحب کے لئے کوئی بھی دو چار ارب ڈالر لیکر پاکستان آ جائے تو وہ باآسانی انہیں نکال کر لے جا سکتا ہے جس طرح سے کہ ماضی میں بھی ہمیشہ ہوا اور لگتا ہے اس ملک میں بکاﺅ مال ہے انصاف بھی بکاﺅ ہے اور ادارے بھی بکاﺅ ہیں یہاں تک خود نیب کا قانون جو ہے وہ یہ کہتا ہے کہ جتنے پیسوں کا چارج لگا اس پر پلی بارگیننگ کے تحت وہ بندہ کچھ سے کچھ پیسے جم کرا دے تو رہا ہو سکتا ہے۔
ایل این جی کے معاملہ پر شیخ رشید کتنا عرصہ سے چیخ رہے ہیں لیکن معاہدے کو مقدس دستاویز کی طرح چھپا کر رکھا گیا ہے۔ معاہدہ سامنے لایا جانا چاہئے کہ یہ جاننا عوام کا حق ہے۔ جعلی اکاﺅنٹس کیس میں جے آئی ٹی رپورٹ میں جتنے نام سامنے آئے ہیں۔ ابتدائی رپورٹ کی بنیاد پر مزید تحقیقات کی جانی چاہئے اور کیسز عدالتوں میں فائل کرنے چاہئیں۔ جب بھی کرپٹ عناصر کی پکڑ دھکڑ ہوتی ہے۔ جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ کسی وزیراعلیٰ کا نام کیس میں آئے تو شور مچانا شروع کر دینا ہے کہ صوبائی معاملات میں مداخلت ہو رہی ہے۔ کراچی میں آج تک عوام کو صاف پانی بجلی گیس اور بنیادی ضروریات تو دے نہیں سکے اور اب نئے گر بنانے چلے ہیں اگر یہ گھر بنا بھی لئے تو صرف اپنے لوگوں کو نوازا جائے گا۔ مری کو عدالت میں پیش کیا جانا خوش آئند ہے ان پر بغاوت کا نہیں دہشت گردی ایکٹ کے تحت کیس بنایا گیا ہے جسے ثابت کرنا مشکل ہو گا۔ سرکاری زمینوں کی نجی الاٹمنٹ بالکل بند ہونی چاہئے۔ سرکاری زمین پر اگر کسی کا حق بنتا ہے تو وہ کسان ہے جو اس پر کھیتی باڑی کرتا ہے۔ حکومت کو واسا کی سبسڈی ختم کرنے کے فیصلے کا جائزہ لینا چاہئے اور پانی کے بل میں اضافہ کو موخر کرنا چاہئے۔ دیکھے بھالے بغیر آپ سبسڈی کو ختم کیا جائے گا تو اس سے مہنگائی بڑھے گی اور عوام متاثر ہو گی۔
سابق نیب پراسیکیوٹر راجہ عامر عباس نے کہا کہ نیب قانون میں پلی بار گین موجود ہے۔ نوازشریف اگر نیب سے پلی بارگین کرنا چاہیں تو انہیں پہلے عدالت کی جانب سے سنایا جانے والا جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ نیب کا نوازشریف کو کم سزا دینے کا موقف ٹھیک ہے ایک عام بڑا ادمی جو دو تین کروڑ کی کرپشن کرتا ہے کو تو 10 سال قید سنائی جاتی ہے اور اربوں کی کرپشن میں ملوث شخص کو 7 سال قید سنائی گئی۔ 3 بار وزیراعظم رہنے والا شخص اگر کرپشن میں ملوث پایا جاتا ہے تو اس کو تو مثالی سزا دینی چاہئے۔ آصف زرداری بھی اس طرح سندھ کارڈ کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے نوازشریف نے عدالت سے سزا سنائے جانے پر جی ٹی روڈ پر نکل کر عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش کی تاہم نہ تو عوام نواز شریف کیلئے باہر نکلے نہ ہی سندھ کے عوام زرداری کیلئے باہر نکلیں گے۔ جے آئی ٹی رپورٹ سرد خانے کی نذر نہیں ہو گی۔ نیب میں ماہرین کی کمی ہے۔ بہت زیادہ انکوائریاں کرنے کی صورت میں حتمی نتائج تک پہنچنا مشکل ہو جات ہے۔ اعلیٰ عدالت نے بھی نیب حکام کو ایک باریہی کہا تھا کہ صرف آنیاں جانیاں نہ دکھائیں کسی کیس کو حتمی انجام تک بھی پہنچائیں۔
ریذیڈنٹ ایڈیٹر کراچی خبریں میاں طارق نے کہا کہ سندھ حکومت آج تک بری گورننس کے باعث عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے اب گھر بنانے کی سکیم پیش کر رہی ہے اور صورتحال یہ ہے کہ کراچی کی بلڈر مافیا آج تک 1980ءکے پراجیکٹ بھی مکمل نہیں کر سکی۔ اب گھر بنانے کی سکیم کا اعلان کر دیا ہے جو کرپشن کا ایک اور دروازہ کھول دے گا کرپٹ عناصر کا سخت احتساب ہونا چاہئے۔ وائٹ کالر جرائم میں فرنٹ مین کے ذریعے کام کیا جاتا ہے۔ تا کہ کوئی ثبوت نہ باقی رہے آصف زرداری پہلے بھی 10 سال جیل میں رہے تاہم کوئی کیس ان پر ثابت نہ ہو سکا۔ منی لانڈرنگ کے خلاف وفاقی سطح پر قانون سازی کی جانی چاہئے تا کہ یہ مکروہ دھندا بند ہو سکے۔
