تازہ تر ین

”میں لاہور ہوں“

میم سین بٹ
لاہور دنیا کا غالباََ واحد شہر ہے جس کی خاطر لوگ اپنا آبائی شہر چھوڑ دیتے ہیں اس شہر میں مقیم ہونے کے بعد انسان لاہور سے جدا ہونا پسند نہیں کرتا اگرکسی مجبوری کے تحت اسے لاہورکو چھوڑنا ہی پڑجائے تو یہ شہر ہمیشہ انسان کے اندر زندہ رہتا ہے تقسیم ہندکے وقت لاہور میں مقیم بہت سے ہندو اور سکھ دانشوروں کو بھی شرنارتھی بن کر بھارت جانا پڑا تھا ان میں سے بہت سے لکھاری اپنی تحریروں میں لاہور شہرکو یاد کرتے رہے بعض نے تو لاہور پرکتابیں بھی لکھیں جن میں گوپال متل، پران نوائل، سنتوش کمار، خوشونت سنگھ وغیرہ شامل ہیں اب ڈاکٹرکیول دھیر بھی اس فہرست میں شامل ہوگئے ہیں،جن کی افسانوی انداز میں لکھی ہوئی کتاب ”میں لاہور ہوں“ رواں ماہ لاہور سے ادارہ دربان کے تحت ماجد مشتاق نے شائع کی ہے جس کی ایڈیٹنگ طارق عزیز نے کی انہوں نے ہی کتاب ہمیں بھجوائی اس کا پہلا ایڈیشن انڈیا میں شائع ہوا تھا جس کے سرورق پر غالباََ شالیمار باغ کی تصویر تھی جبکہ لاہور میں چھپنے والی اس کتاب کے سرورق پر بادشاہی مسجدکی تصویرچھاپ دی گئی ہے۔
کتاب کا انتساب مصنف نے مستنصر حسین تارڑ، ابدال بیلا، عطاء الحق قاسمی،بشریٰ رحمان،گلزار جاوید، امجد اسلام امجد، افضال احمد، فرحت پروین،طاہرہ اقبال،سلیم اختر اورآمنہ مفتی سمیت پاکستانی دوستوں کے نام کیا ہے جبکہ پیش لفظ”میرا شہر لاہور“میں ڈاکٹرکیول دھیر بتاتے ہیں کہ ان کے دادا لاہور میں رہتے تھے ان کے والدکنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ڈاکٹر بن کر پنجاب کے مختلف علاقوں کے سرکاری ہسپتالوں میں تعینات رہے تقسیم ہند سے ایک عشرہ قبل کیول دھیر نے قصبہ گگو منڈی میں جنم لیا تھا بٹوارے کے باعث ان کا خاندان شرنارتھی بن کر مشرقی پنجاب میں پھگواڑہ شہرکے قریبی آبائی گاؤں ملو پوتہ منتقل ہو گیا تاہم وہاں رہتے ہوئے کیول دھیر نے لاہور اوراردو سے قلبی تعلق نہ توڑا وہ مختلف اردو ادبی جرائد میں لکھتے رہے اور گاہے گاہے لاہورکا چکر بھی لگاتے رہے ہیں پہلی مرتبہ وہ 1986ء میں کنور مہندر سنگھ بیدی سحرکی زیر قیادت بھارتی اردو ادیبوں کے وفد میں شامل ہوکر لاہور آئے تھے اور 3 ہفتے لاہور میں مقیم رہ کرگھومتے پھرتے اور لاہوری دانشوروں سے ملتے ملاتے رہے تھے۔
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے ڈائریکٹر پروفیسر ارتضٰی کریم اپنی تحریر میں ڈاکٹرکیول دھیر کا تعارف لکھتے ہوئے انہیں برصغیر پاک و ہند میں معتبر اورموقر فکشن رائٹر قراردیتے ہیں جن کے افسانے پڑھنے سے پتا چلتا ہے کہ ڈاکٹر کیول دھیر معاشرے کے خارجی و باطنی احوال سے واقف اور افراد کی داخلی و خارجی ذہنی کیفیات سے بھی آگا ہ ہیں،مستنصر حسین تارڑ ”سستا سودا“ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ لاہور شہر کی فضاؤں میں ایسے طلسم سرگوشیاں کرتے ہیں کہ کسی نے بھی انہیں سنا تو وہ ہمیشہ کیلئے اس شہر بے مثال کاہوگیا آپ کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی،امرتا پریتم،خوشونت سنگھ،پران،اوم پرکاش،دیو آنند اورکامنی کوشل سے پوچھیے کہ جب مجبوراََ انہیں لاہور چھوڑنا پڑا تو ان پرکیا گزری؟کیول دھیرکی کتاب کے لفظوں میں لاہور سانس لے رہا ہے ان کی کتاب دھیرے دھیرے پڑھتے آپ بھی لاہورکے طلسم میں گرفتار ہو جائیں گے!“
ڈاکٹرکیول دھیر سے ہمارا غائبانہ تعارف عطاء الحق قاسمی کے ساتھ ان کی ایک تصویر کے ذریعے ہوا تھا جس میں قاسمی صاحب انہیں اپنی کتاب ”ملاقاتیں ادھوری ہیں“ دیتے دکھائی دیئے تھے بعدازاں ڈاکٹرکیول دھیردورہ پاکستان کے دوران لاہور پریس کلب کی ادبی تقریب میں بھی شریک ہوئے تھے لیکن ہماری ان سے ملاقات نہ ہو سکی تھی کیونکہ اس روزلاہور سے باہرگئے ہوئے تھے فیس بک پر ان کی پوسٹس دیکھتے رہتے ہیں، چند برس قبل فیس بک پرہماری کتاب ”لاہور شہر بے مثال“ کا سرورق دیکھ کر انہوں نے یہ کتاب پڑھنے کی خواہش ظاہر کی تھی ان دنوں وہ غالباََ لاہور پر اپنی یہ کتاب لکھ رہے تھے،لاہور اور لاہوریوں سے اپنی دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لاہور یوں کا رہن سہن،بول چال، کھانا پینا، دوستی دشمنی، کھیل و تفریح،فلم وسنگیت،باغوں، تھڑوں،گلی کوچوں کی رونق وغیرہ کتنے ہی موضوعات ہیں جو شہرلاہورکو الگ پہچان عطاء کرتے ہیں۔
اپنی کتاب میں کیول دھیر نے بٹوارہ اور اتہاس کے الفاظ بہت زیادہ استعمال کئے اور پرانے زمانے کے لاہورکا زمانہ بیان کیا ہے انہیں کتاب کا عنوان ”میں لاہور ہوں“ کے بجائے ”میں لاہور تھا“ رکھنا چاہیے تھا اورآزادی کے بعد پاکستان آکر انہوں نے تین چار عشروں میں جو لاہور دیکھااسے ”میں لاہورہوں“کے نام سے چھپوانا چاہیے تھا تقسیم ہند سے قبل کلکتہ و بمبئی جانے سے پہلے پران، اوم پرکاش،کرن دیوان،اے آرکاردار،ایم اسماعیل، نور جہاں،ماسٹرغلام حیدر،ماسٹر غلام قادر، فیروز نظامی،رفیق غزنوی،محمد رفیع،خواجہ خورشید انور وغیرہ لاہورکی شوبز دنیاسے وابستہ رہے تھے بلکہ پرتھوی راج،جگدیش سیٹھی، چتن آنند،دیو آنند کامنی کوشل، بلراج ساہنی،سریندروغیرہ بھی لاہور کالج، کنئیرڈ کالج، ایف سی کالج،گورنمنٹ کالج اورپنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں پڑھتے رہے تھے لیکن کندن لال سہگل اوردلیپ کمارلاہورمیں کبھی مقیم نہیں رہے تھے البتہ کے ایل سہگل تقسیم سے قبل ایک مرتبہ نمائش میں شمولیت اوردلیپ کمار آزادی کے بعد نوازشریف دورمیں سرکاری ایوارڈ وصول کرنے اور شوکت خانم کینسرہسپتال کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شرکت کیلئے لاہور آئے تھے، قیام پاکستان کے موقع پر دلیپ کمارکے بھائی ناصر خاں نے ضرورلاہور آکر پہلی پاکستانی فلم ”تیری یاد“ میں ہیروکاکردار ادا کیا تھاتاہم فلم کی ناکامی پر دلیپ کمار کے بھائی بمبئی واپس چلے گئے تھے۔
کتاب کے پہلے باب ”جس نے لاہور نہیں دیکھا“ کا آغاز اپنے دوست اے حمید کے ذکر سے کرتے ہیں جنہوں نے خود بھی لاہور پر متعدد کتابیں اور سیکڑوں مضامین لکھے تھے،دوسرے باب ”لاہور کا سفر“ میں کیول دھیر لکھتے ہیں کہ بٹوارے نے سب سے زیادہ زخم،درد اور اداسی لاہور شہرکو دی تھی، تیسرے باب ”لاہورکی طرز زندگی“ میں درست لکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں بھی امیر،رئیس اور نواب لوگ تھے لیکن فلاح کے کاموں میں وہ ہندوؤں سے پیچھے تھے،چوتھے باب ”میں لاہور ہوں“ میں بسنت کاذکرکرتے ہوئے انہیں یاد نہیں رہا کہ لاہور میں دھاتی ڈورکے باعث چند برسوں سے پتنگ بازی پر پابندی عائد کی جا چکی ہے،لاہورکی گلیاں انہوں نے اپنے وفدکے ساتھ آئے اندرون شہرمحلہ موہلیاں کے رہائشی رائے بہادرسنتوش کمار کے ساتھ دیکھی تھیں بعدازاں دونوں کومقبول جہانگیر نے ٹکسالی دروازے میں استاد دامن سے بھی ملوایا تھا، کوچہ کالی ماتا کی رہائشی ہندوخاتون جگ مائی کی داستان پڑھ کر ہماری آنکھیں بھی نم ہوگئیں جو تقسیم کے موقع پر اپنا شہرلاہورچھوڑکربھارت نہ گئی تھی۔
کیول دھیرکی کتاب میں پروفیسر اسد سلیم شیخ کے مال روڈ پر 2 مضامین بھی شامل کئے گئے ہیں بلکہ زاہدہ حنا کا شکار پور سندھ کے ہندوسیوک سیٹھ اودھو داس کی یاد میں لکھا جانے والا کالم بھی شامل کرلیاگیا ہے جوعجیب سا لگتا ہے، آخری باب ”میں لاہورہوں“میں لاہور شہرکی زبان سے 1947ء کے ”بٹوارے“ کی کہانی سنائی ہے جس میں لاہورکے فسادات کا ذمہ داربھی ماسٹرتارا سنگھ کو قرار دیا گیا ہے جس نے پہلے پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پرکرپان لہراکرلاہور کے مسلمانوں کو مشتعل کیا اورپھرکپورتھلہ ہاؤس میں سکھ اورہندورہنماؤں کے اجلاس کے دوران لاہور پر اپنا قبضہ برقراررکھنے کیلئے خون دینے یا بہانے کا اعلان کیا تھاجس کے نتیجے میں لاہور کے ہندوؤں اور سکھوں کو اپنا شہر چھوڑ کر بھارت جانا پڑا تھا ”لاہورکی گلیاں“ والے باب کے آخرمیں کیول دھیر نے غالباََ کسی شرنارتھی شاعرکا شعر درج کیا ہے……
بہت دیکھی ہیں دلی اور اندورکی گلیاں
بھولی ہیں نہ بھولیں گی لاہورکی گلیاں
(کالم نگارسیاسی اورادبی ایشوزپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain