تازہ تر ین

ہیڈورکس،بیراج،لنک نہریں افسروں کے لئے سونے کی کانیں بن گئیں،صفائی کے نام پر اربوں کی کرپشن

ملتان (رپورٹ:طارق اسماعیل) ہیڈ ورکس، بیراج اور لنک نہریں، صفائی اور سالانہ مرمت کے نام پر کرپشن کے لحاظ سے انہار افسروں کیلئے سونے کانیں بن چکی ہیں۔ مختلف مد میں اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث محکمہ انہار کے افسروں نے کینیڈا، امریکہ سمیت ترقی یافتہ ممالک کی شہریت لے کر وہاں کاروبار بھی شروع کر رکھے ہیں، تمام تر دعوﺅں کے باوجود کسی بھی ذمہ دار افسر کے خلاف کارروائی تک نہیں کی جاسکی۔ ہر سال سیلاب سے پہلے ہیڈ ورکس کی بہتری اور سپر بندوں کی مرمت، بحالی کے نام پر کروڑوں روپے کے فنڈز صرف کاغذوں میں خرچ کئے جا رہے ہیں۔ ہر سال سیلاب کی پیشگی اطلاعات کے باوجود دریاﺅں پر ہیڈ ورکس اور بیراجوں کی حقیقی مرمت اور صفائی کا کام شروع نہیں کیا جاتا۔ 2010ءکے خوفناک سیلاب کے بعد بھی بیراجوں اور ہیڈ ورکس کی مرمت اور نصب مشینوں کی صفائی کے نام پر بوگس کارروائیاں کرکے اربوں روپے خوردبرد کرنے والوں کے ضمیر نہیں جاگ سکے۔ صفائی کا کام پھر بھی کاغذوں تک محدود رہا ہے۔ پنجند ہیڈ ورکس کی سالانہ مرمت کیلئے ہر سال4 سے 6 کروڑ روپے کے فنڈز جاری کئے جاتے ہیں لیکن اس کی کبھی مرمت نہیں ہوسکی، سیلاب کا پانی آنے کی صورت میں مکینیکل پورشن کے پرزوں پر کالا تیل ڈال کر صفائی اور مرمت کا جواز پیدا کیا جاتا ہے لیکن مکمل اور مکینیکل طریقوں کے مطابق صفائی کا کام نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ہیڈ کے درے 2 سے 3 لاکھ کیوسک پانی آنے کی صورت میں بھی پانی کی بروقت اور مکمل فراہمی کا کام نہیں کرسکتے جس کی وجہ سے بیٹ میں لاکھوں ایکڑ رقبہ سیلاب کی نذر ہو کر تباہی کا باعث بنتا ہے۔ دروں میں سلٹ کی صفائی بھی کبھی نہیں کی جاتی۔ سدھنائی ہیڈ ورکس کی صفائی کیلئے سالانہ ایک کروڑ 20 لاکھ روپے سے 2 کروڑ روپے کے فنڈز صرف کاغذوں میں خرچ کئے جاتے ہیں۔ صرف تریموں ہیڈ ورکس کی صفائی اور مرمت کیلئے 6 سے 7 کروڑ روپے کے فنڈز ہر سال جاری ہو رہے ہیں اور تمام فنڈز صرف کاغذوں میں خرچ کرکے معاملات کلیئر کئے جا رہے ہیں۔ باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ دریائے سندھ اور چناب کے تمام ہیڈ ورکس کو 1968ءکے بعد کبھی بھی مکینیکل قواعد کے مطابق صاف نہیں کیا گیا اور ان کی مرمت بھی قواعد کے مطابق نہیں کی جاسکی۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ انہار افسر ریلنگ اور مکینیکل پورشن پر صرف کالا تیل ڈال کر کام چلا لیتے ہیں سالانہ مرمت کیلئے پہلے ٹینڈرز بھی تشہیر نہیں کئے جاتے تھے صرف فرضی کوٹیشنز لے کر فائلوں کا پیٹ بھر کر کام کر لیا جاتا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق بیراجوں اور ہیڈ ورک سکی سالانہ مرمت میں بندی کے دوران مکینیکل پورشن کی موومنٹ، ریلنگ، دروں کی صفائی اور ان کی کھول کر چیک کرنے سمیت 17 قسم کے معمولات کو چیک کرنا ہوتا ہے۔ ذرائع کے مطابق بیشتر اوقات اس کام کیلئے محکمہ آبپاشی کے مشینری ڈویژن سے بھی مدد لی جاتی ہے لیکن یہ مدد صرف کاغذوں میں کام کرکے مک مکا کرلیا جاتا ہے اور مشینری ڈویژن کے گُر کے کام کرنے کی رقم بھی ایڈوانس مانگتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ہیڈ ورکس اور بیراجوں کی صفائی کے کام میں کی جانے والی کرپشن میں ایس ڈی او ایکسین سے چیف انجینئرز اور پراجیکٹ ڈائریکٹر تک اپنا اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور آبپاشی کے افسروں کو بھی اس سلسلے میں شامل رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہیڈ ورکس اور بیراجوں کی مرمت کے کام کے پڑتال تک نہیں کی جاتی اور نہ ہی اس سلسلے میں کبھی انکوائری ہوتی ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ بندی کے دنوں میں سالانہ صفائی کے دوران ہیڈ ورکس اور بیراج کو حساس تنصیبات کا جواز بتاتے ہوئے پبلک کی آمدورفت کو بند کرکے صرف کالا تیل انڈیلا جاتا ہے اور سامنے آنے والی جگہوں پر واضح طور پر تیل دکھانے کیلئے زیادہ ڈالا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق محکمہ آبپاشی اپنا تمام بجٹ مختلف دستاویزات میں بھی شائع کرتا ہے لیکن ہیڈ ورکس اور بیراجوں کی مرمت کا کام بجٹ بھی عام دستاویزات میں شائع نہیں کیا جاتا۔ اس خفیہ دستاویزات کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ صوبائی وزارت آبپاشی کے گریڈ20 کے 2 ریٹائرڈ افسروں نے ”خبریں“ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ہیڈ ورکس اور بیراج انہار افسروں کیلئے سونے کی کان سمجھی جاتی ہیں اور اس مد میں کرپشن کرنے والوں کے ناصرف پاکستان بلکہ کینیڈا اور امریکہ میں بھی جائیدادیں بنالی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ محکمہ انہار اور آبپاشی کے گریڈ18 سے 20 تک کے 11ریٹائر افسروں نے گزشتہ16 سال کے دوران کینیڈا اور امریکہ کی شہرت حاصل کی ہے۔ محکمہ انہار کے ایک چیف انجینئر کے ریٹائرمنٹ کے بعد کینیڈا منتقل ہونے کی وجہ سے ایس ڈی اوز کی اے سی آرز ( محکمانہ سالانہ خفیہ رپورٹیں) بھی لکھوانے کیلئے دستاویزات کینیڈا بھجوائی گئی تھیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اس سلسلے میں بتایا گیا ہے کہ سدھنائی، تریموں، تونسہ پنجند، سمانکی، گدو اور سکھر بیراجوں پر سالانہ مرمت کے نام پر اربوں روپے کرپشن کی نذر ہو رہے ہیں اسی طرح سیلاب کے نام پر بھی سالانہ کروڑوں روپے بھی خرچ کئے جا رہے ہیں۔ معمولی پانی آنے کے بعد تمام ریکارڈ اور معاملات ”دریا برد“ تصور کئے جاتے ہیں اور نہ ہی آڈٹ ہوتا ہے۔


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain