تازہ تر ین

روئیے

شفقت حسین
طبیعت میں بے چینی‘ قلب وروح میں اضطراب‘ بتدریج شکست وریخت کاشکار ہوتے ہوئے اعصاب‘ حیات اجتماعی کے دائرے میں سماجی عدل وانصاف کافقدان‘ معاشی اور معاشرتی دائرۃ سؤ(برائی کی گردش) جس سے نکلنے کی امید کہیں دور دور تک بھی نظر نہ آرہی ہو‘کسی انسان کولاحق مزمن امراض(جس میں ضعف بصارت بھی شامل ہو) بہت سی پیچیدگیاں پیدا کرنے کا باعث تو بنتے ہی ہیں لیکن لوگوں کے روا رکھے جانے والے برخودغلط اور ناپسندیدہ روئیے بھی ان سب پر مستزاد ہوں تو کوئی حساس مزاج کاحامل توکیا کوئی سخت گیر اور گوشت کالوتھڑا نہیں بلکہ سینے میں پتھر کادل رکھنے والا انسان بھی انسانوں کے ساتھ انسانوں کے روا رکھے جانے والے رویوں پر بعض اوقات رنجیدہئ خاطر ہوئے بغیر نہیں رہتا کیونکہ یہ روئیے کبھی فراموش نہیں کیے جاسکتے نہ ہی انہیں قرآن حکیم کی اصطلاح میں نسیاً منسیاً(بھولی بسری داستان) قرار دے کریکسوئی کے ساتھ معاملات زندگی کیے جاسکتے ہیں۔ اگر کسی روئیے پر آنکھیں کھولی بھی جاتی ہیں تو اس وقت تک سانپ اپنا ڈنگ مارکر نودو گیارہ ہو چکا ہوتاہے اورہم لکیر کو پیٹنے میں اس قدر ماہر اور مشّاق ہیں کہ اس کی مثال ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔
میرے ایک سینئر رفیق کار جناب ندیم اُپل نے اپنے نو جولائی کے کالم میں چند روز قبل سابق ہو جانے والے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے ایک فیصلے کی تحسین کرتے ہوئے خامہ فرسائی کی تھی۔ اس تحسین کی بنیاد جناب قاسم خان کا وہ حکم تھا جس میں انہوں نے قبرستانوں پر قبضہ مافیا کو انتباہ کیاتھا کہ آئندہ کسی مرنے والے کی تدفین کے لئے کوئی فیس وغیرہ طلب نہ کی جائے۔ یہ فیصلہ میرے نزدیک بھی بڑا صائب اور وزنی اورحق بجانب ہے لیکن میں سوچتا ہوں کہ ایسے فیصلے اپنی نوکری کے اختتام پر ہی کیوں یاد آتے ہیں۔ ناجائز قابضین نے ہزاروں ایکڑ پاکستان ریلویز کی اراضی پر بڑے بڑ ے محلات اور پلازے تعمیر کرلئے حتیٰ کہ گندے نالوں پربھی بستیاں آباد کرلی گئیں لیکن ہر طرف خاموشی اورسناٹا‘ حد تو یہ ہے کہ جن اداروں کی ا راضی ہوتی ہے وہ بھی آنکھیں بند رکھتے ہیں املاک چاہے متروکہ ہوں یا کوئی اور‘ جوبھی نام ہو اس کی زمینوں کابھی یہی حال ہے کہ بڑے بڑے گدی نشین‘ باوے‘سرکار اورسجادہ نشین ان پرہاتھ صاف کیے ہوئے ہیں۔ یہ سب ہمارے روئیے ہیں جنہیں دیکھ کرسن کر اورپڑھ کرکف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا‘ ہم تعمیرات کرتے وقت اس قرآنی حکم کوبھی یکسر فراموش کرجاتے ہیں کہ بڑے بڑے مکان اورپہاڑوں وغیرہ کو کاٹ کاٹ کرباقاعدہ نقشوں کی مدد سے جو محلات بنائے جاتے ہیں۔ارشاد خداوندی ہے کہ کیاتم لوگوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان میں رہناہے۔ تفاسیر کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ایسی تعمیرات تعمیر کنندگان کے لئے وبال ہوں گی لیکن مجال ہے کہ ہم اس قرآنی حکم پر تھوڑی بہت بھی توجہ دیں۔ ہم اپنے مکانات اور محلات پر آرائشی بتیاں اور برقی قمقمے سرشام روشن کرکے اپنی حیثیت اور جاہ وچشم اور مراتب کا احساس دلاتے ہیں لیکن اس بیکارِ محض مشق کے نتیجے میں جب الیکٹرسٹی بلز آتے ہیں تو بُرا بھلا بجلی سپلائی کرنے والے اداروں کو کہا جاتاہے۔
اِدھر حکمرانوں کے روئیے یہ ہیں کہ وہ مارکیٹ اکانومی کے اصولوں کو یکسر نظرانداز کرکے بجلی بلوں میں اضافے کا ایسا لیوردباتی ہیں کہ اس کی زد میں کسی فرق وامتیاز کے بغیر سبھی طبقے آجاتے ہیں حالانکہ معیشت کااصول یہ ہے کہ اگر ڈیمانڈ اور کھپت میں اضافہ ہوتاہے تو متعلقہ اشیاء کی قیمتوں میں نمایاں حد تک کمی کردی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے کہ ڈیڑھ سو بجلی کے یونٹس کے نرخ کچھ ہیں اس سے اوپر اوراس سے اوپر اوراس سے بھی اوپر بجلی کے یونٹس استعمال کریں تو ہوش اڑا دینے والے بلز آپ کی دہلیز پر ہر ماہ تواتر اورتسلسل کے ساتھ پڑے ہوتے ہیں۔ ہمارے یہ روئیے بھی دل دکھی کرنے والے ہیں کہ ہم اپنے گھر کی غلاظت‘ گند اورکوڑا کرکٹ ساتھ والے یاکسی سامنے والے گھر کے سامنے پھینکتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم سڑک پر سفر کرتے وقت سگنل کو مکڑی کے جالے کی طر ح توڑنا اپنا اعزاز سمجھتے ہیں۔
دو دوست بس یاکوسٹر وغیرہ میں سفرکررہے ہوں تو کنڈیکٹرکوٹکٹ کے لئے اپنی طرف آتا دیکھ کر دو میں سے ایک بندہ آنکھیں وقتی طورپر دانستہ موندلیتاہے کہ میراساتھی ہی میرا کرایہ بھی ادا کردے۔ اسی طرح ہمیں اولاد اپنی خوبصورت اور اچھی لگتی ہے اوربیوی کسی دوسرے کی اپنی چاہے حور کے مماثل ہی کیوں نہ ہو۔ ہمیں اپنی آمدن چاہے وہ جس قدر بھی ہو لیکن دوسروں کی کمائی پررشک آتاہے اور اپنی آمدن پرشکر کی بجائے کفر تک اختیار کرلیتے ہیں۔
اللہ پاک نے اپنے خوبصورت اوربابرکت کلام میں اہل ایمان کوخبردار کر رکھاہے کہ اے ایمان والو! یہودونصاریٰ کو اپنا دوست ہرگز نہ بناؤ کیونکہ یہ تمہارے سامنے کچھ اور آپس میں یہ کچھ اورہی ہوتے ہیں لیکن اگر برادراسلامی ممالک سودوسو نہیں بلکہ پورے پانچ ہزار یہودیوں کو اپنے ہاں شہریت دے دیں تو درست لیکن اگر کوئی یمن میں ان کی مدد نہ کرے تو وہ راندء درگاہ سمجھا جاتاہے۔ فلسطین اوربرما میں یہودوہنود فرزندانِ توحید اور عالم اسلام کے بطلِ جلیل سمجھے جانے والے افراد کی گردنوں سے فٹ بال کھیلیں تو مداخلت کی توقع ہم سے لیکن کشمیرمیں خون کی ہولی ایک عرصے سے کھیلی جارہی ہو تو ہر طرف خاموشی اورسناٹا۔ اسی طرح کے دیگر اوربھی بہت سے روئیے ہی جو لائق ذکر ہیں لیکن اخباری صفحات کے دامن میں وسعت نہ ہونے کے پیش نظر انہی رویوں پر بحث کافی سمجھی جائے لیکن ایک بات پھربھی طے ہے کہ ہمیں ہوش اس وقت آتاہے جب سانپ ڈنگ بھی مار چکا ہوتاہے اس کازہراثر بھی کرچکا ہوتاہے لیکن عراق سے اس کا ترباق آتے آتے بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ بہرحال دیرآید درست آید کے مصداق سابق چیف جسٹس جناب قاسم خان کااپنی ریٹائرمنٹ سے تین چارروز قبل سنایاجانے والا حکم اور انتباہ خیرمستور اورلائقِ تحسین ہے مگر دیکھنااب یہ ہے کہ کیا نئے چیف جسٹس بھی اپنے پیشرو کے حکم پر عملدرآمد کرواسکیں گے یا یہ حکم جناب قاسم خان کے رخصت ہوتے ہی عدالت کی فائلوں وغیرہ میں دب کر رہ جائے گا۔
(کالم نگار سیاسی‘سماجی اورمعاشرتی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain