تازہ تر ین

معرکہ اچھائی اور برائی

نگہت لغاری
کرہ ارض پر معرکہ اچھائی اور برائی جاری ہے اور مخلوق خدا جنگی صورتحال سے دوچار، بے سکونی اَور بے یقینی کی کیفیت سے باہر نکل ہی نہیں پا رہی۔ نہ اچھائی پوری طرح پھیل سکی ہے۔ اور نہ بُرائی کا قلع قمع ہو سکا ہے ساری جنگ ہی مدتوں سے DRAW میں جا رہی ہے حالانکہ خداوند تعالیٰ نے اچھائی کے اچھے نتائج اور برائی کے بُرے نتائج کا وضاحتی علم دے کر اپنے ہزاروں پیغمبران اولیا اور دانشوروں کو انسانوں کے پاس بھیجا مگر انسان کی خود سَری، شوقِ خود مختاری اور کم علمی اُسے اُس کی ضد سے باہر نہیں آنے دیتی۔ المیہ یہ ہے کہ تمام انسان اپنے اپنے پیغمبروں کی تعلیمات اور احکام کو سمجھنے کے باوجود اُن پر عمل پیرا ہونے سے گریزاں ہیں۔ سائنسدانوں نے مادی معاملات میں ایسے ایسے معجزات کر ڈالے ہیں جو کسی حد تک روحانی معجزات کے مدمقابل آ گئے ہیں لیکن چونکہ اِس معاملے میں اِن کی ساری جدوجہد محنت اور دولت انسان کو جسمانی سہولت اَور سکون پہنچانے سے وابستہ تھی اِس لئے اِن سہولیات کے باوجود انسان روحانی طور پرمکمل بے سکون اَور خلفشار کا شکار ہے پھر اِسی انسانی جسم کو تہہ تیغ کرنے کے لئے جو ہتھیار بنا لئے ہیں اِن کی ساری جدوجہد انسانی خسارے میں چلی گئی ہے کیونکہ ایسے ایسے ہتھیار بنا لئے ہیں جس سے کروڑوں انسان بم کی ایک پھونک سے ہوا میں ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں اَب تو اِس میدان میں اتنی ترقی کر لی ہے کہ ایٹم بموں کا دھواں بہت پیچھے رہ گیا ہے سُنا ہے سائنسدانوں نے بہت سی ناقابل یقین حد تک ایجادات کرلی ہیں جو انسانوں کو لمحوں میں تہہ تیغ کر سکتی ہیں اس کے علاوہ ایک ایسی Device ایجاد کر لی ہے وہ جب کسی ملک میں فٹ کر دی جائے گی تو وہ اُس ملک کی ساری آکسیجن کو چوس (Suce) لے گی پھر سانس لیتے تمام جاندار جہاں کھڑے ہوں گے وہیں اپنے ہی قدموں میں ریت کے ذروں کی طرح ڈھیر ہو جائیں گے۔
”خَس کم جہاں پاک“ یہ انسان دشمن سائنسدان زیادہ تر اُس پیغمبر (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کے پیروکار ہیں جن کی شریعت ”شریعت حُب“ کہلاتی ہے یعنی اگر کوئی شخص آپ کے ایک گال پر طمانچہ مارے تو اپنا دوسرا گال بھی طمانچے کے لئے اُس کے آگے کر دو پھر انہی پیروکاروں نے اپنا دوسرا گال طمانچے کے لئے آگے کرنے کی بجائے دونوں گال ہی نوچ لئے اور اُس کے وجود کو ایٹم بم کے شعلوں کے آگے ڈال دیا۔ اِسی مذہب کے پیروکاروں نے ایسے ایسے فلسفی اور دانشور پیدا کئے جنہوں نے ایسے خوبصورت اور بامعنی پرچار کئے جنہوں نے اچھائی کی نئی تاریخ رقم کر دی۔ اِسی مذہب کے ایک فلسفی سقراط کا فلسفہ ہی چار الفاظ پر مشتمل تھا (1) اعلیٰ ترین نیکی (2) اعلیٰ ترین سچائی (3) اعلیٰ ترین اخلاق (4) اعلیٰ ترین بول اِس روحانی فلسفی کا بنیادی پرچار ہی اخلاقیات تھا وہ کہتا تھا کائنات کے باقی تمام علم یعنی علم اُلحساب، علم فلکیات اور جستجو کے سارے علم ثانوی حیثیت رکھتے ہیں اُس کے مطابق نیکی علم ہے اور حکومت کرنے کا حق صرف نیک علماء کو ہے اُس کا دعویٰ تھا کہ ہر انسان کے اندر جو ضمیر ہے وہ باقاعدہ اُسے باآواز بلند ہمیشہ اچھائی کی تلقین کرتا ہے اور بُرائی سے روکتا ہے لیکن زیادہ تر لوگ اِس آواز کے بلند ہونے کے بعد اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں جس طرح نیکی اور اچھائی کی تلقین کرنے والے تمام پیغمبروں کو اذیتیں دی گئیں اِس روحانی فلسفی سقراط کو یہ سچ کہنے پر زہر کا پیالا پلا دیا گیا اور اُس کی آواز بند کر دی گئی……اُس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بَرملا کہتا تھا کہ حاکم لوگ اپنی حاکمیت قائم رکھنے کے لئے عوام کو نیکی اور علم دینے کی بجائے ریاست میں بڑی بڑی عمارتیں، بندرگاہیں اور پُل بنا کر ریاستت کی ساری آمدنی اِن بے جان چیزوں پر لگا کر جانداروں کو اُن کے حقوق سے محروم کردیتے ہیں نیکی سکھانا اور علم دینا ریاست کا فرض ہے۔
اگر سوچا جائے تو کیسے کیسے بادشاہ وقت آئے کیا کچھ بنایا اَور پھر انجام یہ ہوا کہ موت نے سب کچھ زمین پر ہی رکھوا لیا۔ ہم انسان ایک چور کی مانند ہیں جب ایک چور چوری کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے تو چوری کا سارا سامان اُس سے لے لیا جاتا ہے اُس کے اپنے کپڑے اُتار لئے جاتے ہیں جن کی سلائی کڑھائی پر شاید بہت ہی محنت کی ہو اور پھر بغیر سلے ہوئے ایک کپڑے میں لپیٹ کر مٹی میں روند دیا جاتا ہے۔ ساری حقیقتیں سامنے رکھنے کے باوجود انسان برائی کی نت نئی ایجادوں میں مصروف ہے زندگی میں سہولیات حاصل کرنے کے جنون نے انسان کو اچھائیوں کو پاؤں تلے روند دیا ہے اور برائی کے ملمع شدہ تاج کو خوبصورتی کے لئے سَر پر سجا لیا ہے کیا ایک انسان ایک ہی وقت میں دو تین لباس اکٹھے پہن سکتا ہے؟ یا بھوک سے بہت بڑھ کر کھانا کھا سکتا ہے یا لامحدود گھر میں رہ سکتا ہے؟ سُپر طاقتوں کے پاس ہر طرح کی سہولیات موجود ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو خود کو پہلے سے حاصل سہولیات کے ساتھ پُرسکون زندگی گزار سکتے ہیں مگر وہ اِن سہولتوں میں مزید اضافہ کرنے کی ہوس میں غریب ملکوں کے وسائل چھیننے کے لئے اُن کو زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم کر رہے ہیں اور اِس اتنی بڑی بُرائی کو وہ یہ کہہ کر حقِ جواز دے دیتے ہیں کہ وہ تو اِن غریب ملکوں کے ساتھ اچھائی کر رہے ہیں کیونکہ وہ ان لوگوں کو اُن کے وسائل کو صحیح طور پر استعمال کرنے کی ٹیکنالوجی سکھا رہے ہیں۔ دراصل اچھائی اور بُرائی کے معیار اور اقسام تبدیل ہو گئی ہیں امیر لوگ غریبوں کے بچوں کو گھروں میں ملازم رکھ کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ اِس طرح غریب خاندانوں کو ہم مالی مدد فراہم کر رہے ہیں اچھائی تو یہ ہوتی کہ اگر کسی امیر کے پاس انہی ضروریات سے کچھ زیادہ ہے تو وہ اِن غریبوں کو اُجرت کے طور پر دینے کی بجائے مدد کے طور پر بھی دے سکتے ہیں۔ کسی نے کتنا خوبصورت شعر کہا ہے
ظلم بچے جَن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہئے
اچھائی کی صرف ایک ہی اولاد ہے ”سکون“ اور بُرائی اتنی عیالدار ہے کہ اِس کے درجنوں بچے ہیں ہر بچے کا نام حروف تہجی کے لفظ ب سے ہی شروع ہوتا ہے۔ بدی، بدنیتی، بداخلاقی، بدچلنی، بے ایمانی، بدفعلی، بدنمائی، بدنامی وغیرہ وغیرہ آج کل بہت سے انسانوں نے یہ لے پالک بچے پالے ہوئے ہیں اِن اتنے بچوں کو کھلانے پلانے کا خرچہ پورا کرنے کے لئے ظاہر ہے کوئی نہ کوئی بُرائی تو کرنی پڑتی ہے۔ رشوت اور چوری یہی عیالدار لوگ کرتے ہیں۔ بُرائی کے اِن تمام بچوں نے پورے معاشرے کو جس طرح بے سکون اور کنگال کر رکھا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ایک عالم دین کی ایک بُرائی نے تو جانوروں کو بھی مات دے دی ہے۔ کہتے ہیں کہ جانوروں میں بھی رشتوں اور قبیلوں کی پہچان ہوتی ہے اور وہ اپنے جنسی معمولات میں بھی اخلاقیات اور اصولوں کو سامنے رکھتے ہیں میرے چند اشعار سُنیں
ریوڑ انساں کا بن گیا حیواں
کوئی چیتا، کوئی لومڑ کوئی بلا ٹھہرا
اِنساں اِنساں کو کھا رہا ہے یہاں
حیواں حیرت میں ڈوبے جاتے ہیں
ہم کیوں برائی کو اپنے بچوں کی طرح پال رہے ہیں موت کی ایک حتمی حقیقت کو سامنے رکھنے کے بعد تو شاید بُرائی کو موت کے گھاٹ اتارنا ذرّہ بھر بھی مشکل نہیں۔
ہم خدا کے آخری پیغمبرؐ کے پیروکار ہیں اَب ہماری ہدایت کے لئے کوئی دوسرا پیغمبر نہیں آئے گا اِنہی کی تعلیمات ہمیں بُرائی سے بچا سکتی ہیں مگر ہم نے اِس پیغمبرؐ خدا کی تعلیمات کے ساتھ کیا کیا۔ میرا شعر سُنیں:
صحیفہ آسمانی روح ہے ہر جسم کے اندر
یہ تو اِک نور اَلا نور ہے ہر آنکھ کے اندر
اٹھائے پھرتے ہیں اِس کو بس ایک ووٹ کی خاطر
سُلا دیا ہے اُوڑھا کر بس اِک غلاف اِسے
اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے انسان اور اُس سے وابستہ تمام معاملات کا مکمل ضابطہ حیات مکمل وضاحت سے بیان کر دیا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ”بُرائی“ انسان کے اجزائے ترکیبی میں شامل کر دی گئی ہے اگر ایسا ہوتا تو بُرائی کی تفصیلات اور اُس کے نتائج سے آگاہ کرنے کے لئے پیغمبر نہ بھیجے جاتے۔ اسلام نے انسان کو اشرف المخلوقات کا اعزاز دینے کے بعد اُسے ایک ایسے مضبوط، مربوط اور محفوظ دائرہ میں داخل کر دیا ہے جس میں برائی داخل ہی نہیں ہو سکتی مگر یہ محفوظ اٹوٹ دائرہ صرف تعلیمات اسلام ہی مہیا کرتی ہیں۔ اِسی دائرے کے اندر رہنے کو ترجیح دینے والے افراد اَب بھی اچھائی کی تاریخ مرتب کر رہے ہیں اور سکون کی دولت سے مالا مال ہیں۔ آیئے ہم سب انسان مل کر اپنے روحانی علمی ہتھیار سے بُرائی کا قتل عام شروع کریں جس کی کوئی سزا نہیں بلکہ جزا ہے۔
(کالم نگارانگریزی اوراردواخبارات میں لکھتی ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain