تازہ تر ین

افغانستان کا غیر یقینی مستقبل۔پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

ملک منظور احمد
امریکہ کے افغانستان سے انخلا ء کے اعلان کے بعد افغانستان میں حالات دن بدن بگڑتے جا رہے ہیں۔جنگ میں شدت آتی جا رہی ہے اور تشدد اور ہلاکتوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔محسوس ایسا ہو رہا ہے کہ افغان حکومت اور افغان فوج جس کو کہ امریکہ اور نیٹو ممالک نے 20سال کی محنت کے بعد کھڑا کیا،ان کو تربیت فراہم کی اسلحہ فراہم کیا اور اس فوج پر خود امریکہ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس تمام عرصے میں 100ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی گئی یہ رقم رائیگاں جا چکی ہے۔ اس سب کے باوجود، موجودہ صورتحال سب کے سامنے ہے۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ 85فیصد افغانستان پر اب ان کا کنٹرول ہے اگرچہ کہ افغان حکومت اس دعوے کی تردید کرتی ہے لیکن اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ 65فیصد افغانستان پر طالبان قبضہ کر چکے ہیں تو اس بات یہی مطلب لیا جاسکتا ہے کہ اب افغانستان کے اصل حکمران طالبان ہی ہیں۔حالیہ دنوں میں مصدقہ اطلا عات کے مطابق افغان طالبان نے ترکمانستان،تا جکستان اور ایران کے ساتھ لگنے والے افغانستان کے سرحدی رعلاقوں اور بارڈرز پر قبضہ کر لیا ہے اس کے ساتھ ساتھ طالبان افغانستان میں شمال سے جنوب جانے والی متعدد اہم شاہراہوں پر بھی کنٹرول حاصل کر چکے ہیں،اس تمام صورتحال کے تناظر میں یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ کابل میں جو رہی سہی حکومت بچی بھی ہے وہ چاروں طرف سے طالبان کے نرغے میں ہے۔اس تمام صورتحال میں افغان حکومت کا ردعمل دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے محسوس ایسا ہو تا ہے کہ افغان حکمران اچانک کسی خواب غفلت سے جاگے ہیں اور ان کو اس حقیقت کا ادراک ہوا ہے کہ ان کا کنٹرول افغانستان پر کتنا کمزور ہے۔
طالبان در حقیقت کتنی طا قتور جنگی صلاحیت کے حامل ہیں اور امریکی اور نیٹو نے افغان تنازع سے ہاتھ اٹھا لیے ہیں۔ امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد جو صورتحال بنی ہے اس سے یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ افغان حکومت کس حد تک نا اہل ہے اور شاید وہ اس بات کا تصور کیے بیٹھی تھی کہ امریکہ افغانستان کو کبھی نہیں چھوڑ کر جائے گا اور اسی غلط فہمی کے نتائج وہ آج بھگت رہے ہیں۔شاید افغان انتظامیہ کو امریکہ کی بے اعتنائی سے بھی دھچکا لگا ہے،افغان صدر اشرف غنی اور سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبد اللہ نے اسی امید پر امریکہ کا دورہ کیا کہ شاید امریکہ اپنے فیصلے پر کوئی نظر ثانی کرے لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور جو با ئیڈن نے مالی امداد سے زیادہ افغان حکومت اور کسی بھی طرح سے مدد کی حامی نہیں بھری۔
حالیہ دنوں میں امریکی صدر جو بائیڈن نے قوم سے افغانستان کے حوالے سے خطاب کیا جس میں انھوں نے واضح کر دیا کہ اب افغانستان کا مستقبل افغانوں کے ہاتھ میں ہی ہے اور وہ کسی صورت میں بھی امریکہ کی نئی نسل کو افغانستان میں جنگ لڑنے کے لیے نہیں بھیجیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ نے افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کر لیے ہیں اور اب ہمارا وہاں رہنے کا کو ئی جواز نہیں ہے،افغانستان میں امریکہ کے اہداف کیا تھے اور وہ حاصل ہوئے یا نہیں اس بات سے قطع نظر،یقینا امریکی صدر کا یہ خطاب افغان حکومت کے ساتھ ساتھ بھارت کے لیے بھی ما یوسی کا باعث بنا ہو گا۔امریکی صدر نے اس خطاب میں خطے اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک سے بھی افغانستان میں امن کے لیے کردار ادا کرنے کو کہا، جس کی ایک جھلک ہمیں ایران کی میزبانی میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی صورت میں بھی نظر آئی۔طالبان کا ایک وفد ماسکو بھی گیا جہاں پر انھوں نے روس کو یقین دہانی کراوائی کے افغان سر زمین کسی بھی صورت کسی بھی ملک کے خلا ف استعمال نہیں ہو نے دی جائے گی۔ داعش کو طالبان کے زیر اثر علاقوں سے نکال دیا گیا ہے اور روس اور اس کے اتحادیوں کو افغان طالبان کی جانب سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔طالبان نے اسی دورے کے دوران دوحا معاہدے کی پاسداری کا بھی یقین دلایا۔طالبان نے حالیہ دنوں میں چین سے متعلق بھی ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے چین کو طالبان کا دوست کہا اور چین کو افغانستان میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت بھی دی اور افغانستان میں موجود چینی منصوبوں کی حفاظت کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا۔اس تمام پیشرفت سے ہمیں یہی محسوس ہو رہا ہے کہ افغان طالبان بھی 90ء کی دہائی کے مقابلے میں اب بہت تبدیل ہو چکے ہیں،اور بہت ہی میچورٹی کے ساتھ مختلف ممالک کے ساتھ سفارت کاری بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان نے واضح کیا ہے کہ وہ افغانستان میں کسی ایک فریق کے ساتھ نہیں ہے اور کابل پر بندوق کی طاقت سے قبضہ کی حمایت نہیں کرے گا۔پاکستان کی پالیسی یہی ہے کہ پاور شیئرنگ کے ذریعے افغانستان میں نئی حکومت کا قیام ہونا چاہیے جس بھی حکومت کو افغان عوام کی حمایت حاصل ہو ئی پاکستان اس حکومت کو تسلیم کر لے گا۔میری نظر میں پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے پالیسز اور فیصلے دانشمندانہ ہیں ان فیصلوں سے یقینا پاکستان پر منفی افغان صورتحال کے مضر اثرات کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ اس تمام صورتحال میں پاکستان کے لیے ایک اچھی خبر یہ بھی ہے کہ بھارت کا بھی امریکہ کے ساتھ ہی افغانستان سے بوریا بستر گول ہوتا ہوا نظر آرہا ہے،یہ خبریں افغانستان سے آئیں ہیں کہ بھارت نے طیارے بھر بھر کر سینکڑوں کی تعداد میں اپنے را اہلکار افغانستان سے نکال لیے ہیں اور ان اہلکاروں کے افغانستان سے نکالے جانے کے باعث افغان میں موجود پاکستان مخالف دہشت گرد گروپوں کی حمایت کے بھارتی منصوبے کو شدید دھچکا پہنچا ہے،بہرحال افغانستان کے حوالے سے آگے بڑھنے کا بہتر راستہ یہی ہے کہ افغانستان کے حوالے سے ایک علا قائی اپروچ اپنائی جائے،چین،روس،ایران اور ترکی اور پاکستان سب مل کر افغانستان میں استحکام کے لیے کام کریں،کیونکہ افغان مسئلہ اتنا پیچیدہ ہے کہ کسی ایک ملک کے لیے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرنا بھی بے کار ہے۔علاقائی تعاون سے ہی نہ صرف افغانستان میں امن لا یا جاسکتا ہے بلکہ یہ بھی ثابت کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ اور نیٹو کا خلاء یہ تمام ممالک مل کر پُر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain