اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری نے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد سب ٹھیک ہونے کی توقع ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں سجھتا ہوں کہ جو ہو رہا تھا وہ کسی کہنے پر ہو رہا تھا۔ سابق صدر آصف زرداری نے کہا کہ پرانے چیف جسٹس کی اتنی مہربانی تھی کہ انہوں نے سارے کیسز اسلام آباد منتقل کر دئیے، اگر مدعا، مسئلہ اور بندہ سندھ کا ہے تو مجھے اسلام آباد میں کیوں ٹرائل کر رہے ہیں۔ جعلی بینک اکاﺅنٹس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ کراچی کی معروف کاروباری شخصیت عقیل کریم ڈھیڈی نے ٹی وی پر اعتراف کیا کہ 96 ہزار یا 9 لاکھ کے قریب جعلی اکاﺅنٹس ہر بزنس مین کے ہیں کوئی انڈسٹری، کوئی بزنس مین بزنس کر ہی نہیں سکتا اگر آپ ان جعلی اکاﺅنٹس کی بات کرتے ہیں اور ہم پر الزام ہے کہ ان جعلی اکاﺅنٹس سے شوگر کی ادائیگیاں ہوئی ہیں لیکن ہم عدالت میں اس کو دیکھیں گے۔ آصف زرداری نے کہا کہ اگر نیب نے ٹرائل کرنا تھا تو سندھ کی نیب میں کرتے، کیا میں سندھ کی نیب کو جانتا تھا۔ سابق چیف جسٹس کے حوالے سے ایک سوال کہ ان کو خصوصی حالات ساتھ تھے یا کسی کے کہنے پر سب کچھ ہو رہا تھا تو انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ کسی کے کہنے پر ہو رہا تھا۔ جب میزبان نے جسٹس ثاقب نثار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا یہ ماضی کا حصہ تھا اور اب سب ٹھیک ہوجائے گا تو آصف زرداری نے کہا کہ میں امید تو یہی رکھتا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ جسٹس ثاقب نثار کے سامنے بھی ہم نے جے آئی ٹی بنانے کو چیلنج کیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ‘اسٹاک ایکسچینج، پاکستان کا سرمایہ کار مضبوط ہے تو ہر چیز مضبوط ہے میں باہر سے سرمایہ دار کو یہاں بلانے کا اتنا حامی نہیں ہوں کیونکہ وہ یہاں ایک ڈالر کی سرمایہ کاری کرتا ہے تو 10 ڈالر باہر لے کر جاتا ہے وہ میری ریزرو اور دیگر مسئلے ہیں’۔ آصف زرداری کا کہنا تھا کہ چین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے حاصل ہونے والی رقم پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘یہ عمران خان کو نہیں دئیے بلکہ کسی اور صاحب نے کرکے دئیے ہیں اور یہ ایک سہولت ہے جو عمران خان کی وجہ سے نہیں آئے کیونکہ انہیں کوئی نہیں جانتا’۔ سابق صدر نے کہا کہ مشرف کے زمانے میں ہمیں حکومت ملی تو گندم اور چینی بھی درآمد کر رہے تھے لیکن بعد میں ہم نے زرعی انقلاب لایا تو لوگ امیر ہوئے۔ صدارتی نظام لانے یا اٹھارویں ترمیم کو واپس لینے کے حوالے سے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جو کوئی یہ سوچ رہا ہے وہ سیاست دان تو نہیں کیونکہ ہمارے ہاں حادثاتی سیاست دان ہیں جن کو بنایا گیا مثلاً شوکت عزیر، جمالی اور عمران خان کو بھی میں یہی کہوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس نہ تو سیاسی سوچ ہے اور نہ ہی سیاسی دانش ہے، ان کا مطالعہ بھی نہیں ہے، کرکٹ کے بارے میں بڑی کتابیں پڑھی ہوں گی لیکن سیاست پر انہوں نے کتنی کتابیں پڑھی ہوں گی، ایک کتاب پڑھ کر کہا کہ ہمیں یوٹرن لینا چاہئے۔ آصف زرداری نے کہا کہ ہمیشہ لاتے پپٹ ہیں لیکن بعد میں وہ کہتا ہے کہ ہم بھی سیاست دان ہیں جو ابھی عمران خان کو ہورہا ہے وہ سمجھتا ہے کہ میں سیاست دان ہوں میں مقبول ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ساہیوال کا جو واقعہ ہوا ہے اس پر پنجاب کا وزیراعلیٰ استعفیٰ دے جبکہ آوازیں لگی ہیں کہ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کو مستعفی ہونا چاہئے اور ایسا ہونا چاہئے۔ وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری کے دورہ سندھ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کو میں تب سے جانتا ہوں جب سے ان کا خاندان پیپلزپارٹی کے ساتھ ہوتا تھا، سندھ میں ان کو میرے علاوہ شاید کوئی نہیں جانتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کو لوگوں کی ٹی وی میں دیکھا ہے، یہ سندھ میں کیا تحریک چلائیں گے، ادھر ادھر گھوم پھر کر جائیں گے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ سابق صدر نے این آر او پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے این آر او کی بات کی جاتی ہے لیکن ہم نے کبھی این آر نہیں کیا۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ‘اب کیسز کھلیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ مجھ پر کرپشن کا کونسا کیس ہے، کوئی کیس نہیں ہے، انور مجید ایک کاروباری آدمی ہے، انہیں میرے ساتھ تعلقات کی وجہ سے بند کردیا’۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے نااہلی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دیکھیں گے جب آئے گا، یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے یہ سارے پرانے ہتھکنڈے ہیں۔ میڈیا کے نئے قانون پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم میڈیا کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ آپ لوگ خود کھڑے ہوتے ہیں کہ نہیں ہوتے۔ قومی احتساب بیورو ( نیب)کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی تقرری کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے انہیں انصاف کے لئے لگایا تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ نیب سیاست زدہ ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب کے حوالے سے قانون بنانے پر کام ہوسکتا ہے اور نیب کو بہتر ہو اور غیر جانب دار ہو۔