آٹا، چینی اور پیٹرول پر بس نہیں تو استعفیٰ دینا عمران خان کے بس میں ہے: شہباز

لاہور: قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے مہنگائی کے معاملے پر وزیراعظم سے ایک بار پھر استعفے کا مطالبہ کردیا۔

ٹوئٹر پر جاری بیان میں شہباز شریف نے کہا کہ آٹا، چینی، گھی، دوائی، بجلی، گیس، پیٹرول، معیشت اور مہنگائی پر بس نہیں چل رہا تو استعفیٰ دینا عمران خان کے بس میں ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم استعفی لکھ کر عوام کو فوری ریلیف دیں۔

اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ چینی کے بعد پیٹرول اوربجلی کی قیمتوں میں اضافہ عوام پر مہنگائی کی بمباری ہے، ظلم کی یہ حکومت نہیں چل سکتی۔

اگر نیوزی لینڈ افغانستان سے ہارتی ہے تو بہت سارے سوالات اٹھ جائیں گے: شعیب اختر

قومی ٹیم کے سابق فاسٹ بولر شعیب اختر کا کہنا ہے کہ اگر نیوزی لینڈ کی ٹیم افغانستان سے میچ ہارتی ہے تو بہت سارے سوالات اٹھ جائیں گے۔
نمیبیا کو 8 وکٹوں سے شکست دینے کے بعد بھارت نے ایک مرتبہ پھر ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کو انتہائی دلچسپ بنا دیا ہے اور بھارتی ٹیم رن ریٹ کے اعتبار سے اپنے گروپ میں پاکستان، نیوزی لینڈ اور افغانستان سے اوپر پہنچ گئی ہے۔
لیکن گروپ ٹو سے پاکستان کے علاوہ کون سی دوسری ٹیم سیمی فائنل میں پہنچے گی اس بات کا فیصلہ کل نیوزی لینڈ اور افغانستان کے درمیان ہونے والے میچ پر منحصر ہے۔اس حوالے سے راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا کہ اب افغانستان پر ہے کہ وہ ہندوستان کو اندر لا سکتی ہے یا نہیں لا سکتی کیونکہ اگر افغانستان میچ جیتتی ہے تو ہندوستان گیم میں واپس آتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ میچ نیوزی لینڈ کیلئے کوارٹر فائنل ہے، اگر نیوزی لینڈ کی ٹیم افغانستان کو ہرا دیتی ہے تو پھر ’گیم از اوور‘، پورا ہندوستان افغانستان کو سپورٹ کر رہا ہو گا لیکن ہم سپورٹ کریں گے اچھی کرکٹ کو۔
شعیب اختر کا کہنا ہے کہ صورت حال انتہائی دلچسپ ہو چکی ہے لیکن میری دلی خواہش ہے کہ ہندوستان ہمارے ساتھ فائنل میں آئے اور ہم ہندوستان کی پھینٹی لگائیں، اور یہ کرکٹ کے لیے اچھا ہو گا کیونکہ ہندوستان اور پاکستان آپس میں فائنل کھیلتے ہیں تو یہ بہت ہی دلچسپ مقابلہ ہو گا اور اس سے ورلڈکپ اور بھی بڑا ہو جائے گا۔
سابق فاسٹ بولر کا کہنا تھا کہ آج ہندوستان نے نمیبیا کو شکست دیکر ورلڈکپ کو بڑا کر دیا ہے، فیصلہ اب نیوزی لینڈ کے ہاتھ میں ہے کہ وہ ہندوستان کو باہر کرتی ہے یا نہیں کرتی لیکن اگر خدانخواستہ نیوزی لینڈ میچ ہارتی ہے تو بہت سارے سوالات اٹھ جائیں گے۔

بے امنی کی صورتحال :سعودیہ نے اپنے شہریوں کو ایتھوپیا چھوڑنے کی ہدایت کردی

سعودی عرب کی جانب سے ایتھوپیا میں اپنے شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ جلد ازجلد ملک چھوڑ دیں۔

عرب میڈیا کے مطابق جمعے کے روز سعودی سفارتخانے نے ایتھوپیا میں بے امنی کے حالات کی وجہ سے اپنے شہریوں کو جلد از جلد ایتھوپیا چھوڑنے کی  ہدایت کردی۔

سعودی سفارتخانے نے ایک بیان میں کہا کہ سعودی شہری محتاط رہیں اورہنگامی صورتحال پرسفارتخانےسےرابطہ کریں۔

عرب میڈیا کے مطابق  ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس ابابا میں باغی جنگجوؤں کی پیش قدمی کا خدشہ ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل ایتھوپیا میں امریکی سفارتخانے نے بھی اپنے شہریوں کو فوری طور ملک چھوڑنے کی ہدایت کی ہے۔

عامر لیاقت نے سیدہ طوبیٰ کے ساتھ طلاق کی خبروں پر خاموشی توڑ دی

عامر لیاقت کی دوسری اہلیہ سیدہ طوبیٰ کے اپنے نام کے ساتھ عامر لیاقت کا نام ہٹا کر والد کا نام دوبارہ لگانے کے بعد سوشل میڈیا پر ان دونوں کے درمیان علیحدگی کی افواہیں گردش کرنے لگیں تھیں۔ عامر لیاقت اور سیدہ طوبیٰ کی طلاق کی خبرجنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ جب یہ افواہیں حد سے زیادہ بڑھ گئیں تو عامر لیاقت نے سوشل میڈیا پر طوبیٰ کی ایک ویڈیو شیئر کی جس میں سیدہ طوبیٰ، عامر لیاقت کے ساتھ ان ہی کے گھر میں موجود ہیں اور اپنی کھوئی ہوئی بلی ڈھونڈنے پر رو روکر عامر لیاقت کا شکریہ ادا کررہی ہیں۔عامر لیاقت نے اس ویڈیو کے ساتھ اپنی اور سیدہ طوبیٰ کے درمیان طلاق کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ’’یہ اب بھی میری بیوی ہے‘‘۔

لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میںسرفہرست ، ائیر کوالٹی انڈیکس 231 ریکارڈ

لاہور(جنرل رپورٹر) لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سر فہرست آگیا۔شہر میں ایئرکوالٹی انڈیکس کی شرح231ریکارڈ، شام کےوقت ایئرکوالٹی انڈیکس کی شرح350سے تجاوزکرگئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کاربن نائٹروجن آکسائیڈ سمیت دیگر گیسز کی شرح میں اضافہ ہوا، موسم سرما میں سموگ،فضائی آلودگی میں اضافہ ہوگا، دوسری طرف ہمسایہ ملک بھارت میں منائے جانیوالے تہوار دیوالی کے دوران کروڑوں کی تعداد میں آتشبازی چلانے سے آلودگی کی سطح انتہائی خطرناک حدوں کو چھونے لگی اور اسی کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔ بھارتی دارالحکومت میں دیوالی پر پابندی کے باوجود آتش بازی کی گئی۔ دہلی کے علاقے جن پتھ میں ایئر کوالٹی انڈیکس 655 اعشاریہ 07 پرٹیکیولیٹ میٹرز ریکارڈ کیا گیا ہے۔عالمی تھنک ٹینک ’جرمن واچ‘ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں 2000 سے 2019 تک دو دہائیوں کے دوران شدید نوعیت کے موسمی حالات اور قدرتی آفات کا جائزہ لیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اس مدت کے دوران عالمی معیشت کو 2.56 کھرب امریکی ڈالرز کا نقصان پہنچا ہے۔ دوسری جانب سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں 12 روزہ ماحولیاتی کانفرنس کوپ 26 جاری ہے، جہاں دنیا بھر سے رہنما شرکت کر رہے ہیں لیکن جنوبی ایشیا کے رہنما نہ صرف اس میں شرکت سے محروم ہیں بلکہ ماحولیات کی تباہی کے حوالے سے اپنی کسی بھی قسم کا لائحہ عمل پیش کرنے سے قاصر رہے تاہم سا¶تھ ایشیا پیس ایکشن نیٹ ورک نامی این جی اوکی جانب سے منظور کردہ قرارداد نے اس حوالے جنوبی ایشیا کے ممالک کی حکومتوں سے مایوسی کااظہار کیا ہے۔

افغان صدر نے داعش کو طالبان کیلئے بڑا خطرہ قراردیدیا

لاہور(حسنین اخلاق) اافغان صدر نے عسکریت پسندی سے حکومتی امور کی جانب جاتے ہوئے افغان طالبان کے لئے داعش کومغرب سے بڑا خطرہ قرار دیدیا۔داعش خراسان ،طالبان سے ناراض اراکین کو بھرتی کرنے میں کامیاب رہا ہے جو طالبان کو بہت اعتدال پسند سمجھتے ہیں۔طالبان اب کچھ معتدل اصلاحات نافذ کر رہے ہیں،اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ کالعدم اسلامک سٹیٹ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔افغانستان کی معزول امریکی حمایت یافتہ حکومت سیکڑوں ارب ڈالر اور سیکیورٹی مدد کے باوجودنہ تو طالبان کو شکست دے سکی اور نہ ہی آئی ایس-خراسان کو۔ اب طالبان کوان کا سامنا بہت کم بیرونی امداد اور غیر ملکی افواج کی طرف سے جدید ترین انٹیلی جنس اور نگرانی کے ساتھ کرنا ہے ،ڈریگن فلائی سیکیورٹی انٹیلی جنس کا اعتراف۔ تفصیلات کے مطابق اسلامک اسٹیٹ-خراسان، جسے آئی ایس آئی ایس -کے جیسے نام سے بھی جانا جاتا ہے نے حالیہ ہفتوں میں خونریز حملوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ مغربی ماہرین کے مطابق آئی ایس-خراسان یااسلامک اسٹیٹ گروپ اس وقت نمایاں ہوا جب اس نے 2014 میں شام میں خلافت کا اعلان کیا۔ ایک فرانسیسی تھنک ٹینک فاو¿نڈیشن فار سٹریٹیجک ریسرچ نے اس میںسابقہ جہادی تنظیموں، بشمول ایغور ، ازبک، اور طالبان سے منحرف ہونے والے گروہ کو شامل کیا ہے۔

پی ٹی آئی حکومت کا قبل ازوقت خاتمہ اپوزیشن کو مہنگا پڑے گا

پاکستان میں اپوزیشن بظاہر تو بہت مضبوط نظر آتی ہے۔ لیکن عملی طو رپر اس سے کمزور اپوزیشن پاکستان کی تاریخ میں نظر نہیں آتی۔ بظاہر ملک کی دو بڑی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ ن اور پی پی پی اپوزیشن میں اکٹھی ہیں۔ لیکن عملی طور پر دونوں جماعتیں سیاسی حریف کی طرح ایک دوسرے سے پیش آتی ہیں۔کسی فیصلہ کن مرحلے میں مسلم لیگ ن دو قدم آگے بڑھاتی ہے تو پی پی پی دو قدم پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ اور اس طرح سے جب پی پی پی دو قدم بڑھاتی ہے تو مسلم لیگ ن دوقدم پیچھے ہٹ جاتی ہے۔اپوزیشن جماعتوں کو خاص طور پر مسلم لیگ ن اور پی پی پی اس بات کا احساس ہے کہ تحریک انصاف کا اگلے تک حکومت میں رہنا ان دونوں جماعتوں کے فائدے میں ہے۔کیونکہ اگلے انتخابات کے موقع پر ووٹرز سب سے زیادہ سوال تحریک انصاف سے اٹھائے گی۔

سرسراتی ہواؤں کو پیغام دو

محمد صغیر قمر
کئی مہینے گزر گئے،ادھرمیرے دفتر کے بالکل سامنے برسوں سے نصب عمار شہید کی یاد گار پھر سے تعمیر کے مرحلے میں ہے۔ دفتر کی بالکونی میں کھڑے ہوکر آج میں نے کارکل کے اس شہید کو بے طرح یاد کیا۔برسہا برس گزر گئے۔ اس کا جسد ِخاکی کارگل کی کسی برفیلی چوٹی پر رہ گئی۔ راولپنڈی میں چکلالہ اسکیم تھری کا چوک اس کے نام کر دیا گیا جہاں اب ایک میگا پراجیکٹ جاری ہے اور میرے عزیزکیپٹن کے نام سے ایک خوبصورت یادگار جلو گر ہورہی ہے۔اگرچہ اس جگہ کانام پہلے سے ”عمار شہید چوک“ ہے لیکن نہ جانے آج کیوں وہ بے اختیار یاد آیا۔
کیپٹن عمار کو شہید ہوئے کچھ دن گزرے تھے‘ ہم ان کے گھر حاضر ہوئے۔ سراپا استقامت ان کی ماں نے کہا‘
”عمار کارگل کے محاذ پر تھا تو میں نے خواب میں اسے دیکھا۔ ہم اپنے گاؤں میں ہیں اور آسمان سے لا تعداد لوگ پیرا شوٹ کے ذریعے اتر رہے ہیں‘ ان میں عمار بھی ہے۔ وہ بریگیڈیئر طارق محمود (ٹی ایم) شہید کے انداز میں پاکستان کا پرچم لہراتے ہوئے نیچے آ رہا ہے۔ زمین پر اترتے ہی وہ میری نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ میں پریشان ہو جاتی ہوں۔ پھر اچانک عقب سے آ کر وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیتا اور کہتا ہے۔ ”امی“!!
”میں نے جب عمار کو پیرا شوٹ جمپ میں سبز ہلالی پرچم اٹھائے ہوئے دیکھا تو یقین ہو گیا کہ میرا جگر گوشہ ضرور کوئی عظمت لے کر آسمانوں سے اترے گا۔“ کوئی ماں اس سے بڑی عظمت و سعادت کا تصورکیا کر سکتی ہے؟ پچیس برس کے ایک نوجوان کی ماں کے لیے یہ فخر ہی دو جہاں کی دولت سے بڑھ کر ہے کہ اس کا کم عمربیٹا جس کی ابھی ابھی منگنی ہوئی تھی اس طرح اس کے دودھ کی لاج رکھتا اور تربیت کا حق ادا کرتا ہے۔ اپنے خاندان کو ایسی عظیم سعادت کا تحفہ دے کر خود ابدی زندگی حاصل کر لیتا ہے۔
کیپٹن عمار ۵۲ مارچ ۵۷۹۱ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میجر محبوب حسین نہایت دیندار اور مزاجاً حریت پسند شخص تھے۔ اسلام کے شیدائی‘ بلکہ صحیح معنوں میں دیوانے۔ بیٹا دین کی محبت میں باپ پر بازی لے گیا۔ دیوانگی کی حد یہ ہے کہ اپنی آرزو پر اس محاذ پر جہاد کرنے پہنچ گیا جہاں بڑے بڑے بہادروں کا پتہ پانی ایک ہو جاتا ہے اور فرزانگی کی انتہا یہ ہے کہ ابدی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ عمار شروع ہی سے حریت پسند بچہ تھا اس کے والد بتایا کرتے تھے ”وہ بچپن ہی میں ولی معلوم ہوتا تھا۔“ ذہانت و فطانت میں ہمیشہ اپنے طالب علم ساتھیوں میں نمایاں رہے اور غیرت و حمیت کا جذبہ ایسا محکم تھا کہ چھ سات برس کی عمر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ”جنگ جنگ“ کھیلتے اور فتح پر خوشی مناتے تھے۔ عمار کے ماموں طارق کہتے ہیں کہ سات سال کی عمر میں ایک بار جہازی سائز کے کاغذ پر جنگ کا نقشہ بنایا۔ کاغذ کے درمیان لکیر کھینچ کر ایک طرف پاکستان کی فوج‘ ٹینک اور گاڑیاں بنائیں اور دوسری جانب ہندوستان کے فوجیوں اور اسلحہ دکھایا تو ان کی صلاحیتوں کا یقین تھا‘ اس نے وہ نقشہ ٹیچر کو دکھا یا لیکن ان کے ٹیچر کو یقین نہ آتاتھا کہ ایک معصوم بچہ جنگ کا ایسا پلان بناسکتا ہے۔سکول کی ہر جماعت میں نمایاں پوزیشن لیتے رہے۔ کیئرئر کا سارا سفر تیزی رفتاری سے طے کیا۔ وہ ان بچوں میں سے تھے جو اپنا کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتے۔
۷۸۹۱ء میں ملٹری کالج جہلم میں داخلہ ملا۔ پانچ برس تک یہاں تعلیم پانے کے بعد ۲۹۹۱ء میں پی ایم اے جائن کیا۔ ۴۹ء میں پاس آؤٹ ہونے کے بعد۳۔ ایف ایف کا انتخاب کیا لیکن اضطراب کسی مقام پر رکنے نہیں دیتا تھا۔ ایس ایس جی کی تربیت حاصل کرنے پر کمربستہ ہوئے اور اکتوبر۷۹۹۱ء میں سپیشل سروسز گروپ کا کورس کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد یلدرم بٹالین میں شامل ہوئے۔ یہاں بھی ان کے جنون کی شورش نہ گئی‘ اپنی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے کے لیے ایک کورس کے بعد دوسرا کورس کرتے رہے۔ معرکہ کارگل سے قبل وہ انفنٹری کالج کوئٹہ کے لیے منتخب ہو گئے تھے لیکن کارگل میں بھارت سے جنگ چھڑ گئی تو وہ اس میں شامل ہونے کے لیے بے تاب ہو گئے۔ کارگل کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو رضا کارانہ پیش کیا تھا۔ اس معرکے پر جانے کے لیے اپنے گھروالوں کو بھی خبر نہ ہونے دی۔ کیپٹن شیر خان شہید عمار کے کورس میٹ تھے۔ کارگل میں بھی ساتھ ساتھ تھے۔ دونوں نے ایک ہی روز شہادت پائی۔ کیپٹن عمار کس طرح شہید ہوئے؟ ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ دشمن جب ٹائیگر ہلز پر پاک فوج کی سپلائی کاٹنے میں مصروف تھا اس سے اگلی پوسٹ پر پاک فوج کے ۳۲ افراد پھنس گئے تھے۔ وہ بہادری سے لڑتے رہے لیکن ان میں سے ۹۱ افراد شدید زخمی ہو چکے تھے۔ ان کو دشمن کے گھیرے سے نکالنا ضروری تھا۔ کیپٹن عمار‘ کیپٹن کرنل شیر خان اور ان کے چھ ساتھی دشمن پر حملہ آور ہوئے۔ ان کو اپنے زخمی بھائیوں تک پہنچنا اور انہیں وہاں سے نکال کر لانا تھا۔ یہ آسان کام نہ تھا مگر انہوں نے ایک بار پھر رضاکارانہ طور پر یہ ناممکن مشن پورا کرنے کی کوشش کی اور اس معرکے میں شہید ہو گئے۔
سورج طلوع ہو گیا اب وہ بھارتی فوج کی آنکھوں کے سامنے آ چکے تھے۔ دشمن فوج نے انہیں سرنڈر کرنے کی پیشکش کی۔ چاروں طرف سے گھرے ہوئے چندہمارے بہادرنوجوانوں نے ہتھیار ڈالنے اور بزدل دشمن کا جنگی قیدی بننے سے صاف انکار کر دیا اور ”شہادت شہادت“ پکار کر آخر تک جنگ جاری رکھی۔آخری لمحے تک دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچی رہی اور پھر سب بہادروں نے باری باری اپنی جانیں راہ خدا میں لٹا دیں۔انہوں دشمن کی یلغار روک دی او سبز ہلالی پرچم لہرا کر دشمن کو پسپا کردی۔ ان کے ساتھ شہید ہونے والے کچھ ساتھیوں کے جسد خاکی واپس آ گئے لیکن عماراور چندساتھی کارگل کے کسی ان دیکھے ان جانے پہاڑی گوشے میں ایسے محو خواب ہوئے کہ کسی کو ان کا سراغ بھی نہ مل سکا۔انہوں نے اپنے جسم کارگل کی برفیلی زمین میں بو دیے۔بالکونی مین کھڑے کھڑے میں نے ایک اچٹتی نظر زیر تعمیرعمار چوک پر ڈالی۔مجھے عمارسے آخری ملاقات یاد آئی وہ اپنے اباجی میجر محبوب کے ساتھ میرے پاس آیا تھا۔تب وہ چراٹ میں تعینات تھا۔اس کی دلچسپی کا محور اللہ کی راہ میں جہاد تھا۔اس روز عمار نے مجھ سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی شہرہ آفاق کتاب ”الجہاد فی الاسلام“ کی فرمائش کی۔اتفاق سے کتاب میرے پاس تھی میں نے اسے پیش کردی۔اس کے چاند چہرے پر مسکراہٹ پھیلی اور بولا”تھینک یو انکل“میں نے کہا میں آپ کا”ہم عمر“ہوں۔انکل کیسے ہوگیا۔وہ کھلکھلا کر ہنسا اور میرا ہی ایک فقرہ جواباًکہہ دیا”تھینک یو انکل بھائی جان“!!
آج میں نے ان وفا شعاروں کو پھر سے یاد کیا جن کو قیامت تک اسرار کے پردوں میں لپٹ کر برف کی گہری تہہ میں سویا رہنا مرغوب ہوا۔ کیپٹن عمار اور ان کے چھ ساتھیوں کا گروپ پاک فوج کی جرات و شجاعت کا گواہ بن گیا۔ عمار کو ستارہ جرأت سے نوازا گیا لیکن کیپٹن عمار اور ان کے جاں نثار ساتھی عظمت کی جن بلندیوں پر فائز ہو چکے ہیں۔دنیا کا بڑے سے بڑا ایوارڈ ان کی شان کی برابری نہیں کر سکتا ہے۔میں نے تصور ہی تصور میں کارگل کی سرسراتی ہواؤں کو یاد کیا۔بے اختیار منہ سے نکلا:
سرسراتی ہواؤں کو پیغام دو
ایسی راہوں سے جب تم گزرنے لگو
سو رہا ہے جہاں ایک شہید وطن
(متعدد کتابوں کے مصنف‘شعبہ تعلیم
سے وابستہ اورسماجی کارکن ہیں)
٭……٭……٭

معروف صنعتکار چودھری اشرف مرحوم

ڈاکٹر محمدممتاز مونس
ملک کے ممتاز صنعت کار، سابق سینیٹر اور اشرف شوگر ملز بہاول پور کے بانی چودھری محمد اشرف (مرحوم) اپنے عہد میں ہنر کی پختگی، خیال کی استواری اور تہذیب کی پاسداری کی زندہ مثال سمجھے جاتے تھے۔ ان کی پیدائش 1926ء میں منڈی بہاالدین کے نواحی علاقے چیلیانوالہ میں ہوئی۔ آپ کے والد چودھری خان محمدصاحب زراعت کے شعبے سے وابستہ تھے۔
چودھری محمد اشرف (مرحوم)کا بچپن اور لڑکپن ان کے آبائی علاقے میں ہی گزرا اور انہوں نے ابتدائی تعلیم بھی وہاں سے ہی حاصل کی۔ ان کی شخصیت میں قدرت نے کچھ خاص کرنے کی امنگ اور تڑپ رکھی تھی لہذا اپنی عملی زندگی میں انہوں نے آبائی پیشہ زراعت کی بجائے ذاتی کاروبار میں دلچسپی لی۔ اس وقت چیلیانوالہ میں کاروبار کے مواقع نہ ہونے کے برابر تھے۔ لہذا اپنے اس شوق کی تکمیل کے لئے انہوں نے عنفوان شباب میں ریاست جموں و کشمیر کا رخ کیا۔ اپنی شبانہ روز محنت اور ایمانداری کے باعث نہایت ہی قلیل وقت میں ان کا کاروبار وہاں چمک اٹھا۔
اسی دوران چودھری محمد اشرف (مرحوم)نے ضلع رحیم یار خان میں کچھ اراضی لیز پر لے کر اپنے والدمحترم کے سپرد کر دی اور خود تعمیرات کے شعبے میں قسمت آزمائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک کنسٹر یکشن کمپنی کی داغ بیل ڈالی۔ مذکورہ کمپنی کے پلیٹ فارم پر انہوں نے ہندوستان کے مختلف شہروں میں سرکاری و نجی عمارات تعمیر کیں۔ جنہیں اپنی طرز تعمیر اور معیار کے لحاظ سے اس وقت کی حکومتوں اور عوام الناس نے پسندیدگی کی سند بخشی۔
اگست 1947ء میں وقوع پذیر ہونے والی تقسیم برصغیر اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی نئی اسلامی مملکت پاکستان میں تعمیر و ترقی کے نئے منصوبوں کی گنجائش اور ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کی آباد کاری اور نئی سرکاری عمارات کی تعمیر کے تناظر میں کنسٹریکشن کے شعبے میں کام کے کثیر مواقع موجود تھے۔
اپنے کام اور شعبے سے جنون کی حد تک وابستگی ہی تھی کہ چودھری محمد اشرف ہمیشہ بہتر سے بہترین کی تلاش میں سرگرداں رہتے اور انہوں نے ایک نیا تعمیراتی ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے نے سندھ کے مختلف شہروں اور علاقوں میں اعلی معیار کی سڑکیں، ہسپتال، پل، نہریں اور تعلیمی ادارے بنا کر صوبے کی تعمیر و ترقی میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔
سندھ کے عالمی شہرت یافتہ منصوبہ “گڈو بیراج” کی تعمیر میں بھی چودھری محمد اشرف کی تعمیراتی کمپنی نے قابل قدر کام کیا۔ 1950ء کی دہائی میں ملتان کے نشتر میڈیکل کالج اور ہسپتال کی تعمیر کے منصوبے کا کنٹریکٹ بھی انہی کی کمپنی کو تفویض ہواجسے مقررہ مدت میں اعلی تعمیراتی معیار کے ساتھ مکمل کیا گیا۔
انہوں نے ایک کمپنی قائم کر کے حیدر آباد میں کوئلے کی کانیں لیز پر لے لیں۔ سندھ کے بڑے کول مائنر اداروں میں سے ایک یہ ادارہ آج بھی نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔
1970ء کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے چودھری محمد اشرف کی قائدانہ صلاحیتوں کو بھانپ کر انہیں پاکستان پیپلز پارٹی ہی کے پلیٹ فارم پر ملکی سیاست میں عملی کردار ادا کرنے کو کہا۔ چنانچہ انہوں نے شہید بھٹو کے زیر قیادت اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور اپنی سیاسی زندگی میں دکھی انسانیت کی خدمت اور عوام کے مسائل کے حل کے لئے عملی اقدامات کر کے عوامی سیاست کی نئی مثال قائم کی۔ ان کی انہی خدمات کے اعتراف میں پاکستان پیپلز پارٹی نے انہیں سندھ سے پارلیمان کے ایوان بالا/سنیٹ کا رکن بنایا۔ چودھری محمد اشرف کی مصالحت پسندی، ان کی غیر متنازعہ شخصیت اور ان کی ذات میں رچی پاکستانیت کی بنا پر پیر صاحب پگاڑا نے انہیں سندھ اور پنجاب کے درمیان محبت و یکجہتی کا پل قرار دیا تھا۔
1980ء کی دہائی میں چودھری محمد اشرف کی قسمت میں بخت آوری کا نیا سرخاب اس وقت لگا جب پنجاب انڈسٹریل بورڈ کی جانب سے بہاول پور اور لیہ میں شوگر ملز کے قیام کے لئے ٹینڈرز جاری کیے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں نیشنلائزیشن کی پالیسی کے تحت مذکورہ شوگر ملیں صرف ٹینڈرز کی حد تک محدود تھیں جس سے ملکی معیشت پر برا اثر پڑ رہا تھا۔ جنرل محمد ضیا الحق کی فوجی حکومت نے چند صنعتیں پرائیوٹائز کرنے کا فیصلہ کیا۔ جن میں شوگر ملوں کی بحالی بھی شامل تھی۔
اس بار خوش نصیبی کا ہما چودھری محمد اشرف کے سر پر یوں بیٹھا کہ پنجاب انڈسٹریل بورڈ کے زیر اہتمام ٹینڈرز کے عمل میں ان کے نام کا قرعہ نکل آیا۔ جب بہاول پور شوگر ملز چودھری محمد اشرف کے سپرد کی گئی تو وہاں شوگر ملز کے نام پر صرف چار دیواری قائم تھی اور بہاول پور شوگر ملز کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ انہوں نے اللہ کی ذات پر توکل اور اپنی قابلیت کے بھروسے پر محض 10 ماہ کی قلیل مدت میں شوگر ملز کو مکمل اور فنگشنل کر کے اس میں چینی کی پیداوار کا عمل شروع کیا۔
چودھری محمد اشرف نے اپنی سیاسی، سماجی و کاروباری زندگی میں جتنے بھی کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے ان میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ انہوں نے خلق خدا کی بھلائی، ایمان داری، دیانت اور رزق حلال کی طلب کو ملحوظ خاطر رکھا۔ انہوں نے اپنی ذات کے لئے کم اور عام آدمی کی بہتری کے لئے زیادہ سوچا۔ اور اس کا سب سے بڑا ثبوت پسماندہ علاقے میں “اشرف شوگر ملز” کا قیام ہے۔ بہاول پور میں شوگر ملز کی بحالی کا جب منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا تھا تو اس وقت اس علاقے میں دور دور تک گنے کی کاشت نہ ہونے کے برابر تھی اور کسی طور پر بھی یہ نظر نہیں آ رہا تھا کہ یہ ادارہ کوئی نفع بخش ثابت ہو سکے گا۔ لیکن دور اندیش چودھری محمد اشرف کی سوچ صرف یہ تھی کہ اس سے علاقے کے مقامی لوگوں کو روزگار میسر آئے گا اور علاقے میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔
چودھری محمد اشرف 6 نومبر 1983ء کو جناح ہسپتال کراچی میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ ان کی 57 سالہ زندگی محبت، توجہ، خلوص، انصاف، احساس، برابری، رواداری، قربانی اور ہر فرد کے لئے یکساں عزت نفس برقرار رکھنے کی کاوشوں سے عبارت ہے۔ ان کے ہونہار فرزند ارجمند چودھری محمد ذکا اشرف اپنے والد گرامی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملکی صنعت کے شعبے میں عملی طور پر متحرک ہیں اور عوام میں آسانیاں بانٹنے کے لیے کوشاں ہیں۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭

کس منہ سے آؤگے؟

سید سجاد حسین بخاری
میرے پاس معیشت کو سدھارنے کیلئے ایک ماہر ٹیم موجود ہے جس نے گزشتہ 2سال سے پاکستانی معیشت کے کمزور پہلو پر کام شروع کردیا ہے اور جب ہم اقتدار میں آئیں گے تو پاکستانی معیشت کا دُنیا کی بڑی معیشتوں میں شمار ہوگا۔ آپ دیکھیں گے کہ ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو خداحافظ کہیں گے۔ ایک کروڑ بیروزگاروں کو نوکریاں اور 50لاکھ بے گھر افراد کو گھر بناکر دیں گے۔ نئے پاکستان میں پوری دُنیا سے لوگ آکر ملازمتیں کریں گے۔ سب کا احتساب ہوگا جس کی شروعات میری ذات سے ہوگی۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لاؤں گا۔ بڑے مجرم قانون کی گرفت میں آئیں گے اور جنوبی پنجاب کو پہلے 100دنوں میں صوبہ بناکر اس خطے کی تمام تر محرومیاں ختم کردیں گے۔ یقینا یہ الفاظ موجودہ وزیراعظم عمران خان کے تھے جو وہ 2018ء کے ہر جلسے میں دُہرایا کرتے تھے مگر آج ساڑھے 3سال گزر گئے ان میں سے ایک وعدہ بھی پورا نہیں ہوا۔
وقت نے ثابت کیا کہ وزیراعظم کی جیب میں کھوٹے سکے تھے۔ اسد عمر‘ حماد اظہر‘ عمر ایوب اور اب شوکت ترین وزرائے خزانہ بنائے گئے۔ 5مرتبہ خزانے کے سیکرٹریز تبدیل کئے گئے۔ متعدد چیئرمین ایف بی آر اور چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ بھی بدلے گئے مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ اعدادوشمار کے گورکھ دھندے میں قوم کو معیشت کی بہتری کی خبریں سنائی جارہی ہیں مگر عملی طور پر یہ ثابت ہوچکا کہ پاکستان کی گزشتہ 70سال کی تاریخ میں اس وقت سب سے زیادہ مہنگائی ہے۔ غریب کو دو وقت کے بجائے ایک وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔ غریب کی قسمت میں دال روٹی کی گنتی کی جاتی تھی۔ موجودہ حکومت نے وہ بھی چھین لی۔ 22کروڑ کی آبادی کے ملک میں چند بڑے شہروں میں لنگرخانے اور پناہ گاہیں بنانے سے معیشت نہیں سدھرتی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ وزیراعظم کو ساڑھے 3سال حکومت کرنے کے باوجود بھی دال روٹی کے بھاؤ کا پتہ نہیں اور پھر بین الاقوامی مہنگائی کی باتیں کی جاتی ہیں۔ معیشت کے بگاڑ کو سدھرانے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ حقائق سے چشم پوشی کی جارہی ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ملازمین کو ہم نے گورنر سٹیٹ بینک‘ وزیر خزانہ اور مشیر لگائے ہوئے ہیں تو وہ ہمارے ہمدرد کیسے بن سکتے ہیں؟ کیونکہ پاکستان سے واپس انہوں نے اپنے انہی اداروں میں جانا ہے جہاں سے وہ آئے ہیں لہٰذا یہ بات طے ہوچکی ہے کہ اگلے ڈیڑھ سال میں بھی مہنگائی‘ بیروزگاری اور غربت کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ ہاں کوئی معجزہ ہوجائے تو وہ الگ بات ہے۔ ایک کروڑ ملازمتیں اور 50لاکھ گھر بھی عوام بھول جائیں‘ کچھ بھی نہیں ہوگا اور لوٹی ہوئی دولت کی واپسی بھی نہیں ہوگی۔ پاکستانی عدالتیں‘ ایف آئی اے اور نیب کس مرض کا علاج ہیں؟ حکومت نے ان اداروں سے ایک مرتبہ بھی مشاورت نہیں کی۔ اگر روڈ میپ بنایا جاتا اور وقت مقررہ کا تعین بھی کیا جاتا تو آج لوٹی ہوئی دولت واپس آچکی ہوتی۔ نوازشریف کو کیوں اور کس کے کہنے پر بیرون ملک بھیجا گیا؟ وزیراعظم کو چاہیے کہ اس ڈیل کو قوم سے آگاہ کریں۔ چلو زرداری تو موجود ہیں ان سے ریکوری میں کیا رُکاوٹ ہے؟ حکومت نے جب کوئی سسٹم ہی نہیں بنایا تو وعدے کیسے اور کہاں سے پورے ہوتے؟
دُنیا بھر میں عمران خان جیسے لیڈر پہلی بار حکومت میں آتے ہیں تو وہ اپنے وعدوں کی تکمیل کیلئے سپیشل سسٹم اور ٹیمیں بناتے ہیں جو دیئے گئے اہداف کو حاصل کرتے ہیں اور وہ حکومت سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ وہ صرف رہنمائی کرکے اہداف کو مکمل کرتے ہیں۔ عمران خان نے تو اس بابت کچھ بھی نہیں کیا‘ جو حکومت ساڑھے 3سال میں یہ طے نہیں کرسکی کہ لوٹی ہوئی دولت کیسے واپس لائی جاسکتی ہے وہ اور کیا کرے گی۔ وزیراعظم عمران خان کا سرائیکی خطے کو علیحدہ صوبہ بنانے کا وعدہ بھی تھا مگر اسے بھی ممبران اسمبلی کی تعداد سے مشروط کرکے ختم کردیا گیا۔ کسی نے آج تک حکومت سے نہیں کہا کہ جنوبی پنجاب کے 3ڈویژن اور 11اضلاع کے عوام نے آپ کو ووٹ دلواکر کامیاب کرایا‘ پھر بھی آپ نے صوبہ نہیں دیا۔ وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے لوگ جنوبی پنجاب کے عوام کو آزادی کیوں دیں گے اور پھر سیکرٹریٹ کا لولی پاپ جس کے آج تک اسمبلی سے رولز اینڈ بزنس بھی منظور نہیں کرائے گئے اور پھر ظلم یہ ہے کہ پنجاب میں اس وقت 44محکمے قانونی طور پر باقاعدہ کام کررہے ہیں مگر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کیلئے صرف 16محکمے کیوں؟ ایک سادہ سی بات کہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی نے تحریک انصاف کو صوبہ بنانے کی پیشکش کی ہے مگر حکومت بھاگ گئی کیونکہ لاہور میں تحریک انصاف کی حکومت کے بجائے (ن) لیگ کی حکومت بنتی تھی‘ اس لئے عمران خان بھاگ گئے۔
جنوبی پنجاب کو صوبہ بناکر آپ وسطی اور شمالی پنجاب کی حکومت اکثریت رکھنے والی (ن) لیگ کو دے دیتے۔ آپ نے وہی کام کیا جو (ن) لیگ کررہی تھی کہ اتنے بڑے صوبے کی حکومت ہم کیوں قربان کریں؟ حکومت کو چاہیے کہ سرائیکی خطے کے عوام کو باقی کچھ نہیں دے سکتی صوبہ تو دے اور 44محکمہ جات بھی مکمل طور پر صوبہ سیکرٹریٹ میں بنائے جائیں۔ صوبے کی باؤنڈری اور پانی کی تقسیم کا‘ کیا کروگے؟ کیونکہ یہ بنیادی اور زندگی موت کا سوال ہے۔ میرے نزدیک تو موجودہ حکومت نے اس خطے کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کی ہے۔ مہنگائی‘ بیروزگاری‘ ملازمتیں‘ گھر اور معیشت کا سدھار ہم سب معاف کرسکتے ہیں مگر صوبے کا نہ بننا لوگ معاف نہیں کریں گے اور پھر کس منہ سے جنوبی پنجاب کی عوام کے پاس آؤگے؟
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭