تازہ تر ین

وزیراعظم کامجوزہ دورہ ازبکستان

شوکت پراچہ
وزیراعظم عمران خان کا مجوزہ دورہ ازبکستان تجارتی، سفارتی، سلامتی کے شعبوں سمیت کئی حوالوں سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے- اس دورے کے دوران پاکستان اور وسطی ایشیا کے درمیان تجارت کے فروغ کے لیے ٹریڈ ٹرانزٹ معاہدے پر دستخط ہونگے۔باہمی روابط کے فروغ کے لیے ہفتہ/دس دن کے ویزہ آن ارائیول، ڈپلومیٹس کے لیے ویزہ کے استثنیٰ جیسے معاہدوں پربھی دستخط ہوں گے۔ ازبکستان کے صدر شوکت مرزئیوف کی دعوت پر عمران خان اگلے ہفتے 15 اور 16 جولائی کو وسطی ایشیا کی سب سے بڑی ریاست ازبکستان کا دورہ کریں گے-یہ سب کچھ 25 سے 30 سال پہلے ہونا چاہیے تھا-وقتی مصلحتوں اور غفلت کے طویل المدت مضر اثرات ہوتے ہیں۔
وسطی ایشیا کی سب بڑی ریاست ازبکستان کی آبادی ساڑھے تین کروڑ سے چار کروڑ تک ہے جبکہ وسطی ایشیا کی کل آبادی ساڑھے سات کروڑ سے آٹھ کروڑ کے درمیان ہے۔ اتنی بڑی مارکیٹ میں بسنے والے خوشحال اور آسودہ لوگ روزمرہ زندگی کی زیادہ تر ضروریات اور مصنوعات کے لیے غیرملکی درآمدات پر گزارہ کرتے ہیں -وسطء ایشیا کے 8 کروڑ انسان پاکستان کے ساتھ محبت، مذھب، روحانیت اور تاریخی رشتوں کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ پھر بھی اتنے سارے یہ لوگ پاکستان کی بیرونی تجارت، اندرونی سیاحت اور باہمی روابط کے لیے ترجیحاتی innovations میں نہیں آتے ورنہ افغان صورت حال کو جواز بنا کر ہم مواقع ضائع کرنے کی جہد مسلسل کی بجائے کچھ متبادل سوچ و بچار کے ذریعے کم از کم زمینی روابط استوار کر چکے ہوتے۔زمینی روابط میں افغانستان کی دلدل میں پھنسنا اگر سٹریٹجک مجبوری تھی تو فضائی روابط کے راستے میں کہیں بھی نو فلائی زون نہیں ہے۔ اسلام آباد سے وسطی ایشیا جانے والی پرواز اسلام آباد سے کراچی جانے والی پرواز سے پہلے پہنچتی ہے۔قدرتی طور پر نزدیک ہونے کے باوجود ہم پالیسی سازی میں دور رہے اور ہم نے وسطی ایشیا تک کی اس مسافت میں 30 سال لگا دیئے۔ اس سال مئی کے مہینے میں بڑے ٹرکوں کا ایک قافلہ ازبکستان سے پاکستان آیا ہے
سلامتی کے شعبے میں وسطی ایشیائی ریاستیں زیادہ تر شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کے ساتھ موجود ہیں۔ کسی ریاست کے ساتھ پاکستان کا کوئی باہمی تنازعہ بھی نہیں ہے اور علاقائی سلامتی کے حوالے سے کسی علاقے پر دعوے کا تنازعہ بھی نہیں ہے۔ وسطی ایشیا سے جڑی ریاست آزربائیجان کی آرمینیا کے ساتھ جنگ اور آرمینیا کے قبضے سے آزربائیجان کے علاقوں نوگورنو کاراباخ کی آزادی میں ترکی کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی تحسین اور ستائش کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے
ہاں، ضرور، بے شک-آنے والے ہفتوں، مہینوں یا سالوں میں افغانستان کی ابھرتی، بگڑتی یا سنبھلتی صورت حال اہم عنصر ثابت ہوگی- وسطی ایشیائی ریاستوں میں افغان طالبان کے بارے میں تحفظات سے بڑھ کر خدشات پائے جاتے ہیں -ہم تسلیم کریں یا انکاری رہیں لیکن دنیا کی طرح وسطی ایشیا میں بھی عمومی تاثر یہی ہے کہ افغان طالبان پاکستان کے زیراثر ہیں – افغانستان کے شمال میں آباد تاجک، ازبک، ہزارہ آبادیوں کی اگر چیخ و پکار کی آوازیں نکلیں تو بازگشت دوشنبے، تاشقند، بخارا، بشکیک، اشک آباد، باکو کے ساتھ ساتھ انقرہ یا تہران میں بھی سنائی دیں گی۔افغانستان میں آنے والے تاریخی موڑ پاکستان اور وسطی ایشیا کے تعلقات پر براہ راست اثرانداز ہوں گے۔وزیراعظم عمران خان کو تاشقند، بخارہ اور ثمرقند میں ان حقائق کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیئے.حقیقت یہی ہے کہ 20 سال بندوق فیصلہ نہیں کر سکی تو اب کیسے کرے گی۔ حقیقت تو حقیقت رہتی ہے جن کرداروں پر یہ لاگو ہوتی ہو وہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
(کالم نگارمعروف سیاسی تجزیہ نگارہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain