سی پیک میں توسیع طالبان حکومت بھی شمو لیت پر تیار

کابل (مانیٹرنگ ڈیسک) طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ پاکستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے، ان کا موقف قابل تحسین ہے، چاہتے ہیں سی پیک میں شامل ہوں، پاکستان ہمارا پڑوسی ملک اور افغانوں کا دوسرا گھر ہے، افغانستان کو پشاور اور پاکستان کے دیگر علاقوں سے منسلک کیا جائیگا جبکہ سی پیک منصوبہ اہم ہے جس پر تھوڑی تحقیق کی ضرورت ہے، دورہ پاکستان کی دعوت ملی تو قیادت معاملیپر غورکریگی۔ افغان میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان کے نئے حکمران طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ کئی ممالک نے امریکہ اور عالمی برادری کے سامنے ہمارے حق میں آواز اٹھائی، 6روز قبل چین اور روس نے بھی ہماری حکومت کے حق میں بات کی، قطر، ازبکستان اور دیگر ممالک نے بھی مثبت موقف اپنایا ہے۔ ترجمان طالبان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کے ساتھ عالمی برادری کے روابط ضروری ہیں، افغانستان کو تجارت اور اقتصادی امور میں ہمسایہ ممالک کی ضرورت ہے اور اس بات کی توقع ہے کہ ہمسایہ ممالک اپنا مثبت کردار جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پنج شیر میں لڑائی ختم ہوچکی ہے، بیشترمقامی عمائدین، علمائے کرام اور مجاہدین ہمارے ساتھ ہیں، ہم کسی کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے اور پوری دنیا کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں، لیکن اگر کوئی لڑائی یا حملے کی خواہش رکھتا ہے تو سخت جواب دیا جائیگا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کے بعد ہماری ترجیح ہے کہ تجارت فروغ پائے، لاکھوں افغان مہاجرین اب بھی پاکستان میں رہائش پذیر ہیں، ہماری زبان، مذہب مشترکہ اور رسم ورواج بھی ایک جیسے ہیں جبکہ دورہ پاکستان کی دعوت ملی تو قیادت معاملے پر غورکریگی۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ افغان سرزمین کسی ملک کیخلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، ہم ایک اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں، کشمیری ہمارے بھائی ہیں، اس لئے عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم بند کرائے۔ ترجمان طالبان نے کہا کہ کشمیری،میانمار اور فلسطینی بھائیوں کی سیاسی و سفارتی حمایت کریں گے۔ دوسری جانب طالبا ن نے عالمی برادری سے افغانستان کے لئے بین الاقوامی پروازوں کی بحالی کی اپیل کردی ہے۔ افغان وزارت خارجہ نے امریکہ کی جانب سے پابندیوں میں نرمی کا خیر مقدم کرتے ہوئے بین الاقوامی پروازوں کی بحالی کی درخواست کی اور کہا کہ طالبان قیادت تمام ایئر لائنز کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرواتی ہے، نئے سیاسی نظام کی آمد کے باعث ایوی ایشن کو ٹیکنیکل مسائل کا سامنا تھا جس کے باعث بین الاقوامی پروازیں منسوخ کردی گئیں۔ اب کابل ایئرپورٹ مکمل طور پر آپریشنل ہے، لہٰذا عالمی برادری پروازوں کو بحال کرے،وطن لوٹنے کے خواہش مند افغان شہری دیگر مما لک میں پھنسے ہوئے ہیں اور نہ ہی بیرون ملک نوکری اور تعلیم حاصل کرنے والے افغان شہری باہر جا پا رہے ہیں۔ طالبا ن نے امریکی حکومت کی جانب سے پابندیوں میں نرمی کا خیر مقدم کرتے ہوئے عالمی برادری اور بین الاقوامی اداروں سے افغانستان کی امداد کی اپیل کی ہے جبکہ امریکہ نے افغان طالبان پر پابندیوں میں کچھ نرمی کرتے ہوئے انسانی امداد کی فراہمی کے لیے دو لائسنس جاری کئے تھے۔ افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ نے چین اور قازقستان کے سفیروں سے ملاقاتیں کرتے ہوئے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت کی مکمل بحالی پر زور دیا جبکہ عالمی ادارہ برائے اطفال کی جانب سے صوبہ جوزجان میں طبی سہولیات پہنچائی گئیں۔

اسلام آباد (این این آئی)وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ کراچی کے ساحلی زون کو سی پیک میں شامل کرنا گیم چینجر ہے، ماہی گیروں کیلئے سمندر کو محفوظ بنائیں گے۔ اتوار کو ٹوئٹر پر اپنے بیان میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کراچی کے ساحلی زون کو سی پیک میں شامل کرنا گیم چینجر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماہی گیروں کیلئے سمندر کو محفوظ بنائیں گے۔ وزیراعظم نے کہاکہ ساحلی زون منصوبہ کے تحت کم آمدنی والے افراد کیلئے 20ہزار گھریلو یونٹ تیار کریں گے جس سے سرمایہ کاروں کیلئے سرمایہ کاری کے مواقع پیدا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کو دیگر ترقی یافتہ پورٹ سٹیز کے برابر لائیں گے۔ وزارت بحری امور نے سی پیک کے تحت کراچی کے لیے اقتصادی ٹرانسفارمیشن پراجیکٹ کا اعلان کر دیا۔ وفاقی وزیر ساحلی امور علی زیدی نے منصوبے کی تفصیلات ٹوئیٹ کے ذریعے جاری کردیں، کراچی کوسٹل کمپری ہینسیو ڈیولپمنٹ زون (کے سی سی ڈی زیڈ) 3.5ارب ڈالر سے مکمل ہونے والا منصوبہ کراچی کو ایک جدید شہری انفرااسٹرکچر زون فراہم کرے گا، منصوبہ کے پی ٹی کے ساتھ شراکت میں براہ راست چینی سرمایہ کاری سے تعمیر ہوگا۔ وفاقی وزیر ساحلی امور علی زیدی کے مطابق منصوبہ پاکستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا۔ اسلام آباد اور بیجنگ میں منعقد سی پیک پر دسویں جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی کے اجلاس میں دونوں ممالک نے کراچی کوسٹل کمپری ہینسیو ڈیولپمنٹ زون کو سی پیک فریم ورک میں شامل کرنے پر اتفاق کرلیا۔ منصوبے کے لیے کراچی پورٹ کے مغربی بیک واٹر کی 640ایکڑ دلدلی زمین ری کلیم کی جائے گی۔ اتوار کو اپنے جاری بیان میں وفاقی وزیر علی زیدی نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق کم لاگت کی رہائشی سہولت کی فراہمی بھی کے سی سی ڈی زیڈ منصوبے کا حصہ ہے جس سے ملحقہ کی آبادیوں کے 20ہزار خاندانوں کی ری سیٹلمنٹ کی جائے گی۔ اس ماحول دوست منصوبے میں کراچی پورٹ پر چار نئی برتھوں کا بھی اضافہ کیا جائے گا جس سے پاکستان کے بڑھتے ہوئے میری ٹائم سیکٹر کی استعداد میں اضافہ ہوگا۔ جدید سہولتوں سے آراستہ فشنگ پورٹ اور عالمی معیار کا فشریز پراسیسنگ زون بھی منصوبہ کا حصہ ہے جس سے پاکستان کے تجارتی امکانات میں اضافہ ہوگا۔ منصوبہ میرین ایکو سسٹم کو بہتر بنانے کے ساتھ سمندری آلودگی کو بھی کم کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ منصوبے میں لیاری ندی پر واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی تعمیر بھی شامل ہے۔چین کی معاونت سے تعمیر ہونے والے اس اہم پراجیکٹ کو ایک ہاربر برج کے ذریعے کراچی سے منسلک کیا جائے گا یہ پل پاکستان ڈیپ واٹر پورٹ کے عقب سے شروع ہوکر منوڑہ جزیرے اور سینڈزپٹ کے ساحل پر ختم ہوگا۔

 

تم کیا جانو،چاند نگر میں کتنی پریاں رہتی ہیں

علی سخن ور
ج سے محض دس بارہ دن پہلے تک، سارے پاکستان میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسینڈا آرڈرن سے زیادہ ہ مقبول مغربی لیڈر اور کوئی بھی نہیں تھا۔کرائیسٹ چرچ سانحے کے بعد جسینڈا نے مسلمانوں کی گلے لگ لگ کر جس انداز میں دل جوئی کی، اس کے بعد تو معصوم مسلمان ان کے دیوانے ہی ہوگئے۔ بعض تصاویر میں سیاہ سکارف میں لپٹی اس مغربی خاتون کے بارے میں کچھ خوش فہم نیک فطرت مسلمان تو یہاں تک کہنے لگے کہ جیسنڈا بہت جلد اسلام قبول کر لیں گی۔ لوگ اس حقیقت کو سمجھ ہی نہیں سکے کہ جسینڈا بی بی اگر وہ سب کچھ نہ کرتیں تو نیوزی لینڈ کو دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرف سے بد ترین رد عمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ لگ بھگ پانچ ملین آبادی والے اس خوبصورت سے ملک کی سب سے قیمتی چیز وہاں کا امن و امان ہے۔امن نہ ہو تو مری اور سوات کی دلکش وادیاں بھی بے کیف ہوجاتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر بھی اس حوالے سے جیتی جاگتی مثال ہے، وہاں امن ہوجائے تو دنیا کے دیگر تمام تفریحی مقامات ویران ہوجائیں، تمام سیاح آنکھیں بند کرکے اسی وادی کو اپنی منزل بنالیں۔ مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں، خوشحالی آئے، لوگ ترقی کریں۔ مگر یہ سب کچھ بھارت سرکار کے لیے نہ توماضی میں قابل قبول تھا، نہ ہی آج۔ بھارتی قابض فوجی انسانی حقوق کی ایسی پامالی کا سبب بنتے ہیں کہ وادی خوف کے سیاہ بادلوں میں لپٹی رہتی ہے۔جسینڈا کو بھی یہی خوف تھا کہ بدامنی ان کے پرسکون رنگ برنگ معاشرے کو نگل جائے گی۔اسی لیے مسلمانوں کو شانت رکھنے کے لیے انہیں نا چاہتے ہوئے بھی بہت کچھ کرنا پڑا۔حقیقت کیا تھی اور سچائی کیا، سب کا سب نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے حالیہ دورہ پاکستان کی منسوخی کی صورت میں سامنے آگیا۔ پھر یہ بھی ہے کہ اگر یہ دورہ شروع ہونے سے پہلے ہی منسوخ ہوجاتا تو پاکستان کے لیے اتنا باعث تکلیف نہ ہوتا، ملکوں کی سفارتی تاریخ میں ایسے بچگانہ واقعات بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں کہ میچ شروع ہونے سے محض چند منٹ پہلے مہمان ٹیم کہے، ہمیں ڈر لگ رہا ہے، ہمیں گھر جانے دو۔
اگرچہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی کمیں گاہ میں ہمارے دوستوں کے ڈیرے ہی دکھائی دے رہے ہیں لیکن پاکستان کو شکوہ بہر حال صرف اور صرف نیوزی لینڈ ہی سے رہے گا۔نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کو ہمارے وزیر اعظم نے ذاتی طور پر فون بھی کیا اور یقین دلایا کہ نیوزی لینڈ ٹیم کی سیکیورٹی دنیا کی مانی ہوئی انٹیلی جنس ایجنسی اور پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے ہاتھ میں ہے، ٹیم کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں لیکن جسینڈا کو کسی بات پر یقین نہیں آیا۔اس بات کا بھی امکان ہے کہ اٹھارہ سال بعد پاکستان کا دورہ کرنے والی نیوزی لینڈ ٹیم کے کھلاڑی پاکستانی کرکٹرز کا مقابلہ کرنے سے خائف ہوں اور عزت بچانے کے لیے اس طرح کا جواز تلاش کر لیا گیا ہو۔ اگرچہ نیوزی لینڈ کا یہ رویہ دل دکھانے والا ہے لیکن پاکستانیوں کو ہمت رکھنی چاہیے، اس طرح کے اور بھی واقعات ابھی دیکھنے میں آئیں گے۔ افغانستان کے میدان میں منہ کی کھانے والی بہت سی طاقتیں ہم پاکستانیوں کو اپنی شکست کا ذمے دا ر سمجھتی ہیں، افغانستان کا سیاسی منظرنامہ بدلنے سے امریکا اور بھارت جیسے بہت سے ممالک کا لگا بندھا روزگار ختم ہوگیا،دکانداری چمکانے کے امکانات بھی معدوم ہوگئے،چین کو سورج کی طرح کھلے آسمان پر چمکنے کا موقع مل گیا، اس سب کے نتیجے تکلیف تو ہوگی، رونا بھی آئے گا اور دل میں انتقام کی آگ بھی سلگتی رہے گی۔ انتقام ایسی آگ ہے کہ بعض دفعہ تو خود انتقام کی خواہش رکھنے والے کو جلا کر راکھ کردیتی ہے۔اس وقت امریکا اور بھارت بھی ایسی ہی آگ میں سلگ رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہارے ہوئے یہ ممالک کس کس طرح اور کہاں کہاں ہمارے راستے میں روڑے اٹکائیں گے۔ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنا ہوگی کہ ملکوں کی زندگی میں تعلقات محض مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اگر مفادات کے علاوہ دیگر کوئی اور بنیادیں ہوتیں تو آج OICکا مردہ گھوڑا ریس کے میدان میں ہاٹ فیورٹ ہوتا۔ملکوں کے تعلقات شطرنج کی بساط جیسے ہوتے ہیں مگر شطرنج کی اس بساط کا بس ایک ہی اصول ہوتا ہے اور ایک ہی ضابطہ، ’فائیدہ اٹھاؤ۔بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لو‘۔ برطانیہ کو ہی دیکھ لیں، ایک طرف ہمیں کرونا کے حوالے سے ریڈ لسٹ سے نکال دیا، سب پاکستانی بہت خوش ہوگئے لیکن تھوڑے ہی دن بعد، جسینڈا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، اپنی کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان بھی یہ کہہ کر منسوخ کردیا کہ سیکیورٹی خطرات ہمیں پاکستان آنے سے روک رہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھیے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کا براہ راست انخلاء جب ممکن نہیں رہا تو انہیں پاکستان جیسے ”سیکیورٹی خطرات“ میں گھرے ہوئے ملک نے ہی ٹرانزٹ قیام فراہم کیا۔
پاکستان کو سیکیورٹی خطرات کا شکار ملک قرار دینے والی جسینڈا آرڈرن شاید یہ بات بھول گئی ہیں کہ ان کے اپنے ملک سے بڑھ کر سیکیورٹی خطرات میں گھرا ملک اور کون سا ہوگا کہ جہاں ایک خونی باقاعدہ منصوبہ بندی کے بعد دو مختلف عمارتوں میں نہ صرف پچاس سے زائدبے گناہ انسانوں کو اپنے آٹومیٹک گن سے بھون دیتا ہے بلکہ اس سارے واقعے کو لائیو ٹیلی کاسٹ بھی کرتا ہے۔ واضح رہے کہ 15مارچ2019کو ہونے والے اس سانحے میں پچاس سے زائد لوگ شدید زخمی بھی ہوئے تھے جن میں سے یقینا بہت سے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی ہار چکے ہوں گے۔پاکستان کو سیکیورٹی تھریٹ کا شکار کہہ کر ٹیم واپس بلانے والے جسینڈا بی بی سے کبھی نہ کبھی یہ سوال ضرور کیا جائے گا کہ جب وہ خونی اس قتل عام کی منصوبہ بندی کر رہا تھا تو آپ کی انٹیلی جنس ایجنسیاں کہاں تھیں اور آپ کے سیکیورٹی ادارے کیا کر رہے تھے۔ یقینا یہ سوال بھی پوچھا جائے گا کہ پندرہ سے بیس منٹ تک جاری رہنے والے اس خونی کھیل کے دوران آپ کے سیکیورٹی ادارے وہاں زندہ بچ جانے والوں کی مدد کوکتنی دیر میں جائے وقوعہ تک پہنچے۔ تاہم انگلستان ہو یا نیوزی لینڈ، ایک بات سب کو ذہن نشین کر لینی چاہیے، آپ پاکستان کے جتنے بھی دورے منسوخ کر لیں، پاکستان پر سیکیورٹی تھریٹ کے جتنے بھی الزام لگا لیں، اللہ کے حکم سے آئندہ کرکٹ ورلڈ چیمپئن پاکستان ہی ہوگا۔اور ہم چاہیں گے کہ جیسنڈا آرڈرن اگر اس وقت نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نہ بھی ہوں تب بھی ہماری ٹیم کو ورلڈ کپ ملنے کی تقریب میں ضرور تشریف لائیں، ہم سب کو بہت اچھا لگے گا۔ ویسے قصور تھوڑا تھوڑا ہم سب کا بھی ہے کہ چاند پر چرخہ کاتنے والی بڑھیا کو پری سمجھ بیٹھے۔
(کالم نگار اردو اور انگریزی اخبارات میں
قومی اور بین الاقوامی امور پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

”میں لاہور ہوں“

میم سین بٹ
لاہور دنیا کا غالباََ واحد شہر ہے جس کی خاطر لوگ اپنا آبائی شہر چھوڑ دیتے ہیں اس شہر میں مقیم ہونے کے بعد انسان لاہور سے جدا ہونا پسند نہیں کرتا اگرکسی مجبوری کے تحت اسے لاہورکو چھوڑنا ہی پڑجائے تو یہ شہر ہمیشہ انسان کے اندر زندہ رہتا ہے تقسیم ہندکے وقت لاہور میں مقیم بہت سے ہندو اور سکھ دانشوروں کو بھی شرنارتھی بن کر بھارت جانا پڑا تھا ان میں سے بہت سے لکھاری اپنی تحریروں میں لاہور شہرکو یاد کرتے رہے بعض نے تو لاہور پرکتابیں بھی لکھیں جن میں گوپال متل، پران نوائل، سنتوش کمار، خوشونت سنگھ وغیرہ شامل ہیں اب ڈاکٹرکیول دھیر بھی اس فہرست میں شامل ہوگئے ہیں،جن کی افسانوی انداز میں لکھی ہوئی کتاب ”میں لاہور ہوں“ رواں ماہ لاہور سے ادارہ دربان کے تحت ماجد مشتاق نے شائع کی ہے جس کی ایڈیٹنگ طارق عزیز نے کی انہوں نے ہی کتاب ہمیں بھجوائی اس کا پہلا ایڈیشن انڈیا میں شائع ہوا تھا جس کے سرورق پر غالباََ شالیمار باغ کی تصویر تھی جبکہ لاہور میں چھپنے والی اس کتاب کے سرورق پر بادشاہی مسجدکی تصویرچھاپ دی گئی ہے۔
کتاب کا انتساب مصنف نے مستنصر حسین تارڑ، ابدال بیلا، عطاء الحق قاسمی،بشریٰ رحمان،گلزار جاوید، امجد اسلام امجد، افضال احمد، فرحت پروین،طاہرہ اقبال،سلیم اختر اورآمنہ مفتی سمیت پاکستانی دوستوں کے نام کیا ہے جبکہ پیش لفظ”میرا شہر لاہور“میں ڈاکٹرکیول دھیر بتاتے ہیں کہ ان کے دادا لاہور میں رہتے تھے ان کے والدکنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ڈاکٹر بن کر پنجاب کے مختلف علاقوں کے سرکاری ہسپتالوں میں تعینات رہے تقسیم ہند سے ایک عشرہ قبل کیول دھیر نے قصبہ گگو منڈی میں جنم لیا تھا بٹوارے کے باعث ان کا خاندان شرنارتھی بن کر مشرقی پنجاب میں پھگواڑہ شہرکے قریبی آبائی گاؤں ملو پوتہ منتقل ہو گیا تاہم وہاں رہتے ہوئے کیول دھیر نے لاہور اوراردو سے قلبی تعلق نہ توڑا وہ مختلف اردو ادبی جرائد میں لکھتے رہے اور گاہے گاہے لاہورکا چکر بھی لگاتے رہے ہیں پہلی مرتبہ وہ 1986ء میں کنور مہندر سنگھ بیدی سحرکی زیر قیادت بھارتی اردو ادیبوں کے وفد میں شامل ہوکر لاہور آئے تھے اور 3 ہفتے لاہور میں مقیم رہ کرگھومتے پھرتے اور لاہوری دانشوروں سے ملتے ملاتے رہے تھے۔
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے ڈائریکٹر پروفیسر ارتضٰی کریم اپنی تحریر میں ڈاکٹرکیول دھیر کا تعارف لکھتے ہوئے انہیں برصغیر پاک و ہند میں معتبر اورموقر فکشن رائٹر قراردیتے ہیں جن کے افسانے پڑھنے سے پتا چلتا ہے کہ ڈاکٹر کیول دھیر معاشرے کے خارجی و باطنی احوال سے واقف اور افراد کی داخلی و خارجی ذہنی کیفیات سے بھی آگا ہ ہیں،مستنصر حسین تارڑ ”سستا سودا“ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ لاہور شہر کی فضاؤں میں ایسے طلسم سرگوشیاں کرتے ہیں کہ کسی نے بھی انہیں سنا تو وہ ہمیشہ کیلئے اس شہر بے مثال کاہوگیا آپ کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی،امرتا پریتم،خوشونت سنگھ،پران،اوم پرکاش،دیو آنند اورکامنی کوشل سے پوچھیے کہ جب مجبوراََ انہیں لاہور چھوڑنا پڑا تو ان پرکیا گزری؟کیول دھیرکی کتاب کے لفظوں میں لاہور سانس لے رہا ہے ان کی کتاب دھیرے دھیرے پڑھتے آپ بھی لاہورکے طلسم میں گرفتار ہو جائیں گے!“
ڈاکٹرکیول دھیر سے ہمارا غائبانہ تعارف عطاء الحق قاسمی کے ساتھ ان کی ایک تصویر کے ذریعے ہوا تھا جس میں قاسمی صاحب انہیں اپنی کتاب ”ملاقاتیں ادھوری ہیں“ دیتے دکھائی دیئے تھے بعدازاں ڈاکٹرکیول دھیردورہ پاکستان کے دوران لاہور پریس کلب کی ادبی تقریب میں بھی شریک ہوئے تھے لیکن ہماری ان سے ملاقات نہ ہو سکی تھی کیونکہ اس روزلاہور سے باہرگئے ہوئے تھے فیس بک پر ان کی پوسٹس دیکھتے رہتے ہیں، چند برس قبل فیس بک پرہماری کتاب ”لاہور شہر بے مثال“ کا سرورق دیکھ کر انہوں نے یہ کتاب پڑھنے کی خواہش ظاہر کی تھی ان دنوں وہ غالباََ لاہور پر اپنی یہ کتاب لکھ رہے تھے،لاہور اور لاہوریوں سے اپنی دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لاہور یوں کا رہن سہن،بول چال، کھانا پینا، دوستی دشمنی، کھیل و تفریح،فلم وسنگیت،باغوں، تھڑوں،گلی کوچوں کی رونق وغیرہ کتنے ہی موضوعات ہیں جو شہرلاہورکو الگ پہچان عطاء کرتے ہیں۔
اپنی کتاب میں کیول دھیر نے بٹوارہ اور اتہاس کے الفاظ بہت زیادہ استعمال کئے اور پرانے زمانے کے لاہورکا زمانہ بیان کیا ہے انہیں کتاب کا عنوان ”میں لاہور ہوں“ کے بجائے ”میں لاہور تھا“ رکھنا چاہیے تھا اورآزادی کے بعد پاکستان آکر انہوں نے تین چار عشروں میں جو لاہور دیکھااسے ”میں لاہورہوں“کے نام سے چھپوانا چاہیے تھا تقسیم ہند سے قبل کلکتہ و بمبئی جانے سے پہلے پران، اوم پرکاش،کرن دیوان،اے آرکاردار،ایم اسماعیل، نور جہاں،ماسٹرغلام حیدر،ماسٹر غلام قادر، فیروز نظامی،رفیق غزنوی،محمد رفیع،خواجہ خورشید انور وغیرہ لاہورکی شوبز دنیاسے وابستہ رہے تھے بلکہ پرتھوی راج،جگدیش سیٹھی، چتن آنند،دیو آنند کامنی کوشل، بلراج ساہنی،سریندروغیرہ بھی لاہور کالج، کنئیرڈ کالج، ایف سی کالج،گورنمنٹ کالج اورپنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں پڑھتے رہے تھے لیکن کندن لال سہگل اوردلیپ کمارلاہورمیں کبھی مقیم نہیں رہے تھے البتہ کے ایل سہگل تقسیم سے قبل ایک مرتبہ نمائش میں شمولیت اوردلیپ کمار آزادی کے بعد نوازشریف دورمیں سرکاری ایوارڈ وصول کرنے اور شوکت خانم کینسرہسپتال کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شرکت کیلئے لاہور آئے تھے، قیام پاکستان کے موقع پر دلیپ کمارکے بھائی ناصر خاں نے ضرورلاہور آکر پہلی پاکستانی فلم ”تیری یاد“ میں ہیروکاکردار ادا کیا تھاتاہم فلم کی ناکامی پر دلیپ کمار کے بھائی بمبئی واپس چلے گئے تھے۔
کتاب کے پہلے باب ”جس نے لاہور نہیں دیکھا“ کا آغاز اپنے دوست اے حمید کے ذکر سے کرتے ہیں جنہوں نے خود بھی لاہور پر متعدد کتابیں اور سیکڑوں مضامین لکھے تھے،دوسرے باب ”لاہور کا سفر“ میں کیول دھیر لکھتے ہیں کہ بٹوارے نے سب سے زیادہ زخم،درد اور اداسی لاہور شہرکو دی تھی، تیسرے باب ”لاہورکی طرز زندگی“ میں درست لکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں بھی امیر،رئیس اور نواب لوگ تھے لیکن فلاح کے کاموں میں وہ ہندوؤں سے پیچھے تھے،چوتھے باب ”میں لاہور ہوں“ میں بسنت کاذکرکرتے ہوئے انہیں یاد نہیں رہا کہ لاہور میں دھاتی ڈورکے باعث چند برسوں سے پتنگ بازی پر پابندی عائد کی جا چکی ہے،لاہورکی گلیاں انہوں نے اپنے وفدکے ساتھ آئے اندرون شہرمحلہ موہلیاں کے رہائشی رائے بہادرسنتوش کمار کے ساتھ دیکھی تھیں بعدازاں دونوں کومقبول جہانگیر نے ٹکسالی دروازے میں استاد دامن سے بھی ملوایا تھا، کوچہ کالی ماتا کی رہائشی ہندوخاتون جگ مائی کی داستان پڑھ کر ہماری آنکھیں بھی نم ہوگئیں جو تقسیم کے موقع پر اپنا شہرلاہورچھوڑکربھارت نہ گئی تھی۔
کیول دھیرکی کتاب میں پروفیسر اسد سلیم شیخ کے مال روڈ پر 2 مضامین بھی شامل کئے گئے ہیں بلکہ زاہدہ حنا کا شکار پور سندھ کے ہندوسیوک سیٹھ اودھو داس کی یاد میں لکھا جانے والا کالم بھی شامل کرلیاگیا ہے جوعجیب سا لگتا ہے، آخری باب ”میں لاہورہوں“میں لاہور شہرکی زبان سے 1947ء کے ”بٹوارے“ کی کہانی سنائی ہے جس میں لاہورکے فسادات کا ذمہ داربھی ماسٹرتارا سنگھ کو قرار دیا گیا ہے جس نے پہلے پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پرکرپان لہراکرلاہور کے مسلمانوں کو مشتعل کیا اورپھرکپورتھلہ ہاؤس میں سکھ اورہندورہنماؤں کے اجلاس کے دوران لاہور پر اپنا قبضہ برقراررکھنے کیلئے خون دینے یا بہانے کا اعلان کیا تھاجس کے نتیجے میں لاہور کے ہندوؤں اور سکھوں کو اپنا شہر چھوڑ کر بھارت جانا پڑا تھا ”لاہورکی گلیاں“ والے باب کے آخرمیں کیول دھیر نے غالباََ کسی شرنارتھی شاعرکا شعر درج کیا ہے……
بہت دیکھی ہیں دلی اور اندورکی گلیاں
بھولی ہیں نہ بھولیں گی لاہورکی گلیاں
(کالم نگارسیاسی اورادبی ایشوزپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

آہ! جنرل اشفاق ندیم

انجینئر افتخار چودھری
لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم اس جہان فانی سے راہی ملک عدم ہو گئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ایک ایسا گمنام ہیرو جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک مرد مجاہد کا کردار ادا کیا جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔اس پاکستان کو اندھیروں سے نکالا جس میں آئے روز بم دھماکے ہوا کرتے تھے۔لاشیں ہی لاشیں۔اس میں کوئی شک نہیں پاکستان کی فوج نے بڑے دماغ پیدا کئے لیکن اس جنگ کے پیچھے اس عظیم شخص کامقام بہت اونچا ہے اور ملک کو ان اندھیروں سے نکالنے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے۔
وہ وقت بھی تھا جب ہماری فوج اپنی ہی سرحدوں کے اندر غیر محفوظ ہو کے رہ گئی تھی۔ دہشت گردی کی اس پرائی جنگ میں ان گنت لوگ شہید ہوئے نوجوان بھی اور جرنیل بھی حالت یہ تھی کہ جی ایچ کیو کے سامنے شہادتیں ہوئیں۔ایسے میں اس قسم کے ذہن میدان میں اترے اور دہشت گردوں کا قلع قمع کیا۔
آج کسی نے سچ کہا ہے قوم غائبانہ نماز جنازہ ادا کرے۔ایسے ہیرو جنہیں انگریزی میں Unsung hero کہا جاتا ہے۔ان کے جانے پر دلی دکھ کا اظہار کرتا ہوں۔ میں خود بھی ان سے ناواقف تھا مگر ایک درد دل رکھنے والے دوست نے مجھے ان کے بارے میں بتایا تو میں ان کی قربانیوں کا سوچ کر پریشان ہو گیا۔لوگ کہتے ہیں فوج کی نوکری آسان ہے۔جی چاہتا ہے انہیں بلوچستان میں باغیوں کی بندوقوں کے سامنے رکھ دوں اور ایک لاش کے بدلے انہیں بھی لاکھوں دے دوں۔یہی ففتھ جنریشن وار ہے کہ فوج اور عوام میں دوری پیدا کردو مجھے اس گمنام ہیرو کی موت پر گہرا دکھ ہوا ہے۔
ایسا دکھ جو سب کا سانجھا ہے۔پاک فوج کی قربانیاں اتنی ہیں کہ ان پر لکھنا ضروری ہے لوگوں کے پاس اور موضوعات ہیں ہمیں تو اپنے اس ادارے کے دکھوں نے دکھی کر دیا ہے۔
ہماری آئی ایس پی آر کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ انہیں منانے میں لگی رہتی ہے جو اسی کی پگڑی اچھالتے رہتے ہیں۔ لیکن ایک بات کہہ دوں ہم بھی انہی گمنام ہیروں کی طرح،،پرورش لوح و قلم،، کرتے رہیں گے ہم نے بھی جو لکھنا ہے وطن کے لیے لکھنا ہے۔اور اپنے ان مجاہدوں کی ستائش کرتے رہیں گے۔جن کے بارے میں ان کے چہیتے ڈان لیکس کرتے رہتے ہیں۔ٹویٹ ایپس کرانے والے مزے میں ہیں۔
نور جہاں نے جن،،پتروں کا ذکر کیا تھا کہ یہ دکانوں پر نہیں بکتے،، شائد یہی سپوت تھے۔انہی،،تاجوں،، کے لیے لکھا۔سلام صوفی تبسم۔
وہ وقت بھی تھا جب ہمارے نوجوانوں کے سروں سے فٹ بال کھیلا گیا اور پھر وہ وقت بھی آیا سارے راستے صاف ہوئے اور وہ علاقے پاکستان کے managed،،ایریاز میں آئے یہ مسلم جبہ جن کی چیئر لفٹوں پر ہم جھولتے ہیں اور جہاں آج جگنوؤں کے مکان ہیں یہاں اسلحے کی دکانیں تھی موت تھی اور خوف تھا کراچی کے دن یاد ہیں موت کا خوف اس قدر کہ شاعر وں نے اس پر لکھا اللہ جنرل بلال اکبر اور ان کے ساتھیوں کو سلامت رکھے جو میدان میں اترے بوریوں میں بند لاشیں ہمارے دیہات تک پہنچتی رہیں۔جو بولتا تھا اسے ٹھوک دیا جاتا تھا کراچی کرچی کرچی ہو کے رہ گیا تھا۔آج کراچی جاگتا ہے اور دشمن بھاگتا ہے۔یہ سب کچھ انہی ماؤں کے سپوتوں کی وجہ سے ہوا ہے۔
ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ ملنے والی خوشیاں بھی نہیں مناتے افغانستان میں اللہ نے ہمارے انہی جوانوں کی وجہ سے ہمیں خوشی دلائی بھارت کے اندر جو صف ماتم بچھی ہوئی ہے اسے دیکھ کر ہمیں خوش ہو جانا چاہئے تھا۔
آج جنرل ندیم تاج کے جانے سے پاکستان کی فوج کے سر سے تاج اترا ہے اللہ فوج کو سلامت رکھے ہم آرمی چیف جنرل باجوہ اور پوری قوم بشمول ہیروں میں رہنے والے وزیر اعظم سے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔
(تحریک انصاف شمالی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات ہیں)
٭……٭……٭

الیکشن کمیشن،نادرا اور نیوزی لینڈ کی ٹیم

کنور محمد دلشاد
نیوزی لینڈ کی ٹیم نے بین الاقوامی پروٹوکول کو بالائے طاق رکھ کر،کرکٹ میچ سے چند منٹ پہلے دور ہئ پاکستان ختم کرکے بین الاقوامی کرکٹ کی تاریخ میں نئی روایت رقم کردی،وزیرِاعظم عمران خان کا نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم سے ذاتی رابطہ بھی کام نہ آیا اور مہمان ٹیم چارٹرڈ فلائٹ کے ذریعے اسلام آباد سے وطن روانہ ہوگئی۔اگر یہ سمجھا جائے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم محض مفروضے کی بنیاد پر واپس چلی گئی تو یہ درست نہیں ہوگا۔اطلاعات کے مطابق نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم کو پانچ ملکوں کے انٹیلی جنس اداروں نے الرٹ کیا تھا۔جس کی بنیاد پر نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم نے اہم فیصلہ کیا۔اسی طرح بین الاقوامی میڈیا کے مطابق نیوزی لینڈ اور پاکستان کے اعلیٰ حکام اور کرکٹ بورڈکے حکام بارہ گھنٹے تک مذاکرات کرتے رہے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ میچ کے منسوخ کرنے کا فیصلہ اچانک نہیں ہواتھا۔دوسری طرف نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کے بارے میں پاکستان کرکٹ بورڈ عوام کو تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہا اور معاملہ کو انتہائی پراسراریت کے انداز میں ہینڈل کیا گیا۔کرکٹ کنٹرول بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ کی پریس کانفرنس منسوخ کی گئی اور پھر اچانک مہمان ٹیم کو کمروں میں رہنے کی ہدایت کی گئی اور شک و شبہ کے سائے منڈلانے لگے۔پاکستان کے عوام حکومت پاکستان کے وزراء کے بیانات سے ورطہ حیرت میں ڈوبے رہے۔نیوزی لینڈ کے دورے کے ختم ہونے کے بعداب برطانوی کرکٹ ٹیم کا دورہ بھی خطرے میں پڑ گیا ہے،جبکہ وزیرِ داخلہ فلمی انداز میں مادھوری ڈکشٹ کا گانا قوم کو سنارہے ہیں کہ چلمن کے پیچھے کیا ہے۔وزیرِداخلہ کو ادراک ہونا چاہیے تھا کہ سوال کرکٹ ٹیم کے ارکان کے تحفظ اور سکیورٹی پر نہیں،سوال یہ ہے کہ نیوزی لینڈ نے دھمکی دینے والے گروپ کی طرف سے ملنے والی دھمکی کو پاکستان کے ساتھ شیئر کیوں نہیں کیا؟سوال یہ بھی ہے کہ نیوزی لینڈ کو کیوں گمان تھا کہ کابل ایئرپورٹ کی طرح پاکستان میں بھی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جائے گا۔اب کابینہ میں اہم تبدیلی کا وقت آن پہنچا ہے۔نیوزی لینڈ کی ٹیم کا اچانک وطن واپسی کے محرکات پاکستان کی سیاست پر گہرے اثرات پڑیں گے اور اداروں کے مابین شکوک و شبہات سے پاکستان کا پارلیمانی طرزِ حکومت بھی عوام کی نظروں میں اعتماد کھوبیٹھا ہے۔ 2023کے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر کروانے کا معاملہ ایک سطح پر مؤخر ہوچکا ہے کیونکہ سائنس وٹیکنالوجی کی منسٹری کے ماہرین الیکشن کمیشن کو مطمئن کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں اور الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر جو 37اعتراضات حکومت پاکستان کو بھجوائے تھے،اس کے ازالہ کے بجائے الیکشن کمیشن کے حکام کو تنقید کا نشانہ بنا کر آئینی بحران پیدا کردیا گیا اور الیکشن کمیشن نے دو وفاقی وزرا سے سات روز میں جواب طلب کر لیا ہے۔اگر ان وزرا نے لیت ولعل کا سہارا لیا تو الیکشن کمیشن یک طرفہ بھی فیصلہ سنانے کا مجاز ہے۔اسی دوران الیکشن کمیشن کی جانب سے نادرا کو انٹرنیٹ ووٹنگ کے حوالہ سے لکھا گیا خط لیک ہونے سے ایک نیا قانونی بحران کھڑا ہو گیا ہے،نادرا کے مراسلہ سے پتہ چلتا ہے کہ نادرا سمندر پار پاکستانیوں کے لیے انٹرنیٹ ووٹنگ بیلٹ میں بہتری کے لیے الیکشن کمیشن کو دو ارب چالیس کروڑ روپے کے نئے معاہدے میں شامل کرنے کا ارداہ رکھتا ہے،جبکہ اس کے برعکس الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ نادرا الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مطمئن کرے کہ نظام کی پہلے سے ہی موجودگی میں الیکشن کمیشن کو دوارب چالیس کروڑ روپے کا نیا معاہدہ کیوں کرنا چاہتا ہے؟اگر نادرا کے زیرِ استعمال موجودہ نظام میں کچھ خامیاں ہیں تو ان خامیوں کا ذمہ دار کون ہے؟الیکشن کمیشن نے اپنے جوابی خط میں نادرا سے دریافت کیا ہے کہ نادرا نے کس پر ذمہ داری عائد کی؟الیکشن کمیشن نے نادرا کے خط کی زبان،طریقہ کار پر بھی اعتراضات اُٹھائے ہیں کہ نادرا نے الیکشن کمیشن کو ہدایت دینے کے انداز میں خط لکھا ہے اور نادرا کو احساس ہونا چاہیے کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہونے کے ناطے آئین کے آرٹیکل 218(3)کے مطابق اپنی ذمہ داری پورے کرے گا،لہٰذا الیکشن کمیشن کو مراسلہ بھیجتے وقت الیکشن کمیشن کے آئینی اختیارات کو ملحوظ خاطررکھا جائے۔الیکشن کمیشن کی برہمی کے نتیجہ میں چیئرمین نادرا طارق ملک نے الیکشن کمیشن کے نقطہ نظر کو تسلیم کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ نادرا کے مراسلہ سے جو غلط فہمی پیدا ہوئی ہے،اس کا ازالہ کردیا جائے گاکیونکہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے جب کہ نادرا ایک ٹیکنیکل ادارہ کی حیثیت رکھتا ہے۔چیئرمین نادرا نے ماتحت افراد کی سرزنش بھی کی۔طارق ملک کے مؤقف سے اب ان دونوں اداروں کے مابین تنازعہ ختم ہی ہوگیا ہے۔اس کے سات ساتھ نادرا کا مؤقف ہے کہ انٹر نیٹ ووٹنگ بیلٹ کا نظام پہلے سے جو موجود تھا اور فی الحال الیکشن کمیشن کے پاس ہے،معاہدے کی ذمہ داروں کے مطابق الیکشن کمیشن کو دوکروڑ پچاسی لاکھ روپے جاری کرنے تھے،نئے مجوزہ نظام کے ذریعے نادراالیکشن کمیشن کو اسی کے آزاد سسٹم اور الیکشن کمیشن کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صلاحیت بڑھانے میں مدد دے گا۔نادرا کی سابقہ انتظامیہ کے روّیے کی وجہ سے الیکشن کمیشن اور نادرا میں خدمات کی فراہمی پر ہونے والا اختلاف ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔اب جب کہ حکومتی وزرا نے الیکشن کمیشن پر بلاوجہ تنقید کا جو سلسلہ شروع کررکھا ہے۔اس کی روشنی میں نادرا اور الیکشن کمیشن کے درمیان نیا تنازعہ نہیں کھڑا ہونا چاہیے۔
نادرا کے چیئرمین طارق ملک کو اپنے گھر کی بھی خبرلینی چاہیے،ان کے سابقہ چیئرمین معین عثمان اپنے ماتحت ڈائریکٹر جنرلوں سے نالاں تھے اور ان کی باہمی ناراضی کی وجہ سے نادرا میں بدنظمی پیدا ہوئی تھی تو اُس وقت کے وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان کو باربار مداخلت کرنا پڑی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ نادرا کے بعض ڈائریکٹر جنرل،چیئرمین نادرا کی شرافت کی آڑ میں ان کے خلاف سازشیں کررہے ہیں،اسی دوران 25جولائی 2018کے انتخابات میں آرٹی ایس کے فلاپ ہونے میں بھی نادراپر اعتراضات کیے گئے تھے کیونکہ سسٹم کو تیار کرنے کے لیے نادرا نے الیکشن کمیشن سے 18کروڑ حاصل کیے تھے،جس کی آخری قسط شاید ابھی تک الیکشن کمیشن کے ذمہ ہے۔جب کہ آرٹی ایس (رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم)کی بھرپور کامیابی کے لیے نادرا نے الیکشن کمیشن کو یقین دہائی کرائی تھی اور اطلاع کے مطابق غالباً الیکشن کمیشن اور نادرا نے آرٹی ایس کی کامیابی کے لیے چیف آف آرمی سٹاف کو بھی بریفنگ دی تھی،لیکن اس کے باوجود دونوں اداروں کی باہمی اعتماد کے فقدان سے سسٹم فلاپ ہوگیا اور الیکشن کمیشن کی باربار یاددہانیوں کے باوجود کیبنٹ سیکرٹری نے اپنی انکوائری رپورٹ الیکشن کمیشن کو نہیں بھجوائی۔یہاں پر دلچسپ حالات بھی سامنے آئے۔نادرا کے سابق چیئرمین معین عثمان کو میرٹ میں تبدیل کرکے اس وقت کے وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے ان کو چیئرمین نادرا مقرر کیا تھا جبکہ وہ نادرا کے قواعد و ضوابط کے مطابق میرٹ پر پورے نہیں اُترتے تھے۔اسی لیے ان کے ماتحتوں نے ان کو چیئرمین تسلیم نہیں کیا تھااور ان کے خلاف سازشیں اور ریشہ دوانیاں جاری رہیں۔
انتخابی اصلاحات کمیٹی 2016کے متعدد اجلاسوں میں جب انتخابی اصلاحات کے ذریعہ بعض اہم تبدیلیاں زیرِ بحث تھیں تو آر ٹی ایس کا فلسفہ تحریکِ انصاف کے ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی نے پیش کیا تھا اور الیکشن کمیشن نے اس کی بھرپور مخالفت کی تھی کہ ملک کے موجودہ حالات میں یہ سسٹم ناکام ہو جائے گاکیونکہ اَسی ہزار پریزائڈنگ آفیسران میں بعض اس سسٹم سے نابلد ہی رہیں گے،لیکن انتخابی اصلاحات کمیٹی نے الیکشن کمیشن کی مخالفت کے باوجود اس کو الیکشن ایکٹ 2017کے سیکشن 13(2)کا حصہ بنادیا۔
الیکشن کمیشن نے جو نوٹس دووفاقی وزراء کو جاری کیے ہیں اس پر سنجیدگی پر عمل کرتے ہوئے ان وزراء کو غیر مشروط طورپر معافی مانگ کر معاملہ ختم کر دینا چاہیے۔
(الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری ہیں)
٭……٭……٭

سی پیک کو درپیش چیلنجز۔۔۔

ملک منظور احمد
پاکستان کی معیشت کی کمزوری ہمیشہ سے پاکستان کے لیے ایک درد سر رہی ہے،پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک پاکستان کی معیشت ہچکولے کھاتی آئی ہے،کبھی کسی دور میں پاکستان کی معیشت قدرے بہتر کارکردگی کا مظا ہرہ کرتی ہے تو پاکستان کے جلد ہی ایک عظیم معاشی طاقت بننے کی نوید عوام کو سنا دی جاتی ہے لیکن پھر چند سال بعد ہی معیشت کو ایسا دھچکا لگتا ہے کہ پھر سے ساری ترقی پر پانی پھر جاتا ہے۔پاکستان کی معیشت کے ساتھ جو بنیادی مسئلہ رہا ہے وہ یہ کہ پاکستان اپنی برآمدات کو اس رفتار کے ساتھ اور اس تیزی کے ساتھ نہیں بڑھایا سکا ہے جس تیزی سے پاکستان کی درآمدات بڑھتی ہو ئی آ ئی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان ہر چند سال بعد فارن ایکسچینج کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کے در پر ہوتا ہے۔پاکستانی قوم عرصہ دراز سے اس چکی میں پستی ہو ئی آئی ہے،اور قوم کو لگنے لگا تھا کہ یہ دھکے ہی اس قوم کا مقدر بن چکے ہیں لیکن پھر اچانک 2013ء میں چین کی جانب سے پاکستان کو ایک پیغام ملا کہ ہمارے پاس آپ کے لیے ایک بہت بڑا تحفہ ہے۔اور یہ تحفہ چین کی جانب سے پاکستان کو سی پیک کی صورت میں دیا گیا۔گو کہ اس دور میں پاکستان میں نواز شریف صاحب کی حکومت تھی لیکن اس منصوبے کا کریڈٹ سابق صدر آصف زرداری بھی لیتے ہیں۔
بہر حال یہ منصوبہ با قاعدہ طور پر 2015ء میں چین کے صدر شی جن پنگ کے دورہ پاکستان کے بعد شروع ہوا اور سی پیک کے پہلے مرحلے کے تحت پاکستان میں توانائی اور انفرا سٹرکچر کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔پاکستان میں سٹرکیں بنیں مو ٹر ویز بنے اور بجلی گھر بھی لگے۔2018ء کے انتخابات کے بعد پاکستان میں حکومت تبدیل ہو ئی تو یہ افواہیں پھیلائی گئیں کہ منصوبہ رک گیا ہے کام بند ہو گیا ہے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتی وغیرہ وغیرہ،لیکن بہر حال اس کے باوجود سی پیک کا منصوبہ بہر حال چلتا رہا،منصوبے مکمل بھی ہوئے جن میں سے قابل ذکر ملتان سکھر موٹر وے اور بجلی کے منصوبے تھے۔حال ہی میں سی پیک کے تحت لاہور مٹیاری ٹرانس میشن لائن مکمل کی گئی ہے،لیکن اس کے باوجود اس منصوبے کے حوالے سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔اس بات میں کو ئی شک نہیں ہے کہ یہ منصوبہ پاکستان کی معیشت کے لیے نہ صرف نہایت ہی اہم ہے بلکہ گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اس منصوبے کی تکمیل کے ساتھ پاکستان کے معیشت کا مستقبل جڑا ہوا ہے،اور شاید اسی لیے اس منصوبے کو مسلسل اندرون ملک اور بیرون ملک سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان میں موجود چینی ورکرز اور انجینئرز پر کئی حملے کیے گئے ہیں۔داسو،گوادر اور کوئٹہ میں حملے ہوئے اور ان حملوں میں بد قسمتی سے چینی شہری بھی نشانہ بن گئے۔اور چین نے پاکستان سے اس حوالے سے شکوے کا اظہار بھی کیا گوکہ پاکستان نے پہلے سے چینی شہریوں کی سکیورٹی کے لیے فوج کے اضافی دستے تعینات کر رکھے ہیں لیکن ان حملوں کے بعد چینی شہریوں اور خاص طور پر سی پیک پر کام کرنے والے ورکرز کی سیکورٹی میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمن پوری قوت کے ساتھ سی پیک کے منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔سی پیک کے حوالے سے پاکستانی میڈیا میں منفی خبریں بھی ایک معمول بنتی جا ری تھیں جس کا حکومت نے سختی سے نوٹس لیا ہے اور ان کی روک تھام کے لیے بھی اقدامات لیے جا رہے ہیں۔سی پیک کا دوسرا مرحلہ اب شروع ہو چکا ہے جس کے تحت پاکستان میں خصوصی اقتصادی زونز بننے ہیں جن میں برآمدی صنعتیں لگائی جانی ہیں۔اور حکومت پاکستان کا منصوبہ یہ ہے کہ ان اقتصادی زونز کی مدد سے پاکستان کی برآمدات میں اتنا اضافہ کیا جائے کہ پاکستان کو فارن ایکسچینج کی کمی کا مسئلہ جس کے باعث پاکستان کو بار بار آئی ایم کے در پر حاضری دینی پڑتی ہے کو ختم کیا ہے اور مستقبل میں ایک بہتر معیشت کی بنیاد رکھی جائے۔اس نازک مرحلے پر سی پیک پر حملے اور بیرونی سازشیں غیر متوقع نہیں ہیں،خاص طور پر جب افغانستان میں طالبان کا قبضہ تیز تر ہوتا گیا پاکستان میں یکے بعد دیگر سی پیک پر بھی حملے بڑھتے چلے گئے۔ان حملوں کی ذمہ داری ٹی ٹی پی کی جانب سے قبول کی گئی اور پاکستان نے بھی کہا کہ افغان سر زمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں چینی شہریوں پر یہ حملے کیے گئے ہیں۔
اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حوالے سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ شاید طالبان ان حملوں میں ملوث ہیں لیکن افغان طالبان بر ملا نہ صرف چین کو اپنا دوست قرار دے چکے ہیں بلکہ چین کو افغانستان میں سرمایہ کاری کی بھی دعوت دے رہے ہیں۔اس سے صاف ظاہر ہو تا ہے کہ افغان سر زمین پر موجود راء اور این ڈی ایس ان حملوں میں ملوث تھیں۔لیکن جہاں پر بہت سا پرا پیگنڈا موجود ہے وہاں پر یہ چیز بھی سامنے آئی ہے کہ کچھ چینی کمپنیوں نے حکومت پاکستان کی جانب سے عد م ادائیگی کی شکایات بھی کی ہیں جن پر پاکستان کی حکومت نے چین کو یقین دلایا ہے کہ جلد یہ معاملہ کلیئر کر دیا جائے گا۔اور ابھی گزشہ کل ہی سی پیک پر پاکستان اور چین کے مشترکہ ورکنگ گروپ کا اجلاس بھی منعقد ہوا ہے اور اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس منصوبے کو روکنے کی تمام کوششوں کا سد باب کیا جائے گا۔اور کوئی قوت سی پیک کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو گی۔یہ اعلا میہ نہایت ہی خوش آئند اور ان سازی عنا صر کو سخت جواب ہے اور یہ واضح پیغام ہے کہ پاکستان اور چین ایک پیج پر ہیں کسی صورت بھی اپنے مشترکہ مفادات کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔بہر ال سی پیک کے تحت پاکستان میں 62ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ہونی ہے اور ریلوے کے منصوبے ایم ایل ون منصوبے جیسے پراجیکٹس یقینا پاکستان کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس بات میں ہمیں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ سی پیک کی صورت میں پاکستان کو ترقی اور معاشی خود مختاری کا ایک نا در موقع ملا ہے اور ایسے موقع قوموں کو با ر بار نہیں ملا کرتے ہیں۔اس منصوبے کی کامیاب تکمیل پاکستان کو دیرینہ معاشی مسائل سے نجات دلا سکتی ہے۔ہمیں بطور قوم کسی صورت بھی اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

سوشل میڈیا کی باتیں

افضل عاجز
سوشل میڈیا ایک دلچسپ چیز ہے میری نظر میں اس کی بہت اہمیت ہے دنیا بھر میں لوگ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں یہ تعلیم وتربیت کا بھی ایک بہت بڑا ذریعہ ہے بین الاقوامی سطح پر اسے ملکی مفاد کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے پروپیگنڈے کا یہ ایک ایسا ذریعہ ہے جو جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ میں بدلنے میں چند گھنٹے لگاتا ہے اور اصل واقعے کی جگہ ایک جھوٹا واقعہ لوگ سچ سمجھ کے قبول کرلیتے ہیں پھر آپ جو مرضی کرلیں آپ کا سچ آپ تک محدود رہ جاتا ہے۔
ہم پاکستان کے لوگ ابھی تک سوشل میڈیا کی حقیقی اہمیت سے آگاہ نہیں ہوسکے ہمارے ہاں زیادہ تر شغل میلے اور ان چیزوں کیلئے سوشل میڈیا کا استعمال عام ہے جو کسی بھی حوالے سے دنیا کے لوگوں کے سامنے ہمارے لیے کوئی بہتر تعارف کا سلسلہ نہیں بن رہا بلکہ اچھے بھلے لوگ عجیب وغریب قسم حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں مثال کے طور پر ایک بابا جی ہیں جو لوگوں کی روحانی اور ایمانی تربیت کرتے ہیں اور شب وروز اسی کارخیر میں مصروف نظر آتے ہیں مجھے ذاتی طور پر ان کی نیت یا اخلاص میں کو شک نہیں ہے وہ یقینا صدق دل کے ساتھ لوگوں کی اصلاح چاہتے ہوں گے اور یہ بھی چاہتے ہوں گے کہ ہم مسلمان اللہ اس کے رسولؐ اور قرآن کے ساتھ جڑ جائیں اور زندگی کے تمام مسائل کے حل کیلئے حقیقت کی طرف رجوع کریں اور اپنے دین اور دنیا کے معاملات میں آسانیاں پیدا کریں بابا جی کا عمل یقینا قابل تحسین ہے مگر وہ بعض اوقات ایسے مشورے دیتے ہیں جس سے یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ کیا اللہ نے اپنے رسولؐ کے ذریعے جو کتاب ہدایت بھیجی ہے کیا وہ ان معمولی دنیاوی فائدوں کیلئے بھیجی ہے……؟
یہ درست کہ قرآن کریم اور احادیث کے زریعے ہماری زندگی کے بیشمار مسائل کا حل بھی بتایا گیا ہے رزق کی کمی بیماری قرض آسمانی مصیبتیں زمینی الجھنیں اور دیگر مسائل کے حل کیلئے انتہائی موثر اور مفید آیات اور دعائیں موجود ہیں جنہیں زندگی کے معمولات کی درستگی کیلئے استعمال میں لانے بہت سے مسائل حل ہوتے ہوئے دیکھے ہیں مگر ان کے استعمال کیلئے بھی ایک اعلی معیار مقرر کیا گیا ہے یعنی خالص اللہ سے رجوع کیا جائے اور یہاں بھی معاملات کو اللہ پر ہی چھوڑ دینے کا حکم اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی طرف بطور اٹھارتی کیوں حکم لگائے……
بابا جی سے گزشتہ روز ایک مرید نے سوال کیا کہ پٹرول کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے اور میرا موٹر سائیکل پٹرول بھی بہت کھاتا ہے تو بابا جی قرآن وسنت کی روشنی میں اس کا کوئی حل بتا دیجیے بابا جی نے مرید کے سوال کو سنا اور مسکراتے ہوئے کہا اس کا حل موجود ہے۔آپ جب پٹرول پمپ ڈلوانے جائیں تو پمپ والا پٹرول ڈالنے لگے تو تم نے جلدی جلدی زیر لب فلاں سورت پڑھنی ہے اور کوشش کرنی ہے کہ سورت پٹرول ڈالنے کے وقت میں مکمل ہو جائے ایسا کرنے سے پٹرول میں ایسی برکت پڑے گی کہ مہینوں چلے گا اب یہاں سے اندازہ لگا لیجیے کہ بابا جی مرید کو نہ تو قرآن شریف پڑھنے کے آداب کی تلقین کی نہ صحت لفظی کے حوالے سے کچھ بتایا بلکہ زور جلدی جلدی پر دیا اور قرآن کریم کی ایک مقدس سورت کو مرید کے لیے ایک.. تجربہ گاہ. بنا دیا اور اسے قرآن مجید اور اس کی آیات کے حقیقی فیض سے بھی دور کر دیا مگر مذید ظلم یہ ہے اگر آپ اس حوالے سے کوئی بات کریں تو پھر بابا جی کے مریدین آپ کو منکر قرآن قرار دے دیتے ہیں اور طرح طرح کے فتوے جاری کرتے ہیں حالانکہ سیدھی سیدھی بات ہے پٹرول ایک دنیاوی استعمال کی چیز ہے اور اسے جس رفتار سے استعمال کیا جائے گا اسی رفتار سے استعمال ہوگا اب یہ تو ممکن نہیں ہے کہ آپ ایک لٹر پٹرول میں لاہور سے پنڈی تک کا سفر کسی عمل کے ذریعے ممکن بنا سکیں میرا ذاتی خیال ہے کہ ان بابا جی کے مریدین جس شدت کے ساتھ ان کے ساتھ محبت کرتے ہیں اور ان کی بات پر یقین رکھتے ہیں تو بابا جی اگر چاہیں تو دنیاوی معاملات میں بھی اپنے مریدین کی بہت اچھی تربیت کر سکتے ہیں انہیں زندگی کے معاملات میں ایک مثبت کردار کے ساتھ آگے بڑھنے کا راستہ دکھا سکتے ہیں مثال کے طور پر وہ یہ بھی مشورہ دے سکتے ہیں کہ اگر پٹرول مہنگا ہو گیا تو ضروری نہیں کہ گاڑی یا موٹر سائیکل ہی استعمال کی جائے اگر آپ کے وسائل اجازت نہیں دیتے تو سائیکل کو استعمال میں لائیں اس سے پیسے کی بھی بچت ہوگی اور صحت کیلئے بھی اچھی چیز ہے۔
سوشل میڈیا پر سیاسی لوگوں کا حال مختلف نہیں ہے مختلف سیاسی شخصیات کے ایسے ایسے پوسٹر بناے جاتے ہیں۔خاص طور پر خواتین سیاستدانوں کی تصویروں کوانتہائی غلیظ انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور پھر ایسی ایسی زبان استعمال کی جاتی ہے کہ انسان سوچنے لگتا ہے کہ جو لوگ ایسا لکھ یا دکھا رہے ہیں کیا انہوں نے کسی عورت کے بطن سے جنم نہیں لیا کیا یہ سب کچھ کرتے ہوئے انہیں اپنی ماں بہن اور بیٹی بھی یاد نہیں رہتی…..
حقیقت یہ ہے کہ ایسے کاموں میں تحریک انصاف کا پلڑا بھاری ہے یہ ایک ایسی جماعت ہے جو اوپر سے نیچے تک ہم مزاج ہی نہیں ہم آواز بھی ہے اور پھر شاید پہلی سیاسی جماعت ہے جو سوشل میڈیا پرجماعتی کام کرنے والوں کو باقاعدہ معاوضہ دیتی ہے اورہر ایشو پر جماعتی موقف پیش کرنے کیلئے مختصر تحریر بھی خود پبلش کرتی ہے جسے سوشل میڈیا پر ان کے کارکن پوری تیز رفتاری کے ساتھ پھیلاتے ہیں اور کسی بھی منفی فضا کو اپنے حق میں استعمال کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ابھی گزشتہ روز ایک پاکستانی وزیر کو امریکہ میں انہی حالات سے گزرنا پڑا جن حالات سے ہمارے ایک سابق وزیراعظم کو گزرنا پڑا میرا خیال تھا کہ ہمارے موجودہ وزیر اعظم جوقومی وقار کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور سابقہ حکمرانوں کو اس حوالے سے آڑے ہاتھوں لیتے ہیں کہ یہ لوگ بزدل اور نالائق تھے جنہوں نے پاکستان کے وقار اورعزت کو خاک میں ملایا پاکستان کے سبز پاسپورٹ کو دنیا بھر میں رسوا کیا مگر میں ایسا ہر گز نہیں ہونے دونگا اور دنیا میں پاکستان کے پاسپورٹ اور شہری کے وقار کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرونگا اور دنیا کے ساتھ برابری کی سطح پربات کرونگا اب جب اس کی اپنی کابینہ کے ایک وزیر کو امریکہ میں آدھا ننگا کر کے تین گھنٹے تک پوچھ گچھ کیلئے روکے رکھا گیا ہے تو وزیراعظم یقینا امریکہ سے اس کی وضاحت طلب کریں گے کیوں ایک معزز پاکستانی شہری جو کہ حکومت کا حصہ ہے اوراور سرکاری دورے پر امریکہ گیا ہے تو اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا ہے مگر وزیراعظم کی طرف سے ایسا کوئی بیان میری نظر سے نہیں گزرا اور نہ کسی حکومتی ترجمان نے اس حوالے سے کوئی مذمتی بیان جاری کیا ہے البتہ جس وزیر کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہے وہ امریکہ کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے امریکہ کے حالات پر طنز کرتے نظر آرہے ہیں یہ وزیر امریکی سوسائٹی پر طرح طرح کے سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ ہمیں سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کیلئے لوگوں کو تیار کرنا چاہیے تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے سوشل میڈیا کے کارکنوں سے صرف کردار کشی کا کام نہ لیں بلکہ ایسی تربیت کریں کہ جس سے ملک میں ایک بہترین سیاسی مکالمے کا آغاز ہو اورجس پاکستان اور اس کے عوام کیلئے بھلائی کا پیغام ہو ہمارے وزیراعظم کو سب سے زیادہ توجہ دینی چاہئے کیونکہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے عوام میں اپنی جگہ بنانے والوں میں سے سرفہرست ہیں اور اب بھی وہ پرنٹ میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا کے مقابلے میں سوشل میڈیا کو زیادہ اہمیت بھی دیتے ہیں اور ملکی میڈیا کے حوالے سے وہ پابندیاں اور قوانین لانے کی کوشش کر رہے ہیں اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مستقبل میں سوشل میڈیا کو ہی اوپر لانا چاہتے ہیں۔ہماری روحانی شخصیات کو بھی چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر وقتی تربیت کے بجائے کوئی ایسا کام کریں جس سے قوم کے اندر روشنی پیدا ہو اور لوگ اپنے مسائل کے حل کیلئے اللہ کی مدد کے ساتھ اپنے زور بازو کو بھی آزمائے اور صرف بازو پر تعویذ باندھ کر آنکھیں بند کر کے بیٹھ نہ جانے۔
(کالم نگارمعروف شاعر اورادیب ہیں)
٭……٭……٭

بھولے پاکستانی

عام پاکستانی بھی کیا سادہ ہیں، ذرا سی امید پر خوش ہوجاتے ہیں اور کوئی ہلکا سا روکھا پن دکھائے ان پر اداسی چھا جاتی ہے۔ اپنے وطن میں کرکٹ بحال ہونے کی امید ہر ہی ہواؤں میں اڑنے لگتے ہیں۔ نیوزی لینڈ جیسی کرکٹ ٹیم پاکستان آکر بھی کھیلنے سے انکار کردے تو یہ قوم بچوں جیسی روہانسی ہو جاتی ہے۔ پروین شاکر نے کہا تھا
ڈسنے لگے ہیں خواب مگر کس سے بولئے
میں جانتی تھی پال رہی ہوں سنپولئے
بس یہ ہوا کہ اس نے تکلف سے بات کی
اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لئے
امریکہ جیسا ملک افغانستان سے اپنے فوجی نکالنے میں مدد دینے پر ہلکا سا شکریہ ادا کرے اور پاکستان کی تھوڑی سی تعریف ہو جائے تو یہ پاکستانی خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور امریکہ کو اپنا پرانا یار قرار دینے لگتے ہیں، حالانکہ اس قوم کو احمد فراز پہلے ہی سمجھا چکے کہ
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسینڈا آرڈن اپنے ملک میں مسجد میں ہونے والی دہشت گردی کے بعد سر پر دوپٹہ لیتی ہے اور کالے کپڑے پہن کر واقعہ کی مذمت، مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کرتی ہے تو اس کی سب سے زیادہ تعریف پاکستانی کرتے ہیں، جیسینڈا آرڈن پاکستان میں مقبول ترین غیر ملکی خاتون سربراہ بن جاتی ہیں۔ پاکستانی اس کی انصاف پسندی اور انسان دوستی کے گن گانے لگ جاتے ہیں۔ پاکستانی وہ قوم ہیں جو چھوٹی چھوٹی خوشی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ بقول احمد ندیم قاسمی
کس قدر قحط وفا ہے میری دنیا میں ندیم
جو ذرا ہنس کے ملے اس کو مسیحا سمجھوں
اب اسی جیسینڈا آرڈن نے ہمارے پیارے کرکٹر وزیراعظم عمران خان کے فون کرنے کے باوجود اپنی کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان جاری رکھنے کی بات نہیں مانی تو یہ پاکستانی اس خاتون کو سوشل میڈیا پر چڑیل، مکار، کھیل کی دشمن اور نا جانے کیا کیا کہ رہے ہیں۔ بقول شکیب جلالی
کبھی غرور، کبھی بے رخی، کبھی نفرت
شبیہ جوش محبت بدلتی رہتی ہے
پاکستانیوں کی سادگی کی اور کیا مثال ہو کہ وہ طالبان جنہوں نے پاکستان اور پاکستانیوں کو پچھلے دو عشروں میں خون رلایا۔ اتنے دھماکے کئے، اتنا خون بہایا کہ اس کی نظیر جدید کیا قدیم دنیا میں بھی نہیں ملتی۔ عبیر ابوذری نے اسی وقت کہا تھا۔
ہر روز کسی شہر میں ہوتے ہیں دھماکے
رہتی ہے میرے دیس میں شب رات مسلسل
اب انہی طالبان کو ہم خود پیشکش کر رہے ہیں کہ ہتھیار ڈال دیں، پاکستانی قانون کو تسلیم کر لیں تو آپ کو عام معافی مل سکتی ہے۔ میر تقی میر نے کہا تھا
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
نیوزی لینڈ کے بعد انگلینڈ نے بھی اپنی کرکٹ ٹیم پاکستان بھیجنے سے انکار کر دیا ہے تو ان بھولے پاکستانیوں کو گوروں پر اپنی حال ہی میں کی گئی عنایت یاد آنے لگی ہے جب پاکستان نے پوری دنیا میں کرونا کے خوف کے باوجود انگلش کرکٹ بورڈ کو نقصان سے بچانے کے لئے اپنی کرکٹ ٹیم وہاں بھیجی، حالانکہ کوئی ملک وہاں جانے پر تیار نہیں تھا۔
تو پیارے پاکستانیو! پریشان نہ ہوں، یہ دنیا ہے ہی ایسی، اس سے وفا کی امید رکھنا بے وقوفی سے کم نہیں۔بقول رفعت سلطان
نادان دل فریب محبت نہ کھا کبھی
دنیا میں کس نے کی ہے کسی سے وفا کبھی
اب برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے پاکستان کا دورہ منسوخ کرنے پر اپنے کرکٹ بورڈ پر مبینہ ناراضی کا اظہار کیا ہے تو پاکستانی پھر اسے اپنے اصولی موقف کی فتح قرار دینے لگے ہیں۔ حالانکہ حقیقت وہی ہے جو پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ نے بیان کر دی ہے کہ سب گورے آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ یہ سب ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں اور تیسری دنیا کے حوالے سے ان کا ایک مائینڈ سیٹ بنا ہوا ہے۔ یہاں کے لوگوں کو حقیر اور خود کو قیمتی سمجھنا ان کی فطرت ہے۔ ان کو میدان میں شکست دے کر ہی ان کی گردن میں موجود سریا توڑا جا سکتا ہے۔ تب یہ پیچھے بھاگتے ہیں۔ان میں خلوص پیار پہلے تو ہوتا نہیں، ہو بھی تو دکھاوے کا ہوتا ہے۔ ان کے متضاد رویوں کا شکار عموماً ایشیائی ہوتے ہیں۔
جتا جتا کے محبت دکھا دکھا کے خلوص
بڑے فریب سے لوٹا ہے دوستوں نے ہمیں
پیارے پاکستانی! نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے پاکستان میں نا کھیلنے کا بہت سوگ منا لیا۔ اب اچھی طرح اندازہ ہو گیا کہ عالمی سطح پر کوئی کسی کا یار نہیں، دوستی وہیں ہوتی ہے جہاں ایک دوسرے کے ساتھ مفادات وابستہ ہوں۔ بقول اعتبار ساجد
مجھ سے مخلص تھا نہ واقف میرے جذبات سے تھا
اس کا رشتہ تو فقط اپنے مفادات سے تھا
نیوزی لینڈ اور انگلینڈ پاکستان میں آکر کھیلنے کے بجائے پاکستان کے جذبات سے کھیل گئے۔ عین ممکن ہے آسٹریلیا کی ٹیم بھی ہم سے یہی گیم کھیلے اور وہ بھی پاکستان آکر کھیلنے سے انکار کردے۔اس کے لئے ہمیں ذہنی طور پر پہلے ہی تیار رہنا چاہئے اور اپنی پوری توجہ کھیلوں کے علاقائی بلاک کی تشکیل پر دینی چاہئے۔ بقول قلق میرٹھی
تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی، اور نہیں اور سہی۔
(کالم نگار قومی و سیاسی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

پاکستان کی افغان پالیسی اور مخالفین کی بہتان تراشی

اکرام سہگل
میرے گزشتہ کالم ’افغان جنگ سے سیکھنے کے کچھ سبق‘ نے پاکستان سے پیدائشی بغض رکھنے والے چند لوگوں کو آگ بگولہ کردیا۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا تعلق بھارت سے ہے اور ایسے لوگ بھی ہیں جو پاکستان کی فوج اور مجھ سے ذاتی عناد رکھتے ہیں۔ میرے ایک امریکی دوست نے میرے اس کالم پر ایک صاحب کا غم و غصہ پہنچایا اور سوال بھی کیا کہ تم نے آخر ایسا کیا کہہ دیا ہے؟
میرے اس کالم پر چراغ پا ہوکر بددیانتی کا الزام لگانے والوں نے شاید یہ تحریر پڑھی ہی نہیں۔ جہاں ضروری ہو استدلال کے ساتھ تنقید کو میں نے خندہ پیشانی سے سنا ہے ایسا کئی مواقع پر ہوا ہے لیکن مجھ پر جھوٹ بولنے کا الزام بہتان تراشی کے سوا کچھ نہیں۔ مذکورہ صاحب نے مجھ پر الزام عائد کیا ہے کہ میں نے اپنی تحریر میں پاکستان کی ماضی کی تباہ کُن افغان پالیسی کے تذکرے سے گریز کیا ہے۔ پاکستان نے بلا شبہ افغانستان کی صورت حال میں ایک افسوس ناک کردار ادا کیا ہے اور اس کا خمیازہ بھی بھگتا ہے۔ موجودہ حکومت اور فوج نے کئی سب سیکھ لیے اور ماضی کی غلطیاں دہرانے سے بچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ میں اپنی گزشتہ تحریروں میں ’اسٹریٹجک ڈیبتھ‘ یا تزویراتی گہرائی کے تصور جیسی غلطیوں کی نشان دہی کرچکا ہوں۔ میں برسوں سے یہ لکھتا آیا ہوں کہ افغانستان ’اسٹریٹجک ڈیپتھ‘ کے بجائے ہمارے لیے مسلسل ’ہیڈ ایک‘ یعنی دردِ سر بنا ہوا ہے۔ انسانوں سے غلطیاں ہوتی ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے ان سے سبق حاصل کیا جائے۔ تاریخی اور سیکیورٹی اسباب سے فوج مستقبل میں بھی ایک اہم کردار ادا کرتی رہے گی۔ لیکن اب ہم شاید کبھی فوجی حکومت نہیں دیکھیں گے۔ اس پر میں ایک دو نہیں دسیوں بار لکھ چکا ہوں۔ اس میں بھلا کیا شبہہ ہے کہ دنیا تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ کوئی بے بصیرت ہی ان تبدیلیوں سے انکار کرسکتا ہے۔
افغانستان میں پیدا ہونے والی صورت حال کی ذمے داری پاکستان پر ڈالنا غلط ہوگا۔ ہم نے اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتا ہے۔ افغانستان میں جاری جنگ کی قیمت ہم نے بھی چکائی ہے جس میں ہمارے چھ ہزار فوجی شہید اور 25ہزار زخمی ہوئے۔ جب کہ ایک لاکھ سے زائد شہری ہلاکتیں اور تین لاکھ افراد کے زخمی ہونے کا نقصان الگ ہے۔ نیٹو اور امریکا پر افغانستان کی زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ کھربوں ڈالر افغان جنگ میں جھونکنے کے بعد امریکا کہ نقصانات کم کرنے کے لیے ایسے جنگ زدہ ملک سے فوجوں کی واپسی جو امریکی عوام اور معیشت پر بوجھ بن چکی تھا، صدر بائیڈن کا درست اقدام تھا۔ صدر ٹرمپ پہلے ہی اس کے لیے تاریخ کا تعین کرچکے تھے۔ امریکا نے 2018میں جب دوحہ مذاکرات کا آغاز کیا تھا وہ یہ جنگ اسی وقت ہار چکا تھا۔ 2010میں افشا ہونے والے افغان جنگ کی دستاویزات نے امریکا اور نیٹو افواج کا پول کھول دیا تھا۔ برطانوی اخبار کارجین نے ان دستاویزات کو افغانستان کی جنگ میں شکست کی ہولناک تصویر سے تعبیر کیا تھا۔ گزشتہ ماہ نیشنل سیکیورٹی آرکائیو سے جاری ہونے والی مزید دستاویزات بھی یہی کہانی بیان کرتے ہیں۔
بعض لوگ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان افغان پالیسی پر امریکا کا دباؤ تسلیم کرنے کے لیے اب بھی تیار ہیں۔ یہ بات ماضی کے لیے درست تھی اور ان ادوار میں امریکا نے بھی بارہا ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ چین ہمارے گرم و سرد کا دوست رہا ہے اور سی پیک نے اس رشتے کو مزید مضبوط کردیا ہے۔ لیکن یہ یک طرفہ راستہ نہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی شکل میں مشترکہ احترام اور دوستی کے اس تصور کو بین الاقوامی سطح پر پھیلانے کے امکانات بھی پیداکیے گئے ہیں۔ حال ہی میں دوشنبہ میں ہونے والی تنظیم کی کانفرنس میں ’شنگھائی اسپرٹ‘ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ اس سے مراد باہمی اعتباد، مشترکہ مفادات، مساوات، دو طرفہ مشاورت اور ثقافتی تنوع کا احترام بیان کیا گیا ہے۔ اگر آپ توجہ کے ساتھ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستانی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیں تو پاکستان نے مشترکہ مفادات کی بنیاد پر امریکا سمیت دنیا کے دیگر ملکوں سے اپنی تعلقات استوار کیے ہیں۔ اس تبدیلی سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم ماضی سے سبق سیکھ رہے ہیں۔
مجھ پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ میرے ذہن پر بھارت سوار ہے۔ 1947 سے 1971تک کتنے ہی مواقع پر اس نے کھل کر پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے کردار ادا کیا ہے۔ 1971میں بھارت کا غیر اعلانیہ جنگی قیدی بننے کے بعد میں ان کوششوں کا عینی شاہد ہوں۔ اب ذرا غور کیجیے کہ جنگ شروع ہوئی دسمبر 1971کو اور بھارت نے اپریل ہی سے قیدیوں کے لیے کیمپ تیار کرلیے تھے۔
بھارت نے بلوچستان میں انتشار پھیلانے کے لیے افغانستان کی سرزمین کا استعمال کیا۔ سوویت یونین کی جارحیت کے برسوں میں بھی بھارت ان کے جان و مال کی قیمت پر افغانستان سے ہمارے خلاف محاذ پر سرگرم رہا اور اکیسویں صدی کے آغاز میں جب امریکا نے افغانستان کا رُخ کیا تو بھارت نے یہی کچھ اس کے ساتھ بھی کیا۔ بھارت کو اپنے مفادات سے غرض تھی اور ان جنگوں میں افغانستان کی تباہی ہوتی رہی۔ بھارت میں مسلم مخالف پالیسیوں اور کشمیر میں اس کے ظلم و زیادتی کا تذکرہ کیا بے محل ہوگا۔ بھارت کو دشمن سمجھنے یا کم از کم دوست نہ سمجھنے کی ٹھوس وجوہ ہیں۔ ذاتی تعلقات کی نوعیت الگ ہے اور متعدد بین الاقوامی اداروں میں ساتھ کام کرنے والے کئی بھارتی میرے دوست ہیں۔
مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض لوگ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر اپنے ’قد بڑا دکھانے‘ کا طعنہ بھی دے رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو پاکستان سے عناد ہی ہے ورنہ انہیں نظر آنا چاہیے تھا کہ پاکستان نے صرف افغانستان سے متعلق اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنے تعلقات کو درست سمت دینا شروع کی ہے۔ پاکستان سے حسد کی آگ میں جلنے والے ابھی تک ماضی میں جی رہے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سب کچھ اچھا ہوگیا لیکن بین اقوامی سطح پر پاکستان کے قد اور ’وزن‘ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ پالیسیوں میں درست اور بروقت تبدیلیوں اور خطے میں پیدا ہونے والی صورت حال نے ہمیں ایک بار پھر توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ اب کوئی عقل کا اندھا نہ دیکھ پائے تو افسوس کے سوا کیا کیاجاسکتا ہے۔ تاریخ کا دھارا اب ایشیا کی طرف رخ کرچکا ہے۔ اس اہم موڑ پر ٹی ٹی پی کے ہمارے قبائلی علاقوں میں سرگرم ہونے کی کوششیں اور مشرقی بارڈر پر مخاصمت رکھنے والے بھارت کی موجودگی میں ہماری افواج کو چاق چوبند رہنے کی ضرورت ہے۔
مجھے اس میں رتی بھر شبہہ نہیں کہ پاکستان اور دیگر مسلم دنیا میں شدت پسندی کو روکنے لیے اقدامات کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔ لیکن بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی بھی کم خطرناک نہیں۔ یہ ایسے خطرات ایسے ہیں جو کسی ایک ملک تک محدود نہیں رہیں گے۔ اگر یہ آگ بھڑکنے دی گئی تو دنیا میں کوئی ملک اس کی آگ اور دھوئیں سے محفوظ نہیں رہ پائے گا۔
(فاضل کالم نگار سکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭

کیا میرے وطن کے کسی لیڈر کی بھی یہ سوچ ہے؟

سلمیٰ اعوان
پیٹرز برگ کے سمولینی میوزیم جاکر مجھے احساس ہوا تھا کہ انقلاب ایسے نہیں آتے۔حقوق کیلئے شعورو آگہی کا ادراک بنیادی ضرورت ہے۔ اس ادراک کیلئے جاننے کی لگن اور تڑپ چاہیے۔رُوسی عوام نے اسکا عملی مظاہرہ کیا تھا۔رُوس پڑھنا سیکھ رہا تھا۔سیاست سے اُسکی دلچسپی تاریخ اور فلسفہ میں اُسکا انہماک، سماجی و معاشی نظریات کو جاننے میں اُسکا شوق بے پایاں تھا۔
جان ریڈ کی ایک تحریر اس جذبے کی عکاس ہے۔
اُنیسویں صدی کی آخری دہائی ”ریگا“کی بیک پر بارھویں فوج کا محاذ، کیچڑ بھری خندقوں میں، ننگے پاؤں،فاقہ زدہ اور بیمار فوجیوں جنکے چہرے پیلے، آنکھیں اندر دھنسی ہوئیں کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ جنہوں نے ہمیں دیکھتے ہی پہلا مطالبہ یہ کیا تھا۔ہمارے پڑھنے کیلئے کیا لائے ہو؟
یہ جذبہ یونہی پیدا نہیں ہوا۔انقلابی لیڈروں نے اپناسارا فوکس لوگوں کو علم اور شعوردینے پر صرف کر دیا تھا۔
برآمدے میں گھومتے پھرتے ہوئے میرے تصورمیں محنت کے پھولوں سے سجے وہ ہزاروں کھردرے ہاتھ ابھرے تھے جو ”داس کپیٹل“ کی کئی جلدوں کو پھاڑ کر انکے صفحے بانٹ لیتے اور اپنی جسمانی تھکن کو انہیں پڑھتے ہوئے اُتارتے۔
کر پسکایا کی ایک تحریر ان دنوں کے بارے میں ہے۔جب تحریک عروج پر پہنچ گئی۔ اور لینن پیٹرز برگ میں موجود تھا۔
میں جس گھر میں رہتی تھی۔اس گھر کی کھڑکی کھول کر جب بھی باہر دیکھتی مجھے زور شور سے باتوں کی آوازیں آتیں۔ڈیوٹی پر متعین سپاہی کے پاس ہمیشہ سا معین ہوتے۔نوکر خانسامے بالشویک منشویک زار،زارینہ، ڈوما سب کے بخیے اپنی اپنی فہم وفراست کے مطابق اُدھیڑ رہے ہوتے۔اُن دنوں چاندنی راتوں کی شب بھر جاری رہنے والی سیاسی بحثوں کو کبھی نہیں بھول سکتی۔یہ سب ہمارے لئے بہت اہم ہوتا تھا۔یہ رُوسی عوام کی بیداری تھی۔یہ انکی اپنے حقوق کیلئے جنگ تھی۔
توپھر میں بلند وبالا سفید ستونوں، دوہری دیواری کھڑکیوں اور اُونچی چھت والے ہال میں داخل ہوتی ہوں۔ اس سمولنی نے بھی رُوس کے اُفق پر چھائے ظلم وستم کے بادلوں کو اُڑانے میں تیز اور شوریدہ سرہواؤں جیسا کردار ادا کیا تھا۔
میں ہال میں سیاحوں کیلئے رکھی گئی کُرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی تھی۔یقینا میں اپنی کھلی آنکھوں سے اُن مناظر کو دیکھنا چاہتی تھی جو کبھی البرٹ ولیم نے دیکھے تھے۔جنکے بارے میں اُسنے اور جان ریڈ نے لکھا تھا۔
جب چیئرمین کا یہ اعلان کا مریڈ لینن خطاب کرینگے۔ “ریڈ ” کہتا ہے میں نے دم سادھ لیاتھا اور خود سے کہا تھا ”تو کیا وہ ایسا ہی ہوگا؟ جیسا ہم نے سوچا ہے۔“
وہ ہماری تصوراتی سوچوں کے بالکل برعکس تھا۔چھوٹا، گٹھیلا سا، اسکی داڑھی اور مونچھوں کے بال اکڑے ہوئے، بہت کھردرے، آنکھیں چھوٹی چھوٹی، بیٹھی ہوئی ناک، چوڑا دہانہ اوربھاری ٹھوڑی۔گندے مندے سے کپڑے.پتلون تو بہت لمبی تھی۔قطعی طور پر ایک غیر موثر شخصیت۔
میں ایک جھٹکے سے اٹھ کر اُس پورٹریٹ کے سامنے جاکھڑی ہوئی تھی جو دیوار پر آویزاں تھا۔لینن خطاب کرتااور لوگوں کا جمّ غفیر اسکے گرد جمع تھا۔
میں نے اُسے بغور دیکھا۔وہ ایسا ہی تھا جیسا ریڈاور البرٹ ولیم نے محسوس کیا۔وہ لیڈر تھا،ایک دانشور، رنگ ونسل سے بالا، نہ بکنے، نہ جھکنے والا۔
البرٹ بالشویکوں کی جراُت، دلیری اور تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی کاوشوں پر متاثر تھا پر اُنکے لیڈر کو دیکھ کر مایوس ہوا تھا۔
میں نے اپنے آپ سے پوچھا تھا۔کیا مجھے بھی کوئی ایسا احساس ہوا ہے؟
”ارے کہاں۔ہم تو خوبصورتیوں اور دراز قامتوں کے ڈسے ہوئے ہیں۔“
کرپسکایا کہتی ہے۔لینن اور ٹراٹسکی کی آنکھیں سوجی ہوئی اور چہرے سُتے ہوئے ہوتے۔کپڑے میلے۔کبھی کبھی ایسے لگتا جیسے نیند میں چلتے ہوں۔مجھے یہ خوف ستانے لگتا کہ اگر انکی یہی حالت رہی تو انقلاب خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
انقلاب کی تاریخ مرحلہ وار دیواروں پر آویزاں تھی۔
انقلاب کی شام ٹراٹسکی اورلینن چند لمحوں کیلئے اندر آئے۔وہ تھکے ہوئے تھے۔فرش پر پرانا پھٹا ہوا کمبل کسی نے بچھایاتھا۔کوئی بھاگ کر دوتکیے لایااور وہ دونوں ساتھ ساتھ لیٹے۔انہیں نیند نہیں آرہی تھی۔وہ اپنے جسموں کو تنے ہوئے تاروں کی طرح محسوس کرتے تھے۔
اور جب لینن نے کہا تھا۔یہ کیسا حیرت انگیز نظارہ ہے۔ محنت کش نے سپاہی کے پہلو بہ پہلو رائفل ہاتھ میں پکڑی ہوئی ہے۔
پھر میں ایک اور کمرے میں داخل ہوئی۔اس کمرے کی تاریخ اُسکی پیشانی پر رقم ہے۔یہ کمرہ جہاں وہ تاریخی شخصیت میز پر بیٹھی لوگوں سے گھری ہوئی ہے۔ لینن انقلاب سے متعلق چیزوں کے بارے میں زیادہ ٹچی نہیں تھا وہ ا سکی گہرائی اور روح کا متمنی تھا۔
ڈھیروں ڈھیر کمرے اپنے اندر انقلاب کی کہانیاں سناتے ہیں۔جو طویل بھی ہیں اور مشکل بھی۔
پر اُس چمکتی دوپہر میں ماتمی گیت میرے لبوں پر آگیاتھا۔ کوئی سچا بے لوث مقصد کے لئے زندگی داؤ پر لگانے والا لیڈر میری کتنی بڑی تمنا تھی۔
لوگوں کی آزادی اور وقار کے لیے ایک لفظ کہے بغیر تم نے زنجیریں پہنیں۔
کیونکہ تم اپنے لوگوں کا دکھ برداشت نہیں کرسکتے تھے۔کیونکہ تم سمجھتے تھے کہ انصاف زیادہ طاقتور ہے تلوار سے۔کیا میرے وطن کے کسی لیڈر کی بھی یہ سوچ ہے میں نے خود سے پوچھا تھا۔
(کالم نگار معروف سفرنگار اورناول نگار ہیں)
٭……٭……٭