ملک منظور احمد
ویسے تو دنیا میں ایسی بڑی بڑی شخصیات آتی ہیں جو کہ اپنے فن اور صلاحیتوں کے بل پوتے پر دنیا میں بہت نام کماتی ہیں اور لوگوں سے محبت سمیٹتی ہیں لیکن کچھ شخصیات ایسی ہو تی ہیں جو کہ ملکوں اور قوموں بلکہ اگر کہا جائے کہ دنیا کی تاریخ کا دھارا موڑ دیتی ہیں تو غلط نہ ہو گا۔یہ ایسی شخصیات ہوتی ہیں جن کی خدمات ملکوں اور قوموں کے عروج اور زوال کا فیصلہ کرتی ہیں اور ایسی ہی ایک شخصیت ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تھی۔ انھوں نے بلا شبہ بر صغیر کی تاریخ میں ایسا کام کیا ہے مجھے یقین ہے کہ ان کا نام رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔ڈاکٹر صاحب نہایت ہی ملنسار شخصیت کے مالک تھے،عاجزی اور انکساری ان کی شخصیت کا خاصہ تھی۔زندگی میں بے مثال کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد بھی اتنی عاجزی نا قابل فہم ہے لیکن آپ کی شخصیت ہی ایسی تھی غرور کا شائبہ تک نہیں تھا۔وطن کی محبت آپ میں کو ٹ کوٹ کر بھری ہو ئی تھی،اور آپ کی وطن کے ساتھ کمٹمنٹ کو مثالی قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
آپ 1936ء میں بھارت کے علاقے بھوپال میں پیدا ہو ئے تھے اور آپ کا خاندان 47ء میں ہجرت کرکے پاکستان آگیا تھا،آپ نے ابتدائی تعلیم کراچی سے ہی حاصل کی اور کراچی یو نیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد آپ اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں یورپ چلے گئے تھے۔71ء کی جنگ نے آپ پر گہرا اثر چھوڑا اور اس جنگ میں پاکستان کی شکست نے آپ کے اندر پاکستان کو دفاعی میدان میں مضبوط تر بنانے کی ایک آگ بھڑکا دی،آپ نے تہیہ کر لیا کہ پاکستان کے لیے کچھ ایسا کرنا ہے کہ پاکستان کا دفاع اتنا مضبوط ہو جائے کہ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت جو کہ وسائل اور رقبہ اور آبادی میں پاکستان سے کئی گنا بڑا ہے پاکستان کے خلاف اپنی روایتی برتری کھو بیٹھے اور جب 1974ء میں بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکا کر دیاتو اس کے بعد یوں محسوس ہونے لگا کہ پاکستان کی سلامتی بلکہ پاکستان کا وجود ہی خطرے میں پڑ چکا ہے تو ڈاکٹر قدیر خان صاحب نے پاکستان کو بھی ایٹمی صلاحیت سے لیس کرنے کا پروگرام بنایا۔سابق وزیر اعظم ذو الققار علی بھٹو کے کہنے پر پاکستان تشریف لائے اور پاکستان کی نومولود ایٹمی ٹیکنالوجی کی بھاگ دوڑ سنبھال لی۔آپ سینٹری فیوج ٹیکنالوجی کے ما ہر تھے اور آپ یہ ٹیکنالوجی پاکستان لے کر آئے۔جس نے پاکستان کے ایٹمی قوت بننے میں اہم کردار ادا کیا۔اس کے بعد آپ نے پاکستان میں ایک ایسی ٹیم تشکیل دی جس نے پاکستان کو ایٹم بم کی صلاحیت دینے کے لیے دن رات کام کیا اور آج بھی اس ٹیم کے اراکین بہترین کام کررہے ہیں۔آپ کی اور آپ کی ٹیم کی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں پاکستان 8سال کے قلیل عرصے میں ایک ایٹمی طاقت بن گیا اور دنیا کو حیران کر دیا۔خود ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زبانی کہ جس ملک میں سلائی کی سوئی بھی نہیں بنتی اس ملک میں 8سال کے قلیل ترین عرصے،نامساعد حالات اور محدود وسائل کے باوجود ایٹمی قوت حاصل کر لینا کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔یہ 1984ء کی بات ہے جب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان حالات کشیدہ تھے اس وقت ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس وقت کے صدر ضیا الحق سے رابطہ کرکے کہا کہ ایک ہفتے کا وقت دیں تو ہم ایٹمی دھماکے کرنے کے لیے تیار ہیں۔جس پر صدر ضیا الحق نے اس وقت بہت خوشی کا اظہار کیا تھا۔اسی طرح 1986ء میں پاک بھارت کشیدگی کے دوران ڈاکٹر صاحب کی ایٹمی حملے کی دھمکی نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کو ٹالنے میں اہم کردار ادا کیا۔گویا کہ ڈاکٹر صاحب کے بنائے ہو ئے ہتھیار نے ہزاروں لاکھوں جانوں کو بچانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور آج بھی کر رہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ایٹم بم تو بن گیا تھا لیکن اس کی ڈلیوری کے لیے بھی نظام چاہیے تھا۔ڈاکٹر صاحب کو اس حوالے سے ذمہ داریاں سونپی گئیں اور ڈاکٹر صاحب نے نہایت ہی قلیل عرصے میں پاکستان میں ایک بہترین میزائل پروگرام بھی کھڑا کرکے دیا جس کے ذریعے پاکستان کے ایٹمی ہتھیا روں کو استعمال کیا جاسکتا تھا۔ 53انجینئرز کو پاکستان لائے،کے آریل کے نام سے لیبز قائم کی گئی،ان لیبز میں 36فیکٹریوں کا قیام عمل میں لایا گیا یہ ڈاکٹر صاحب کی ناقابل فراموش خدمات ہیں۔
1998ء کا مئی کا مہینہ مجھے آج بھی یاد ہے جب ہندوستان نے اچانک 5ایٹمی دھماکے کرکے خود کو با قاعدہ ایک ایٹمی قوت ظاہر کیا اس کے بعد کے کچھ دن پاکستان کے عوام کے لیے نہایت ہی مشکل تھے،ایک عدم تحفظ کا احساس پید ہو چکا تھا سمجھا جا رہا تھا کہ بھارت کے پاس اب ایک ایسا ہتھیار ہے جو کہ پاکستان کے پاس نہیں ہے اور پاکستان کی سیکورٹی بھارت کے مقابلے میں کمزور پڑ چکی ہے۔لیکن جب 28مئی 1998 کو پاکستان نے بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 6ایٹمی دھماکے کرکے جوہری ریاست ہونے کا اعلان کیا تو تمام منظر نامہ یکسر بدل کر رہ گیا۔اگرچہ کہ اس کے بعد کارگل کا معرکہ ضرور ہوا تھا لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی بڑی روایتی جنگ نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے دوران سابق صدر پرویزمشرف صاحب کے دور میں ان کے ساتھ کچھ ناپسندیدہ واقعات بھی پیش آئے،ان پر الزامات لگے،کرپشن کے بیہودہ الزامات بھی لگائے گئے جن سے وہ سرخرو ہو کر نکلے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے یہ کسی عالمی سازش کا حصہ تھا جبکہ کچھ لوگو ں کے خیال میں یہ کو ئی اندرونی سازش ہی تھی بہر حال میں اس حوالے سے زیادہ بات نہیں کروں گا۔ڈاکٹر صاحب کی اپنی زندگی کے چند آخری سالوں میں ایک شکایت ریاست سے ضرور رہی کہ ریاست نے انھیں وہ عزت اور وہ پروٹوکول نہیں دیا جس کے وہ مستحق تھے،یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے لیکن یہ ہماری حکومتوں اور ہمارے ملک کا مسئلہ رہا ہے کہ ہم اپنے قومی ہیروز کو وہ عزت اور احترام نہیں دیتے جس کے وہ حق دار ہوتے ہیں۔ اگرچہ کہ ان کی تدفین سرکاری اعزاز کے ساتھ کی گئی ہے لیکن اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں کہ ملک کے وزیر اعظم اور صدر سمیت اہم شخصیات کو جنازے میں شرکت کرنی چاہیے تھی۔ ڈاکٹر قدیر خان نے پاکستان کے جو ہری پروگرام سے ریٹارمنٹ کے بعد سماجی شعبے قدم رکھا اور اس شعبے میں بھی ملک اور قوم کے لیے بیش بہا خدمات سر انجام دیں۔ان کی ذاتی دلچسپی اور کا وششوں سے ڈاکٹر اے کیو خان ٹرسٹ کے تحت ملک میں کئی تعلیمی ادارے،مساجد اور ویلفیئر اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا۔اور اسی ٹرسٹ کے تحت ڈاکٹر اے کیو خان کے نام سے ایک بڑا ہسپتال لاہور میں قائم کیا گیا جو کہ مریضوں کو بہترین سہولیات فراہم کر رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب زندگی بھر دشمن کی نگاہوں میں کھٹکتے رہے اور اس حد تک کھٹکتے رہے کہ ان کے فوت ہونے کے بعد بھی اس حوالے سے کچھ آرٹیکلز لکھے جا رہے ہیں۔
ایک اسرائیلی اخبار نے ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے لکھا ہے کہ مسلم دنیا کے واحد کامیاب ایٹمی سائنس دان تھے جو کہ موساد کے ہاتھوں قتل ہونے سے محفوظ رہے اور انھوں نے طبی رحلت فرمائی ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کہ دشمن ہر وقت ان کی جان کی طاق میں تھا اور ان کی اتنے برسوں تک کامیابی سے حفاظت کا سہرا بھی پاکستان کے سیکورٹی اداروں کو جاتا ہے اور ان کو اس کا کریڈیٹ دیا جانا چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب بلا شبہ جو کام پاکستان کے لیے کر گئے ہیں اس نے بلا شبہ کروڑوں پاکستانیوں بلکہ کروڑوں بھارتیوں کی جانوں کو بھی محفوظ بنایا ہے۔اور ان کی پاکستان کے لیے خدمات اس وقت تک بھلائی نہیں جاسکتی۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭