تازہ تر ین

الیکشن کمیشن،نادرا اور نیوزی لینڈ کی ٹیم

کنور محمد دلشاد
نیوزی لینڈ کی ٹیم نے بین الاقوامی پروٹوکول کو بالائے طاق رکھ کر،کرکٹ میچ سے چند منٹ پہلے دور ہئ پاکستان ختم کرکے بین الاقوامی کرکٹ کی تاریخ میں نئی روایت رقم کردی،وزیرِاعظم عمران خان کا نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم سے ذاتی رابطہ بھی کام نہ آیا اور مہمان ٹیم چارٹرڈ فلائٹ کے ذریعے اسلام آباد سے وطن روانہ ہوگئی۔اگر یہ سمجھا جائے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم محض مفروضے کی بنیاد پر واپس چلی گئی تو یہ درست نہیں ہوگا۔اطلاعات کے مطابق نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم کو پانچ ملکوں کے انٹیلی جنس اداروں نے الرٹ کیا تھا۔جس کی بنیاد پر نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم نے اہم فیصلہ کیا۔اسی طرح بین الاقوامی میڈیا کے مطابق نیوزی لینڈ اور پاکستان کے اعلیٰ حکام اور کرکٹ بورڈکے حکام بارہ گھنٹے تک مذاکرات کرتے رہے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ میچ کے منسوخ کرنے کا فیصلہ اچانک نہیں ہواتھا۔دوسری طرف نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کے بارے میں پاکستان کرکٹ بورڈ عوام کو تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہا اور معاملہ کو انتہائی پراسراریت کے انداز میں ہینڈل کیا گیا۔کرکٹ کنٹرول بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ کی پریس کانفرنس منسوخ کی گئی اور پھر اچانک مہمان ٹیم کو کمروں میں رہنے کی ہدایت کی گئی اور شک و شبہ کے سائے منڈلانے لگے۔پاکستان کے عوام حکومت پاکستان کے وزراء کے بیانات سے ورطہ حیرت میں ڈوبے رہے۔نیوزی لینڈ کے دورے کے ختم ہونے کے بعداب برطانوی کرکٹ ٹیم کا دورہ بھی خطرے میں پڑ گیا ہے،جبکہ وزیرِ داخلہ فلمی انداز میں مادھوری ڈکشٹ کا گانا قوم کو سنارہے ہیں کہ چلمن کے پیچھے کیا ہے۔وزیرِداخلہ کو ادراک ہونا چاہیے تھا کہ سوال کرکٹ ٹیم کے ارکان کے تحفظ اور سکیورٹی پر نہیں،سوال یہ ہے کہ نیوزی لینڈ نے دھمکی دینے والے گروپ کی طرف سے ملنے والی دھمکی کو پاکستان کے ساتھ شیئر کیوں نہیں کیا؟سوال یہ بھی ہے کہ نیوزی لینڈ کو کیوں گمان تھا کہ کابل ایئرپورٹ کی طرح پاکستان میں بھی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جائے گا۔اب کابینہ میں اہم تبدیلی کا وقت آن پہنچا ہے۔نیوزی لینڈ کی ٹیم کا اچانک وطن واپسی کے محرکات پاکستان کی سیاست پر گہرے اثرات پڑیں گے اور اداروں کے مابین شکوک و شبہات سے پاکستان کا پارلیمانی طرزِ حکومت بھی عوام کی نظروں میں اعتماد کھوبیٹھا ہے۔ 2023کے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر کروانے کا معاملہ ایک سطح پر مؤخر ہوچکا ہے کیونکہ سائنس وٹیکنالوجی کی منسٹری کے ماہرین الیکشن کمیشن کو مطمئن کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں اور الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر جو 37اعتراضات حکومت پاکستان کو بھجوائے تھے،اس کے ازالہ کے بجائے الیکشن کمیشن کے حکام کو تنقید کا نشانہ بنا کر آئینی بحران پیدا کردیا گیا اور الیکشن کمیشن نے دو وفاقی وزرا سے سات روز میں جواب طلب کر لیا ہے۔اگر ان وزرا نے لیت ولعل کا سہارا لیا تو الیکشن کمیشن یک طرفہ بھی فیصلہ سنانے کا مجاز ہے۔اسی دوران الیکشن کمیشن کی جانب سے نادرا کو انٹرنیٹ ووٹنگ کے حوالہ سے لکھا گیا خط لیک ہونے سے ایک نیا قانونی بحران کھڑا ہو گیا ہے،نادرا کے مراسلہ سے پتہ چلتا ہے کہ نادرا سمندر پار پاکستانیوں کے لیے انٹرنیٹ ووٹنگ بیلٹ میں بہتری کے لیے الیکشن کمیشن کو دو ارب چالیس کروڑ روپے کے نئے معاہدے میں شامل کرنے کا ارداہ رکھتا ہے،جبکہ اس کے برعکس الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ نادرا الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مطمئن کرے کہ نظام کی پہلے سے ہی موجودگی میں الیکشن کمیشن کو دوارب چالیس کروڑ روپے کا نیا معاہدہ کیوں کرنا چاہتا ہے؟اگر نادرا کے زیرِ استعمال موجودہ نظام میں کچھ خامیاں ہیں تو ان خامیوں کا ذمہ دار کون ہے؟الیکشن کمیشن نے اپنے جوابی خط میں نادرا سے دریافت کیا ہے کہ نادرا نے کس پر ذمہ داری عائد کی؟الیکشن کمیشن نے نادرا کے خط کی زبان،طریقہ کار پر بھی اعتراضات اُٹھائے ہیں کہ نادرا نے الیکشن کمیشن کو ہدایت دینے کے انداز میں خط لکھا ہے اور نادرا کو احساس ہونا چاہیے کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہونے کے ناطے آئین کے آرٹیکل 218(3)کے مطابق اپنی ذمہ داری پورے کرے گا،لہٰذا الیکشن کمیشن کو مراسلہ بھیجتے وقت الیکشن کمیشن کے آئینی اختیارات کو ملحوظ خاطررکھا جائے۔الیکشن کمیشن کی برہمی کے نتیجہ میں چیئرمین نادرا طارق ملک نے الیکشن کمیشن کے نقطہ نظر کو تسلیم کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ نادرا کے مراسلہ سے جو غلط فہمی پیدا ہوئی ہے،اس کا ازالہ کردیا جائے گاکیونکہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے جب کہ نادرا ایک ٹیکنیکل ادارہ کی حیثیت رکھتا ہے۔چیئرمین نادرا نے ماتحت افراد کی سرزنش بھی کی۔طارق ملک کے مؤقف سے اب ان دونوں اداروں کے مابین تنازعہ ختم ہی ہوگیا ہے۔اس کے سات ساتھ نادرا کا مؤقف ہے کہ انٹر نیٹ ووٹنگ بیلٹ کا نظام پہلے سے جو موجود تھا اور فی الحال الیکشن کمیشن کے پاس ہے،معاہدے کی ذمہ داروں کے مطابق الیکشن کمیشن کو دوکروڑ پچاسی لاکھ روپے جاری کرنے تھے،نئے مجوزہ نظام کے ذریعے نادراالیکشن کمیشن کو اسی کے آزاد سسٹم اور الیکشن کمیشن کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صلاحیت بڑھانے میں مدد دے گا۔نادرا کی سابقہ انتظامیہ کے روّیے کی وجہ سے الیکشن کمیشن اور نادرا میں خدمات کی فراہمی پر ہونے والا اختلاف ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔اب جب کہ حکومتی وزرا نے الیکشن کمیشن پر بلاوجہ تنقید کا جو سلسلہ شروع کررکھا ہے۔اس کی روشنی میں نادرا اور الیکشن کمیشن کے درمیان نیا تنازعہ نہیں کھڑا ہونا چاہیے۔
نادرا کے چیئرمین طارق ملک کو اپنے گھر کی بھی خبرلینی چاہیے،ان کے سابقہ چیئرمین معین عثمان اپنے ماتحت ڈائریکٹر جنرلوں سے نالاں تھے اور ان کی باہمی ناراضی کی وجہ سے نادرا میں بدنظمی پیدا ہوئی تھی تو اُس وقت کے وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان کو باربار مداخلت کرنا پڑی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ نادرا کے بعض ڈائریکٹر جنرل،چیئرمین نادرا کی شرافت کی آڑ میں ان کے خلاف سازشیں کررہے ہیں،اسی دوران 25جولائی 2018کے انتخابات میں آرٹی ایس کے فلاپ ہونے میں بھی نادراپر اعتراضات کیے گئے تھے کیونکہ سسٹم کو تیار کرنے کے لیے نادرا نے الیکشن کمیشن سے 18کروڑ حاصل کیے تھے،جس کی آخری قسط شاید ابھی تک الیکشن کمیشن کے ذمہ ہے۔جب کہ آرٹی ایس (رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم)کی بھرپور کامیابی کے لیے نادرا نے الیکشن کمیشن کو یقین دہائی کرائی تھی اور اطلاع کے مطابق غالباً الیکشن کمیشن اور نادرا نے آرٹی ایس کی کامیابی کے لیے چیف آف آرمی سٹاف کو بھی بریفنگ دی تھی،لیکن اس کے باوجود دونوں اداروں کی باہمی اعتماد کے فقدان سے سسٹم فلاپ ہوگیا اور الیکشن کمیشن کی باربار یاددہانیوں کے باوجود کیبنٹ سیکرٹری نے اپنی انکوائری رپورٹ الیکشن کمیشن کو نہیں بھجوائی۔یہاں پر دلچسپ حالات بھی سامنے آئے۔نادرا کے سابق چیئرمین معین عثمان کو میرٹ میں تبدیل کرکے اس وقت کے وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے ان کو چیئرمین نادرا مقرر کیا تھا جبکہ وہ نادرا کے قواعد و ضوابط کے مطابق میرٹ پر پورے نہیں اُترتے تھے۔اسی لیے ان کے ماتحتوں نے ان کو چیئرمین تسلیم نہیں کیا تھااور ان کے خلاف سازشیں اور ریشہ دوانیاں جاری رہیں۔
انتخابی اصلاحات کمیٹی 2016کے متعدد اجلاسوں میں جب انتخابی اصلاحات کے ذریعہ بعض اہم تبدیلیاں زیرِ بحث تھیں تو آر ٹی ایس کا فلسفہ تحریکِ انصاف کے ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی نے پیش کیا تھا اور الیکشن کمیشن نے اس کی بھرپور مخالفت کی تھی کہ ملک کے موجودہ حالات میں یہ سسٹم ناکام ہو جائے گاکیونکہ اَسی ہزار پریزائڈنگ آفیسران میں بعض اس سسٹم سے نابلد ہی رہیں گے،لیکن انتخابی اصلاحات کمیٹی نے الیکشن کمیشن کی مخالفت کے باوجود اس کو الیکشن ایکٹ 2017کے سیکشن 13(2)کا حصہ بنادیا۔
الیکشن کمیشن نے جو نوٹس دووفاقی وزراء کو جاری کیے ہیں اس پر سنجیدگی پر عمل کرتے ہوئے ان وزراء کو غیر مشروط طورپر معافی مانگ کر معاملہ ختم کر دینا چاہیے۔
(الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain