تازہ تر ین

زرداری کی گرفتاری ، بلاول کا اصل امتحان اب شروع ہو ا ہے : معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ جن قوتوں نے، جن طاقتوں نے یہ فیصلہ کیا کہ آج کے دن جبکہ بجٹ پیش ہونے جا رہا ہے قومی اسمبلی میں اور آج ہی دن ایک شام پہلے آصف زرداری گرفتار کر لیا جائے یہ بلاوجہ نہیں ہے اور محسوس یہ ہوتا ہے کہ کچھ طاقتیں یہ چاہتی ہیں کہ اس سلسلے میں انتہا کی محاذ آرائی وہ سامنے آئے جس کو کہتے ہیں کہ ہو جائے پھر جو ہونا ہے ورنہ آصف علی زرداری کی یہ گرفتاری کل بھی ہو سکتی تھی ایک دن پہلے بھی ہو سکتی تھی اور یہ گرفتاری سال ڈیڑھ سال سے متوقع تھی لیکن کس طرح سے اس کی ٹائمنگ کو قومی اسمبلی میں قومی بجٹ کے سامنے آنے پر اس کے ساتھ ملایا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ طاقتیں چاہتی ہیں کہ ملک میں جو موجود محاذ آرائی ہے حکومت یہ چاہتی ہے کہ جن دو پارٹیو ںکی حکومتوں نے کچھ نہیں کیا قرضے لیتے چلے گئے اور بہت زیادہ ملک کو قرضوں کے تلے ملک کو دبا دیا۔ ایکسپورٹ پر بالکل توجہ نہیں کی اور اس طرح امپورٹ بے تحاشا بڑھتی چلی گئی اور خسارے کا بجٹ جو تعاون ہمارا مقدر بن گیا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو کچھ ہوتا ہے ہونے دو اس شکل میں جو انتہا پسندی کی پالیسیاں سامنے آ رہی ہیں جس طرح سے آج بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ مجھے قومی اسمبلی میں بولنے نہیں دیا گیا۔ شیخ رشید صاحب کہتے ہیں مجھے نہیں بولنے دیا گیا فواد چودھری کہتے ہیں کہ ان کو نہیں بولنے دیا گیا پھر بولنے کس کو دیا گیا۔ لگتا ہے کل کا دن بھی ہنگامہ خیز گزرے گا اور پروڈکشن آرڈر کے لئے آصف علی زرداری صاحب کے لئے لیکن اس سے پہلے خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر کے بارے میں جو اب تک نہیں ہوسکے تھے اس کا مطلب ہے اس کی بھی مثالیں موجود ہیں کہ اگر کسی کا پروڈکشن آرڈر مانا جائے تو سپیکر قومی اسمبلی جو ہیں یا ڈپٹی سپیکر جو ان کی جگہ عہدہ سنبھالتے ہیں یہ اس کی صوابدید ہے کہ وہ استدعا منظور کرے یا نہ کرے لہٰذا یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ استدعا منظور کر لی جائے لیکن اگر یہ استدعا منظور بھی کر لے گی اور آصف زرداری صاحب کو پروڈکشن آرڈر پر قومی اسمبلی میں بھیج بھی دیا گیا تو بھی میرا نہیں خیال کہ آئندہ دس دن میں اسمبلی کی فضا جو ہے بجٹ کی دقیق معاملات پر ان پر بحث مباحثہ کے لئے موزوں رہے گی اور یقینا دونوں طرف سے ایسی ہی دھواں دار تقریریں ہوں گی جو شاید ہونے بھی نہ دی جائیں۔ میں صرف اتنا پوچھتا ہوں کہ اتنی مرتبہ آصف زرداری کی ضمانت پر توسیع ہوتی رہی ہے اور ا??ج ایک اور دفعہ ہو جاتی تا کہ بجٹ سیشن گو گزارنے دیا جاتا۔ لیکن میں نے جیسے کہا ہے پھر ہو جائے جو ہونا ہے یہ سوچ پرویل کر گئی، اور اب یہ صورت حال کل سے ایک نئی شکل میں دکھائی دے رہی ہے۔ جہاں تک ملک گیر احتجاج کی جو کال اپوزیشن دے رہی تھی ایک تو مشکل یہ ہے کہ جو احتجاج میں اضافہ ہو اور اس میں اور لوگ اور جماعتیں بھی شامل ہو جائیں جس طرح کہا جا رہا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں مل بیٹھیں لیکن آج جناب شہباز شریف صاحب کی جو تقریر قومی اسمبلی میں ہوئی ہے اس تقریر سے یہ ظاہر ہوتا ہےکہ شاید وہ کوئی مجموعی طور پر بڑی اپوزیشن کی تحریک چلانے کے پرجوش نہیں ہیں وگرنہ آج وہ اپنا وزن اس طرف ڈال دیتے اور دوسرا یہ بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کاجو دیکھا تو اک قطرہ خون نہ نکلابات یہ ہے کہ بڑا شور مچا ہوا تھا کہ مولانا فضل الرحمن میدان میں آ گئے وہ مولانا فضل الرحمن تو آج کہیں دور دراز تک دکھائی نہیں دیئے۔ نہ ان کی پارٹی دکھائی دی۔ نہ ان کی کوئی آنیاں جانیاں ہمیں دکھائی دیں لہٰذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ بہت کچھ سٹیک پر لگا ہوا اس وقت لوگوں کا اور آنے والے دو تین دن میں معاملات کی نوعیت پتہ چل جائے گی کیا پیپلزپارٹی اتنی بڑی جدوجہد کر سکے گی کہ گرفتاریوں کا سلسلہ رکوا سکے کیا باقی ساری سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر وہ ایک زیادہ بڑی تحریک چلانے کی پوزیشن میں ہو گی میرا خیال ہے کہ اس کا فوری فیصلہ نہیں کیا جا سکتا آنے والے تین چار دن اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کر دیں گے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ن لیگ کوئی زیادہ بڑی تحریک چلانے کے موڈ میں نہیں ہے اور اس ضمن میں شیخ رشید صاحب زیادہ پیش گوئیاں کرتے رہتے ہیں تو ان کی پیش گوئی دیکھ لینی چاہئے انہوں نے کل بھی پرسوں بھی کہا تھا کہ شہباز شریف صاحب کی واپسی کے بارے میں شہباز شریف جو ہیں وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں لگتا یہ ہے کہ یہ بھی دعویٰ شیخ رشید ہی کا تھا کہ وہ کسی انڈرسٹینڈنگ ہی حکومتی طاقتوں کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ کے تحت ہی باہر گئے تھے اور اس انڈرسٹینڈنگ کے تحت ہی واپس آئے ہیں اور غالباً اب بڑے پیمانے پر اپوزیشن شاید فوری طور پر دکھائی نہ دے۔ میرا خیال ہے کہ آج چونکہ پروڈکشن آرڈر کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اس لئے اگر پروڈکشن آرڈر پر عمل ہوتا ہے اور آصف زرداری صاحب کو کم از کم بجٹ اجلاس کے دوران قومی اسمبلی میں آنے دیا جاتا ہے تو پھر تو یہ تحریک ابھی فوری طوور پر دیکھ لیجئے گا کہ (منزل آ?ٹ) بکھر جائے گا لیکن اگر ان کو پروڈکشن اارڈر نہ ملا اور وہ قومی اسمبلی نہ آ سکے اور جس طرح خواجہ سعد رفیق کے بارے میں سپیکر نے بات مسلم لیگ ن والوں کی بات نہیں مانی اسی طرح سے آصف زرداری کے پروڈکشن آرڈر کے سلسلے میں اور ان کو قومی اسمبلی میں آ کر اپنا رول ادا کرنے کے سلسلے میں ان کو اجازت نہ دی گئی تو لگتا ہے کہ یہ موومنٹ بھی کافی حد تک بکھر جائے گا کیونکہ ایک لیمٹیشن ہوتی ہے۔ پیپلزپارٹی سندھ میں تو یقینا اس پوزیشن میں ہے وہاں ان کی حکومت ہے۔ سندھ میں ان کی اکثریت ہے ایم پی اے اور ایم این اے بھی بہت زیادہ ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پنجاب میں بلوچستان میں خیبرپختونخوا میں بہرحال ان کی وہ پوزیشن نہیں ہے جو سندھ میں ہے لہٰذا جس طرح سے کل جو واقع ہونا تھا وہ تو ہو چکا ہے اب رات کو بیٹھ کر وہ جو بھی مشورہ کریں گے لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس کا تعلق پروڈکشن آرڈر پر عملدرآمد کروانے سے ہے اور اگر پروڈکشن پر عملدرآمد ہو گیا تو پھر بظاہر یہ جو موومنٹ ہے یہ بھی ٹھنڈی پڑ جائے گی۔ میرا خیال ہے اگلی بڑی گرفتاری حمزہ شہباز کی بھی ہو سکتی ہے لیکن جو فورسز کہہ رہی ہیں خاص طور پر جس طرح شیخ رشید وغیرہ کہ شہباز شریف وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں اور وہ حکومت کے ایک حصے کے ساتھ بہت موثر طبقے کے ساتھ اپنی انڈر سٹینڈنگ کے ساتھ باہر گئے تھے اس سے لگتا ہے کہ شاید حمزہ شریف کی گرفتاری کی باری نہ آئے۔ یہ ایک ٹیسٹ کیس بھی ہے کیونکہ حمزہ شہباز شریف کے بارے میں سارے دلائل اور ثبوت موجود ہیں اور وہ بار بار اس پر کہہ بھی چکی ہے اگر انہوں نے ان کو گرفتار نہ کیا تو لگے گا وہ کسی انڈسرسٹینڈنگ کے تحت ایسے نہیں کر رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کل صبح آصف زرداری کی گرفتاری نے تمام خبروں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ورنہ عمران خان کی جو کل کا مختصر خطاب تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ 30 جون تک لوگ اپنے اثاثے ڈکلیئر کر دیں اور ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھائیں ورنہ پھر ان کا دعویٰ ہے کہ ہمارے پاس سارے ثبوت موجود ہیں کہ کتنے لوگوں کے پاس ایسے اثاثہ جات موجود ہیں جو خفیہ رکھے گئے ہیں اگر وہ ڈکلیئر نہیں کریں گے تو ان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ اس ضمن میں گرفتاریوں کا بڑے پیمانے پر جھکڑ چلنے والا ہے اور گورنمنٹ اس کوو برداشت کر پائے گی یا نہیں اس پر تو بحث ہو سکتی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جب وزیراعظم ایک بات کہہ چکے ہیں کہ وہ اس بات پر مصر ہیں کہ فلاں تاریخ تک یہ کر دیں ورنہ اب ورنہ کے بعد اگر وہ خاموش رہتے ہیں اور کوئی ایکشن نہیں لیتے تو بھی حکومت کی بڑی سبکی ہوتی ہے کہ کیا کر لیا کچھ بھی نہیں کر لیا۔ دوسری طرف اگر وہ بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کرتے ہیں پھر متوقع ری ایکشن کے سلسلے میں ایک ملک میں فضا پیدا ہو جائے گی کہ بہت سارے لوگ اس میں شامل ہو سکیں گے۔اگلی بڑی گرفتاری حمزہ شہباز کی ہو سکتی ہے تاہم بقول شیخ رشید شہباز شریف وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہے ہیں اور انڈرسٹینڈنگ کے تحت واپس آئے ہیں اس سے لگتا ہے کہ شاید ابھی حمزہ کو گرفتار نہ کیا جائے۔ یہ ایک ٹیسٹ کیس بھی ہو گا کیونکہ حمزہ کے خلاف نیب کے پاس بڑے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ اگر 30 جون تک ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھا لیں حکومت کے پاس جائیدادوں کی تمام تفصیلات موجود ہیں۔ اس ضمن میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا جھکڑ چلنے والا ہے اہم بات یہ ہے کہ کیا حکومت ایسا کرنے کی متحمل ہو سکتی ہے کیونکہ بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا ردعمل تو سامنے آئے گا۔ وزیراعظم ایمنسٹی سے فائدہ نہ اٹھانے والوں کے لئے سخت الفاظ کا استعمال کیا ہے اب اگر خاموشی اختیار کی جاتی ہے اور کوئی کارروائی نہیں کی جاتی تو حکومت کی بڑی سبکی ہو گی۔آصف زرداری کی گرفتاری پر امکان تھا کہ حمزہ شہباز کے واقعہ کی طرح مزاحمت کی جائے گی تاہم اس گرفتاری کے سلسلے میں اداروں کی تیاریاں اتنی مکمل تھیں کہ رہائش گاہ کے باہر حمع ہونے والے کارکن کچھ نہ کر سکے۔ آصف زرداری نے بھی بڑی ہمت اور بہادری کے ساتھ گرفتاری دی ان کے بچوں نے خود انہیں رخصت کیا۔ آصفہ بھٹو اب سیاست میں فعال ہیں وہ آبائی سیٹ سے منتخب ہو کر اسمبلی آسانی سے پہنچ سکتی ہیں بلاول بھٹو کی سیاست کا اول امتحان اب شروع ہو گا، زرداری کی گرفتاری کے بعد اب وہ مکمل طور پر خود مختار ہیں اب ان کی بیدار مغزی کا پتہ چلے گا۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain