لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا ور تاریخی رہا اور بہت اہم فیصلے کئے البتہ آخر میں آ کر جو خصوصی عدالت کا فیصلہ ہے ان کا جو ریفلیکشن عدلیہ پر آیا ہے اس کا کوئی زیادہ اچھا تاثر نہیں کیا وہ ایک متنازعہ فیصلہ ہے، آج سے 10,8 دن پہلے انہوں نے مکے لہرا کر کہا تھا اس کے جواب میں پھر فیصلہ آیا ظاہر ہے اس پر الزام لگنا ہی تھا۔ ایک قومی اخبار نے ان کا بیان بھی چھاپا تھا لیکن جب کھوسہ صاحب نے اس پر ایکشن لیا تو پھر کچھ لوگوں نے بیچ بچاﺅ کرا کے معاملہ دفع دفع کرا دیا۔ آخر میں آکر کھوسہ صاحب بھی متنازع ہو گئے۔ گزشتہ روز انہوں نے معاملات کی وضاحت کے لئے صفائی بھی دینا پڑی۔ یہ وہ صحیح کہہ رہے ہیں وہ اگرچہ ان کا فیصلہ نہیں تھا لیکن عدلیہ پر جو الزام آ رہا ہے کہ دائرہ کار سے نکل کر زیادہ سخت فحیصلہ دیا اور یہ فیصلہ پاکستان سپیشل کورٹ میں بھی نہیں تھا۔ میں نے کل کے پروگرام میں کہا تھا کہ زینب کے قاتل جس نے کئی بچوں سے زیادتی کی اور ان کو مار بھی ڈالا ان کے بارے میں بچی کے والد کا مطالبہ تھا کہ قاتل کو سرعام پھانسی دی جائے لیکن عدالت نے ان کا مطالبہ نہیں مانا تھا لیکن مشرف کے بارے میں جو فیصلہ آیا اس سے ہمارے حلقے دہلی گئے ہیں یہ کیسا فیصلہ آیا۔ آگے چل کر کیا آمنے سامنے دکھائی دے رہے ہیں اس سوال کے جواب میں ضیا شاہد نے کہا کہ اس کا انحصار آنے والے چیف جسٹس پر ہے اگر چیف جسٹس جناب گلزار احمد صاحب جو تھوڑی سی معاملہ فہمی سے کام لیں تو وہ اس صورت حال کو سنبھال سکتے ہیں اگر انہوں نے بھی اپنے پیشرو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہی ایک انتہائی نقطہ نظر لیا تو میرا خیال ہے پھر یہ جو فساد بڑھ جائے گا۔ کل جو سٹاک مارکیٹ اتنا بڑا دھچکا لگا ہے اس کی ذمہ دار بھی اسی فیصلے پر عائد ہوتی ہے۔ ہمارے جج حضرات کو فیصلہ دیتے وقت دیکھ لینا چاہئے کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے اور اس کا سٹاک ایکس چینج پر بھی کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ جسٹس وقار سیٹھ نے کہا ہے کہ حالات کو کیا ہوا ہے میں تو ٹی وی پر ریسلنگ دیکھتا ہوں ضیا شاہد نے کہا کہ اتفاق ایسا ہے کہ ان کا تعلق بھی خیبرپختونخوا سے ہے اور اب نئے آنے والے چیف جسٹس سپریم کورٹ بھی خیبرپختونخوا سے ہی تعلق رکھتے ہیں اللہ رحم کرے۔ اگر اداروں کے درمیان کسی قسم کا کوئی تصادم نہ ہو تو یہ پاکستان کے حق میں بہتر ہے اور خاص طور پر مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ گزشتہ روز چونڈہ میں انڈیا نے پاکستان کے بارڈر کے ساتھ جو خار دار تار 4 جگہوں پر کاٹ دی ہے اور اس کی وجہ یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ خدانخواستہ کوئی چھوٹی موٹی جھڑپ جو ہے وہ ہو سکتی ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے حالات ہیں ہم کسی بھی قسم کی جھڑ کے، جنگ، لڑائی کے متحمل نہیں اور خاص طور پر جب دونوں ملک ایٹمی پاورز ہیں تو اس صمن میں کسی قسم کی جھڑپ کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔ اس بات کے بھی امکانات ہیں بھارت اپنے اندرونی حالات توجہ ہٹانے کے لئے کسی قسم کی کوئی جنگ کھول دے۔ پاکستان اور بھارت کو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہئے۔ وقتی جھڑپ فائدہ دے سکتی ہے اور توجہ دلا سکتی ہے لیکن اس دور رس نتائج بہت زیادہ خراب ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس کے خطاب پر فواد چودھری نے بیان دیا کہ چیف جسٹس نے آج وضاحت دی ہے کہ وہ مشرف کیس سے لاتعلق تھے مگرایک ہفتہ قبلہ کمانڈو سٹائل میں ہاتھ لہرایا تھا اور کہا تھا کہ مشرف کیس کا فیصلہ آنے والا ہے لگتا نہیں کہ اتنے بے خبر تھے جس بے خبری کا اظہار کر رہے تھے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ میری دعا ہے کہ یہ خبر غلط ہو لیکن چونکہ انہوں نے اس اخبار کو نوٹس دے دیا تھا اور بعد میں پھر اس کو معاف بھی کر دیا تھا اس لئے لگتا ہے کہ واقعہ ہوا تھا۔ بدقسمتی ہو گی اگر میں اندرونی خلفشار کا شکار ہو گئے لہٰذا یہی بہتر ہے کہ اداروں کے درمیان لڑائی نہ ہو۔ چیف جسٹس جو ریٹائر ہو گئے انہوں تو ایک بیان دیا تھا جب ایک اخبار میں چھپا تھا انہوں نے اس اخبار کو نوٹس بھی دیا تھا بعد ازاںاس اخبار کو معاف کر دیا تھا یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے دونوں مکے لہرائے تھے جس سے لگتا تھا کہ آنے والے فیصلے پر وہ کوئی اپنا نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جن جج صاحب نے پرویز مشرف کے بارے میں فیصلہ دیا ہے کیا آپ سمجھتے ہیں نئے چیف جسٹس اداروں کے درمیان ہر ابھرنے والی صورت حال کو ختم کر پائیں گے۔ ضیا شاہد نے کہا ہے کہ نئے چیف جسٹس کے پاس ایک سنہری موقع ہے کہ وہ بڑی خوبصورتی سے اس صورت حال میں ایسا کوئی درمیانی راستہ تلاش کر سکتے ہیں کہ جو پہلے فیصلہ آیا ہے اس کو بھی ان ڈو نہ کیا جائے لیکن جو اس کے بٹر (Bitter) پہلو ہیں اس کو بھی ختم کر دیا جائے۔ افتخار چودھری اگر بیلنس نقطہ نظر اختیار کرتے تو آج یہ صورت حال نہ پیش آتی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ بنیادی حقوق اور فوجداری نظام کی روایت کے خلاف ہے اور عداوت اور انتقام نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس کھوسہ کا جو وضع کردہ نظام ہے اس میں وہ عنصر دکھائی نہیں دیتا۔ ضیا شاہد نے کہا کہ نئے چیف جسٹس پر منحصر ہے کہ وہ اس صورت حال کو کس طرح ٹائٹل کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ برے بھیانک عزائم کے ساتھ سامنے آتا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ جلد از جلد اسے ختم کیا جائے۔
حامد سعید اختر صاحب! جو فیصلہ آیا ہے پرویز مشرف کے بارے میں آیا کہ اگر ان کی وفات بھی ہو جائے تو ان کو گھسیٹ کر لایا جائے ان کو ڈی چوک میں پانچ بار پھانسی دی جائے پاکستان سپیشل کورٹ بھی نہیں دیتا۔ کس طرح سے یہ فیصلہ دے دیا اب تک اس کے بارے میں کسی نے بھی اس کو ان ڈو نہیں کیا۔ گزشتہ رات وزیر قانون، وزیر اطلاعات کی حیثیت میں پریس کانفرنس کے مطابق آج بھی اس کا ریفرنس دائر نہیں کیا گیا۔یہ کہا جاتا ہے کہ جج کے ذہن میں ری ایکشن ہے جسے آپ غصہ بھی کہہ سکتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اتنے برسوں سے پرویز مشرف کسی طور پر بھی جواب دینے کے لئے تیار رہنے کے لئے تیار نہیں ہیں ان کو جتنی مرتبہ بھی موقع دیا گیا۔ انہوں نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا سوال یہ ہے کہ اگر ان کو موقع دیا جائے تو کیا وہ اپنا بیان ریکارڈ کروائیں گے کیونکہ ان کا کیس ان ہرٹ نہیں جانا چاہئے اس پر تو سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ کسی بھی سلسلے میں ان ہرڈ فیصلہ سامنے نہیں آنا چاہئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کو منع کر دیا گیا تھا جب تک وہ اپنا بیان نہ ریکارڈ کروا دیں فیصلہ نہ سنایا جائے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر ہیں ان کے الفاظ میں ایک بات بڑی ہے اس میں انہوں نے کہا ہے کہ ملک سب سے اہم ہے ادارے اس کے بعد ہوتے ہیں۔ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ قائم کرنے والی مسلم لیگ ن منظر سے غائب دکھائی دے رہی ہے جبکہ پیپلزپارٹی جس نے مقدمہ قائم نہیں کیا وہ بڑی شدو مد کے ساتھ آئین کے ساتھ کھڑی دکھائی دے رہی ہے اور پی ٹی آئی جب مقدمہ قائم نہیں تھا اس وقت سے پہلے ہی جنرل صاحب کو مجرم قرار دے رہی تھی اب کہہ رہی ہے کہ 6 سال کا عرصہ اپنے دفاع کے لئے ناکافی ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ اس سلسلے میں بہت سے خیال ہے کہ اس صورت حال کو حل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پرویز مشرف کی سزا جو صدر مملکت اس کو معاف کر سکتے ہیں۔ اس کا ان کو حق حاصل ہے لہٰذا یہ کہا جاتا ہے کہ مقصد ہی ختم ہو جاتا ہے۔ نوازشریف کا دائرکردہ کیس ہے ن لیگ تو اس کے خلاف کہے گی نہیں۔ پیپلزپارٹی بھی اؑٓج شامل باجہ ہے۔