تازہ تر ین

افغانستان میں امن کی تلاش

سردارآصف احمدعلی
افغانستان کی صورتحال پر بہت ہی زیادہ تشویش پائی جاتی ہے۔ ایک طرف تو جوبائیڈن کہہ رہے ہیں کہ طالبان نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے دوسری طرف صدر اشرف غنی اور ان کے اہلکار کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے حساس ادارے افغانستان میں امن نہیں چاہتے۔ وہ اس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرا رہے ہیں۔ دوسری طرف ہندوستان نے دو بڑے جہاز اسلحہ سے لیس افغان حکومت کے لیے کابل پہنچائے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ اسلحہ افغان حکومت کے لیے ہو گااور اس سے خانہ جنگی اور بڑھ جائے گی اور زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس وقت طالبان تقریباً نصف افغانستان پر قبضہ کر چکے ہیں۔ ایران اور تاجکستان کے بارڈروں پر ان کا قبضہ ہو چکا ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ آئندہ دو ماہ میں ان کا 70 فیصد افغانستان پر قبضہ ہو جائے گا۔
سفارتی سطح پر اب تک طالبان روس میں جو دو دفعہ میٹنگز کر چکے ہیں اور حال ہی میں ایک تہران میں میٹنگ بھی ہو چکی ہے جس میں اشرف غنی کے نمائندے بھی موجود تھے۔ طالبان کا کہنا یہ ہے کہ قطر میں امریکہ نے یہ معاہدہ کیا تھا کہ مئی میں امریکی فوجوں کا انخلا ہو جائے گا جو کہ اب ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اس لیے وہ قطر کے معاہدے کے اب پابند نہیں ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا آج کے طالبان وہی کچھ کرنا چاہتے ہیں جو ملا عمر نے ماضی میں کیا تھا اور ملا عمر نے کابل پر بھی قبضہ کیا حتیٰ کہ تقریباً افغانستان پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ اس وقت طالبان کے اور حالیہ طالبان میں بہت زیادہ فرق ہے۔ اس وقت کے طالبان نے امریکہ کو نہ صرف میدان میں شکست دی بلکہ سفارتی میز کے اوپر بھی شکست دی۔ وہ امریکہ سے بھی زیادہ ہوشیار نکلے۔ جوبائیڈن جو طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں ان کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا صفائی دیں کہ 20 سال کے بعد 1.5 کھرب ڈالرز خرچ کرنے کے بعد لاکھوں افغانوں کا خون کر کے اب واپس جا رہے ہیں۔ دنیا ان سے پوچھ رہی ہے کہ یہ سب کچھ آپ نے کیوں کیا؟ اگر ڈیڑھ کھرب ڈالر آپ افغانستان کی ترقی پر خرچ کر دیتے تو وہ ایک سوئٹزر لینڈ بن جاتا اور اب وہ پاکستان کو پریشان کیوں کر رہے ہیں۔ ہم سے وہ کیا توقع رکھتے ہیں‘ جو کام آپ پچھلے 20 سال تک نہیں کر سکے وہ کام آپ پاکستان سے کیوں کروانا چاہتے ہیں۔ افغانستان کے بارے میں کچھ حقائق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ طالبان 90 فیصد سے بھی زیادہ پختون ہیں اور ان کی آبادی افغانستان میں 60 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ افغانستان کا جو شمال مغرب ہے وہاں ترکوں کی اکثریت ہے اور تقریباً چھ صدیوں میں ترک قوم کی اکثریت پائی جاتی ہے اور ان کے لیڈر جنرل دوستم ایک مضبوط لیڈر ہیں۔ اسی طرح شمال مشرق میں اس علاقے جس کو بدخشاں کہا جاتا ہے اور جس میں پنجشیر وادی بھی ہے اس علاقے میں بھاری اکثریت تاجک قومیت کے لوگوں کی ہے جو کہ فارسی دان ہیں اور یہاں بھی تقریباً پانچ سے چھ صوبے ہیں۔ یاد رہے کہ احمد شاہ مرحوم بھی اس علاقے کے لیڈر تھے۔ یہ بتانے کے بعد ایک بات عیاں ہو جائے گی کہ ان علاقوں میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا لہٰذا اگر صرف طالبان کی حکومت ہی بنانی ہے تو مستقبل میں افغانستان میں خانہ جنگی رہے گی اور اس میں بھارت بھی مداخلت کرے گا اوردوسرے ممالک بھی مداخلت کر سکتے ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ طالبان اس بات کو سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی قیادت نے بار بار اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ طاقت کے استعمال سے حکومت پر قبضہ نہیں کریں گے اور وہ سیاسی مذاکرات کے ذریعے کوئی حل سوچنے کی کوشش کریں گے۔ یہ انہوں نے بار بار کہا ہے۔ ایک بات انہوں نے یہ بھی کہی ہے کہ آئندہ افغانستان میں عورتوں کے حقوق سلب نہیں کیے جائیں گے اور ان کو تعلیمی اداروں میں اور ان کو ملازمتوں سے نہیں نکالا جائے گا۔ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کسی سیاسی سمجھوتے کے بعد افغانستان کو بہت بڑے پیمانے پر تعمیر نو کے مواقع ملنے چاہئیں اور وسائل مہیا کرنے چاہئیں۔
میرا اندازہ یہ ہے کہ سب سے بڑی رکاوٹ اشرف غنی کی حکومت ہے‘ جو کہ دلی کے اشاروں پر چل رہی ہے اوراس لیے ان کو اسلحہ بھیجا گیا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ افغانستان میں قیام امن ہو جائے مگر انشاء اللہ دلی کو یہاں بھی شکست فاش ہوگی۔ حل تو یہ ہے کہ اشرف غنی استعفیٰ دے تاکہ ٹرانزکشن گورنمنٹ بننے میں رکاوٹیں دور ہوں۔ جب ٹرانزکشن گورنمنٹ بن جاتی ہے تو اگلے مراحل کا آغاز ہوگا کیونکہ غیرجانبدار حکومت ہوگی تو مسائل پر سمجھوتہ کرنا قدرے آسان ہو جائے گا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ طالبان نے اس سسٹم کو کبھی بھی قبول نہیں کیا‘ جو بھی نیا سسٹم آتا ہے وہ ٹرانزکشن گورنمنٹ اتفاق رائے سے ہی لا سکتی ہے۔ آگے کیا کرنا ہے وہ تو افغان قوم کی مرضی ہے۔ پاکستان کا صرف ایک ہی فرض ہے کہ ہم اس پراسس کی تائید کریں اور حمایت کریں۔ ہمیں کسی کی طرف جھکاؤ ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان کو ایک اور بھی خدشہ ہے کہ خانہ جنگی کی شدت میں اضافے سے افغان مہاجر پاکستان آنا شروع ہو جائیں گے اور اس کے لیے کوئی مثبت پالیسی کی ضرورت ہے تاکہ جو پچھلی صدی میں ہوا وہ اس صدی میں نہ ہو۔
میں حیران ہوں کہ ابھی تک نہ ہمارے وزیراعظم اور نہ ہی وزیر خارجہ بات چیت کرنے کے لیے کسی غیرملکی دورے پر نہیں گئے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ چین سے بات کریں‘ روس جائیں‘ ترکی جائیں‘ ایران جائیں‘ ازبکستان‘ تاجکستان وغیرہ بھی جائیں اور بات چیت کریں‘ اور کوئی نئی تجویز پیش کریں اور ایک بہت بڑی کانفرنس کا اہتمام کیا جائے۔ وہ کانفرنس استنبول میں ہو سکتی ہے‘ ماسکو‘ بیجنگ‘ اسلام آباد میں بھی ہو سکتی ہے۔ اس میں سارے سٹیک ہولڈرز کو بلایا جائے بشمول امریکہ‘برطانیہ اور نیٹو اور اس کانفرنس میں طالبان اور اشرف غنی کے نمائندے بھی موجود ہوں اور اس کانفرنس کا عنوان ”ورلڈ کانفرنس فار پیس اینڈ ری کنسٹرکشن آف افغانستان“ ہو۔
(کالم نگار سابق وزیرخارجہ اورممتاز ماہرمعیشت ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain