تازہ تر ین

ہمارے دل ہر لاپتہ شخص کے اہلِ خانہ کے ساتھ دھڑکتے ہیں، آصف غفور

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ ہمارے دل تمام لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم ان خاندانوں کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں اور لاپتہ افراد کو تلاش کرنے کی کوششوں میں ان کے ساتھ ہیں۔اپنے پیغام میں انہوں نے مزید کہا کہ ہزاروں فوجی جوانوں نے اپنے ہم وطن پاکستانیوں کے تحفظ کے لیے جانیں قربان کیں، وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچاسکتے۔ساتھ ہی انہوں نے تاکید بھی کی کہ کسی کو بھی کسی بھی طرح اس معاملے کو خراب نہ کرنے دیا جائے۔

لاپتہ افراد کا معاملہ کیا ہے؟
واضح رہے کہ پاکستان میں لاپتہ افراد یا جبری گمشدگیوں کا معاملہ بہت سنگین ہے، ان افراد کے اہلِ خانہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے عزیزوں کو جبری طور پر سیکیورٹی ادارے لے جاتے ہیں اور پھر انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا۔

یہ بھی یاد رہے کہ سیکیورٹی اداروں کی جانب سے حراست میں لیے جانے والے یا جبری طور پر گمشدگی کا شکار سیکڑوں افراد کو کچھ عرصے کے بعد مبینہ طور پر پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی جانب سے جعلی مقابلوں میں ہلاک بھی کیا گیا اور اس حوالے سے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔

سابق ایس ایس پی راؤ انوار پر 400 سے زائد افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کا الزام ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی متعدد مرتبہ اس معاملے پر آواز اٹھاتی اور لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔

اس سلسلے میں سپریم کورٹ کی ہدایات پر وزارت داخلہ نے جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں 2 رکنی کمیشن قائم کیا تھا جس کے دوسرے رکن انسپکٹر جنرل (آئی جی) خیبر پختونخوا ہیں۔

اعدادوشمار کے مطابق مارچ 2011 سے، جب سے کمیشن قائم کیا گیا، کمیشن کو جبری گمشدگیوں کے حوالے سے 5 ہزار 3 سو 69 شکایات موصول ہوئیں، جن میں سے 3 ہزار 6 سو کیسز کو خارج کردیا گیا جبکہ ان میں سے 2 ہزار لوگوں کی موجودگی کے حوالے سے کمیشن کو معلومات حاصل نہیں ہوسکیں۔

اگست 2018 سے کمیشن کو 318 نئی شکایات موصول ہوئیں، جن میں سے 59 شکایات اگست کے ماہ میں درج کرائی گئی، 74 ستمبر، 84 اکتوبر اور 101 نومبر میں درج کروائی گئیں۔

مذکورہ شکایات کی روشنی میں 35 افراد کو مبینہ طور پر نومبر 2015 میں لاپتہ کیا گیا جبکہ 45 شکایات نومبر 2016 میں لاپتہ کیے جانے والے افراد سے متعلق تھیں۔

2018 کے ابتدا میں کمیشن کو جنوری میں 80، فروری میں 116، مارچ میں 125، اپریل میں 162، مئی میں 86 جون میں 36 اور جولائی میں 77 لاپتہ افراد کی شکایات موصول ہوئیں۔

انکوئری کمیشن کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ انہوں نے نومبر میں 55 شکایات خارج کیں، انہوں نے بتایا کہ ہر ماہ تقریبا مختلف تعداد میں ایسی ہی شکایات کو خارج کیا جاتا ہے۔

دوسری جانب سپریم کورٹ میں دائر مقدمے کی مدعی ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ کمیشن کی کارکردگی کو غیر تسلی بخش قرار دیتی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ فورم لاپتہ افراد کو بازیاب کروانے میں ناکام رہا ہے۔

آمنہ مسعود جنجوعہ کے مطابق شکایت موصول ہونے پر کمیشن انکوئری کا آغاز کرتا ہے اور جب انہیں خفیہ اداروں کے حکام کی جانب سے بتایا جاتا ہے کہ مذکورہ شخص ان کی حراست میں تفتیش کے مرحلے میں ہے تو شکایت کو خارج کردیا جاتا ہے۔

وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ‘خارج کیے جانے والے لاپتہ افراد کے مقدمات میں سے بیشتر مرچکے ہیں یا پھر قبائلی علاقوں میں قید ہیں، جن میں سے کچھ ہی بازیاب ہوئے’۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے لاپتہ افراد کے حوالے سے اہم نوٹس لیا گیا اور متعلقہ حکام پر جرمانے بھی عائد کیے گئے تھے اس کے ساتھ جبری گمشدگی کمیشن کی نگرانی کے لیے ایک 2 رکنی عدالتی کمیشن بھی تشکیل دیا گیا تھا۔

جبری گمشدگی جرم قرار
رواں برس جنوری میں حکومت کی جانب سے ایک تاریخی فیصلہ سامنے آیا، جس کے تحت جو افراد، شہریوں کے اغوا میں ملوث ہوں گے ان پر پاکستان پینل کوڈ (پی پی پی) کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔

وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ کسی فرد یا تنظیم کی جانب سے جبری طور پر کسی کو لاپتہ کرنے کی کوئی بھی کوشش کو جرم قرار دینے کے لیے پی پی سی میں ترمیم کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے جبری گمشدگی کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ نامعلوم مقامات سے شہریوں کی گمشدگی اور اغوا میں ملوث شخص پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain