تازہ تر ین

زرعی شعبے پر توجہ کی ضرورت

میاں انوارالحق رامے
پاکستان کا مجموعی رقبہ 12 کروڑ 85 لاکھ 78 ہزار 308 ہیکٹر ہے۔ جس میں سے 7 کروڑ 96 لاکھ10 ہزا ر ہیکٹر رقبہ زرعی اراضی اور جنگلات پر مشتمل ہے۔ جنگلات کا رقبہ 28 لاکھ 90 ہزار ہیکٹر پر مبنی ہے۔23ملین ایکٹر زرعی رقبہ ہے جو کل رقبے کا 28 فیصد بنتا ہے اس میں 8 ملین ایکٹر رقبہ زیر کاشت نہ ہے۔مجموعی قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ 21 فیصد ہے ملک کے 45 فیصد لوگوں کو روز گار فراہم کرتا ہے۔ کل زر مبادلہ کا 45 فیصد زرعی تجارت سے حاصل ہوتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں گندم کی پیداوار 10 لاکھ ٹن ہے اور مقامی کھیت 38 لاکھ ٹن ہے۔ محکمہ زراعت کی زیر نگرانی 27 ریسرچ سنٹر انسٹیٹیوٹ او36 ذیلی ادارے کام کرتے ہیں۔ سیم سے متاثرہ علاقہ 50 ہزار ایکڑ ہے کلر اور تھور سے متاثرہ 21 لاکھ ایکڑ ہیں۔
پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود خوراک کی قلت کا شکار ملک ہے قومی اسمبلی کے فلور پر وزیر خزانہ شوکت ترین اس بات کا انکشاف کیا ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم زرعی اجناس کو برآمد کرنے کی بجائے درآمد کرتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کی ہماری اجتماعی کوتاہیوں کے نتیجے میں ہم زرعی اجناس درآمد کرنے والا ملک بن گئے ہیں۔ موجودہ حکومت نے مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے تمام اجناس کے بارے میں اعلان کیا کہ ملک بھرمیں ما سوائے کپاس کے بمپر اجناس پیدا ہوئی ہیں اور زرعی شعبے نے فقیدالمثال ترقی کی ہے لیکن حالات کا بنظر عمیق جائزہ لینے کے بعد یہ حقیقت منکشف ہوئی ہے کہ حکومتی دعوے کے مطابق زرعی پیداوار میں اضافہ نہیں ہوا ہے اضافہ ضرور ہوا ہے لیکن کم۔ پاکستان کا 28 فیصد رقبہ زرعی رقبہ ہے جس میں ناقابل کاشت اور سیم و تھور سے متاثرہ رقبہ بھی شامل ہے۔
پاکستان کے دیہی علاقوں کی کل آ بادی کا بلا مبالغہ 65 فیصد ہے جس کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے۔ ہم بد قسمتی سے گندم دالیں، چینی، کھانے کا تیل اور کثیر مقدار میں کپاس درآمد کر رہے ہیں۔امسال تین ملین میٹرک ٹن گندم درآمد کی جائے گی۔ پاکستان نے صرف گیارہ ماہ میں 7.5 ارب ڈالر کی زرعی اجناس درآمد کی ہیں۔ 237 ارب روپے کاٹن پر 160 ارب روپے کی گندم، 100 ارب کی دالیں اور 90 ارب کے چائے درآمد کی ہے۔ 35 ارب کے مصالحہ جات اور 25 ارب کی چینی درآمد کی ہے۔ ہم اپنی ضروریات کی صرف 70 فیصد دالیں در آمد کرتے ہیں۔ زرعی شعبے میں کپاس کی پیداوار انتہائی مایوس کن ہے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے ہمارے ملک کی برآمدات میں ٹیکسٹائل سیکٹر بہت اہم ہے۔ٹیکسٹائل کی برآمدات کا انحصار زرعی شعبے سے وابستہ ہے،خام مال دھاگہ کپڑے کی تمام تیاری زرعی شعبے سے منسلک ہے۔ پاکستان میں 2010 سے لے کر 2018 تک کاٹن کی کل پیداوار 13 ملین بیلز ہوتی تھی۔ جو گزشتہ تین برسوں میں مسلسل کم ہو کر 5.5 ملین بیلز رہ گئی ہے۔ بھارت میں کپاس کی پیداوار میں مسلسل اضافہ دیکھنے آیا ہے امسال بھارت نے 34 لاکھ ملین بیلز کا ہدف حاصل کر لیا ہے۔ کپاس کی ہمارے ملک میں کم پیداوار کے وجہ سے ہماری کاٹن انڈسٹری زمیں بوس ہونے کے قریب ہے کپاس کی درآمدپر کثیر سرمایہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے ہمارے ہاں زرعی شعبہ کسی بھی حکومت کیلئے ترجیح اول نہیں رہا ہے اس شعبے کو غیر ضروری سمجھا گیا اور زرعی شعبہ کنگال ہوتا گیا۔
کپاس کی خوفناک حد تک کم پیداوار قومی المیہ ہے اگر اس پر بھر پور توجہ نہ دی گئی تو ہماری ساری ٹیکسٹائل انڈسٹری مفلوج ہو جائے گی اور اس سے جو زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے اس سے بھی ہم محروم ہو جائیں گے اور لاکھوں کی تعداد میں مزدور بے روزگار ہو جائیں گے۔پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری قومی معیشت کی شہہ رگ ہے۔ شوگر مافیا جس کی گرفت موجودہ حکومت کے حل و عقدپر عیاں ہے لیکن حکمران چینی کی قیمت کو کنٹرول کرنے سے قاصر ہیں۔ شوگر مافیا نے کاٹن کی بہترین پیدا وار دینے والی زمینوں پر گنا کاشت کرکے کاٹن کی تباہی کردی ہے۔ کاٹن ایریا زمیں شوگر ملز لگا کر قوم سے غداری کا ارتکاب کیا ہے۔ شوگر مافیا ہر سیاسی جماعت کے اندر اہم عہدوں پر فائز ہے۔حکومت کی تبدیلی سے شوگر مافیا متاثر نہیں ہوتا ہے۔ ریسرچ اور ڈویلپمنٹ ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ حکومت کے زعماء سمجھتے ہیں سرکاری شعبے میں زرعی اجناس کے حوالے سے تحقیقات ممکن نہیں ہیں حکومت کوشش میں مصروف ہے کہ تحقیقاتی اداروں کو پرائیویٹ کمپنیوں کے سپرد کر دیا جائے تاکہ حکومت کی ذمہ داریوں کا بوجھ ہلکا ہو سکے جس طرح حکومت شعبہ تعلیم اور صحت کو پرائیویٹ سیکٹر کے سپرد کرنے پر آمادہ ہے اسی انداز سے زرعی شعبہ تحقیقات کو بھی عام لوگوں کے سپرد کر دیا جائے گا۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ سرکاری زرعی شعبہ جات کو فنڈز کنجوسی سے فراہم کیے جاتے ہیں جس میں صرف تنخواہیں پوری ہوتی ہیں۔ شہروں کے ارد گرد زرعی اراضی ہیکٹرز کے حساب سے رہائشی سکیموں میں تبدیل ہو رہی ہے۔ زرعی اراضی کو محفوظ رکھنے اور بچانے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں سالانہ شرح پیدائش محتاط اندازوں کے مطابق 2.4 فیصد ہے۔ ہم وسائل کے حوالے سے آ بادی میں ہو شربا اضافہ اور پانی کی کمی کی بنا پر وبال میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ 1951 کی مردم شماری کے مطابق ہماری موجودہ آبادی چھ گنا زیادہ ہو چکی ہے آئندہ تیس برسوں میں پاکستان کی آبادی دوگنا ہونے کے امکانات ہیں۔ جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش، سری لنکا، بھارت، ملائیشیا اورانڈونیشیا نے اپنی اپنی آبادیوں میں اضافہ کو روک لیا ہے ہمارے ہاں عوام اور حکومت کے نزدیک یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ فوڈ سیکورٹی کے مسائل پیدا ہو چکے ہیں حکومت اور عوام کو قومی ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہئے۔ زرعی شعبے کو مہمیز لگانے کی اشد ضرورت ہے زرعی شعبہ واحد ایسا شعبہ ہے جو کم از کم مدت میں معجزے برپا کر سکتا ہے زرعی شعبے کے احیاء کیلئے جوہری تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔اگر ہم نے کوتاہی کا ارتکاب کیا تو پھر ہم غربت،افلاس اور بھوک سے نہیں بچ سکتے۔
(کالم نگارمعروف سابق پارلیمنٹیرین اورپاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain