تازہ تر ین

علامہ محمد اقبال……میں اور آپ

شفقت اللہ مشتاق
میں نے بطور طالبعلم اردو کے تقریباً سارے شاعر پڑھے ہیں اور جو میرے ہمعصر ہیں ان کو تو سنا بھی ہے اور ان سب کی شاعری کو سمجھنے کی کوشش بھی کی ہے۔ کوشش میں شاید پوری طرح تو میں کامیاب نہیں ہو سکا لیکن یہ ہے کہ مذکورہ مطالعہ کے بعد میرا پختہ خیال ہے کہ اردو کی دنیا میں مرزا اسد اللہ خاں غالب کے بعد علمی لحاظ سے سب سے مستندشاعر علامہ محمد اقبال ہیں۔ شاید میری یہ بات دیگر شاعر دل کو لگا جائیں گے کیونکہ شاعر حضرات بڑے ہی حساس ہوتے ہیں۔خیر یہ دل پر لگائیں یا دل کو لگائیں ہاں البتہ اگر یہ دلجمعی سے علامہ کی شاعری کا مطالعہ کر لیں تو مذکورہ بات ان کے بھی دل کو لگے گی۔ علامہ محمد اقبال کے ہاں قرآن مجید کا گہرا مطالعہ تھا۔ حضور اکرمؐ سے ان کا قلبی تعلق بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ادیان کے تقابل کا بھی وہ گہرا شعور رکھتے تھے۔ مغرب کو انہوں نے نہ صرف چل پھر کر دیکھا بلکہ پوری طرح آنکھیں کھول کر دیکھا ہوا تھا۔ ان کی مسلمانوں اور دیگرقوموں کے ماضی اورحال پر ہی نہ صرف نظر تھی بلکہ وہ مستقبل کے حالات وواقعات کی جھلک دکھانے کی بھی صلاحیت رکھتے تھے۔ انہوں نے اردو شاعری کو ایک نئی زندگی بخشی ہے۔ ویسے تو وہ بھی وجود زن کو ہی تصویر کائنات سمجھتے تھے لیکن عملی طور پرانہوں نے پہلی دفعہ غزل کے دامن کو صنف نازک کے زلف ورخسار سے پاک کیا تھا۔ علامہ محمد اقبال کی شاعری ہمیں جدوجہد سے تسخیر کائنات کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کا درس دیتی ہے۔وہ ہمیں حرم کی پاسبانی کے لئے تاب خاک کاشغر تک ایک کرنا چاہتے ہیں۔
میں ایک سے زیادہ دفعہ سوچ چکا ہوں کہ آج اگر اقبال زندہ ہوتے تو ان کی شاعری کا کیا رنگ ہوتا۔ کیا وہ یہ سارا کچھ دیکھ سکتے. پاکستان میں امیر طبقہ قربانی دینے کے لئے ہر گزہرگز تیار نہیں بلکہ یہ طبقہ اپنے غریبوں کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتا ہے۔ سیاستدان جمہور کی ایسی حکومت چاہتے ہیں جس میں ان کی مکمل سکہ شاہی ہو بلکہ وہ ایسے شاہ بننا چاہتے ہیں جن کی جیب میں ہی سارے سکے ہوں اور ان کے مقابلے میں سارے کھوٹے سکے ہوں تاکہ ان کا سلسلہ اقتدار نسل درنسل دراز ہوتا رہے اور غریب عوام ان کی عمر درازی کی دعائیں مانگیں اوران سے کچھ نہ مانگیں باقی ٹوٹ گریں گی زنجیریں سوچنے کی ضرورت نہیں۔افسر شاہی کی شاہیاں سلامت رہیں اور انہیں زیادہ دیر بند کمروں میں رہنا چاہئے ورنہ سٹیٹ کی گرفت کمزور ہونے کاشدید خطرہ ہے۔ ان کو عوام کی ہوا نہ لگ جائے ویسے بھی تو پانچ سال بعد اس نے عوام میں جا کر وی کا نشان بنانا ہے اور وی کا نشان ویکٹری ہے۔ تالیاں بجیں گی تقریریں ہوں مہنگائی کے خلاف دھرنا ہوگا اور دھرنے پہ دھرنا اور بالآخر عوام کو دھر لیا جائیگا۔ اس ساری صورتحال پر علمائے کرام کرم فرمائیں گے اور پھر کافروں سے انتقام لینے کے لئے اپنے ہی ملک کی بے شمار گاڑیاں نذر آتش کردی جائیں گی۔ چند اپنے محافظ مار دیئے جائیگے اور بے شمار زخمی کر دیئے جائینگے۔ سڑکیں خندقوں میں تبدیل ہو جائینگی اور ابھی تک اگر کافر زندہ ہوا تو سارے راستے بند کردیئے جائینگے تاکہ مذاکرات کے راستے کھولے جا سکیں۔ ملک پوری طرح قانون کے مطابق چلایا جائیگا اور قانون کی تشریح اپنی اپنی۔ اگر کسی نے قانون ہاتھ میں لیا تو اس کے ساتھ ہاتھ ملا لیا جائیگا. یوں ہر کوئی ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ کر جائیگا. ہاں البتہ جانے والے کو واپس لانا جان جوکھوں کا کام ہے۔ابھی تو شاعر مشرق کو ایران اور سعودی عرب کی آنکھ مچولی بھی دیکھنی ہے۔انڈیا اور اسرائیل کی بدمعاشیوں کی خوفناک داستانیں پڑھنے کو ملیں گی۔امریکہ کی اجارہ داریاں اور تیسری دنیا کے ممالک کی وفا شعاریاں اور اس ساری داستان کی پھل جھڑیاں۔چین کا ساری دنیا میں گھس کر امریکہ اور دیگر امن کے ٹھیکیداروں کی رات کی نیند حرام کردینا اور پھر حرام ہے کہ مذکورہ ساری صورتحال پر عصر حاضر کے شاعر کے کان پر جوں تک رینگی ہو سوائے کہ چھوٹے موٹے وین اور ان کی آواز کا والیم بالکل سلو تاکہ اس ساری صورتحال سے درد دل رکھنے والے جاگ نہ جائیں اور امن عامہ اور امن عالم خطرے میں نہ پڑ جائے۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہی لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائیگی
اس وقت محو حیرت ہونے والا اقبال آج اگر زندہ ہوتا تو کیا وہ سکتے کی کیفیت میں چلا جاتا یا گوشہ نشینی اختیار کر کے دنیا کو اس کی حالت پر چھوڑ دیتا. یہ ایک اہم سوال ہے جس پر گہری سوچ بچار کی ضرورت ہے. ہم نے ویسے تو ہر بات پر چپ سادھ لی،کاش ہم علامہ صاحب کے بارے میں ہی سوچنا شروع کردیں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہو جائیگا کہ وہ خاموش رہنے والے انسان نہیں تھے۔ وہ ریکنسٹرکشن آف امہ کے خواہش مند تھے۔وہ مسلمانوں کو سوچ بچار کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ وہ فکر اور سوچ کی شمعیں جلانے کا پیغام دیتے ہیں۔ وہ وحدت مسلم کی بات کرتے ہیں اور اسی طرح وہ آج کی یوتھ کو مرد مومن کی طاقت سے لیس کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی شاعری آفاقی ہے۔ کاش علامہ محمد اقبال کی تعلیمات کو ہم شعوری طور پر جان جاتے تو امت مسلمہ کے حالات بالکل مختلف ہوتے اور ہم بھی ایسے نہ ہوتے جیسے نظر آرہے ہیں۔
(کالم نگار سیکرٹری ٹیکسز ریونیو بورڈ پنجاب ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain