تازہ تر ین

سوشل میڈیا کی باتیں

افضل عاجز
سوشل میڈیا ایک دلچسپ چیز ہے میری نظر میں اس کی بہت اہمیت ہے دنیا بھر میں لوگ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں یہ تعلیم وتربیت کا بھی ایک بہت بڑا ذریعہ ہے بین الاقوامی سطح پر اسے ملکی مفاد کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے پروپیگنڈے کا یہ ایک ایسا ذریعہ ہے جو جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ میں بدلنے میں چند گھنٹے لگاتا ہے اور اصل واقعے کی جگہ ایک جھوٹا واقعہ لوگ سچ سمجھ کے قبول کرلیتے ہیں پھر آپ جو مرضی کرلیں آپ کا سچ آپ تک محدود رہ جاتا ہے۔
ہم پاکستان کے لوگ ابھی تک سوشل میڈیا کی حقیقی اہمیت سے آگاہ نہیں ہوسکے ہمارے ہاں زیادہ تر شغل میلے اور ان چیزوں کیلئے سوشل میڈیا کا استعمال عام ہے جو کسی بھی حوالے سے دنیا کے لوگوں کے سامنے ہمارے لیے کوئی بہتر تعارف کا سلسلہ نہیں بن رہا بلکہ اچھے بھلے لوگ عجیب وغریب قسم حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں مثال کے طور پر ایک بابا جی ہیں جو لوگوں کی روحانی اور ایمانی تربیت کرتے ہیں اور شب وروز اسی کارخیر میں مصروف نظر آتے ہیں مجھے ذاتی طور پر ان کی نیت یا اخلاص میں کو شک نہیں ہے وہ یقینا صدق دل کے ساتھ لوگوں کی اصلاح چاہتے ہوں گے اور یہ بھی چاہتے ہوں گے کہ ہم مسلمان اللہ اس کے رسولؐ اور قرآن کے ساتھ جڑ جائیں اور زندگی کے تمام مسائل کے حل کیلئے حقیقت کی طرف رجوع کریں اور اپنے دین اور دنیا کے معاملات میں آسانیاں پیدا کریں بابا جی کا عمل یقینا قابل تحسین ہے مگر وہ بعض اوقات ایسے مشورے دیتے ہیں جس سے یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ کیا اللہ نے اپنے رسولؐ کے ذریعے جو کتاب ہدایت بھیجی ہے کیا وہ ان معمولی دنیاوی فائدوں کیلئے بھیجی ہے……؟
یہ درست کہ قرآن کریم اور احادیث کے زریعے ہماری زندگی کے بیشمار مسائل کا حل بھی بتایا گیا ہے رزق کی کمی بیماری قرض آسمانی مصیبتیں زمینی الجھنیں اور دیگر مسائل کے حل کیلئے انتہائی موثر اور مفید آیات اور دعائیں موجود ہیں جنہیں زندگی کے معمولات کی درستگی کیلئے استعمال میں لانے بہت سے مسائل حل ہوتے ہوئے دیکھے ہیں مگر ان کے استعمال کیلئے بھی ایک اعلی معیار مقرر کیا گیا ہے یعنی خالص اللہ سے رجوع کیا جائے اور یہاں بھی معاملات کو اللہ پر ہی چھوڑ دینے کا حکم اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی طرف بطور اٹھارتی کیوں حکم لگائے……
بابا جی سے گزشتہ روز ایک مرید نے سوال کیا کہ پٹرول کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے اور میرا موٹر سائیکل پٹرول بھی بہت کھاتا ہے تو بابا جی قرآن وسنت کی روشنی میں اس کا کوئی حل بتا دیجیے بابا جی نے مرید کے سوال کو سنا اور مسکراتے ہوئے کہا اس کا حل موجود ہے۔آپ جب پٹرول پمپ ڈلوانے جائیں تو پمپ والا پٹرول ڈالنے لگے تو تم نے جلدی جلدی زیر لب فلاں سورت پڑھنی ہے اور کوشش کرنی ہے کہ سورت پٹرول ڈالنے کے وقت میں مکمل ہو جائے ایسا کرنے سے پٹرول میں ایسی برکت پڑے گی کہ مہینوں چلے گا اب یہاں سے اندازہ لگا لیجیے کہ بابا جی مرید کو نہ تو قرآن شریف پڑھنے کے آداب کی تلقین کی نہ صحت لفظی کے حوالے سے کچھ بتایا بلکہ زور جلدی جلدی پر دیا اور قرآن کریم کی ایک مقدس سورت کو مرید کے لیے ایک.. تجربہ گاہ. بنا دیا اور اسے قرآن مجید اور اس کی آیات کے حقیقی فیض سے بھی دور کر دیا مگر مذید ظلم یہ ہے اگر آپ اس حوالے سے کوئی بات کریں تو پھر بابا جی کے مریدین آپ کو منکر قرآن قرار دے دیتے ہیں اور طرح طرح کے فتوے جاری کرتے ہیں حالانکہ سیدھی سیدھی بات ہے پٹرول ایک دنیاوی استعمال کی چیز ہے اور اسے جس رفتار سے استعمال کیا جائے گا اسی رفتار سے استعمال ہوگا اب یہ تو ممکن نہیں ہے کہ آپ ایک لٹر پٹرول میں لاہور سے پنڈی تک کا سفر کسی عمل کے ذریعے ممکن بنا سکیں میرا ذاتی خیال ہے کہ ان بابا جی کے مریدین جس شدت کے ساتھ ان کے ساتھ محبت کرتے ہیں اور ان کی بات پر یقین رکھتے ہیں تو بابا جی اگر چاہیں تو دنیاوی معاملات میں بھی اپنے مریدین کی بہت اچھی تربیت کر سکتے ہیں انہیں زندگی کے معاملات میں ایک مثبت کردار کے ساتھ آگے بڑھنے کا راستہ دکھا سکتے ہیں مثال کے طور پر وہ یہ بھی مشورہ دے سکتے ہیں کہ اگر پٹرول مہنگا ہو گیا تو ضروری نہیں کہ گاڑی یا موٹر سائیکل ہی استعمال کی جائے اگر آپ کے وسائل اجازت نہیں دیتے تو سائیکل کو استعمال میں لائیں اس سے پیسے کی بھی بچت ہوگی اور صحت کیلئے بھی اچھی چیز ہے۔
سوشل میڈیا پر سیاسی لوگوں کا حال مختلف نہیں ہے مختلف سیاسی شخصیات کے ایسے ایسے پوسٹر بناے جاتے ہیں۔خاص طور پر خواتین سیاستدانوں کی تصویروں کوانتہائی غلیظ انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور پھر ایسی ایسی زبان استعمال کی جاتی ہے کہ انسان سوچنے لگتا ہے کہ جو لوگ ایسا لکھ یا دکھا رہے ہیں کیا انہوں نے کسی عورت کے بطن سے جنم نہیں لیا کیا یہ سب کچھ کرتے ہوئے انہیں اپنی ماں بہن اور بیٹی بھی یاد نہیں رہتی…..
حقیقت یہ ہے کہ ایسے کاموں میں تحریک انصاف کا پلڑا بھاری ہے یہ ایک ایسی جماعت ہے جو اوپر سے نیچے تک ہم مزاج ہی نہیں ہم آواز بھی ہے اور پھر شاید پہلی سیاسی جماعت ہے جو سوشل میڈیا پرجماعتی کام کرنے والوں کو باقاعدہ معاوضہ دیتی ہے اورہر ایشو پر جماعتی موقف پیش کرنے کیلئے مختصر تحریر بھی خود پبلش کرتی ہے جسے سوشل میڈیا پر ان کے کارکن پوری تیز رفتاری کے ساتھ پھیلاتے ہیں اور کسی بھی منفی فضا کو اپنے حق میں استعمال کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ابھی گزشتہ روز ایک پاکستانی وزیر کو امریکہ میں انہی حالات سے گزرنا پڑا جن حالات سے ہمارے ایک سابق وزیراعظم کو گزرنا پڑا میرا خیال تھا کہ ہمارے موجودہ وزیر اعظم جوقومی وقار کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور سابقہ حکمرانوں کو اس حوالے سے آڑے ہاتھوں لیتے ہیں کہ یہ لوگ بزدل اور نالائق تھے جنہوں نے پاکستان کے وقار اورعزت کو خاک میں ملایا پاکستان کے سبز پاسپورٹ کو دنیا بھر میں رسوا کیا مگر میں ایسا ہر گز نہیں ہونے دونگا اور دنیا میں پاکستان کے پاسپورٹ اور شہری کے وقار کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرونگا اور دنیا کے ساتھ برابری کی سطح پربات کرونگا اب جب اس کی اپنی کابینہ کے ایک وزیر کو امریکہ میں آدھا ننگا کر کے تین گھنٹے تک پوچھ گچھ کیلئے روکے رکھا گیا ہے تو وزیراعظم یقینا امریکہ سے اس کی وضاحت طلب کریں گے کیوں ایک معزز پاکستانی شہری جو کہ حکومت کا حصہ ہے اوراور سرکاری دورے پر امریکہ گیا ہے تو اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا ہے مگر وزیراعظم کی طرف سے ایسا کوئی بیان میری نظر سے نہیں گزرا اور نہ کسی حکومتی ترجمان نے اس حوالے سے کوئی مذمتی بیان جاری کیا ہے البتہ جس وزیر کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہے وہ امریکہ کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے امریکہ کے حالات پر طنز کرتے نظر آرہے ہیں یہ وزیر امریکی سوسائٹی پر طرح طرح کے سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ ہمیں سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کیلئے لوگوں کو تیار کرنا چاہیے تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے سوشل میڈیا کے کارکنوں سے صرف کردار کشی کا کام نہ لیں بلکہ ایسی تربیت کریں کہ جس سے ملک میں ایک بہترین سیاسی مکالمے کا آغاز ہو اورجس پاکستان اور اس کے عوام کیلئے بھلائی کا پیغام ہو ہمارے وزیراعظم کو سب سے زیادہ توجہ دینی چاہئے کیونکہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے عوام میں اپنی جگہ بنانے والوں میں سے سرفہرست ہیں اور اب بھی وہ پرنٹ میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا کے مقابلے میں سوشل میڈیا کو زیادہ اہمیت بھی دیتے ہیں اور ملکی میڈیا کے حوالے سے وہ پابندیاں اور قوانین لانے کی کوشش کر رہے ہیں اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مستقبل میں سوشل میڈیا کو ہی اوپر لانا چاہتے ہیں۔ہماری روحانی شخصیات کو بھی چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر وقتی تربیت کے بجائے کوئی ایسا کام کریں جس سے قوم کے اندر روشنی پیدا ہو اور لوگ اپنے مسائل کے حل کیلئے اللہ کی مدد کے ساتھ اپنے زور بازو کو بھی آزمائے اور صرف بازو پر تعویذ باندھ کر آنکھیں بند کر کے بیٹھ نہ جانے۔
(کالم نگارمعروف شاعر اورادیب ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain