اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے پروگرام ”نیوز ایٹ سیون‘ ‘ میں ایسے طبقے کی مشکلات کو منظر عام پر لایا گیا جنکا عام زندگی میں گزارہ بہت مشکل سے ہورہا ہے۔ احساس پروگرام کے تحت حکومت کی جانب سے بڑے بڑے اعلان کیے گئے لیکن کیا خواجہ سراﺅں کو بھی اس امداد میں شامل کیا گیا۔ اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ سراﺅں کاکہنا تھا کہ جب سے کورونا کی وباءپھیلی ہے پورے پاکستان کی طرح ہمارا کاروبار بھی بند پڑا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے کرائے پر گھر لیے ہوئے ہیں ، حکومت کی جانب سے اعلان کے باوجود مالک مکان زبردستی کرایہ وصول کر رہے ہیں۔ تمام خواجہ سرا اس صورتحال سے سخت پریشان ہیں ، مالک مکانوں کی جانب سے سامان اٹھا کر باہر پھینکنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔این جی اوز بھی حکومت کی طرح برائے نام ہیں جو خواجہ سراﺅں کو راشن کے نام پر دھوکہ دے رہے ہیں۔ غریب کو اسکا حق نہیں مل رہا ، ایسی این جی اوز کی ملک کو کوئی ضرورت نہیں ہیں۔ این جی اوز کے مالکان اپنی جیب بھر رہے ہیں، حکومت این جی اوز کو بند نہیں کر سکتی تو ان سے پوچھیں کہ وہ پیسہ کہاں لیجا رہے ہیں۔این جی اوز کی جانب سے پتھر کے صابن ، دالیں اور چاول کیڑوں سے بھرے ہوئے تقسیم کیے گئے جو جانوروں کے کھانے کے بھی لائق نہیں ہیں۔ خواجہ سرا ﺅں کی تنظیم سفر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ندیم کشش نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ خواجہ سرا کمیونٹی سخت مسائل اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ہمارے پاس 10ہزار خواجہ سراﺅں کا ڈیٹا ہے مگر شناختی کارڈ صرف 22سو خواجہ سراﺅں کے بنائے گئے ہیں ، باقی افراد کو راشن اور پناہ گاہیں کون دیگا۔ فردوس عاشق اعوان سے ملاقات میں سفر تنظیم کی جانب سے بنائی گئی پناہگاہوں کے حوالے سے مدد کی اپیل کی۔ہمارے شناختی کارڈز میں شناخت مرد لکھی گئی ہے مگر ہمیں گھر والے قبول نہیں کرتے ،ہمارے حصے کا راشن گھر والوں کے پاس پہنچ رہا ہے۔ این جی اوز کی جانب سے ابہام ہے کہ خواجہ سراﺅں کا اپنے گھر والوں سے تعلق نہیں۔ ہمیں عوام بہت پیار کرتی ہے، حکومت اور این جی اوز کی جانب سے ہماری کوئی مدد نہیں کی گئی مگرعام عوام کی جانب سے ہمیں پیسے ، راشن اور دیگر سہولیات دی جارہی ہیں۔ ندیم کشش نے بتایا کہ خواجہ سراﺅں کا گرووہی بچہ ہے ، جو معاشرے کے رویوں کا سامنا کرتے ہوئے گرو تک پہنچا تھا، گرو کوئی پیدائشی بچہ نہیں ہوتا۔ گھر والے اور معاشرہ جن بچوں کو قبول نہیں کرتا انہیں گرو تحفظ فراہم کرتا ہے مگر اب تو ہماری گرو این جی اوز بن گئی ہیں۔خواجہ سراﺅں کو ایکس شناختی کارڈ بنا کر دیا گیا ہے جسکے تحت ہم سعودی عرب میں عمرہ نہیں کر سکتے۔ ہماری دوہری شخصیت ہے اس لیے ہم فقیری کلچر سے جڑے ہیں، ہم نہ مرد اور نہ عورت کی خصوصیات پر پورا اتر سکتے ہیں ۔ اگر ہم عورت بن کر معاشرے میں نکلیں گے تو ہم سیکس ورکر بن جائیں گے اور جنس پرستی کی جانب چلے جائیں گے جو ہمارے فقیری کلچر کو قبول نہیں ہے۔ عوام میں سوچ ہے ہے کہ خواجہ سراﺅں کی دعائیں اور بدعائیں جلد قبول ہوتی ہیں۔ بھکاری اور فقیر کی بدعا میں بہت فرق ہوتا ہے ، دعا کے لیے بھی خواجہ سرا کا کردار اسکی فقیری دیکھی جاتی ہے ۔ در در پھرنے والے بھکاری ہیں، فقیرخواجہ سرانہیں ہیں۔ پاکستان میں خواجہ سرا کلچر کو مسخ کر دیا گیا اورلیسبین کلچر پر فروغ دیا گیا ہے۔خواجہ سراﺅں کا مزید کہنا تھا کہ ہماری دعا ہے اللہ پاکستان سمیت پوری انسانیت کو کورونا سے محفوظ رکھے۔ حکومت کی جانب سے کسی خواجہ سرا کو امداد نہیں ملی، خواجہ سراﺅں میں امیر طبقہ اللہ کی راہ میں اپنی برادری اور دیگر غریب لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ مخیر حضرات جو ہمیں جانتے ہیں اور ہم پر اعتماد کرتے ہیں وہ مدد کر رہے ہیں۔ہمیں اللہ دیتا ہے ، لوگوں کی خوشیوں کو صدقہ ہم کھاتے ہیں، اسمیں برکت ہے۔ راتوں کو سڑکوں پر کھڑے ہونے والے ، ٹریفک سگنلز پر موجود خود کو خواجہ سرا کہنے والوں کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے، نہ وہ خواجہ سرا کلچر میں شامل ہیں اور نہ ہم ایسے لوگوں کو شامل کرنا چاہتے ہیں۔عوام جب بھی کوئی ایسا سیکس ورکر نظر آئے عوام انہیں خواجہ سرا نہ کہیں سیکس ورکر کہیں، انکو خواجہ سرا کہنا ہماری توہین ہے، ہمیں اس پر غم و غصہ ہے، ہمیں بدنام کیا جارہا ہے۔ جیب کترے ، قاتلوں کیساتھ بھی ہمارا نام نہ لگایا جائے۔ خواجہ سراﺅں کی تنظیم کی رکن نے بتایا کہ وہ خواجہ سرا تنظیم ذاتی کوششوں اور عوام کے تعاون سے جگہ جگہ غریب لوگوں اور اپنی برادری میں راشن تقسیم کر رہے ہیں، حکومت کی جانب سے اب تک کوئی امداد نہیں ملی، حکومتی نمائندگان کو اپنی برادری کی بدحالی اور پریشانی کی ویڈیوز بھی بھیجی گئیںمگر ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ خواجہ سرا تنظیم کی جانب سے گھر گھر جاکر اپنی برادری کو کہا جارہا ہے کہ گھروں سے باہر بالکل باہر نہ نکلیں، انہیں جتنا ہو سکا راشن انکے گھر پہنچایا جائے گا۔ حکومت ہماری آواز سنے اور سفر تنظیم کا ساتھ دے۔ فردوس عاشق اعوان سے ملاقات کے بعد ایک وزیر دورہ کرنے آئے مگر اسکے بعد حال تک نہ پہنچا۔ لاک ڈاﺅن اور رمضان ختم ہونے کے بعد تنظیم کی جانب سے ایک مدرسہ بنایا جارہا ہے جہاں خواجہ سرا تبلیغ کرنے کیساتھ رہائش بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ خواجہ سراﺅں کا مزید کہنا تھا کہ پولیس والوں کا رویہ بے حد افسوسناک ہے۔ انکی جانب سے خواجہ سراﺅں کو ڈنڈے مارے جاتے ہیں اور قید کیا جاتا ہے۔ راولپنڈی میں فنکشنز ہورہے ہیں کورونا کے باوجود ان فنکشنز کو نہیں روکا جارہا ،پولیس منتھلی لے رہی ہے۔
