میم سین بٹ
کرونا وباء شروع ہونے کے بعد سے حلقہ ارباب ذوق لاہورکے ہفتہ وارتنقیدی اجلاس مسلسل آن لائن ہورہے ہیں حالانکہ پاک ٹی ہاؤس کھل چکا ہے تاہم آن لائن اجلاس سے نقاد دانشوروں کویہ سہولت حاصل ہوچکی ہے کہ وہ گھر بیٹھے اس میں شریک ہوسکتے ہیں بلکہ پہلے تو حلقے کی نشست میں حاضری کیلئے لاہور میں موجودگی بھی ضروری ہوتی تھی اب دوسرے شہروں بلکہ غالباََ دوسرے ممالک سے بھی دانشور حلقہ ارباب ذوق لاہور کی آن لائن نشست میں شریک ہو سکتے ہیں تاہم بہت سے پرانے ارکان آن لائن اجلاس میں شریک نہیں ہو پاتے جبکہ رکنیت نہ رکھنے والے لاہوراوردوسرے شہروں میں مقیم بہت سے دانشور ہفتہ وار نشست میں شریک ہوتے رہتے ہیں۔
حلقہ ارباب ذوق کی حالیہ ہفتہ وار آن لائن نشست ”اردو ادب میں سیاسی وسماجی مزاحمت“ کے عنوان سے کراچی میں مقیم دانشورسیدکاشف رضا کی زیرصدارت منعقد ہوئی جو اگر صرف اردو ادب اورآزادی کے بعد تک محدود نہ رکھی جاتی تو ہم مزاحمت کے حوالے سے پنجابی شعراء شاہ حسین، بلھے شاہ اور استاد دامن وغیرہ کا حوالہ بھی دے سکتے تھے،اس حوالے سے اہم بات یہ تھی کہ محرک بحث پنجابی زبان کے ادیب اورحلقہ ارباب ذوق لاہورکے سابق سیکرٹری زاہد حسن تھے جنہوں نے اپنے ابتدائی مضمون کے اختتام پرعجیب سوال اٹھادیا کہ جودانشورکل تک آمریت کے حامی رہے تھے وہ اب آمریت کے خلاف کیوں ہیں؟ان کے اعتراض نے ہمیں شبے میں مبتلاکردیا کہ یا تو وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ والوں کے سیاسی مخالف ہیں یا پھرخودبھی اسٹیبلشمنٹ کے حامی بن چکے ہیں آمریت کی حمایت چھوڑکر اس کی مخالفت کرنا تو خود یہ ظاہرکرتا ہے کہ ان دانشوروں کاضمیر بالآخر جاگ گیا ہے اور کاشف رضا کے بقول وہ راہ راست پر آگئے ہیں ویسے بھی توبہ کا دروازہ تو ہروقت کھلا رہتا ہے شاید محرک بحث یہ چاہتے تھے کہ ان دانشوروں کا ضمیر ہمیشہ سویا ہی رہتا اوروہ آخری سانس تک اسٹیبلشمنٹ کی مسلسل حمایت ہی کرتے رہتے۔
تفنن برطرف محمدعباس نے محرک بحث کے ساتھ اختلاف کیا کہ کوئی ادیب اپنا رویہ کسی وقت بھی بدل سکتا ہے،مضمون مبہم سا اخباری کالم لگتا ہے جو نہ سوچ کر لکھا گیا اور نہ لکھنے کے بعد اس پرکوئی نظر ثانی کرنے کی زحمت کی گئی تاہم محمد عباس کے برعکس مظہر سلیم مجوکہ نے زاہد حسن سے اتفاق کرتے ہوئے قراردیاکہ اب مزاحمت نہیں مفاہمت کا چلن ہے، محمد نعیم کا خیال تھا کہ مضمون کے عنوانات ادب،سماج اورسیاست تھے لیکن خود محرک بحث کی جانب سے خاص رخ دینے سے بحث میں سیاست کا پلڑا بھاری ہوگیا،شہزاد نیئر نے پیغام دیا آج کے دورمیں عالمی اقتصادی استعمار اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت کے موضوعات پر بھی ضرور بات ہونی چاہیے،شہناز حیدرکا موقف تھا کہ ہم سب کسی ایک اصول کی بجائے نظریہ ضرورت کے حامی ہوچکے ہیں انہوں نے مزاحمت کے حوالے سے اپنی نظم بھی پیش کی جس کے دو اشعار تھے۔۔۔۔
دیکھ کر چنار وادی کے
شہرجلتے دکھائی دیتے ہیں
سوگئے ہیں ضمیر لوگوں کے
چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں
قیصر نذیر خاور نے درست تجزیہ کیا کہ سماج کی باگ ڈور جب ڈیپ سٹیٹ کے ہاتھ میں ہو تو وہ سماج کو موم کی ناک بنا دیتا ہے اسٹیبلشمنٹ نے سماجی مزاحمت دھیرے دھیرے یوں ختم کردی ہے کہ لوگ بے حس ہوتے چلے گئے ہیں،قاضی عابد نے بات کو آگے بڑھایا کہ اسٹیبلشمنٹ سے جڑے ہوئے ادیب ہمیشہ سے موجودرہے ہیں اور یہ سلسلہ پہلے فوجی حکمران کے دور سے شروع ہوگیا تھا،ڈاکٹر ضیا ء الحسن نے نشاندہی کہ ہمارے اردو ادب میں مزاحمتی رویئے جنرل ضیا کے مارشل لاء کے بعد پیدا ہوئے اوروہ اسے ہی مزاحمتی ادب قراردیتے ہیں۔ مزاحمت کا آغاز پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان کے دور سے ہی کرنا چاہیے تھا،قاضی ظفراقبال نے لقمہ دیا کہ مزاحمت کیلئے دل گردے اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر انسان میں موجود نہیں ہوتا۔شہزاد نیئر نے وضاحت کی کہ پہلی فوجی آمریت میں طلبہ کی تحریک سیاسی وسماجی مزاحمت ہی تھی،نعیم بیگ کا موقف تھا کہ اردو ادب میں سیاسی مزاحمت تو بہت کم لوگوں کے حصے میں آئی جب عملی سیاسی مزاحمت ہوئی تو ملک ہی دولخت ہوگیا تھا۔
آخر میں سیدکاشف رضا نے صدارتی کلمات میں بحث کو سمیٹتے ہوئے قراردیا کہ وہ ادیب جنہوں نے مزاحمت اوراپنے آدرش کی راہ میں قید و بندکی صعوبتیں برداشتیں کیں وہ ان دیگر ادیبوں سے زیادہ تکریم کے لائق ہیں جو اپنے گھر میں بیٹھ کر احتجاج کرتے رہے کسی بھی دورکا ادب صرف چند ناموں کے حوالے سے معروف نہیں ہونا چاہیے،فیض اور جالب جیسے معروف بڑے ناموں کے ساتھ ہمیں فارغ بخاری، شہرت بخاری، ظہیرکاشمیری،اعجاز راہی، احمدداؤد، احمد جاوید، سلیم شاہد،ضیا ساجد،ستارطاہر کوبھی نہیں بھولنا چاہیے، کچھ ادیب ایک آمریت کیخلاف تو مزاحمت کرتے ہیں مگر دوسری آمریت کے خلاف ان کا جوش وجذبہ ٹھنڈا پڑجاتا ہے ا آج کی بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ ادب مزاحمت ہو،کثیر الجہتی ہو اورکئی سطحوں پر ہو تبھی ہم زندہ اور پائندہ ادب تخلیق کرسکتے ہیں۔
(کالم نگارسیاسی اورادبی ایشوزپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭