موٹاپے کے باعث ٹام کروز کو پہچاننا مشکل؛ نئی تصویر نے مداحوں کو دنگ کردیا

لاس اینجلس: ہالی ووڈ سپراسٹار ٹام کروز کی نئی تصویر نے مداحوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے کیونکہ اداکارتصویر میں بے حد موٹے لگ رہے ہیں۔

ہالی ووڈ اسٹارٹام کروز کی ایک تازہ تصویر انٹرنیٹ پر وائرل ہورہی ہے جس میں اداکار موٹاپے کا شکار نظر آرہے ہیں ۔ یہ تصویر سان فرانسسکو میں منعقد ہونے والے بیس بال گیم کی ایک تقریب کی ہے جہاں اداکار تقریباً ناقابل شناخت نظر آرہے ہیں۔

یاہو انٹرٹینمنٹ کے مطابق کروز کی تصویر وائرل ہونے کے بعد ان کے مداحوں کی جانب سے قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں شاید انہوں نے سرجری کرائی ہے۔

ای ایس پی این کی سابق اسپورٹس رپورٹر مولی نائٹ نے اداکار کی تصویر پر ردعمل دیتے ہوئے سوال کیا سان فرانسسکو میں ہونے والی تقریب میں واقعی ٹام کروز تھے۔

200 کروڑ کے فراڈ اور منی لانڈرنگ کیس میں نورا فتیحی طلب

نئی دہلی: بھارتی اداکارہ، ماڈل اور ڈانسر نورا فتیحی کو 200 کروڑ کے فراڈ اور منی لانڈرنگ کیس طلب کیا گیا ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق نورافتیحی کو قانون نافذ کرنے والے ادارے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ، جسے مختصراً ای ڈی کہا جاتا ہے، نے سمن جاری کیا ہے۔

بھارتی نیوز ایجنسی اے این آئی کے مطابق نورا کو سمن جاری ہونے کے بعد ای ڈی آفس کے باہر دیکھا گیا۔ اے این آئی نے آج صبح ٹوئٹ کیا کہ اداکارہ نورا فتیحی سکیش چندراشیکھر فراڈ کیس کے سلسلے میں تحقیقات میں شامل ہونے کے لیے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے آفس پہنچیں۔

س سے قبل اداکارہ جیکولین فرنینڈس نے بھی اگست میں اسی کیس میں سلسلے میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ میں بطور گواہ اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔ ای ڈی 5 گھنٹوں تک اداکارہ سے پوچھ گچھ کرتی رہی۔

بھارتی میڈیا کے مطابق انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے اداکارہ جیکولین فرنینڈس کو 15 اکتوبر کو دوبارہ پوچھ گچھ کے لیے ای ڈی آفس بلایا ہے۔

واضح رہے کہ 200 کروڑ کے فراڈ، بھتہ خوری اور منی لانڈرنگ کیس میں سکیش چندرا شیکھر نامزد ملزم ہیں۔ اداکارہ جیکولین فرنینڈس اس شخص کی قریبی دوست اور پارٹنر لینا پال  کے ذریعے اس ریکٹ کا شکار ہوئیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق سکیش چندرا شیکھر جیل کے اندر سے بھتہ خوری کا ریکٹ چلا رہاتھا اور ایک تاجر سے 200 کروڑ روپے بھتہ لیا۔ انفورسمنٹ ڈائریکٹر نے اپنے بیان میں کہاتھا کہ چندرا شیکھر اس فراڈ کا ماسٹر مائنڈ ہے۔ وہ 17 سال کی عمر سے جرائم کی دنیا کا حصہ رہا ہے۔ اس کے خلاف پولیس اسٹیش میں کئی شکایات درج ہیں اور وہ جیل میں بند ہے۔

ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری میں تکنیکی خامی تھی جو ٹھیک ہوجائے گی، وزیراعظم

عسکری قیادت سے میرے سے زیادہ بہتر تعلقات کسی کے نہیں، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری میں تکنیکی خامی تھی جو ٹھیک ہوجائے گی، تعیناتی پر ہونے والی قیاس آرائیاں درست نہیں۔ 

 وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا، جس میں موجودہ صورتحال پر پارلیمانی پارٹی کو اعتماد میں لیا۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور فوج میں کسی قسم کی کوئی غلط فہمی نہیں ہے، عسکری قیادت سے میرے سے زیادہ بہتر تعلقات کسی کے نہیں، ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پر ہونے والی قیاس آرائیاں درست نہیں، اس میں تکنیکی خامی تھی جو ٹھیک ہوجائے گی۔

واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا اور اس حوالے سے تحریک انصاف کے تمام ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز کو شرکت کی ہدایت کی گئی تھی۔

سوشل میڈیا کمپنیوں کیلئے پاکستان میں دفاتر قائم کرنا لازمی قرار

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر آئی ٹی سید امین الحق کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد پاکستانی عوام کو ایک صاف ستھرا اور صحت مند میڈیم فراہم کرنا ہے جو نفرت انگیزی ، شر پسندی اور فسادات پھیلانے والے عناصر سے پاک ہو، جو پاکستانی صارفین سوشل میڈیا کے ذریعے  مثبت سوچ، تعمیری پوسٹ شیئر کرتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی اور تحفظ کے ساتھ ان کیلئے ماحول کو سازگار بنانا ہے، اس کیلئے متعلقہ سوشل میڈیا اداروں کے دفاتر کا پاکستان میں قیام ایک اہم قدم ہوگا، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نےسوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کیلئے رول، جاروزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی وٹیلی کمیونیکیشن نے ترمیم شدہ سوشل میڈیا رولز 2021 کا گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کردیا ہے،

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ نوٹیفیکشن کی اشاعت کے بعد پانچ لاکھ سے زائد صارفین والی سوشل میڈیا کمپنیاں،پلیٹ فارمز پی ٹی اے میں رجسٹریشن کے پابند ہوں گے، اور پاکستان میں جلد از جلد دفاتر قائم کرنا لازم ہوگا، سوشل میڈیا کمپنیاں اپنا مجاز افسر مقرر کریں گی جو شکایت کا ازالہ کرنے سے متعلق امور سے آگاہ اور کمپنی کا بااختیار افسر ہوگا۔

امین الحق کے مطابق ان رولز کے تحت اگر سوشل میڈیا پر کسی مواد سے متعلق ٹیکنیکل شکایت ہے جیسے کسی کی دل آزاری، ریاست، مذہب، اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ یا انفرادی طور پر کسی کی عزت نفس یا کردار کشی سے متعلق تو شکایتی فورم پی ٹی اے ہے، سوشل میڈیا رولز کے بنیادی طور پر 18 قواعد اور اس کی متعدد ذیلی شقیں ہیں جس میں تفصیل سے پاکستانی شہریوں کے سوشل میڈیا استعمال پر ان کے تحفظ اور سوشل میڈیا کمپنیوں کے حوالے سے ضابطے بنائے گئے ہیں۔

وفاقی وزیر آئی ٹی نے کہا کہ عدالتی حکم کے بعد اسٹیک ہولڈرز سے ایک بار پھر رائے طلب کی گئی اور وزیر اعظم کی قائم کردہ کمیٹی نے ڈاکٹر شیریں مزاری کی قیادت میں ان آراء کے بعد رولز کا حتمی ڈرافٹ تیار کیا، جس میں کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں، ڈارفٹ کو وفاقی کابینہ نے منظوری دی جس کے بعد باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری کردیا گیا ہے جس کے بعد اس کا فوری نفاذ ہوگیا ہے۔

سید امین الحق نے مزید کہا کہ نئی تبدیلی کے تحت شکایت کنددہ کی تعریف اور اس کے دائرہ کار کو مزید واضح کرتے ہوئے اس میں سرکاری ملازم ادارے، حکومتی محکموں اور وزارتوں کو بھی شامل کیا گیا ہے یعنی اب وہ بھی شکایت کا اندراج کراسکیں گے، سوشل میڈیا پرصارفین کیلئے اظہاررائے کی مکمل آزادی آئین کے آرٹیکل 19 میں دیئے گئے حقوق کے مطابق ہوگی، رولز کے مطابق صارفین کسی بھی قابل اعتراض مواد کو سوشل میڈیا سے ہٹوانے کیلئے مجوزہ طریقہ کار کے تحت اپنی شکایت کا اندارج کرائیں گے، اتھارٹی شکایت کنندہ کا نام و شناخت خفیہ رکھنے کی پابند ہوگی تاکہ اس کی جان و مال کو خطرہ نہ ہوسکے۔ اتھارٹی شکایت کنددہ سے کسی بھی قسم کی ضروری معلومات طلب کرنے کا اختیار رکھے گی، شکایت پر 30 دن کے اندر کارروائی کرتے ہوئے تمام ضروری امور کی تکمیل کے بعد سوشل میڈیا کمپنی کو قابل اعتراض مواد ہٹانے کیلئے 48 گھنٹے دیئے جائیں گے۔ سوشل میڈیا کمپنی اگر 48 گھنٹوں میں مواد ہٹانے سے قاصر رہی یا اس نے کوئی ٹھوس جواب نہیں دیا تو ایسی صورت میں مجاز اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی عارضی یا مستقل بندش یا 50 کروڑ روپے تک جرمانہ عائد کرسکتی ہے۔

وفاقی وزیر سید امین الحق کا مزید کہنا تھا کہ نئی تبدیلی میں ایمرجنسی صورتحال کی مزید تشریح کی گئی ہے جس کے تحت گستاخانہ مواد، دہشت گردی یا نفرت انگیزی، ملکی سلامتی اداروں کے خلاف مواد پوسٹ ہونے پر اتھارٹی کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کے بعد سوشل میڈیا کمپنیاں قابل اعتراض مواد 48 کے بجائے 12 گھنٹوں میں ہٹانے کی پابند ہوں گی، انتہا پسندی، دہشت گردی، نفرت انگیز، فحش اور پرتشدد مواد کی لائیو اسٹریمنگ پر پابندی ہوگی۔اسلام، دفاع پاکستان اور پبلک آرڈر سے متعلق غلط معلومات قابل سزا جرم ہوگا۔

سوشل میڈیا ادارے پاکستان کے وقار، سلامتی اور دفاع کے خلاف مواد ہٹانے کے پابند ہوں گے۔مذہب توہین رسالت، اخلاق باختہ اور فحش مواد کی تشہیر بھی قابل گرفت جرم ہوگاسوشل میڈیا ادارے اور سروس پرووائیڈرز کمیونٹی گائیڈ لائنز تشکیل دیں گے۔گائیڈ لائنز میں صارفین کو مواد اپ لوڈ کرنے سے متعلق آگاہی دی جائے گی کسی بھی شخص سے متعلق منفی مواد اپ لوڈ نہیں کیا جائے گا۔دوسروں کی نجی زندگی سے متعلق مواد پر بھی پابندی ہوگی۔ پاکستان کے ثقافتی اور اخلاقی رجحانات کے مخالف مواد پر پابندی ہوگی۔ بچوں کی ذہنی و جسمانی نشونما اور اخلاقیات تباہ کلرنے سے متعلق مواد پر پابندی ہوگی یو ٹیوب، فیس بک، ٹک ٹاک،ٹوئٹر، انسٹا گرام، گوگل پلس سمیت تمام سوشل میڈیا ادارے رولز کے پابند ہوں گے۔

شان رحمت اللعالمین ؐکے تقاضے

روہیل اکبر
مصطفی ؐجان رحمت پہ لاکھوں سلام۔شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام حکومت نے یکم ربیع الاول سے 12 ربیع الاول تک عشرہ شان رحمت اللعالمین ؐمنانے کا اعلان کیا ہے۔ پنجاب کے 36 اضلاع میں عشرہ شان رحمت اللعالمینؐ کے تحت تقریبات ہوں گی۔ شان رحمت اللعالمین ؐبیان کرنے کا حق ادا کرنے کیلئے نہ کوئی قلم ہے اورنہ کوئی زبان۔ نبی آخرالزماں حضرت محمد کی تعریف وتوصیف بیان کرنابہت بڑا اعزاز اور انعام ہے انسان تو انسان، فرشتے بھی نبی کریمؐ پردرودوسلام بھیجتے ہیں اور تا ابد بھیجتے رہیں گے ہر مسلمان حضرت محمدؐکی شان بیان کرنا اپنے لئے سعادت سمجھتا ہے۔شان رحمت اللعالمینؐ منانے کا مقصد دنیا کوپیغام دینا ہے کہ ہم دل و جان سے حضرت محمدؐ پر فدا ہیں اوران کی عظمت کسی بھی دنیاوی امر سے بالاتر ہے حضرت محمدؐکی عظمت انسانی سوچ اورخیال سے بالاتر ہے حضرت محمدؐ خاتم الالنبین ہیں اور آپ کی شان پر دنیا جہان قربان ہیں۔ اس بار اس طرح نہ صرف ہمیں اپنے نبیؐ کی سیرت کا علم ہوگا بلکہ بہت سی باتوں کو سیکھنے کا موقعہ بھی ملے گا جن پر عمل کرکے ہم اپنی زندگی کو اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق گزار سکتے ہیں حکومت نے عشرہ شان رحمت اللعالمینؐ کو بھر پور طریقے سے منانے کا مکمل انتظام کرلیا ہے اسی سلسلہ میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اسٹاف کو اعلی کارکردگی پر رحمت اللعالمین سے منسوب میڈل اور جیلوں میں عشرہ شان رحمت اللعالمینؐ کے دوران قیدیوں اور ملازمین کیلئے پریزن پیکیج کے تحت انعامات بھی دیے جائیں گے یہ دونوں محکمے اگر ٹھیک ہوجائیں تو ہمارا ملک ٹھیک ہوسکتا ہے اس لیے یہاں پر سیرت النبی کی تعلیم پورا سال ہوتی رہنی چاہئیں۔ مرکزی رحمت اللعالمین ؐکانفرنس، عالمی مشائخ علما کانفرنس، انٹرنیشنل میلاد مصطفی کا انعقادبھی کیا جائے گا۔تحصیل، ضلع، ڈویژن اور صوبائی سطح پر شان رحمت اللعالمین کے حوالے سے نعتیہ مشاعرے، مقابلہ حسن نعت، خطاطی کی نمائشیں اور مقابلے منعقد ہوں گی حکومت اور مخیر حضرات کی طرف سے پناہ گاہوں، ہسپتالوں، یتیم خانوں اور اولڈ ہاسز میں خصوصی کھانے پیش کئے جائیں گے۔
عشرہ شان رحمت اللعالمینؐ کے دوران سیرت طیبہؐ کے حوالہ سے خصوصی ڈاکومینٹری بھی آن ائر ہوں گی۔ حکومت نے صوبہ بھر میں رحمت اللعالمینؐ اسکالرشپ اسکیم بھی جاری کی ہیں اور اب تک ذہین اورنادار طلبا کو 27 کروڑ38 لاکھ روپے کے 10574 رحمت اللعالمینؐ سکالر شپ دیئے جاچکے ہیں۔رواں برس مزید 83 کروڑ40لاکھ روپے کے 29142 رحمت اللعالمینؐ اسکالر شپ دے گی۔رحمت اللعالمینؐ اسکالرشپ کیلئے گزشتہ برس 50 کروڑرکھے گئے۔ روا ں برس رحمت اللعالمینؐ اسکالرشپ کو بڑھا کر ایک ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
بہاوالّدین زکریا یونیورسٹی ملتان، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور،غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد، یونیورسٹی آف چکوال اور اوکاڑہ یونیورسٹی میں سیرت چیئر قائم ہوچکی ہیں اور حکومت پنجاب کی طرف سے سیرت چیئر کے تحت محققین کو ریسرچ کے لئے معاونت فراہم کی جائے گی ان سب باتوں کا مقصد یہ ہے کہ ہم سیرت النبی کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں اگر ایسا ہو جائے تو ہم دنیا کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں ہمارے اخلاق،پیار،محبت اور بھائی چارے کو دیکھ کر غیر مسلم بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں گے مگر اس کے لیے ہمیں اپنے پیارے نبیؐ کی پیاری پیاری باتوں پر عمل کرنا پڑے گا۔ ہمیں اس بات پر بھی ڈٹ جانا چاہیے کہ رازق اور الّرزاق صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات ہے جو سمندر کی تہہ،آسمانوں کی وسعتوں اور پتھر کے اندر جانداروں کو بلا تعطل رزق فراہم کررہا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنی اور بانٹنی چاہئیں کسی سے ہنس کر دو میٹھے بول بولنا بھی آسانی ہے اسکے علاوہ کسی اداس اور مایوس انسان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پیشانی پر کوئی شکن لائے بغیر اس کی لمبی اور بے مقصد بات سننا،صبح اپنے بچوں کے ساتھ کسی غریب کے بچے کو بھی سکول چھوڑدینا،غصے میں بپھرے ہوئے انسان کی کڑوی اور کسیلی باتوں کو برداشت کرنا،کسی ہوٹل میں کام کرنے والے یا دفتر،فیکٹری اور کم آمدن والے ملازم کو چھوٹا سمجھنے کی بجائے بھائی اور بیٹا سمجھنا،ہسپتال میں انجان مریض کے پاس بیٹھ کر اس کا حال پوچھنا اور تسلی دینا،ٹریفک کے اشارے پر رکنا اور ہارن نہ بجانا، ضرورت مند کی ضرورت اس کے تقاضہ کرنے سے پہلے پوری کردینا،سالن اچھا نہ لگے تو دستر خوان پر شکایت بلند نہ کرنابھی آسانیاں ہیں۔
بلا شبہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں مگر ابتدا انہی سے ہے آج کل ہم ماں باپ کی عزت بھی نہیں کرتے حالانکہ ہمیں باپ کی ڈانٹ ایسے سننا جیسے موبائل پر گانے سنتے ہیں اور ماں کی پہلی آواز پر لبیک کہناچاہیے تاکہ دوسری آواز کی نوبت نہ آئے اس کے علاوہ ہمارے پیارے آقاؐ نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے جس پر ہم نے بہت کم عمل کیا۔ ہم تو اپنے گھر کا کوڑاکرکٹ دوسرے کے دروازے پر پھینک دیتے ہیں پارکوں میں جوس کے ڈبے اور شاپر پھینکنا ہم نے اپنی عادت بنا لی ہے زندگی صرف ایک بار ملتی ہے آپکی جائیداداوردولت کو آپکے بعد مال غنیمت کی طرح تقسیم کرلیا جائیگا۔ دنیا میں مرنے کے بعد آپ زندہ رہ سکتے ہیں تو اپنے نیک اعمال کی وجہ سے ایک اور بات یاد رکھنے کی ہے کہ زندگی ہماری محتاج نہیں بلکہ ہم اس کے محتاج ہیں منزل کی فکر چھوڑ کر ہمیں اپنا اور دوسروں کا راستہ آسان بنانا چاہیے ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیداکریں یہی سیرت النبیؐ کا تقاضا ہے اور اسی سے ہماری نجات ہوگی۔
(کالم نگارسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

نئی بیماریوں کے پھیلاؤ کا خطرہ

ڈاکٹرناہید بانو
انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو زیادہ تر اموات کی وجہ بھوک اور قحط ہے۔ مزید تفصیل میں جانے سے دنیا میں خوراک کی کمی یا لاکھوں افراد کی بھوک کا سبب پودوں یا فصلوں کی بیماریاں ہیں۔ سب سے زیادہ تباہی 1845ء کی دہائی میں آئرش آلو کا قحط تھا۔ اس قحط کے اختتام پر انسانی آبادی 8 بلین سے 5 بلین رہ گئی تھی۔ تقریباً 2 بلین کے قریب افراد بیماری یا قحط کی وجہ سے موت کا شکار ہوئے اور باقی ایک بڑی تعداد شمالی امریکہ یا یورپ کی طرف ہجرت کر گئی۔ اسکے علاوہ چیسٹ نٹ بلائیٹ، گندم میں رسٹ، چاول میں براؤن سپاٹ اہم ہیں۔ 1943ء میں بنگال براؤن سپاٹ کی وجہ سے قحط دیکھ چکا ہے۔
پودوں کی بیماریاں ہی صرف خوراک کی کمی کی وجہ نہیں بنتیں بلکہ موسمیاتی تبدیلیاں بھی اس میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ دنیا میں بھوک کافی پیچیدہ مسئلہ ہے مگر ماہرین خاص طور پر پودوں کی بیماریوں پر کام کرنے والے افراد، سائنسدان اور تحقیقی ماہرین مختلف طریقوں سے خوراک کی کمی سے بچنے اور فصلوں کو بیماری سے بچانے کے لیے اہم معلومات فراہم کر سکتے ہیں۔ یہ ماہرین ناصرف گورنمنٹ اور پرائیویٹ اداروں کو اہم معلومات فراہم کرکے دنیا سے بھوک و افلاس ختم کرنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں بلکہ یہ علم تعلیمی اداروں سے نئی نسل تک منتقل کرسکتے ہیں۔ زرعی تحقیق کے ذریعے ماہرین ناصرف پیداوار بڑھانے میں کسانوں کو مدد فراہم کر سکتے ہیں بلکہ فصلوں کی ورائٹی کو بہتر بنانے، اخراجات کم کرنے کے ساتھ ساتھ بیماری کی تشخیص اور علاج میں بھی مدد فراہم کر سکتے ہیں۔
کسانوں کو فصلوں کی پیداوار بڑھانے اور نئی بیماریاں جو خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ظاہر ہوچکی ہیں یا مستقبل میں سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کے لیے عارضی نہیں بلکہ طویل المیعاد حل کی ضرورت ہے اور یہ طویل المیعاد حل سسٹین ایبل ایگریکلچر اور اینٹی گریٹڈ پیسٹ مینجمنٹ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ پاکستان میں فصلوں کی مختلف بیماریوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو کپاس کے پتوں کے کرل وائرس کی وجہ سے کپاس کی صنعت کافی نقصان دیکھ چکی ہے اسکے علاوہ شیشم، امرود کی بیماری، ٹماٹر کے پتوں کا سکڑاؤ، چاول میں بیکانائی، فائیٹوفتھورا کراؤن، مرچ کی جڑوں کے گلاؤ، کپاس کے پتوں میں مروڑ، کیلے کے گچھے کے سروں کی بیماری، مکئی کے تنے کے گلاؤ کی بیماری، ٹماٹر، آلو مرچ میں بیکٹیریا ولٹ، آم، چنے کی بیماری اور گندم میں رسٹ کی بیماری پاکستان میں ان فصلوں کے لیے نمایاں خطرہ ہیں۔ اسکے علاوہ آلو میں لیٹ بلائیٹ، ارلی بلائیٹ، کھیرے میں پاؤڈری ملڈیو، انگور میں سرمئی مولڈ، چیری میں کراؤن گال، خوبانی، بادام، آلوبخارے اور آڑو کے پودوں میں گموسس کی بیماری سے خطرہ ہے۔ پودوں کی بیماریوں سے زرعی پیداوار پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گندم پاکستان کی فصلوں میں نمایاں ہے اسکے پتوں کے رسٹ سے 1978ء میں 86 ملین ڈالر کا نقصان سامنے آیا جبکہ 1979ء میں چنے میں بلائیٹ کی وجہ سے 48 فیصد پیداوار میں کمی دیکھی گئی جس سے 90 ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔ 1992ء میں کیلے کی بیماری کی وجہ سے 915 ملین روپے کا نقصان سامنے آیا تھا۔
اہم اجناس اور فصلوں میں ہر سال خاص طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بہت سی بیماریاں سامنے آتی ہیں ساتھ ہی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے حشرات ایک سے پانچ اضافی نسل پیدا کر سکتے ہیں جس سے نقصان دہ کیڑے مکوڑوں کی تعداد میں کثیر اضافہ ممکن ہے۔ ایسی ہی حشرات کی ایک بڑی تعداد ٹڈی دل کے حملے کی صورت میں ابھی پچھلے سالوں میں پاکستان دیکھ چکا ہے۔ اس لئے نئی ٹیکنالوجی کا استعمال خاص طور پر مالیکیولر بائیولوجیکل طریقوں جیسا کہ جین کی پہچان، کلوننگ اور بیماری کے خلاف مؤثر جین کے ساتھ بیماری کے خلاف بہترین مدافعت رکھنے والی فصلوں کا استعمال نہایت ضروری ہے۔ اسکے علاوہ سستی، سادہ اور آسان ٹیکنالوجی جیسا کہ سپیکٹروسکوپک، جی آئی ایس (تصویر/ایمیج کی بنیاد پر پہچان) اور وولیٹائل پروفائل کی بنیاد پر پودوں کی بیماریوں کی پہچان کی تیکنیک کھیتوں میں پودوں کی صحت، طفیلیے اور بیماریوں کو مانیٹر کرنے کے لئے استعمال میں لائی جا سکتی ہیں۔
(کالم نگار ممتازماہر تعلیم ہیں)
٭……٭……٭

وبا کے دنوں میں انسان دوستی کا پیغام

سلیم قیصر
انسانی زندگی بے ثباتی اور بے یقینی کے کہر میں لپٹی ایک ایسے سفر کی داستان ہے جس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا کہ اگلے موڑ پر کون سا منظر یوں اچانک کہرے کی چادر سر سے ہٹاتے ہوئے آنکھوں کے آگے آپ کو حیران کردے، سفر کی سمت بدل دے منزل کی جانب جاتے وجود کو سُن کردے اور آس پاس کا سارا منظر ایک دم ساکت و جامد کردے۔
گزشتہ سے پیوستہ برس کرۂ ارض پر یوں ایک دم اور اچانک جنم لینے والے کرونا نام کے وائرس کا قصہ بھی کچھ یوں ہی ہے جس نے نہایت سرعت اور تیزی کے ساتھ دنیا بھر کی انسانی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے کر لاکھوں کی تعداد میں انسانوں کو لقمۂ اجل بنایا اور اس کرونا وباء کو رواں صدی کا اہم ترین واقعہ بنادیا۔ یہی نہیں اس وباء سے ہونے والی مختلف ممالک میں لوگوں کی پے در پے اموات اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی خوف اور ڈر کی فضاء نے انسانوں کی روزمرہ زندگی کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیا۔ مشینوں کے پہیے ایک دم خاموش ہوگئے، بازار، گلیاں اور سڑکیں سنسان نظر آنے لگیں۔ مزدور بے روزگار تو روزمرہ کے کاروبار سے منسلک افراد پریشان حال دکھائی دینے لگے۔ خدا کی قدرت ہے کہ ایک انتہائی چھوٹے اور انسانی آنکھ سے دکھائی بھی نہ دینے والے وائرس نے زمین پر بسنے والے سب مردوزن لوگوں کو گھروں میں محصور کردیا۔ انسانوں نے ایک دوسرے سے دور رہنے میں اپنی عافیت جانی، رابطوں کا فقدان شدت اختیار کرگیا اور اپنی ذات میں پہلے سے ہی تنہائی کاشکار آدمی اور بھی تنہائی کاشکار ہوگیا۔ کوویڈ 19 کے اس دور میں دنیا بھر کی معیشت متاثر ہوئی، طویل عرصے تک جاری رہنے والے مختلف ممالک میں لاک ڈاؤن نے دنیا بھر کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا۔ کاروبار زندگی بند ہونے کے سبب گھروں میں محصور لوگوں کے لئے کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی حکومتوں کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ خاص طور پر ایسے غریب اور ترقی پذیر ممالک جہاں ملکی معیشت کے حالات پہلے بھی کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہ تھے۔ کرونا وائرس کے باعث مزید ابتر ہوگئے۔
قوموں کی زندگی میں سخت اور مشکل حالات آزمائش بن کر آتے ہیں زندہ اور دلیر قومیں اتحاد و یکجہتی اور صبر و استقامت کے ساتھ ان کٹھن حالات سے کامیابی سے سرخرو ہو کر نکلتی ہیں۔ کوئی دو سال سے جاری کوویڈ 19 کے اس سخت ترین دور میں پاکستانی قوم نے وزیراعظم عمران خان کی رہنمائی میں جس ہمت اور بہادری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا ہے وہ بلاشبہ اپنی مثال آپ ہے۔
لاک ڈاؤن کے عرصے میں وزیراعظم عمران خان کا بارباریہ بات دہراناکہ ہمیں پاکستان کے غریب اورنچلے طبقے کے افراد کا سب سے زیادہ احساس ہے کہ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں وہ بے روزگاری کی لپیٹ میں نہ آجائیں،اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ غریب اور پسے ہوئے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے بارے میں اپنے سینے میں دردمند دل رکھتے ہیں کہ معاشی مسائل کاشکار نچلے طبقے کے لوگ لاک ڈاؤن کے باعث مزید معاشی پریشانیوں کاشکار نہ ہوں اوران کی زندگی کاپہیہ آسانی کے ساتھ آگے بڑھتارہے۔ کرونا لاک ڈاؤن کے د وران حکومت کی جانب سے شروع کیاگیا احساس پروگرام اس اعتبارسے واقعی قابل تعریف ہے کہ اس پروگرام کے ذریعے غریب اورمستحق افراد کو مسلسل اور تواتر کے ساتھ امدادی رقوم کی ترسیل جاری رہی۔ ان سخت اور مشکل حالات میں حکومت کی جانب سے یہ مالی اعانت اس بات کااظہارتھی کہ ان کی حکومت نے مشکل کی اس گھڑی میں عوام کوتنہا نہیں چھوڑاور اپنے لوگوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ سردارعثمان بزدارنے کرونالاک ڈاؤن میں اپنے صوبے کے مستحق افراد کی مالی امداد کیساتھ ساتھ فنکارکمیونٹی کوبھی فراموش نہیں کیااور آرٹسٹ سپورٹ فنڈ کے ذریعے پنجاب کے فنکاروں کومالی امداددینے کا سلسلہ جاری رکھاجوبلاشبہ قابل تحسین عمل ہے۔
کوویڈ19کے اس دورمیں مبارکباد کے مستحق ہیں دنیابھر کے وہ عظیم سائنسدان اورڈاکٹرجنہوں نے دن رات کی سخت جدوجہداور محنت کے بعداس موذی وائرس کا توڑدریافت کرتے ہوئے اس کی ویکسین تیارکرلی اور یوں ان کے اس صالح عمل سے دنیا بھر کے انسانوں کو اس موذی وائرس سے نجات ملی جس سے گزشتہ دو برس سے کرۂ ارض کے انسانوں کو سخت مشکل کاشکار کر رکھا ہے۔
وطن عزیزکے لوگوں کوہنگامی اورترجیحی بنیادوں پر کروناویکسین کی مفت فراہمی اور ویکسی نیشن انتظامات حکومت کی بہترین حکمت عملی کاثبوت ہے۔ سوشل میڈیا پراوائل میں کچھ منفی پروپیگنڈہ کیاگیا مگرہمارے باشعورعوام نے سمجھ داری کاثبوت دیتے ہوئے اس غلط اور بے بنیاد پروپیگنڈے کوناکام بنادیااوراپنی اوراپنے پیاروں کی زندگی کے تحفظ کیلئے زیادہ سے زیادہ تعدادمیں ویکسی نیشن کروارہے ہیں جس کا واضح فرق یہ پڑاہے کہ روزانہ کی بنیاد پر کروناسے متاثرہونے والے افراد کے اعدادوشمار میں واضح کمی دیکھنے کومل رہی ہے جوبلاشبہ بروقت ویکسی نیشن کا نتیجہ ہے۔حکومتی ذرائع اور میڈیا کے ذریعے بھرپور آگاہی مہم جاری ہے اوردیہاتوں اورشہروں میں لوگ اب ازخود کروناویکسی نیشن کرارہے ہیں جوبلاشبہ نہایت امیدافزابات ہے کہ عوام کے تعاون سے یہ سلسلہ یونہی جاری رہاتو بہت جلد ہماراپیاراوطن کرونا کی اس وباء سے بالکل پاک ہوجائے گا۔
تاریخ کے مختلف ادوارمیں ہمارایہ کرۂ ارض مختلف وباؤں کا شکاررہاہے اورانسان اپنے عزم وہمت سے ان وباؤں کو شکست دیتاآیاہے۔ کروناوائرس کی یہ وباء جس نے قریب قریب ساری دنیا کے انسانوں کو سخت پریشانی میں مبتلاکررکھا ہے، آدم کے بیٹوں کی ذہن رسااورخوب صورت حکمت عملی سے اب ختم ہونے کے قریب ہے اورپاکستان سمیت دنیابھر سے یہ وباء اس پیغام کیساتھ بہت جلد رخصت ہواچاہتی ہے کہ وسیع وعریض خلاء میں تیرتازمین کا یہ سیارہ کروڑہابرس سے انسانی نسل سے آباد ہے جس نے اپنے عقل ووجد ان کی جادوگری سے ہمیشہ ہرمشکل کوآسانی میں بدل دیاہے۔
(کالم نگار ڈیرہ غازیخان آرٹ
کونسل کے ڈائریکٹر ہیں)
٭……٭……٭

جنوبی ایشیا کا ایک اُدھورا خوا ب

اکرام سہگل
قارئین!میرے گزشتہ کالم جنوبی ایشیا کاایک ادھورا خواب کادوسرا حصہ ملاحظہ کیجئے۔
خلیجِ بنگال کے گرد جہاز رانی اور بحری سفر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ 1498میں پرتگالیوں نے برصغیر کے مغربی کنارے کو فتح کرلیا تھا۔ اس کے بعد 1511 میں میلاکا پر تسلط جمانے کے بعد انہوں نے کیپ آف کومرن میں سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ بنگال میں پرتگیزیوں کی نجی تجارت کا آغاز کئی اسباب سے تھا۔ اس میں جرائم کی صورت میں قانونی کارروائی سے استثنی، اپنے ممالک میں سخت گیر مذہبی عدالتوں سے فرار، دولت سمیٹنے اور ریاست کی جانب سے ملنے والی تنخواہ کی غیر یقینی صورتِ حال اس کے اسباب میں شامل تھے۔ لیکن سب سے اہم وجہ یہی تھی کہ وہ ایشیا کے اندر ہی بڑھتی ہوئی تجارت کی اہمیت کے باعث اس خطے کو کاروباری طور پر فعال کرنا چاہتے تھے۔
پرتگیزی اس خطے میں ہوگلی (موجودہ کلکتہ بندرگاہ) اور چٹا گانگ تک نہیں رکے بلکہ انہوں نے بکلا، سریپور، لوریکل، دیانگا اور سندوئیپ جیسے چھوٹی بندرگاہوں کو بھی استعمال کیا۔ یہ پورا علاقہ ان کی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا تھا۔ پرتگیزی 16ویں صدی کے آغاز میں بنگال کی سب سے اہم بندرگاہ چٹاگانگ تک پہنچ چکے تھے۔ 1535تک انہوں نے چٹاگانگ پر کسٹم ہاؤس بنانے کا اختیار بھی حاصل کرلیا تھا۔
سترھویں صدی تک پرتگیزی جنوب مشرقی ڈیلٹا میں دو طرح کا بندوبست کر چکے تھے۔ چٹاگانگ ایک بڑی بندرگاہ تھا اور وہاں پرتگیزی مضبوطی سے پاؤں جما چکے تھے۔ دیانگا، چندیکن، سرپور، سندوئپ اور سریام بھی اسی زمرے میں آتی تھیں۔ جب کہ موسمی نوعیت کے استعمال کے لیے چارگن اور انگا جیسی بندرگاہیں تھیں۔ 1632 میں ہوگلی پر پرتگیزیوں کا تسلط ختم ہوا اور اس کا انتظام شاہ جہاں کی فوجوں نے حاصل کرلیا۔ اس کے بعد اٹھارہویں صدی میں ولندیزیوں اور انگریزوں نے اس خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوششیں شروع کردیں۔
پرتگیزیوں (اور ان کے علاوہ ولندیزیوں اور انگریزوں) کا دوسرا ’پیشہ‘ قزاقی تھا۔ جدید بنگال کے ابتدائی دور میں اس کی جنوب مشرقی ڈیلٹا میں پرتگیزیوں کے سوداگروں، مہم جو افراد اور سرکش افراد پرتگالی ریاست کی دست رس سے دور رہنے کے لیے بڑی تعداد میں جمع ہوچکے تھے۔ یہ نجی گروہ بنگال کے ساحلوں پر کوئی نہ کوئی ہنگامہ کھڑا رکھتے تھے لیکن خطے کی سیاسی اور معاشی تشکیل میں ان کا کردار اہم تھا۔ مختصر مدت ہی کے لیے سہی لیکن پرتگیزی اس علاقے میں طاقتور رہے۔ یہ علاقہ قزاقوں کے لیے بہت موزوں تھا۔ یہ ایک مصروف اور منافع بخش تجارتی بندرگاہ تھی لیکن اس کے تحفظ کے لیے مضبوط ریاست اور بحریہ نہیں تھی۔ اس کے لیے چھوٹے چھوٹے جزیرے، کھاڑیوں، تنگ آبی گزرگاہوں اور مینگروز کی کثرت سے جرائم پیشہ افراد کے لیے یہ علاقہ محفوظ پناہ گاہ تھی۔ 1750سے 1860کے دوران یہاں قزاقوں کی چاندی رہی۔
غلاموں کی تجارت کرنے والے یا بردہ فروشوں کی بنگال پر تواتر سے چھاپہ مار کارروائیوں کے کئی اسباب تھے۔ ہوسِ زر میں مبتلا یہ سوداگر اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اپنے ملکوں میں لوگوں کو غلام بنانے سے زیادہ منافع غیر ملکی غلاموں کی تجارت میں ہے۔ اس کے علاوہ کئی علاقوں میں ہنرمند اور نیم ہنرمند افراد کی ضرورت تھی۔ ولندیزی سلطنت کو مسالوں کی کاشت اور کان کنی کے لیے بے شمار غلام درکار تھے۔ سماٹرا کی آچے سلطنت کو بھی کاشت کاری اور کانوں پر کام کرننے کے لیے غلام چاہیے تھے۔ بنگال میں لاکھوں کی تعداد میں ایسی افرادی قوت موجود تھی۔ ہندوستانی غلام مختلف فنون اور دست کاری وغیرہ میں مہارت کی وجہ سے زیادہ قیمت میں فروخت ہورہے تھے اور انہیں افریقہ کی نئی نوآبادیات میں بھی پہنچایا جارہا تھا۔
چٹاگانگ کی بندرگاہ اور شہر پرتگیزیوں کی سرگرمیوں کے لیے مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ خطہ جنوب مشرقی ایشیا میں ان کی نئی نوآبادیات کو مدد فراہم کرنے کے لیے بھی اہم تھا۔ شاہ جہاں نے جب سے پرتگیزیوں کو ہوگلی سے پسپا کیا تھا تو ان کے لیے اس علاقے کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی تھی۔ لیکن ایک صدی کے دوران ولندیزیوں نے خطے میں پرتگال کو پیچھے چھوڑ دیا۔ پرتگیزی ماضی کے تنازعات کے باجود راکھائن سلطنت جہاں آج میانمار قائم ہے کو مدد فراہم کرتے تھے۔ مغل اور برما کی سلطنت کے بیچ میں ماگھ جارحیت ہی کو بہترین دفاع سمجھتے تھے۔
1663میں بنگال صوبہ شدید مشکلات میں گھرا ہوا تھا۔مغل سلطنت میں اسے شامل کرنے کے لیے ہونے والی جنگیں بے نتیجہ رہی تھیں اور ان چھاپہ مار کارروائیوں نے بھاری نقصان پہنچایا تھا۔ سابق گورنر جملہ خان اہوموؤں کے ساتھ تباہ کُن جنگ میں مارا گیا تھا۔ اہومو موجودہ بھارت کی ریاست آسام اور اروناچل پردیش کے علاقے میں بسنے والا نسلی گروہ تھا۔ نیا گورنر شائستہ خان شہنشاہ اورنگزیب کا چچا تھا۔ محاذِ جنگ میں اس کا ماضی تابناک رہا تھا لیکن شوا جی کے ہاتھوں شکست کی وجہ سے شہنشاہ اس سے خفا تھا۔ اسی لیے شہنشاہ نے شائستہ خان کو بنگال بھیج دیا تھا۔
شائستہ خان کو سمندر سے ہونے والی لوٹ مار کو روکنے کے لیے تو بھیجا ہی گیا تھا لیکن اس میں انتقام بھی پوشیدہ تھا۔ جانشینی پر اپنے بھائی اورنگزیب سے جنگ میں شکست کے بعد شہزادہ شجاع اور اس کا خاندان راکھائن سلطنت میں پناہ گزین تھا۔ تاریخی روایات میں یہ بات آتی ہے کہ راکھائن بادشاہ نے شجاع اورا س کے بیٹوں کو بے دردی سے قتل کردیا تھا اور اس کی بیٹی کی آبرو ریزی کی تھی جس کے بعد شہزادہ شجاع کی بیٹی نے خودکُشی کرلی تھی۔ شائستہ خان کو اس خون کا بدلہ لے کر شجاع کے خاندان کے باقی زندہ افراد کو واپس لانے کا ہدف دیا گیا تھا۔
شائستہ خان نے تیزی سے سلطنت کا ڈھانچا کھڑا کیا، قلعے تیار کروائے، سڑکیں اور پُل تعمیر کرائے۔ اس کے علاوہ زمینی اور بحری فوج کے بڑے دستے تیار کیے۔ اس کے لیے شائستہ خان نے ولندیزیوں سے بھی مدد لی۔ 1665میں مغلوں نے راکھائن سلطنت کے لیے تزویراتی اہمیت رکھنے والا سندویپ چھین لیا۔ چٹاگانگ پر قبضہ کرنا اہم ہدف تھا۔ اس کے لیے شائستہ خان نے پرتگیزیوں اور راکھائنیوں کے تنازعات کو استعمال کیا۔ شائستہ خان نے پرتگیزیوں کو اپنے آقاؤں سے غداری پر آمادہ کیا۔ انہیں یہ سمجھایا کہ تجارت دوست مغلوں سے ان کا اتحاد زیادہ منفعت بخش ہوگا۔ ظاہر ہے کہ انہیں اپنا حامی بنانے کے لیے بھاری رشوت بھی دینا پڑی۔ پرتگیزیوں نے راکھائن سے غداری کی اور ڈھاکا تک پہنچ گئے۔ راکھائن فوج تیزی سے چٹاگانگ میں جمع ہوگئی لیکن شائستہ خانہ نے زمین پر ایک فوج بھیجی اور متوازی طور پر مغلوں اور پرتگیزیوں کی بحریہ کو بھی چٹاگانگ روانہ کردیا۔ اس دوطرفہ حملے نے راکھائن فوج کو تباہ کردیا۔
مغل فوجوں کی اس فتح سے خلیجِ بنگال اور اس سے منسلک دریاؤں میں قزاقی کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اتفاق ہے کہ آج بنگلادیشیوں اور روہنگیاکے مچھیروں کو اس خطے میں پھر اسی مسئلے کا سامنا ہے۔ تاہم چٹاگانگ کا ہاتھ سے نکلنا ور پرتگیزیوں کی حمایت کا خاتمہ بڑا دھچکا تھا۔ ماگھ بڑے جنگی بیڑے بنانا نہیں جانتے تھے اور انہیں جنگ میں بڑا نقصان ہوچکا تھا۔ دوسری جانب شائستہ خان نے ایک باصلاحیت بحری فوج تیار کی تھی۔ راکھائن پہلے کی طرح سمندر اور بحری راستوں پر کارروائیاں کرنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ داخلی انتشار اور کرائے کے فوجیوں پر انحصار کی وجہ سے یہ سلطنت رفتہ رفتہ کمزور ہوتی چلی گئی اور 1784میں اس پر برما نے قبضہ کرلیا۔ البتہ بنگال ایک طویل عرصے تک شائستہ خان جیسے زیرک حکمران کے زیر نگیں آگیا۔
اٹھارہویں صدی کے بعد پرتگیزی اور ان کی اولاد بنگال کی پھیلتی ہوئی سلطنت کا حصہ بنتے چلے گئے۔ مغربی بنگال اور بنگلا دیش کے کلچر میں اس ورثے کا رنگ محسوس کیا جاسکتا ہے۔
(فاضل کالم نگار سکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭

قوم کا ہیرو

عبدالباسط خان
ڈاکٹر عبدالقدیر خان چلے گئے، وہ ایک ہیرو تھے، ہیرو رہیں گے، قوم اُن کو محسنِ پاکستان کے نام سے جانتی ہے۔ انہوں نے پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کی اور پاکستان کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ آج اگر پاکستان ہندوستان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہے تو وہ صرف اور صرف ڈاکٹر اے کیو خان کی بدولت جب 1974ء میں ہندوستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تو اس محب وطن پاکستانی کی نیندیں اُڑ گئیں اور اس نے پکا عہد کر لیا کہ وہ ہندوستان کو ایسا جواب دے گا کہ اس کی آئندہ نسلیں بھی پاکستان پر فوج کشی کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچیں گی۔ پاکستان میں اس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور ذوالفقار علی بھٹو جیسا لیڈر اس ملک کا سربراہ تھا جس نے وہ مشہور جملہ کہا کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔ شاید یہی وہ مقام تھا جہاں دشمنوں نے جن کو بھٹو صاحب سفید ہاتھی کہتے تھے انہوں نے بھٹو صاحب کو ٹارگٹ کیا یوں ایک ایسے لیڈر کو مفلوج اور بے بس کر دیا جن کے سامنے انسانوں کا سمندر موجود ہوتا تھا لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جب بھٹو صاحب کو خط لکھا اور پاکستان کے لئے اپنی خدمات پیش کیں تو بھٹو صاحب کی زیرک اور جہاندیدہ شخصیت نے اس عقاب کی بلندی اور عظمت کو پہچان لیا اور یوں بھٹو صاحب نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو مکمل اختیار اور خود مختاری دی جس کی وجہ سے وہ منزل جو کوسوں دور تھی بہت کم عرصے میں قریب آ گئی اور ڈاکٹر اے کیو خان پاکستان کے بانی ایٹمی سائنسدان بن گئے۔ قوم ان کو نجات دہندہ سمجھتی تھی کیونکہ اس سے پہلے 1965ء کی جنگ میں ہندوستان نے بزدلانہ حملہ کیا تھا اور ان کے ارادے پاکستان کی ریاست(خدانخواستہ) کو ختم کرنے کے تھے اور اس جنگ کے پس منظر میں پاکستان ہندوستان کے نشانے پر تھا لہٰذا جو حالات بعد میں ان کے ٹیلی ویژن خطاب کا باعث بنے چاہے وہ کچھ بھی کیوں نہ ہوں، قوم ان کو بے گناہ سمجھتی تھی۔
امریکہ چونکہ پاکستان کو ایٹمی قوت کے طور پر دیکھنا نہیں چاہتا تھا لہٰذا رونالڈ ریگن اور جارج ڈبلیو بش کے زمانے سے امریکی صدر ہر سال پاکستان کو نان ایٹمی طاقت کے طور پر سرٹیفکیٹ دیاکرتے تھے لیکن 1990ء کے بعد امریکی صدور نے یہ سرٹیفکیٹ دینا بند کر دیا۔ یہ بحث ایک طویل بحث ہے کہ پاکستان کو ایٹمی دھماکے کرنے چاہئیں تھے یا نہیں اور کیا دھماکے کرنے کا وقت موزوں تھا یا نہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے دوسرے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ضیاء الحق جب کرکٹ کا میچ دیکھنے انڈیا گئے تھے اس وقت دونوں ممالک کے درمیان سردجنگ زوروں پر تھی اور ہندوستان پاکستان پر حملہ کرنے کے لئے تُلا ہوا تھا۔ ضیاء الحق کے بارے میں مشہور ہے کہ راجیو گاندھی سے ملاقات کے موقع پر انہوں نے اپنے ہم منصب کو آگاہ کر دیا تھا کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور ایٹم بم ہم نے کھیلنے کیلئے نہیں بلکہ استعمال کرنے کیلئے بنایا ہے لہٰذا ایک جنگ کا ماحول اور خطرہ جو پاکستان پر منڈلا رہا تھا وہ ٹل گیا۔
اگر یہ کہا جائے کہ محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر خان صاحب نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنا کر ہمیشہ کیلئے ناقابلِ تسخیر بنا دیا اور ہندوستان کا پاکستان کو ختم کرنے کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا تو مناسب ہوگا۔ اگر ہم سویڈن کے سٹاک ہوم بین الاقوامی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا دعویٰ تسلیم کریں تو اس وقت ہندوستان 80 اور 100 کے قریب وارہیڈز رکھتا ہے جبکہ پاکستان 90 سے 110 کے قریب وارہیڈز رکھتا ہے۔ اس دوران بین الاقوامی تھنک ٹینک یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ چائنا جو پاکستان کو ایٹمی پروگرام میں مدد کر رہا ہے، آئندہ پانچ سالوں میں پاکستان 200 وار ہیڈز کو کراس کر جائے گا۔ یہ سب کچھ اے کیو خان کی مرہون منت ہے جس کو 2004ء میں اسلام آباد کے قریب حراست میں رکھا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ ہندوستان کا وہ بے بنیاد پروپیگنڈہ تھا جس میں وہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا دعویٰ کر رہا تھا جس سے امریکہ سمیت مغربی ممالک الرٹ ہو گئے اور اس محسنِ پاکستان کو قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑ گئیں تاہم انیاڈالو ایجنسی کے اس منفی دعوے کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے 2017ء کے اپنے اس انٹرویو میں مکمل طور پر مسترد کر دیا۔
ڈاکٹر اے کیو خان نے اس دعوے کی نفی بھی کی اور واضح طور پر اپنے انٹرویو میں اس اقدام کو بھارت کا پراپیگنڈہ کہہ دیا اور کہا کہ ایٹم بم کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس کو سوٹ کیس میں بند کر دیا جائے اور کوئی دہشت گرد اس کو لے کر چلتا بنے۔ بقول ان کے نیوکلیئر ہتھیاروں کو بنانے میں بے شمار مرحلے ہوتے ہیں اور صرف اور صرف ٹاپ لیول کے سائنس دان ہی اس کی تیاری کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر اے کیو خان نے پاکستان کے ٹاپ سویلین ایوارڈ تین مرتبہ حاصل کئے۔ ان کی کرونا کے نتیجے میں وفات پر پاکستان کے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان، سپہ سالار پاکستان قمر جاوید باجوہ سے لے کر ہر سیاست دان اور فوج کی اعلیٰ کمان نے جناب اے کیو خان کو عظیم خراج تحسین پیش کیا۔ پاکستان کے میڈیا میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان مسلسل 48 گھنٹے تک چھایا رہا اور قوم نے اس پاکستانی مجاہد کے جنازے میں جس طرح شمولیت کی اور ان کو لحد میں اُتارا وہ قابلِ دید منظر تھا اور پاکستان کے بڑے بڑے جنازوں کے شرکا کے اعتبار سے اعداد و شمار کو پیچھے چھوڑ دیا۔
(کالم نگارمختلف موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

خیبر پختونخوا نے ایک مرتبہ پھرقومی ٹی 20کپ کا تاج سر پر سجالیا

 قذافی سٹیڈیم لاہور میں سنٹرل پنجاب اور خیبر پختونخواکے مابین فیصلہ کن معرکہ ہوا جس میں کے پی کی ٹیم نے ٹائٹل کا دفاع کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر فتح اپنے نام کی۔

ایونٹ کے فائنل میچ میں سنٹرل پنجاب کی ٹیم نے پہلے کھیلتے ہوئے 148رنز بنائے اور پوری ٹیم پویلین لوٹ گئی،احمد شہزاد نےسب سے زیادہ 44رنز بنائے جبکہ کامران اکمل 42اور قاسم اکرم20سکور بنا کر نمایاں بیٹسمین رہے،محمد عمران اور افتخار احمد نے 3،3وکٹیں اپنے نام کیں جبکہ ارشد اقبال نے 2،عمران خان اور خالد عثمان نے 1،1وکٹ حاصل کی۔

149رنز کا ہدف خیبر پختونخوا کی ٹیم نے صرف 3وکٹوں کے نقصان پر 17اوورز میں 152رنز بنا کر حاصل کرکے کامیابی سے ٹائٹل کا دفاع کیا،کپتان افتخار احمد نے ناقابل شکست 45رنز بناکر اپنی ٹیم کی جیت میں کلیدی کردار ادا کیا جبکہ کامران غلام37اور عادل امین 25سکور بناکر نمایاں رہے۔