تازہ تر ین

جی سیون کی اڑان

عبدالباسط خان
دُنیا کے سات طاقتور ترین ممالک جی سیون(G7) کے اجلاس میں چین اور روس کے دنیا میں بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے 40کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری جس میں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کو خاص طور پر متحرک کیا جائے گا اس سرمایہ کاری کا بنیاد ی مقصد چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو سبوتاثر کرنا ہے کیونکہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ چین اور 65ممالک کے درمیان ایک بہت بڑی سرمایہ کاری ہے جس سے بیشتر غریب اور کم آمدنی والے ممالک کے درمیان مختلف روڈ انفراسڑکچرز توانائی پورٹ اینڈ شیپنگ کے منصوبو ں پر عمل درآمد کرنا ہے یہ منصوبہ چین کی خارجہ پالیسی میں ایک بہت اہم مقام رکھنا ہے اور امریکہ اس چینی منصوبے سے بہت خوفزدہ تھا لہٰذا یہ جی سیون کانفرنس جس میں پہلے دن امریکہ سمیت تمام سات ممالک نے آپس میں اتحاد کو مستحکم اور مضبوط رکھنے کے لیے منصوبہ بندی کی اور مستقبل میں امریکہ اور مغربی ممالک کے درمیان ایک لانگ ٹرم اسٹریجی بنائی کہ کس طرح ان ممالک کے مفاد کے خلاف بنائے جانے والے محاذوں اور اتحادوں کا مقابلہ کیا جائے۔جی سیون کے دوسرے روز چین اور روس کے ممکنہ بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کا کس طرح مقابلہ کیا جائے۔کانفرنس کے تیسرے روز ماحولیاتی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں لیکن یہاں اس بات کا کسی کے وہم گمان میں نہیں تھا کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے خلاف 40ٹرلین کا اس قدر بڑا مالیاتی منصوبہ G7ممالک لے کر آنے والے ہیں جہاں تک ماحولیاتی تبدیلی پرجی سیون ممالک کی طرف سے مالیاتی پیکج کا اعلان ہوا وہ تقریباً ٹرمپ کی اس پالیسی کے بالکل متضاد اور متصادم ہے جس میں امریکہ نے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کے لیے کسی بھی کوشش کا حصہ بننے سے انکار کر دیاتھا اور سابق صدر ٹرمپ کی اس پالیسی کو پوری دنیا میں بہت برا بھلا کہا گیا اور بالخصوص یورپ نے اس کی مذمت کی کیونکہ پوری دنیا میں جس طرح گلوبل درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور برفانی گلیشیر پگھل رہے ہیں اس سے سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے اور قدرتی آفات اور طوفان انسانی کرہ ارض کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ بہر کیف کہنے کا مقصد یہ ہے کہ موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن اپنے پچھلے صدر سے ایک مختلف اپروچ اور حکمت عملی کیساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور یہ 40ٹریلین کا منصوبہ اس کی ایک کڑی ہے۔ صدر جوبائیڈن امریکہ نیٹو اور یورپی یونین کو اکٹھا کر کے چین اور روس کے خلاف ایک طاقتور محاذ بنانے جار ہے ہیں۔ انجیلا مارکل نے بظاہر اس منصوبے کو چین کے خلاف قرار نہیں دیا بلکہ اس منصوبے سے دنیا کے غریب ممالک سے غربت اور افلاس کو کم کیا جائے گا اور جی سیون ممالک کے روڈ انفراسڑکچر سے ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان بہتر رشتے اور تعلقات استوار ہوں گے۔
پیشتر اس سے کہ جی سیون ممالک کے اس خطیر رقم کے منصوبے سے چین اور روس کے خلاف کیا حکمت عملی بنے گی۔ آئیے ہم ذرا چین کی ایک بڑی اقتصادی قوت کے طور پر ابھرنے کا جائزہ لیتے ہیں۔ چین کے اس منصوبے کو 2013میں دنیا میں متعارف کرایا گیا اور تقریباً 70ممالک اس منصوبے سے فیض یاب ہوں گے۔ چین 1999تک آئی ڈی۔ اے (IDA)سے قرضے لینے والا سب سے بڑا ملک تھا کیونکہ IDAدنیا کے غریب ممالک کو قرضے دینا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر صرف دو دہائیوں کے عرصے میں یعنی 2019میں چین قرضے لینے سے قرضے دینے والا ملک بن گیا اور اس صورتحال میں گیم چینچر روڈ بیلٹ منصوبے کا بہت بڑا دخل تھا جس سے 70کے قریب ممالک کے بنیاد ی انفرا سڑکچر میں سرمایہ کاری تھی۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ انفرا سڑکچر (Infrastructure)میں امداد فراہم کرنا کوئی نیا پلان نہیں تھا بلکہ 1948ء کے مارشل پلان کی ایکسٹینشن تھی جس میں غریب ممالک کی امداد کی جاتی تھی۔ پاکستان کا سی پیک منصوبہ اس سلسلے کی ہی کڑی ہے جس میں 62ارب ڈالر کی سرمایہ کاری شامل ہے اور اسے تقریباً دس سال کے عرصے میں مکمل ہونا تھا۔ سی پیک منصوبہ بی آرآئی کا ایک طرح کا پائلٹ پروگرام تھا جس کے تحت ہماری بجلی کی کمی اور انرجی کے مسائل میں گھرے پاکستان کی مدد کرنا تھا جس میں کراچی پشاور ریل کے پلان کو بھی مکمل کرنا تھا۔ ٹرانسپورٹیشن کمیونیکیشن اور انرجی سیکڑ میں ایک انقلابی تبدیلی لانا مقصود تھی۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سی پیک طرز کے مختلف ممالک کے ساتھ منصوبے تھے اور میری ٹائم روٹس کے ذریعے بیلٹ اینڈ روڈ نے چین کے لینڈ لاک شہروں جس میں زنگ جینک (xinjang) اور یونائن (Yunnan) صوبے شامل ہیں۔سمند رکے ذریعے ایشیاء سے ملا دیئے جائینگے اور اس کے ساتھ ساؤتھ چین کو سمندر کے ذریعے جہاں سے دنیا کی سب سے بڑی تجارت ہوتی ہے فائدہ اٹھایا جائے۔ اب یہ منصوبہ کسی طور امریکہ کی آنکھوں کو نہیں بھا رہا تھا لہٰذا اس کے مقابلے کے لیے اور چین کے بڑھتے تجارتی اور معاشی اثر ورسوخ کو محدود کرنے کے لیے جواباً 40ٹریلین کا منصوبہ پیش کر دیا۔ جوبظاہر غریب ممالک اور کم آمدنی والے ممالک کے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کی ترقی کے لیے گیم چینجر ہوگا۔ جی سیون کانفرنس جہاں یورپین یونین نیٹو ممالک کے مابین ایک اتحاد کو جنم دے رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ماحولیاتی تبدیلی میں مالی امداد اور پوسٹ کرونا مسائل جس میں سب سے اہم کورونا ویکسین کی فراہمی بھی شامل ہے کا احاطہ کر رہی ہے لیکن 40ٹریلین کا منصوبہ جو ہے کہ روڈ بیلٹ منصوبے کے خلاف ہے اس سے دو بلاک صاف بنتے نظر آرہے ہیں یعنی چین روس بمقابلہ امریکہ اور یورپین یونین۔ اس بات کا سب کو علم ہے کہ شنگ جیانک اور ہانگ کانگ میں انسانی حقوق کی پامالی اور حکومت چین کی طرف سے کیے گئے اقدامات یورپین یونین اور امریکہ کی طرف سے نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں اور ان مسائل کی وجہ سے آج چین اور امریکہ دوبارہ واپس سرد جنگ کی طرف جار ہے ہیں۔ سی پیک معاہدے پر جس طرح امریکہ نے کھلم کھلا چین کی مخالفت کی اور پاکستانی اپوزیشن اس معاہدے کی پیش رفت پر کڑی نکتہ چینی کر رہی ہے وہ ہر لحاظ سے ہر پاکستانی کے لیے چشم کشا ہے۔ ہندوستان کی حکومت جس طرح گذشتہ چار پانچ سال سے امریکہ کی طرف مائل بہ کرم ہے اور لداخ میں چینی فوجوں کے ساتھ جھڑپ میں امریکہ کی ہندوستان کی حمایت جاری ہے اس تناظر میں دیکھا جائے تو موجودہ B3Wمعاہدہ ہمارے خطے اور دیگر افریقی ممالک میں دو رس نتائج کا حامل ہوگا۔
امریکہ صدر جوبائیڈن سیاست کے بہت کہنہ مشق کھلاڑی ہیں اور ڈیموکریٹ کی ماضی کی حکومتوں میں اپنا بھر پور کردار ادا کر چکے ہیں اور اس عمر میں بیماری سے صحت پانے کے بعد وہ اپنے تاش کے پتے سینے سے لگا کر بیٹھے ہیں وہ اس دنیا میں امریکہ کے سپر پاور رو ل کے بہت بڑے داعی ہیں لہٰذا مالی حیثیت صرف ساڑھے تین ٹریلین ڈالر کہاں، 40ٹریلین ڈالر کی انوسٹمنٹ کہاں،لہٰذا یہ پروگرام چین کے لیے مسائل ضرور پیدا کرے گا بیشک G7کے ممالک یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ہم چین کے بی آر آئی کے خلاف نہیں بلکہ ہم دیگر ممالک کو ایک اور بہتر آپشن دے رہے ہیں کہ وہ ہمارے پروگرام میں شامل ہوجائے۔ ہندوستان جو ہمارا بدترین دشمن ہے وہ شرو ع سے ہی اس معاہدے کی مخالفت کررہا تھا اور امریکہ اس کی مسلسل شہ دے رہا تھا۔ G7ممالک اس بات کی طرف بھی اشارے دیتے ہیں کہ BRIمعاہدہ بعض حکومتوں کی قومی خود مختاری کو گروی رکھنے کی چین کی کوشش ہے دیگر شائد چین کے کیش فلو کے مسائل کو بھی وہ BRIکے لیے موثر قابل عمل نہیں سمجھتے اسی لیے کئی ممالک اس معاہدے سے بھاگ رہے ہیں۔ امریکہ اور اس کے حواری جس میں ہندوستان شامل ہے اس بات کا پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ چین ہمیشہ ہر معاہدے میں اپنا معاشی فائدہ دیکھتا ہے اور ولیم شیکسپئر کی کہاوت کہ وہ موجودہ ماڈرن ورلڈ کے شلاگ (Shallocks) ہیں اس سلسلے میں وہ سری لنکا کی مثال پیش کرتے ہیں کہ کس طرح چین نے سری لنکا کی پورٹس کو 100سال کی لیز پر حاصل کر لیا کیونکہ سری لنکا چین کا قرضہ اتارنے میں ناکام رہا دوسری طرف ہندوستان کے تجزیہ کار اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان چین کا قرض ادا نہیں کر پائیگا لہٰذا گوادر پورٹ چین لے لے گا۔ بہر کیف جو بھی صورتحال اس وقت بن رہی اس میں B3Wکی ممکنہ پیش رفت سے چین کے لیے مسائل تو ہو سکتے ہیں مگر چین نے بھی کچی گولیاں نہیں کھلیں اور وہ معاشی طور پر کرونا کی صورتحال میں بہت مضبوط ہے۔ اب دیکھنا یہ باقی ہے کہ G7ممالک اور G20جس میں ہندوستان ایک اہم پلیئر ہے کس طرح غریب ممالک کی مدد کر سکتے ہیں انکی غربت کسی طرح دور کر سکتے ہیں یہ چیز سوالیہ نشان ہے۔
(کالم نگارمختلف موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain