امریکا نے 20 ماہ کی پابندی کے بعد بین الاقوامی سرحدیں کھول دیں

امریکا میں سفری پابندیاں ختم ہونے کے باعث سرحد پار سے ہوائی اور زمینی سفر کے ذریعے بڑی تعداد میں غیر ملکیوں کی آمد متوقع ہے، امریکا میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے نمٹنے کے لیے پہلی بار 2020 میں دنیا بھر سے سفر کرنے والوں کے ملک آنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

 رپورٹ کے مطابق یونائیٹڈ ایئرلائنز کو توقع ہے کہ گزشتہ ہفتے کے 20 ہزار مسافروں کے مقابلے رواں ہفتے دگنی تعداد میں دنیا بھر سے مسافر امریکا پہنچیں گے۔

ڈیلٹا ایئرلائنز کے چیف ایگزیکٹو ایڈ بسٹین نے مسافروں کو خبردار کیا ہے کہ انہیں ابتدا میں طویل قطاروں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ مرحلہ پہلے تھوڑا مشکل ہونے جارہا ہے، میں آپ کو یقینی طور پر بتا سکتا ہوں کہ یہاں بدقسمتی سے قطاریں ہوں گی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس مسئلے کو حل کریں گے‘۔

کوہلی کو بھارتی ٹیم کی آئندہ سیریز میں شامل نہ کیے جانے کا امکان

ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے گروپ میچز سے باہر ہونے والی بھارتی ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی ایونٹ میں ٹیم کی خراب کارکردگی کے باعث مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔

بھارتی کپتان ویرات کوہلی ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی قیادت سے علیحدگی کا اعلان کرچکے ہیں تاہم  اب امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ کوہلی کی ون ڈے ٹیم کی کپتانی کی ذمہ داریاں بھی جلد ہی روہت شرما کو دیے جانے کا امکان ہے۔

بھارتی میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بی سی سی آئی کے سینئر ممبران کا خیال ہے کہ آئندہ سیریز میں ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے انٹرنیشنل میچز کے لیے علیحدہ کپتانوں کا انتخاب نہیں کیا جائے گا۔

بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بی سی سی آئی کی کل ہونے والی  میٹنگ میں نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کے لیے بھارتی ٹیم کے کپتان کا اعلان کیا جائے گا اور بورڈ ممبران کی جانب سے روہت شرما کو نیا کپتان مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔

یاد رہے کہ بھارت اور نیوزی لینڈ کے درمیان ٹی ٹوئنٹی سیریز 17 نومبر سے شروع ہو گی جس میں ویرات کوہلی کے علاوہ بھمرا، کے ایل راہول، محمد شامی، ایشون، ریشب پنت اور جڈیجا کو آرام دینے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

بھارتی ٹیم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا آخری میچ  آج نمیبیا کے خلاف آج کھیلے گی۔

چھوٹا راجن نے داﺅد ابراہیم کے میچ فکسنگ کے 5 سو ملین ڈبو دئیے۔ رپورٹ: ستار خان

میچ فکسنگ کے بارے تحقیقات کرنے والوں کی دنیا میں ایک بات مشہور ہے کہ اول تو میچ فکسنگ کو پکے ثبوتوں کے ساتھ پکڑنا بہت ہی مشکل کام ہے اور اگر کوئی مضبوط کیس ہاتھ میں لگ جائے تو ثبوتوں کو جوڑتے ایک عرصہ لگ جاتا ہے۔ کوئی مضبوط ثبوت ہوتا ہے تو اگلا ثبوت کمزور۔ پھر اگر ایسی بات بھی نہ ہو اور میچ فکسنگ کا مضبوط ترین کیس ہتھے چڑھ جائے تو بدقسمتی اس صورت میں سامنے آتی ہے۔ جب کیس کا مرکزی ملزم تو رہنا والا اسی ملک کا ہو جہاں کیس پکڑا گیا ہے لیکن شہری وہ کسی اور ملک کا ہو۔ اس صورت میں مرکزی ملزم کو Extradition کے ذریعے ملک میں لاتے سالہا سال بہت جاتے ہیں۔ یہی ہوا انڈیا کے ساتھ میچ فکسنگ کی تاریخ کا سب سے بڑا کیس سن دو ہزار میں انڈیا میں پکڑا جاتا ہے۔ کرکٹ کی دنیا میں ایک تہلکا مچ جاتا ہے۔ کرکٹ کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کا نام سامنے آ جاتا ہے جس میں ساﺅتھ افریقہ کے سابقہ کپتان ہنسی کرونی اپنا جرم مانتے ہوئے کرکٹ کی دنیا باہر ہوگئے۔ پھر ایک فضائی حادثے میں مارے گئے لیکن اس سب سے زیادہ ثبوتوں کے ساتھ پکڑا جانے والا کیس ادھورا اس لیے رہا کہ کیس کا مرکزی ملزم سنجیو چاولہ برطانیہ کا رہنے والا ہے اور سنجیو چاولہ ہی وہ بک میکر تھا جو اس کیس میں پیسوں کی تقسیم کیا کرتا تھا۔ انڈیا کی پولیس اور دیگر سرکاری ادارے سنجیو چاولہ کو انڈیا لانے کیلئے سر توڑ کوششیں کرتے رہے اور بالآخر بیس سال بعد انڈیا میں سنجیو چاولہ کو لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ انڈیا اور برطانیہ کے درمیان انیس سو بانوے میں Etradition Treaty ہوا تھا اور سنجیو چاولہ اس معاہدے کے تحت لایا جانے والا پہلا مجرم ہے۔ پہلے سنجیو چاولہ کو انڈیا لانے کیلئے برطانیہ کے Westminnter Magrshale Count نے کئی سال لگا دیئے۔ پھر برطانیہ کی ہائیکورٹ میں کافی سال یہ سلسلہ چلتا رہا۔ پھر یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس میں یہ کیس پھنسا رہا۔ اس دوران انڈیا کی حکومت نے برطانیہ کی حکومت اور عدالتوں کو تین مرتبہ Souerign Assmence دی کہ ملزم کو انڈیا کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوگی۔ برطانیہ کی عدالتیں انڈیا کی حکومت سے تہاڑ جیل انڈیا کے حوالے سے گارنٹیاں لیتی رہیں۔ سنجیو چاولہ کے انڈیا آتے ہی تہاڑ جیل میں ڈالنا تھا۔ برطانوی عدالتیں تہاڑ جیل کے بارے میں بار بار اپنی تشویش کا اظہار کرتی رہیں کہ تہاڑ جیل میں قیدی تہاڑ جیل کی Capacity سے زیادہ ہیں۔ تہاڑ جیل میں میڈیکل کی سہولتیں بہت کم ہیں۔ تہاڑ جیل میں سنجیو چاولہ کی زندگی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ تہاڑ جیل کے قیدی ہی سنجیو چاولہ کی جان لے سکتے ہیں۔ بالآخر بیس سال کا عرصہ گزرنے کے بعد انڈیا کی حکومت نے برطانوی عدالتوں کو یقین دلایا کہ سنجیو چاولہ تہاڑ جیل میں خاص خاص سیلوں میں بحفاظت رہے گا۔ کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوگی لیکن جب اس طرح کی یقین دہانیوں اور تین تین مرتبہ Souerign Assmence دینے کے بعد اور بیس سال کا عرصہ گزرنے کے بعد جب سنجیو چاولہ کو انڈیا واپس لایا گیا تو سنجیو چاولہ نے میچ فکسنگ پر ایسا بیان دیا جو بڑا مضحکہ خیز بھی ہے اور حقیقت بھی لگتی ہے۔ سنجیو چاولہ کا بیان تھا کہ وہ کون سا ایسا کرکٹ کا میچ ہے جو فکس نہیں ہوتا۔ چاولہ نے کہا کہ ہر کرکٹ میچ ایک فلم کی طرح ہوتا ہے۔ اسکرپٹ بھی لکھا ہوتا ہے اور ڈائریکٹر بھی ہوتا ہے۔ اب یہ تحقیقاتی اداروں پر منحصر ہے کہ وہ کہاں تک جا سکتے ہیں۔ کہاں تک ثبوت حاصل کر سکتے ہیں تو یہ تھا میچ فکسنگ کے اس ملزم کا بیان جس کو Extradition کے تحت انڈیا لاتے لاتے بیس سال گزر گئے۔ اس کے علاوہ چاولہ نے اپنے بیان کو مکمل کرتے ہوئے یہ کہا کہ اس معاملے پر زبان کھولنے سے اس کی جان بھی جا سکتی ہے۔ تہاڑ جیل کو چاہے جتنا بھی محفوظ کردیا جائے۔ اس کے باوجود اس کی جان جا سکتی ہے۔ طاقتور ترین لوگ اسے تہاڑ جیل کے قیدیوں کے ذریعے بھی مروا سکتے ہیں۔ انڈر ورلڈ دنیا کے بادشاہ داﺅد ابراہیم کے ایک قریبی اور مہنگے ساتھی کا دبئی میں انڈیا کلب میں قتل ہو جاتا ہے۔ داﺅد ابراہیم کا یہ مہنگا ترین ساتھی شہزاد سیفی تھا جو میچ فکسنگ کا بادشاہ تھا۔ اس نے کرکٹ کے ورلڈ کپ کے شروع ہونے سے پہلے ہی جانے کتنے میچ فکس کیے ہوئے تھے۔ کس کس کھلاڑی آفشلر کس کس Magagment کے بندے کے ساتھ کس کیس میچ کیلئے کن کن شرائط کے ساتھ معاملات طے کیے ہوئے تھے۔ اس کا کسی کو بھی نہیں پتا تھا حتیٰ کہ داﺅد ابراہیم کو بھی کیونکہ شراد سیٹھی کا دماغ ایک کمپیوٹر سے کم نہیں تھا جب شہزاد سیفی کا قتل ہوا کہ انڈر ورلڈ کی دنیا میں داﺅد ابراہیم کے حریف چھوٹا راجن نے انڈر ورلڈ میں یہ بات پھیلا دی تھی کہ اس شہزاد سیفی کا قتل کروایا ہے اور شہزاد سیفی کے قتل سے داﺅد ابراہیم کو 500ملین پاﺅنڈ یعنی اربوں روپوں کا نقصان ہوا ہے۔ اب داﺅد ابراہیم بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا کیونکہ شہزاد سیفی نے کوئی نوٹ بک بھی نہیں رکھی ہوئی تھی جس میں میچ فکسنگ کے حوالے سے وہ باتیں تحریر ہوتی کہ کس کیس میچ میں کس کس نے کیا کرنا ہے۔ دبئی پولیس نے چار دن ہی شارد سیٹھی کے چار قاتلوں کو گرفتار کرلیا۔ دبئی پولیس کے سربراہ منیجر جنرل ڈھائی قلقان Tanrim نے بتایا کہ یہ قتل بڑی پلاننگ کے ساتھ بڑے ثبوت کے ساتھ اور بہت وقت گزرنے کے بعد anauge کیا گیا کیونکہ قاتل شہزاد سیفی کی ایک ایک موومنٹ پر نظر رکھ رہے تھے۔ دبئی پولیس نے یہ بھی کہا کہ قاتلوں کا سرا انڈر ورلڈ کے بڑے بادشاہ چھوٹا راجن سے ملتے ہیں۔

بھارتی ریاست چھتیس گڑھ میں ساتھی اہلکار کی فائرنگ سے 4 بھارتی فوجی ہلاک 10 زخمی

تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست چھتیس گڑھ میں یہ واقع صبح 3:30 کے قریب سی پی آر ایف کی پچاسویں بٹالین میں پیش آیا۔ جہاں ایک اہلکار نے فائرنگ کر کر 4 ساتھی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا جبکہ فائرنگ کے اس واقعے میں 10 اہلکار زخمی بھی ہیں، بھارتی میڈیا کے مطابق واقعے کی تحقیقات جاری ہیں اور مزید ہلاکتوں کا بھی خدشہ ہے

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے 4 ہزار ایڈہاک ڈاکٹرز کی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع دیدی

لاہور (خصوصی رپورٹر) وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدارایڈہاک ڈاکٹروںکےلئے مسیحا بن گئے-وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی خصوصی ہدایت پر ایڈہاک ڈاکٹروں کو ملازمتوں میں بڑا ریلیف مل گیا-وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے ایڈہاک ڈاکٹروں کی ملازمتوں میں ایک برس کےلئے توسیع کی منظوری دے دی ہے-وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے اس اقدام سے 4ہزار سے زائد ایڈہاک ڈاکٹرز کو حقیقی معنوں میں ریلیف ملے گا-وزیراعلیٰ عثمان بزدارنے ایڈہاک ڈاکٹروں کو تنخواہوں کی ادائیگی بروقت یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ایڈ ہاک ڈاکٹروں کی تنخواہوں کی ادائیگی میں حائل رکاوٹوں کودور کرنے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں-انہوںنے کہاکہ ایڈہاک ڈاکٹروں کی ری اپوائنٹمنٹ او ردیگر ایشوز کو فوری حل کیا جائے گا اورایڈہاک ڈاکٹروںکے مسائل کے حل کےلئے متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کردی ہیں-ایڈہاک ڈاکٹروں کوآئندہ ری اپوائنٹمنٹ کے حوالے سے مسائل کاسامنانہیں کرناپڑے گا-انہوںنے کہا کہ دکھی انسانیت کی خدمت کرنے والے ڈاکٹرزکے مسائل کا پورا احساس ہے-تحریک انصاف کی حکومت آئندہ بھی ڈاکٹرز کے مسائل کے حل کے لئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھے گی-

تحریک لبیک پر پابندی ختم، کالعدم جماعتوں کی فہرست سے خارج، وزارت داخلہ کی منظوری

اسلام آباد، لاہور (نامہ نگار خصوصی، خصوصی رپورٹر) وفاقی کابینہ نے تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکالنے کی منظوری دے دی۔ اطلاعات کے مطابق وفاقی وزارت داخلہ نے کابینہ کی منظوری کے بعد تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر عائد پابندی ختم کرنے فیصلہ کرلیا۔ وفاقی کابینہ کی جانب سے دی جانے والی منظوری کی سمری وزارتِ داخلہ کو موصول ہوچکی، جس کی روشنی میں وزارت داخلہ نے ٹی ایل پی کو کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکالنے کا نوٹی فکیشن جاری کردیا، جس کے بعد ٹی ایل پی پر عائد سیاسی پابندیاں ختم ہوگیں۔ واضح رہے کہ دو روز قبل وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ کالعدم لکھنے کی سفارش ابتدائی طور پر منظور کرکے کالعدم ختم کرانے سے متعلق وفاقی کابینہ کی منظوری لینے کی ہدایت کی تھی۔

پاکستان کی کارکردگی بہتر، مہنگائی کرونا لاک ڈاﺅن سے ہوئی: عمران خان

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان ماشا اللہ نسبتاً بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی ٹویٹ میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافے نے دنیا کے بیشتر ممالک کو پریشان کرکھا ہے، ان ممالک کو کووڈ کے دوران لاک ڈان نے بھی بری طرح متاثر کیا ہے، لیکن پاکستان ماشا اللہ نسبتا بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کرونا کے باعث دنیا کے بیشتر ممالک میں اشیا خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا مگر پاکستان میں صورت حال بہتر ہے۔ تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کرونا کے باعث لاک ڈان سے عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیراعظم نے لکھا کہ عالمی سطح پر مہنگائی نے دنیا کےبیشتر ممالک کو منفی طور متاثر کیا ہے، مہنگائی کرونا کےباعث لاک ڈان کی وجہ سے ہوئی، دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں صورتحال بہتر ہے۔ گذشتہ روز اٹک میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ آج سب سے سستا پٹرول اور ڈیزل پاکستان میں ہے ، بھارت میں پیٹرول 250 روپے بنگلادیش میں 200 روپے کا ہے، یہ مشکل وقت ہے، ہم نے پوری کوشش کی اپنے لوگوں کو مہنگائی سے بچائیں۔

چینی 175، آٹا80 روپے کلو، مہنگائی کیخلاف مظاہرے

لاہور‘سکھر‘کراچی‘اسلام آباد(این این آئی)بڑھتی ہوئی مہنگائی اشیاءخوردنوش کی قیمتوں کے خلاف سکھر کی عوام سڑکوں پر نکل آئی ، سکھر

ڈویلپمنٹ الائنس کے زیر اہتمام گھنٹہ گھر چوک پر احتجاجی مظاہرہ ، ٹائر نذر آتش کرکے عمران حکومت کے خلاف نعریبازی ، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث غریب کیلئے جینا عذاب ہو چکا ہے، حاجی جاوید میمن و دیگر مظاہرین کا شرکاءسے خطاب تفصیلات کے مطابق ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ، بے روزگاری ، پیٹرولیم مصنوعات سمیت ادویات ، بجلی،گیس ، چینی ، اشیاءخوردنوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے خلاف ملک کے دیگر شہروں کی طرح سکھر کی عوام بھی سڑکوں پر نکل آئی ہے ، سکھر کے مصروف ترین کاروباری و تجارتی مرکز گھنٹہ گھر چوک پر سکھر ڈویلپمنٹ الائنس کے زیر اہتمام عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف ٹائر نذرآتش کرکے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور موجودہ حکومت کے خلاف فلگ شگاف نعرے باز کی کی گئی ۔بچوں پر مشتمل سماجی تنظیم بچہ یونین نیو گوٹھ سکھر کی جانب سے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی بے روزگاری ،پٹرولیم مصنوعات ،اشیاءخوردنوش سمیت ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کے خلاف نیو گوٹھ میں بچوں کی کثیر تعداد نے ہاتھوں میں سبزیاں اٹھا کر زیر قیادت صدر مسعود بندھانی کے احتجاجی مظاہرہ کیا اور نعرے بازی کی۔شہر قائد میں سبزیوں کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے، موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی سبزیوں کی بھر مار کے باوجود شہر میں بہت کم سبزیاں 100 روپے یا اس سے کم قیمت پر دستیاب ہیں۔مارکیٹ سروے کے مطابق ٹماٹر کی ایک بار پھر قلت ہے اور ٹماٹر 200 سے 240 روپے کلو تک فروخت کیا جارہا ہے، سیزن کے باوجود گاجریں 80 روپے کلو، مولی 80 روپے کلو فروخت کی جارہی ہے جبکہ مٹر 300 روپے کلو میں دستیاب ہے۔جماعت اسلامی لاہور کے زیر اہتمام حکومتی نااہلی، پٹرول، ڈیزل، بجلی اور دیگر روز مرہ استعمال ہونے والی اشیاءکی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کیخلاف لاہورکی30 اہم اشاہرائیں منصورہ ملتان روڈ، شاہدرہ، بادمی باغ، اندورن لاہور، شاد باغ، مغلپورہ، شالیمار، داروغہ والا، مناواں، غازی آباد، صدر والٹن روڈ، بھٹہ چوک، برکی، بلال گنج، کاہنہ، اسلام پورہ، سمن آباد سبزہ زار، میاں میر، گلبر گ، ماڈل ٹا¶ن، اقبال ٹاﺅن، کوٹ لکھپت، ٹا¶ن شپ، نشتر کانی، گجومتہ، واپڈاٹا¶ن، ہنجرول، بحریہ ٹا¶ن، رائے ونڈ میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔

علامہ محمد اقبال……میں اور آپ

شفقت اللہ مشتاق
میں نے بطور طالبعلم اردو کے تقریباً سارے شاعر پڑھے ہیں اور جو میرے ہمعصر ہیں ان کو تو سنا بھی ہے اور ان سب کی شاعری کو سمجھنے کی کوشش بھی کی ہے۔ کوشش میں شاید پوری طرح تو میں کامیاب نہیں ہو سکا لیکن یہ ہے کہ مذکورہ مطالعہ کے بعد میرا پختہ خیال ہے کہ اردو کی دنیا میں مرزا اسد اللہ خاں غالب کے بعد علمی لحاظ سے سب سے مستندشاعر علامہ محمد اقبال ہیں۔ شاید میری یہ بات دیگر شاعر دل کو لگا جائیں گے کیونکہ شاعر حضرات بڑے ہی حساس ہوتے ہیں۔خیر یہ دل پر لگائیں یا دل کو لگائیں ہاں البتہ اگر یہ دلجمعی سے علامہ کی شاعری کا مطالعہ کر لیں تو مذکورہ بات ان کے بھی دل کو لگے گی۔ علامہ محمد اقبال کے ہاں قرآن مجید کا گہرا مطالعہ تھا۔ حضور اکرمؐ سے ان کا قلبی تعلق بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ادیان کے تقابل کا بھی وہ گہرا شعور رکھتے تھے۔ مغرب کو انہوں نے نہ صرف چل پھر کر دیکھا بلکہ پوری طرح آنکھیں کھول کر دیکھا ہوا تھا۔ ان کی مسلمانوں اور دیگرقوموں کے ماضی اورحال پر ہی نہ صرف نظر تھی بلکہ وہ مستقبل کے حالات وواقعات کی جھلک دکھانے کی بھی صلاحیت رکھتے تھے۔ انہوں نے اردو شاعری کو ایک نئی زندگی بخشی ہے۔ ویسے تو وہ بھی وجود زن کو ہی تصویر کائنات سمجھتے تھے لیکن عملی طور پرانہوں نے پہلی دفعہ غزل کے دامن کو صنف نازک کے زلف ورخسار سے پاک کیا تھا۔ علامہ محمد اقبال کی شاعری ہمیں جدوجہد سے تسخیر کائنات کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کا درس دیتی ہے۔وہ ہمیں حرم کی پاسبانی کے لئے تاب خاک کاشغر تک ایک کرنا چاہتے ہیں۔
میں ایک سے زیادہ دفعہ سوچ چکا ہوں کہ آج اگر اقبال زندہ ہوتے تو ان کی شاعری کا کیا رنگ ہوتا۔ کیا وہ یہ سارا کچھ دیکھ سکتے. پاکستان میں امیر طبقہ قربانی دینے کے لئے ہر گزہرگز تیار نہیں بلکہ یہ طبقہ اپنے غریبوں کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتا ہے۔ سیاستدان جمہور کی ایسی حکومت چاہتے ہیں جس میں ان کی مکمل سکہ شاہی ہو بلکہ وہ ایسے شاہ بننا چاہتے ہیں جن کی جیب میں ہی سارے سکے ہوں اور ان کے مقابلے میں سارے کھوٹے سکے ہوں تاکہ ان کا سلسلہ اقتدار نسل درنسل دراز ہوتا رہے اور غریب عوام ان کی عمر درازی کی دعائیں مانگیں اوران سے کچھ نہ مانگیں باقی ٹوٹ گریں گی زنجیریں سوچنے کی ضرورت نہیں۔افسر شاہی کی شاہیاں سلامت رہیں اور انہیں زیادہ دیر بند کمروں میں رہنا چاہئے ورنہ سٹیٹ کی گرفت کمزور ہونے کاشدید خطرہ ہے۔ ان کو عوام کی ہوا نہ لگ جائے ویسے بھی تو پانچ سال بعد اس نے عوام میں جا کر وی کا نشان بنانا ہے اور وی کا نشان ویکٹری ہے۔ تالیاں بجیں گی تقریریں ہوں مہنگائی کے خلاف دھرنا ہوگا اور دھرنے پہ دھرنا اور بالآخر عوام کو دھر لیا جائیگا۔ اس ساری صورتحال پر علمائے کرام کرم فرمائیں گے اور پھر کافروں سے انتقام لینے کے لئے اپنے ہی ملک کی بے شمار گاڑیاں نذر آتش کردی جائیں گی۔ چند اپنے محافظ مار دیئے جائیگے اور بے شمار زخمی کر دیئے جائینگے۔ سڑکیں خندقوں میں تبدیل ہو جائینگی اور ابھی تک اگر کافر زندہ ہوا تو سارے راستے بند کردیئے جائینگے تاکہ مذاکرات کے راستے کھولے جا سکیں۔ ملک پوری طرح قانون کے مطابق چلایا جائیگا اور قانون کی تشریح اپنی اپنی۔ اگر کسی نے قانون ہاتھ میں لیا تو اس کے ساتھ ہاتھ ملا لیا جائیگا. یوں ہر کوئی ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ کر جائیگا. ہاں البتہ جانے والے کو واپس لانا جان جوکھوں کا کام ہے۔ابھی تو شاعر مشرق کو ایران اور سعودی عرب کی آنکھ مچولی بھی دیکھنی ہے۔انڈیا اور اسرائیل کی بدمعاشیوں کی خوفناک داستانیں پڑھنے کو ملیں گی۔امریکہ کی اجارہ داریاں اور تیسری دنیا کے ممالک کی وفا شعاریاں اور اس ساری داستان کی پھل جھڑیاں۔چین کا ساری دنیا میں گھس کر امریکہ اور دیگر امن کے ٹھیکیداروں کی رات کی نیند حرام کردینا اور پھر حرام ہے کہ مذکورہ ساری صورتحال پر عصر حاضر کے شاعر کے کان پر جوں تک رینگی ہو سوائے کہ چھوٹے موٹے وین اور ان کی آواز کا والیم بالکل سلو تاکہ اس ساری صورتحال سے درد دل رکھنے والے جاگ نہ جائیں اور امن عامہ اور امن عالم خطرے میں نہ پڑ جائے۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہی لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائیگی
اس وقت محو حیرت ہونے والا اقبال آج اگر زندہ ہوتا تو کیا وہ سکتے کی کیفیت میں چلا جاتا یا گوشہ نشینی اختیار کر کے دنیا کو اس کی حالت پر چھوڑ دیتا. یہ ایک اہم سوال ہے جس پر گہری سوچ بچار کی ضرورت ہے. ہم نے ویسے تو ہر بات پر چپ سادھ لی،کاش ہم علامہ صاحب کے بارے میں ہی سوچنا شروع کردیں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہو جائیگا کہ وہ خاموش رہنے والے انسان نہیں تھے۔ وہ ریکنسٹرکشن آف امہ کے خواہش مند تھے۔وہ مسلمانوں کو سوچ بچار کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ وہ فکر اور سوچ کی شمعیں جلانے کا پیغام دیتے ہیں۔ وہ وحدت مسلم کی بات کرتے ہیں اور اسی طرح وہ آج کی یوتھ کو مرد مومن کی طاقت سے لیس کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی شاعری آفاقی ہے۔ کاش علامہ محمد اقبال کی تعلیمات کو ہم شعوری طور پر جان جاتے تو امت مسلمہ کے حالات بالکل مختلف ہوتے اور ہم بھی ایسے نہ ہوتے جیسے نظر آرہے ہیں۔
(کالم نگار سیکرٹری ٹیکسز ریونیو بورڈ پنجاب ہیں)
٭……٭……٭

عمران کی وجہ شہرت امانت و صداقت

اسرار ایوب
عیسائیوں کا مذہبی عقیدہ یہ تھا کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے جبکہ دوبین بنانے والے سائنسدان گلیلیو کا نظریہ یہ تھاکہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔اس ”جرم“ کی سزا یہ ملی کہ انہیں عدالت کے روبرو اپنے نظریے سے سبکدوش ہونے کا حکم دیا گیا۔کہتے ہیں کہ عظیم اطالوی سائنسدان نے یہ تو کہہ دیا کہ میں اقرار کرتا ہوں کہ زمین سورج کے گرد نہیں گھومتی لیکن اسکے ساتھ ہی زمین کی طرف دیکھا اور نرمی سے سرگوشی کی کہ”یہ تو اب بھی گھوم رہی ہے“۔
گلیلیو کا واقعہ کالم کے آغاز میں کیوں لکھا اِس کا اندازہ آپ کو کالم کے اختتام پرخودبخودہو جائے گا، فی الوقت یہ جان لیجئے کہ ہم ایسے تجزیہ کاروں سے اکثر لوگ ناراض ہی رہتے ہیں، ہرحکومت سمجھتی ہے کہ ہم اپوزیشن کے سپورٹر ہیں جبکہ ہر اپوزیشن کے خیال میں ہمارا تعلق حکومتی کیمپ سے ہوتا ہے۔پاکستان تحریکِ انصاف ہی کی مثال لے لیں، اس جماعت کی حمایت میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومتوں کے دوران اتنے کالم لکھے کہ انہیں جمع کرنے بیٹھا تو پوری دو کتابیں بن گئیں، ایک تو مرتب بھی کر چکا ہوں جس کانام ”نئے پاکستان کا افسانہ“ رکھ دیا ہے۔ اس کتاب کا دیباچہ ایک ویڈیو کی شکل میں سوشل میڈیا پر جاری کیا تو تحریکِ انصاف کے دوست بھی ناراض ہو گئے اور بڑا سخت احتجاج کیا۔ کہنے لگے کہ آپ نے بھی مایوسی پھیلانی شروع کر دی ہے؟اور پھر اپنے موقف کی تائید میں اس قسم کے مشہور و معروف دلائل دینے شروع کر دیے کہ 70برس کا گند تین برس میں کیسے صاف کیا جا سکتا ہے؟جب تمام کا تمام معاشرہ کرپٹ ہو تو اکیلا حکمران کیا کر سکتا ہے؟مہنگائی صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں ہو رہی ہے، عمران خان ساری دنیا کی معیشت کو کیسے ٹھیک کرے؟ وغیرہ وغیرہ۔
تو میں نے سوچا کہ کتاب چھپنے کے بعد کہیں کوئی پیشی ہی نہ بھگتنی پڑ جائے تو بہتر یہی ہے کہ اس سے پہلے ہی مایوسی پھیلانے والے تجزیوں اور کالموں سے دستبردار ہو جاؤں اور کسی لگی لپٹی کے بغیر اس بات کا اعلان سرِعام کر دوں کہ تحریکِ انصاف کی حکومت کے پہلے تین سال مثالی رہے۔ مہنگائی اول تو ہوئی ہی نہیں اوراگر تھوڑی بہت ہوئی بھی ہے تو اس کی وجہ وہ لوٹی ہوئی دولت ہے جو میاں صاحب اور زرداری صاحب نے تاحال واپس نہیں کی، اس میں خان صاحب کا کیا قصور؟ڈالر کی قیمت اوپن مارکیٹ میں 175روپئے نہیں ہوئی بلکہ اب بھی اتنی ہی ہے جتنی پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں تھی جب جنرل صاحب نے وزارتِ عظمی کا قلمدان پلیٹ میں رکھ کر عمران خان کو پیش کیا تھا جسے لینے سے خان صاحب نے انکار کر دیا تھا۔پٹرول کی قیمت میں ہوش ربا اضافے کی خبریں بھی سراسر بے بنیاد ہیں جو ”ریاستِ مدینہ“کو کمزور کرنے کے لئے اسلام دشمن طاقتوں کی جانب سے ایک بین الاقوامی سازش کے تحت پھیلائی جا رہی ہیں۔
”ریاست مدینہ“سے یاد آیا کہ جو چیز عمران خان کی وجہ ء شہرت بنی وہ ”یو ٹرن“نہیں بلکہ ”صداقت اور امانت“ سے انکی گہری وابستگی ہے۔ کپتان کو ”کسی“ نے بتایا ہی نہیں کہ قرآنِ کریم حکمرانوں کو واضح طور پر کیا احکام دیتا ہے ورنہ وہ دوسروں کو”صراطِ مستقیم“پر چلنے کی تلقین کرنے سے پہلے کیا خود اس کی پیروی نہ کرتے؟ جاوید احمد غامدی نے اپنے ایک پروگرام میں کہا تو سہی کہ قرآنِ کریم حکمرانوں کو بالخصوص چار احکام دیتا ہے، پہلایہ کہ وہ حکومتی فیصلے باہمی مشاورت سے کریں، دوسرا یہ کہ قانون کی حتمی بالادستی قائم کریں، تیسرا یہ کہ میرٹ کی پاسداری کریں، اور چوتھا یہ کہ اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کریں، لیکن اگر ”کوئی“کپتان تک یہ قرآنی احکام پہنچنے ہی نہ دے تو وہ کیا کریں؟
یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ 70برس کا گند تین برس میں صاف نہیں کیا جا سکتا بلکہ 70برس میں ہی کیا جا سکتا ہے وہ بھی اس صورت میں کہ اس دوران کسی دوسرے کی نہیں بلکہ اپنی حکومت رہے۔ امن و امان کی صورتحال بھی انتہائی تسلی بخش ہے، یہ جو کالعدم جماعتوں کی حالیہ کاروائی ہے یا اس سے ملتے جلتے دیگر واقعات ہیں تو کون نہیں جانتا کہ یہ سب حکومت کی اجازت کے بغیر ہو رہا ہے ورنہ حکومت تو ہمیشہ سے کہتی آئی ہے کہ ملک کے امن و امان سے کھیلنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جاسکتی؟
اب آئیے ان دھواں دار تقریروں کی طرف جو عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے پورے 22برس کرتے رہے جن میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک میں اگر یہ سب کچھ ہورہا ہو جو آجکل ہورہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت کرپٹ ہے تو یہ سب کچھ تو ان سے ان کے دوست کہوایا کرتے تھے ورنہ پاکستان میں ریاست مدینہ قائم کرنے والا انسان جھوٹ کیسے بول سکتا ہے جبکہ وہ ورلڈ کپ بھی جتوا چکا ہو؟
پی ٹی آئی کی مثالی کارکردگی پر اور بھی بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن بات کو مزید طول دیے بغیر میں پورے ہوش و حواس کے ساتھ یہ اقرار کرتا ہوں کہ پاکستان کوایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں جس سے مایوسی پھیلنے کا کوئی جواز پیدا ہوتا ہو،مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی باک نہیں کہ پاکستان جو ایک بہت بڑی فوجی طاقت ہے،معاشی سپر پاور بھی بننے والا ہے لیکن کیا کروں کہ اس اقبالِ جرم کے بعد زمین کی طرف دیکھ کر نرمی سے یہ سرگوشی کیے بغیر بھی نہیں رہ سکتا کہ ”زمین تو اب بھی گھوم رہی ہے“۔
(کالم نگار ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنسلٹنٹ
اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں)
٭……٭……٭