تازہ تر ین

قومی سلامتی کمیٹی کا غیر معمولی اجلاس

ملک منظور احمد
جنوبی ایشیا ء کے خطے کی صورتحال میں تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں،امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی 20برس کی مسلسل جنگ و جدل کے بعد بالآخر افغانستان سے انخلا کر رہے ہیں،بظاہر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا دعویٰ یہی ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں اپنے تمام مقاصد حاصل کر لیے ہیں اسی لیے اب افغانستان سے انخلا کا وقت ہو چکا ہے لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی نقشہ پیش کررہے ہیں،طالبان طوفانی رفتار سے ایک کے بعد ایک افغان ضلع پر قبضہ کیے جا رہے ہیں اور اس صورتحال میں محسوس ایسا ہو رہا ہے افغان حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول چکے ہیں۔افغان صدر اشرف غنی اور سابق چیف ایگز یکٹو عبد اللہ عبد اللہ نے حال ہی میں امریکہ کا دورہ کیا۔اطلا عات کے مطابق اس دورے کے دوران پاکستان کی شکایتیں بھی ہوئیں لیکن افغان حکام کو امریکہ کی جانب سے ایک ہی جواب ملا کہ اب افغانستان کا مستقبل خود افغانیوں کے ہاتھ میں ہے۔افغانستان میں روز بروز بگڑتی ہو ئی صورتحال کے تناظر میں افغان حکام کی جانب سے پاکستان پر الزامات کا سلسلہ بھی تیز ہو گیا ہے جس کا پاکستان کی قیادت کی جانب سے بھرپور جواب بھی دیا گیا ہے،افغانستان کی روز بروز تیزی سے بگڑ تی صورتحال کے تناظر میں ہی حالیہ دنوں میں پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اہم ترین خصوصی اِن کیمرا اجلاس بلا یا گیا جس میں اعلیٰ عسکری حکام جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید با جوہ،اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی شامل تھے کی جانب سے سیاسی قیادت کو افغانستان کی صورتحال پر تفصیلی اور جامع بریفنگ دی گئی جس کو تمام سیاسی قیادت نے خصوصی طور پر سراہا۔
سیاسی قیادت کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید با جوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کی سربراہی میں پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے اور مسلح افواج پاکستان کو درپیش خطرات سے نہ صرف پوری طرح آگاہ ہیں بلکہ ان خطرات کے تدارک کے لیے پوری طرح متحرک بھی ہیں۔اجلاس کے دوران ڈی جی آئی ایس آئی نے شرکا ء کو افغانستان کے تازہ ترین حقائق سے آگاہ کیا اور آرمی چیف نے شرکا ء کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔ویسے تو یہ اجلاس اِن کیمرا تھا لیکن جو باتیں اجلاس سے باہر آئیں ان کے مطابق آرمی چیف نے حکومتی پالیسی کی تائید کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان امریکہ کو کوئی فوجی اڈے دینے نہیں جا رہا ہے۔افغانستان میں کسی ایک فریق کی حمایت نہیں کی جائے گی بلکہ جس بھی فریق کو افغان عوام کی تا ئید اور حمایت حاصل ہو ئی اور جس کو افغان عوام نے منتخب کیا اس کے ساتھ کام کیا جائے گا۔اجلاس کو بتا یا گیا کہ افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانے کا کام 90فیصد تک مکمل کر لیا گیا ہے۔
جس اہم نقطہ پر اجلاس میں تفصیلی بات چیت ہو ئی وہ افغان مہاجرین کے حوالے سے تھا،اجلاس میں اس حوالے سے شرکا ے سوالات بھی پوچھے اور ان سوالات کے جوابات بھی دیے گئے،بتایا گیا کہ افغانستان میں خراب ہو تی ہو ئی امن اور امان کی صورتحال کے باعث لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کے پاکستان آنے کا خدشہ ہے اور اس صورت میں پاکستان کی حکمت عملی کے حوالے سے بھی شرکاء کو آگاہ کیا گیا۔ سیاسی قیادت نے اجلاس میں شرکا ء کو یقین دلا یا کہ پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے اور مسلح افواج ملک کو درپیش تمام خطرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں،اور ملک کا دفاع محفوظ ہاتھوں میں اور نا قابل تسخیر ہے۔ خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں سول اور عسکری قیادت کی مشترکہ بیٹھک وقت کی اہم ضرورت تھی لیکن حکومت اور اپوزیشن کے اختلافات کے باعث یہ معاملہ لٹکا ہوا تھا بہر حال ریاست کے تمام اداروں کا ایک پیج پر ہونا اس صورتحال میں قوم کے لیے اشد ضروری ہے اور پاکستان کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ بھی اتحاد سے ہی کیا جاسکتا ہے۔اپوزیشن کی تمام قیادت کی اس اجلاس میں شرکت ملک کے لیے ایک نیک شگون ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ گزشتہ 3سالوں کی عدم برداشت کی سیاست کے با وجود بھی پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز بہر حال ملک کی سلامتی کے حوالے سے اتنے سنجیدہ ہیں کہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو سکیں۔لیکن جہاں پر اس جلاس میں شرکت اور مثبت رویے کا مظاہر کرنے پر اپوزیشن کی تعریف کی جارہی ہے وہیں پر وزیر اعظم عمران خان کی اس اہم ترین اجلاس میں عدم شرکت پربھی کئی سوالات بھی اٹھ رہے ہیں۔سب کا یہی خیال ہے کہ وزیر اعظم کا اس اجلاس میں شرکت کرنا نہایت اہم تھا اور ان کی شرکت سے بیرونی دنیا کو پاکستان کے تمام اہم سٹیک ہو لڈرز کے درمیان اتحاد کا پیغام بیرونی دنیا میں جاتا لیکن افسوس کہ اس اہم موقع کو ضائع کر دیا گیا ہے،اور اب اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک تنازع بھی کھڑا ہو گیا ہے،وفاقی وزیر فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی جانب سے حکومت کو یہ پیغام دیا گیا کہ وزیر اعظم کی شرکت کی صورت میں اپوزیشن اجلاس کا با ئیکاٹ کر جائے گی لیکن مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اور نگزیب نے فواد چوہدری کے اس موقف ہو سرا سر جھوٹ قرار دے دیا ہے۔بہر حال وجہ کوئی بھی ہو وزیر اعظم ریاست پاکستان کے چیف ایگز یکٹو ہیں اور ان کو اس دن کسان کنونش میں شرکت کی بجائے اس جلاس میں شرکت کرنی چاہیے تھی۔
افغانستان کی صورتحال کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ کوئی بھی نہیں کہہ سکتا۔افغانستان میں خانہ جنگی یقینی نظر آرہی ہے اور خدشہ اسی بات کا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان کو اس تمام صورتحال کا ذمہ دار نہ ٹھرائیں،پاکستان پر افغانستان کی اس صورتحال کے اثرات یقینا بہت مثبت نہیں ہوں گے لیکن ان منفی اثرات کو کس طرح کم سے کم کیا جاسکتا ہے یہ اصل سوال ہے جس پر غورکرنے کی ضرورت ہے۔امریکہ اور نیٹو کے جانے کے بعد چین،روس،ایران اور ترکی کا کردار بھی افغانستان کے حوالے سے اہم ہو جائے گا۔پاکستان کو ان ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان میں استحکام کے لیے کو ئی راہ تلاش کرنا ہو گی۔اسی میں پاکستان اور اس خطے کی بھلائی ہے۔
سفارتی اور سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان کو درپیش خا رجی اور داخلی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے گزشتہ چند سالوں سے آرمی چیف جنرل قمر جا وید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی مو ثر سفارت کاری او ر عالمی سطح پر رابطوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔پاکستان کے دوست ممالک کے ساتھ سیاسی،سفارتی اور دفاعی تعلقات کو فروغ دینے میں عسکری قیادت پیش پیش ہے۔ایسے غیر معمولی حالات میں سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان آٹھ گھنٹے طویل مشاورتی نشست مستقبل کی پالیسی اور پاکستان کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات کی عکاسی کرتی ہے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain