سی پیک کو درپیش چیلنجز

ملک منظور احمد
پاکستان کی معیشت کی کمزوری ہمیشہ سے پاکستان کے لیے ایک درد سر رہی ہے،پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک پاکستان کی معیشت ہچکولے کھاتی آئی ہے،کبھی کسی دور میں پاکستان کی معیشت قدرے بہتر کارکردگی کا مظا ہرہ کرتی ہے تو پاکستان کے جلد ہی ایک عظیم معاشی طاقت بننے کی نوید عوام کو سنا دی جاتی ہے لیکن پھر چند سال بعد ہی معیشت کو ایسا دھچکا لگتا ہے کہ پھر سے ساری ترقی پر پانی پھر جاتا ہے۔پاکستان کی معیشت کے ساتھ جو بنیادی مسئلہ رہا ہے وہ یہ کہ پاکستان اپنی برآمدات کو اس رفتار کے ساتھ اور اس تیزی کے ساتھ نہیں بڑھایا سکا ہے جس تیزی سے پاکستان کی درآمدات بڑھتی ہو ئی آ ئی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان ہر چند سال بعد فارن ایکسچینج کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کے در پر ہوتا ہے۔پاکستانی قوم عرصہ دراز سے اس چکی میں پستی ہو ئی آئی ہے،اور قوم کو لگنے لگا تھا کہ یہ دھکے ہی اس قوم کا مقدر بن چکے ہیں لیکن پھر اچانک 2013ء میں چین کی جانب سے پاکستان کو ایک پیغام ملا کہ ہمارے پاس آپ کے لیے ایک بہت بڑا تحفہ ہے۔اور یہ تحفہ چین کی جانب سے پاکستان کو سی پیک کی صورت میں دیا گیا۔گو کہ اس دور میں پاکستان میں نواز شریف صاحب کی حکومت تھی لیکن اس منصوبے کا کریڈٹ سابق صدر آصف زرداری بھی لیتے ہیں۔
بہر حال یہ منصوبہ با قاعدہ طور پر 2015ء میں چین کے صدر شی جن پنگ کے دورہ پاکستان کے بعد شروع ہوا اور سی پیک کے پہلے مرحلے کے تحت پاکستان میں توانائی اور انفرا سٹرکچر کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔پاکستان میں سٹرکیں بنیں مو ٹر ویز بنے اور بجلی گھر بھی لگے۔2018ء کے انتخابات کے بعد پاکستان میں حکومت تبدیل ہو ئی تو یہ افواہیں پھیلائی گئیں کہ منصوبہ رک گیا ہے کام بند ہو گیا ہے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتی وغیرہ وغیرہ،لیکن بہر حال اس کے باوجود سی پیک کا منصوبہ بہر حال چلتا رہا،منصوبے مکمل بھی ہوئے جن میں سے قابل ذکر ملتان سکھر موٹر وے اور بجلی کے منصوبے تھے۔حال ہی میں سی پیک کے تحت لاہور مٹیاری ٹرانس میشن لائن مکمل کی گئی ہے،لیکن اس کے باوجود اس منصوبے کے حوالے سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔اس بات میں کو ئی شک نہیں ہے کہ یہ منصوبہ پاکستان کی معیشت کے لیے نہ صرف نہایت ہی اہم ہے بلکہ گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اس منصوبے کی تکمیل کے ساتھ پاکستان کے معیشت کا مستقبل جڑا ہوا ہے،اور شاید اسی لیے اس منصوبے کو مسلسل اندرون ملک اور بیرون ملک سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان میں موجود چینی ورکرز اور انجینئرز پر کئی حملے کیے گئے ہیں۔داسو،گوادر اور کوئٹہ میں حملے ہوئے اور ان حملوں میں بد قسمتی سے چینی شہری بھی نشانہ بن گئے۔اور چین نے پاکستان سے اس حوالے سے شکوے کا اظہار بھی کیا گوکہ پاکستان نے پہلے سے چینی شہریوں کی سکیورٹی کے لیے فوج کے اضافی دستے تعینات کر رکھے ہیں لیکن ان حملوں کے بعد چینی شہریوں اور خاص طور پر سی پیک پر کام کرنے والے ورکرز کی سیکورٹی میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمن پوری قوت کے ساتھ سی پیک کے منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔سی پیک کے حوالے سے پاکستانی میڈیا میں منفی خبریں بھی ایک معمول بنتی جا ری تھیں جس کا حکومت نے سختی سے نوٹس لیا ہے اور ان کی روک تھام کے لیے بھی اقدامات لیے جا رہے ہیں۔سی پیک کا دوسرا مرحلہ اب شروع ہو چکا ہے جس کے تحت پاکستان میں خصوصی اقتصادی زونز بننے ہیں جن میں برآمدی صنعتیں لگائی جانی ہیں۔اور حکومت پاکستان کا منصوبہ یہ ہے کہ ان اقتصادی زونز کی مدد سے پاکستان کی برآمدات میں اتنا اضافہ کیا جائے کہ پاکستان کو فارن ایکسچینج کی کمی کا مسئلہ جس کے باعث پاکستان کو بار بار آئی ایم کے در پر حاضری دینی پڑتی ہے کو ختم کیا ہے اور مستقبل میں ایک بہتر معیشت کی بنیاد رکھی جائے۔اس نازک مرحلے پر سی پیک پر حملے اور بیرونی سازشیں غیر متوقع نہیں ہیں،خاص طور پر جب افغانستان میں طالبان کا قبضہ تیز تر ہوتا گیا پاکستان میں یکے بعد دیگر سی پیک پر بھی حملے بڑھتے چلے گئے۔ان حملوں کی ذمہ داری ٹی ٹی پی کی جانب سے قبول کی گئی اور پاکستان نے بھی کہا کہ افغان سر زمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں چینی شہریوں پر یہ حملے کیے گئے ہیں۔
اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حوالے سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ شاید طالبان ان حملوں میں ملوث ہیں لیکن افغان طالبان بر ملا نہ صرف چین کو اپنا دوست قرار دے چکے ہیں بلکہ چین کو افغانستان میں سرمایہ کاری کی بھی دعوت دے رہے ہیں۔اس سے صاف ظاہر ہو تا ہے کہ افغان سر زمین پر موجود راء اور این ڈی ایس ان حملوں میں ملوث تھیں۔لیکن جہاں پر بہت سا پرا پیگنڈا موجود ہے وہاں پر یہ چیز بھی سامنے آئی ہے کہ کچھ چینی کمپنیوں نے حکومت پاکستان کی جانب سے عد م ادائیگی کی شکایات بھی کی ہیں جن پر پاکستان کی حکومت نے چین کو یقین دلایا ہے کہ جلد یہ معاملہ کلیئر کر دیا جائے گا۔اور ابھی گزشہ کل ہی سی پیک پر پاکستان اور چین کے مشترکہ ورکنگ گروپ کا اجلاس بھی منعقد ہوا ہے اور اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس منصوبے کو روکنے کی تمام کوششوں کا سد باب کیا جائے گا۔اور کوئی قوت سی پیک کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو گی۔یہ اعلا میہ نہایت ہی خوش آئند اور ان سازی عنا صر کو سخت جواب ہے اور یہ واضح پیغام ہے کہ پاکستان اور چین ایک پیج پر ہیں کسی صورت بھی اپنے مشترکہ مفادات کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔بہر ال سی پیک کے تحت پاکستان میں 62ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ہونی ہے اور ریلوے کے منصوبے ایم ایل ون منصوبے جیسے پراجیکٹس یقینا پاکستان کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس بات میں ہمیں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ سی پیک کی صورت میں پاکستان کو ترقی اور معاشی خود مختاری کا ایک نا در موقع ملا ہے اور ایسے موقع قوموں کو با ر بار نہیں ملا کرتے ہیں۔اس منصوبے کی کامیاب تکمیل پاکستان کو دیرینہ معاشی مسائل سے نجات دلا سکتی ہے۔ہمیں بطور قوم کسی صورت بھی اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

پاکستانی نابینا سفارت کار خاتون کا کشمیر بھارت کو کرارا جواب دنیا کی آ نکھیں کھول دیں

پاکستانی نابینا سفارتکار خاتون کا کشمیر پر بھارت کو کرارا جواب، دنیا کی آنکھیں کھول دیں مستقل مشن کی رکن صائمہ سلیم نے بھارتی مظالم پر ٹھوس جوابات دیئےنیویارک

پاکستان پر الزام تراشی کی کوشش ناکام، بھارت کو اقوام متحدہ میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مشن کی رکن، پاکستانی سفارتکار صائمہ سلیم نے بھارتی بیان پر سخت ردعمل جاری کردیا۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارتی بیان

پر جوابی ردعمل دیتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفصیلات پیش کیں۔پاکستان کی جانب سے خاتون سفارت کارصائمہ سلیم نے مقبوضہ کشمیر سے متعلق حقائق پیش کر کے بھارت کوبھرپور جواب دیا۔انہوں نے کہا کہ کشمیرنہ بھارت کا اٹوٹ انگ نہ بھارت کا اندرونی معاملہ، یہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے، جس پر

بھارت نے بزور اسلحہ قبضہ کیا ہوا ہے، کشمیر کے مسئلے سے سے توجہ ہٹانے کیلئے بھارت ہمیشہ پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کرتا ہے۔صائمہ سلیم نے کہا کہ یورپی یونین کی ڈس انفولیب کے انکشافات سامنے آچکے ہیں، بھارت نے پاکستان کے خلاف غلط معلومات کے ٹولز استعمال کیے۔انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف

ورزیوں پر درجنوں رپورٹس موجود ہیں، انسانی حقوق کے ہائی کمشنرکی 2رپورٹس میں تفصیلات بھی درج ہیں، 5 اگست 2019 کے بعد بھارت پر زور دیا کشمیریوں کے حقوق بحال کرے، انسانی حقوق تنظیموں نے بھی مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے حال ہی میں جامع اور تحقیق شدہ ڈوزیئرجاری کیا

ہے، جو بھارتی فورسز کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مشتمل ہے، اس میں پاکستان نے بین الاقوامی برادری سے نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔بھارت کے پاس اگرچھپانے کیلئے کچھ نہیں ہے توبھارت کو اقوام متحدہ کی انکوائری کو قبول کرنا چاہیے، بھارت خود خطے میں دہشت گردی کا اصل مجرم اور مالی معاون ہے، بھارت کم ازکم 4 مختلف اقسام کی دہشت گردی میں ملوث ہے، 1989 سے اب تک بھارتی افواج نے 96 ہزار سے زائد

کشمیریوں کو شہید کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارت ٹی ٹی پی جیسی دہشت گرد تنظیموں کی معاونت کر رہا ہے، ہزاروں پاکستانی بھارتی سرپرستی میں دہشت گرد حملوں میں جانیں گنواچکے ہیں، پاکستان نےدہشت گردی میں بھارتی مداخلت کے شواہد شیئرکیے، پاکستان میں گرفتار ہونے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن نے بھی پاکستان میں دہشت گردی کااعتراف کیا

ہے، اس سے قبل بھارت نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے الزامات کا سخت لہجے میں جواب دیا تھا،اقوام متحدہ میں بھارت کی فرسٹ سیکریٹری سنیہا دوبے نے کہا کہ پاکستانی وزیر اعظم نے بھارت کے داخلی معاملات کو عالمی پلیٹ فارم پر پیش کر کے اور جھوٹ پھیلا کر بھارت کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش

کی ہے، جس کی وجہ سے انہیں ‘رائٹ ٹو رپلائی(جواب دینے کا حق)کی شق استعمال کرنی پڑی۔سنیہا دوبے نے الزام عائد کیا کہ پاکستان وہ ملک ہے، جہاں دہشت گرد آزادی سے گھومتے ہیں۔ ”پاکستان اپنے پڑوسیوں کو پریشان کرنے کے لیے درپردہ دہشت گردی کی اعانت کر رہا ہے۔ پاکستان دنیا بھر میں خود کو مظلوم اور دہشت گردی کے شکار ملک کے طور پر پیش کرتا ہے۔ پاکستان درحقیقت آگ لگانے والا ہے لیکن خود کو فائر فائٹر(آگ

بجھانے والے) کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔”بھارتی عہدیدار کا مزید کہنا تھا، ان(پاکستان)کی پالیسیوں سے ہمارا خطہ ہی نہیں بلکہ دراصل پوری دنیا کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف وہ اپنے ملک میں نسلی تشدد کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔”بھارتی سفارت کار سنیہا دوبے کا دعوی تھا، ہم اس وقت بھی اور ہمیشہ اس بات پر قائم ہیں کہ مرکز کے زیر انتظام علاقے جموں و کشمیر اور لداخ بھارت کا حصہ ہیں اور رہیں

گے۔ اس میں وہ حصے بھی شامل ہیں جن پر پاکستان نے غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ہم پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ اس نے ہمارے جن علاقوں پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے، ان تمام علاقوں سے فورا دست بردار ہو جائے۔”خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس سے جمعے کی رات خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت میں ہندو

فضائی حملوں کیلئے طالبان کو بتانا ضروری نہیں امریکہ کا اعلان

نیویارک (مانیٹرنگ ڈیسک) پینٹاگون کا کہنا ہے کہ افغانستان میں فضائی حملوں کے لیے طالبان کو بتانا ضروری نہیں۔واشنگٹن میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے پینٹاگون پریس

سیکرٹری جان کربی کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے لیے تمام اہم حکام کو رابطے میں رکھتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ فضائی حملوں میں استعمال ہونے والی

صلاحیتوں پر یقین رکھتے ہیں اور اس میں معاون رابطوں کےلئے مخصوص اصولوں کی ضرورت نہیں ہے۔جان کربی نے یہ بھی کہاکہ طالبان سے بھی فی الحال فضائی حدود کے

حوالے سے کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں۔ا±ن کا کہنا تھا کہ توقع کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں اس سلسلے میں مستقبل میں بھی کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

ملک بھر میں نادرا سروسز معطل

ملک بھر میں نادرا سروسز معطل ہو گئیں۔

  نادرا سروسز اج 26 ستمبر کی صبح 8 بجے تک معطل رہیں گی، نادرا سسٹمز کی اپ گریڈیشن کے باعث فیصلہ کیا گیا ہے۔

 ترجمان نادرا  کا کہنا ہے کہ نادرا آپریشنل سہولیات بشمول آن لائن PakIdentity، کووڈ سرٹیفکیٹ کا (آن لائن) اجراء کی سروس بھی معطل ہوگی۔

ترجمان نادرا  کے مطابق ملک بھر کے 24 گھنٹے سروس والے میگا سینٹرز میں بھی سروسز آج صبح 8 بجے تک معطل رہیں گی۔

 ترجمان نادرا کے مطابق  اپگریڈیشن کے بعد تمام سروسز بحال ہو جائیں گی۔

 ترجمان نادرا  کا  مزید کہنا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے بھی اپ گریڈیشن کے دوران تمام آن لائن سروس معطل رہیں گی، بیرون ملک پاکستانیوں کو بھی سسٹم اپ گریڈیشن کے فوری بعد تمام سروسزحاصل ہو سکیں گی۔

امریکی فو ج کی واپسی اور جوبائیڈن

روہیل اکبر
افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے حوالہ سے صدر جو بائیڈن پربہت تنقید کی جارہی ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ جو بائیڈن نے افغانستان سے افواج کے انخلا کا انتہائی سمجھداری سے فیصلہ کیا طالبان کے جیتنے اور امریکا کے بالآخر 20سال بعد شکست کا تفصیلی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کیوں دنیا کی بہادر ترین افغان قوم کی فوج نے لڑے بغیر ہتھیار ڈال د ئیے پاکستان مخالف افواہ ساز فیکٹریاں اس ساری صورتحال کے پیچھے پاکستان کو پیش کرنے کے لیے اپنا پورا زور لگا رہی ہیں فرض کریں اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ پاکستان نے طالبان کی امریکا کے خلاف مدد کی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پاکستان امریکا اور یورپی ممالک سے زیادہ طاقتور ہے اور اتنا طاقتور ہے کہ اس نے 60 سے 65ہزار معمولی اسلحے سے لیس ملیشیا کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ بہترین اسلحہ سے لیس فوج کو شکست دینے میں کامیاب رہی ایسا ہر گز نہیں یہ صرف پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا ہے جو سب سے پہلے افغان حکومت نے کرنا شروع کیاتھا تاکہ وہ اپنی نااہلی، کرپشن اور افغانستان کو مناسب حکومت کی فراہمی میں ناکامی کو چھپا سکیں، اسے ایک کٹھ پتلی حکومت تصور کی جاتا تھا جس کا وہاں کے عوام احترام نہیں کرتے تھے اور دوسرا بھارت ہے جس نے اشرف غنی حکومت پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے خلاف اس پراپیگنڈے کی کوئی منطق نہیں ہے۔
امریکا کے خلاف طالبان کی مدد کا الزام درست مانا جائے تو مطلب‘ پاکستان امریکا سے زیادہ طاقتور ہے جب کہ پاکستان پر طالبان کی مدد کرنے کا پروپیگنڈا افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت نے کیا، اشرف غنی حکومت نے اپنی نااہلیوں کو چھپانے کے لیے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کیا اور پاکستان مخالف پروپیگنڈے کو بھارت نے اپنے ناپاک عزائم پورے کرنے کے لیے اسپانسر کیا۔ایک اور مثال پیش کرتا ہوں اس وقت پاکستان کے 22کروڑ عوام کے لیے کل بجٹ 50ارب ڈالر ہے اوریہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے منہ کا نوالہ شدت پسندی کو فراہم کریں جو امریکا پر حاوی ہو وہ بھی ایک ایسی جنگ میں جہاں امریکا نے 20سالوں میں 2کھرب ڈالر جھونک دئیے۔اس وقت امریکہ کا کہناہے کہ آخر تین لاکھ افغان فوج نے طالبان سے لڑائی کیوں نہیں کی کیا پاکستان نے ان سے کہا کہ وہ جنگ نہ لڑیں۔ آخر دنیا کی بہادر ترین افغان قوم کی فوج نے لڑے بغیر ہتھیار کیوں ڈال دئیے۔ رہ گئی بات طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی پاکستان چونکہ عالمی برادری کا حصہ ہے اور ہم اس وقت افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں اس لیے طالبان کی حکومت کو جامع ہونا چاہیے کیونکہ افغانستان میں بہت زیادہ تنوع ہے۔
طالبان ایک پشتون تحریک ہے اور پشتون افغانستان کی نصف آبادی ہیں پھر وہاں تاجک بھی نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ ازبک اور ہزارہ بھی ہیں لہٰذا افغانستان کے مفاد اور دیرپا امن کے قیام کے لیے ہم محسوس کرتے ہیں وہاں ایک جامع حکومت ہونی چاہیے جو افغانستان کو متحدرکھ سکے طالبان ایک مشکل دور سے گزرے ہیں اور انہوں نے انسانی تاریخ کے مہلک ترین ہتھیاروں کا مقابلہ کیا ہے۔ انہیں اس میں بہت جانی نقصان بھی ہوا لہذا اس جنگ میں جنہوں نے زیادہ قربانیاں دی ہیں انہیں حکومت میں مرکزی حصہ ملے البتہ طالبان میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک باقی اقلیتی گروہوں کو ایک چھتری تلے جمع نہیں کیا جاتا اس وقت تک حکومت غیرمستحکم رہے گی۔ ایک اور اہم بات کہ افغانستان اس وقت ایک تاریخی دوراہے پر کھڑا ہے جو یا تو چالیس سال کی جنگی صورتحال کے بعد استحکام کی طرف بڑھے گا یا پھر یہاں سے غلط سمت میں چلا گیا تو اس سے افراتفری، انسانی بحران، پناہ گزینوں کا ایک بڑا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ جو ایک بڑے مسئلے کی صورت اختیار کر سکتا ہے جس سے تمام ہمسایہ ممالک متاثر ہوں گے۔ پاکستان کے نقطہئ نظر سے افغان سرزمین سے دہشت گردی کا بھی خطرہ ہو سکتا ہے کیونکہ پہلے سے ہی تین دہشتگرد گروہ افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کراتے رہے ہیں۔
امریکا کابھی افغانستان میں بہت بڑا کردار ہے کیونکہ وہ وہاں 20 سال رہا۔ امریکا کی افغانستان پر حملہ کرنے کی واحد وجہ مبینہ طورپردہشت گردی تھی۔ اگر افغان سرزمین دوبارہ دہشت گردوں کی جائے پناہ بن جائے تو پھر آخر آپ نے کیا کامیابی حاصل کی؟ افغانستان میں شکست کے بارے میں امریکی سینیٹرز کے پاکستان مخالف بیان پربھی شدیدحیرت ہوئی ہے کیونکہ پاکستان وہ ملک ہے جس نے اس جنگ میں امریکا کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دیں ہمیں اس جنگ میں اتحادی بننے کا کہا گیا حالانکہ پاکستان کا نائن الیون سے کوئی لینا دینا نہیں تھا کیونکہ اس میں کوئی پاکستانی شامل نہیں تھا۔ ہماری اس جنگ میں شمولیت کی کوئی وجہ نہ تھی لیکن اب اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے امریکا کو پاکستان کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے دیکھنا انتہائی تکلیف دہ ہے۔
طالبان اب ایک حقیقت ہیں اور دنیا کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ انہیں ایک مستحکم ملک کے قیام کی ترغیب دیں اگر دنیا نے افغانستان پر پابندیاں لگائیں تو افغانستان ٹوٹ جائے گااور پھر دہشت گردی پوری دنیا میں پھیل جائیگی۔
(کالم نگارسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

وزیراعلیٰ پنجاب اورتعلیمی ادارے

ڈاکٹرعبدالقادر مشتاق
جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالتے ہی روشن خیالی کا تصور متعارف کروایا۔ جس کی تشریح ہر مکتبہ فکر نے اپنے اپنے حوالے سے کی۔ کسی نے تو اسے بے حیائی اور فحاشی تک قرار دئے دیا۔ تاریخ دانوں نے اس کے دو پہلو نکالے۔ اول معاشرے سے انتہا پسندی کا خاتمہ، دوم تعلیم پر انحصار۔ تعلیم کو عام کرنے کے لئے مختلف پالیسیاں متعارف کروائی گئیں۔ ان پالیسیوں کے تحت نئے تعلیمی اداروں کا قیام قابل ذکر تھا۔ مشہور گورنمنٹ کالجز کو یونیورسٹیوں کی شکل دے دی گئی۔ گورنمنٹ کالج فیصل آباد کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد، گورنمنٹ کالج لاہور کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور بنا دیا گیا۔ اس پر دو مختلف طرح کی آرا سامنے آئی۔ کچھ لوگوں نے اسے تنقیدی نظر سے دیکھا اور حکومت کی تعلیمی پالیسیوں کو ملک کے لئے زہر قاتل قرار دیا۔
دوسرے لوگوں کا خیال تھا کہ ان گورنمنٹ کالجوں کو یونیورسٹیوں کا نام نہیں دینا چاہے تھا بلکہ الگ سے نئے ادارے قائم کرنے کی ضرورت تھی۔ تیسری طرح کے لوگوں نے اسے خوش آئند قرار دیا اور اس اقدام کوملک کی ترقی کا اورایک نئے دور کا آغاز کہا۔ نئے تعلیمی اداروں نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ترقی میں کبھی ایک ادارہ کسی سے سبقت لے جاتا کبھی دوسرا۔ اکرم چودھری وائس چانسلر سرگودھا یونیورسٹی کے دور میں سرگودھا یونیورسٹی کی دھوم مچ گئی کہ وہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔ یونیورسٹی آف گجرات، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور نے بھی آہستہ آہستہ اپنا سفر جاری رکھا۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کو یہ برتری حاصل تھی کہ اس کے طالب علم بیوروکریسی میں اہم پوزیشنیں لئے ہوئے تھے اور پالیسی سازی میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اس لئے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے لئے اتنے مسائل نہیں ہوتے جتنے باقی اداروں کے لئے تھے۔ پاکستان کی پرانی اور بڑی یونیورسٹیوں کی نظر میں ان تعلیمی اداروں کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ان نئے تعلیمی اداروں میں جتنے بھی وائس چانسلر آئے انہوں نے ادارے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد ڈاکٹر آصف اقبال، ڈاکٹر عارف زیدی، ڈاکٹر شاہد محبوب رانا، ڈاکٹر ذاکر حسین، پروفیسر ڈاکٹر محمد علی صاحب تک سب لوگوں نے اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔ شعبہ جات بھی بنائے گئے، تعمیرات بھی ہوئیں، اساتذہ کرام کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ لیکن قومی سطح پر اپنی پوزیشن بنانے میں ادارے کو وقت درکار تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر شاہد کمال موجود وائس چانسلر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد نے جب ادارے کی حدود میں قدم رکھا تو ان کو بھی سابقہ وائس چانسلرز کی طرح ان مسائل کا سامنا تھا جو کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتے ہیں۔ اساتذہ کرام کا ایک خاص گروہ اپنی شیروانی ہمیشہ تیار رکھتا ہے۔ اور شیروانی کو ہر ماہ دھو کے پھر رکھ دیتا ہے۔ لیکن وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد کمال کی مدبرانہ اور منصفانہ حکمت عملی نے آہستہ آہستہ چیزوں پر پڑی دھند کو صاف کر دیا۔ انہوں نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کو اپنا لیڈر مانتے ہوئے ان کی کام کام اور کام کی پالیسی کو اپنا شعار بنا لیا۔ لوگوں کو اپنی ٹیم میں جگہ دی اور ان سے کام لینے کے لئے ان کی ہمت بندھائی۔ وہ اساتذہ کرام جو غیر منصفانہ فیصلوں کی وجہ سے ادارے سے مایوس ہو چکے تھے ان کو تعلیمی دھارے میں لائے۔ اساتذہ کے پرموشن کے عمل کو شفاف بنایا اور میرٹ کی بالادستی کے لئے اپنی کاوش جاری رکھی۔ ایک سال کے اندر اندر ہی پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسرز کی تعداد میں اضافہ کیا۔
سال کے اندر دو نوکری کے اشتہارات دے کر طالب علم اور اساتذہ کی تعداد میں توازن قائم کیا۔ جس کے نتائج اگلے کئی سال تک ادارے کو ترقی کی طرف رواں دواں رکھیں گے۔ اس سے جہاں اساتذہ کی ادارے کے ساتھ وفاداری بڑھے گی وہیں معیار تعلیم بھی بہتر ہوگا۔ جب ادارے کے ساتھ اساتذہ کرام کی وفاداری مستحکم ہوئی تو انہوں نے بھی ادارے کی بہتری کے لئے کام شروع کر دیا۔ کسی بھی ادارے کے تین مضبوط ستون ہوتے ہیں۔ اول طالب علم، دوم اساتذہ اور سوم موجودہ انتظامیہ۔ وائس چانسلر نے تینوں ستونوں میں توازن پیدا کیا۔ جہاں اساتذہ کی ترقیاں کیں وہیں انتظامیہ میں بھی لوگوں کو مایوس نہیں ہونے دیا۔ ایک سے سولہ گریڈ کے تمام ملازمین کو اگلے گریڈ میں ترقی دے دی گئی۔ جن انتظامی سیٹوں پر ایڈہاک ازم چل رہا تھا وہاں مستقل لوگوں کی تعیناتی کو یقینی بنایا۔ اس سے انتظامیہ کی وفاداری ادارے کے ساتھ مستحکم ہوئی۔ اور ان کا کام کرنے کا معیار بھی بہتر ہوا۔ طلبہ و طالبات کے لئے بہت سے انقلابی اقدام اٹھائے۔ شعبہ جات کے قابل اور مستعد چیئرمین حضرات لگائے۔ جنھوں نے طلبہ و طالبات کی بہتری کے لئے کام کیا۔ ڈائریکٹر نظامت امور طلبہ کو فعال کیا جس سے ادارے کے طلبہ و طالبات نے ادبی مقابلہ جات میں پاکستان بھر میں پوزیشنیں اپنے نام کیں۔ کنٹرولر امتحانات نے بروقت رزلٹ کے اعلانات کر کے طلبہ و طالبات میں پیدا ہونے والی بے چینی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا۔
ORIC اور QEC کے دفاتر کو اہم ذمہ داری دی کہ میرا یہ ٹارگٹ ہے کہ میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کو بین الاقوامی اداروں کی لسٹ میں سب سے نمایاں کر دوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قوموں کی زندگیوں میں قیادت کا ویژن بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔وائس چانسلر نے بہت ہی کم عرصے میں اپنے ویثرن کو عملی شکل دی اور جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد دنیا کی چھ سو بہترین یونیورسٹیوں میں اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ پاکستان میں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے بعد پاکستان کی دوسری بہترین یونیورسٹی بن چکی ہے۔ پنجاب میں تعلیمی اداروں میں سب سے بہترین یونیورسٹی کا مقام حاصل کرنا گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے لئے بہت بڑی اعزاز کی بات ہے۔ اس سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پنجاب حکومت وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی قیادت میں تعلیمی اداروں کو بہتر کرنے میں برسرپیکار ہے۔ اس وقت بہت سارے تعلیمی اداروں کو معاشی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ لیکن گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد پاکستان کا وہ واحد ادارہ ہے جو معاشی طور پر مستحکم ہو چکا ہے۔ غیر ضروری اخراجات کو روکنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے لیکن وائس چانسلر اور ان کا خزانچی اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے بنائے گئے تعلیمی اداروں سے تعلیم کے فروغ میں سبقت لے جانا اس بات کی گواہی ہے کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد پنجاب کی مضبوط ہاتھوں میں ہے۔
(کالم نگار جی سی یونیورسٹی فیصل آبادکے
شعبہ ہسٹری کے چیئرمین ہیں)
٭……٭……٭

خشک سالی اور منافعوں کی ہوس

جاوید ملک
بائیں بازو کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کرونا وباء کے باعث ماحولیاتی بحران پر لوگوں کی توجہ کسی حد تک کم ہوئی ہے۔ البتہ اس کے شدید اثرات اب بھی موجود ہیں۔ آج ہم ماحولیاتی تبدیلی کے نتائج بھگت رہے ہیں، جبکہ شدید موسمیاتی تبدیلیاں معمول بنتی جا رہی ہیں۔ خصوصاً اس سال، دنیا بھر کے مختلف خطوں کو خشک سالی نے متاثر کیا ہے جو تباہ کن مستقبل کا پیش خیمہ ہے۔
کیلیفورنیا، برازیل اور تائیوان میں تاریخ کی سب سے بڑی خشک سالی دیکھنے کو ملی ہے۔ یورپ، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے تمام خطوں میں بھی پانی کی شدید قلت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ دہائیوں سے جاری سرمایہ دارانہ بد نظمی، کرپشن اور ماحولیاتی تبدیلی نے پانی کا شدید بحران پیدا کر دیا ہے، جو انسانیت کو دو راستوں میں سے ایک چننے کا اختیار دے رہی ہے؛ یا تو ہم ہنگامی بنیادوں پر منصوبہ بندی کریں، یا پھر اپنی زمین کے بڑے حصوں کو نہ رہنے کے قابل بنتا ہوا دیکھیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق، دنیا بھر میں ہر سال 5 کروڑ 50 لاکھ افراد خشک سالی سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اس صورتحال سے دنیا کے تقریباً ہر حصے میں مال مویشیوں اور فصلوں کو شدید خطرہ درپیش ہے۔ یہ لوگوں کے ذرائع معاش کے لیے خطرہ ہے، اس سے امراض کی بڑھوتری کا خدشہ بڑھ رہا ہے، اور دیوہیکل پیمانے پر لوگوں کی نقل مکانی کا سبب بن رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2030ء تک، خشک سالی کے نتیجے میں 70 کروڑ افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوں گے۔ ’نیچر جیو سائنس‘ میں شائع کی گئی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق، یورپ میں موسمِ گرما کے دوران دیکھی جانے والی خشک سالی کی شدت نے پچھلے 2 ہزار 1 سو سالوں کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔
یہ صورتحال مزید بد تر ہوتی جا رہی ہے۔ نقصان دہ گیسوں کے اخراج کے باعث، خاص کر زیرِ زمین ایندھن کے ذریعے، زمین روز بروز گرم ہوتی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے خشک سالی میں مزید شدت اور طوالت آنے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ حتیٰ کہ ’ماحولیاتی دفاعی فنڈ‘ (ای ڈی ایف) نے طویل عرصے پر محیط خشک سالی کے معمول بن جانے کے امکانات کا ذکر کیا ہے، جو دو یا دو سے زیادہ دہائیوں تک جاری رہے گی۔
دریا، جھیل اور پانی کے ذخائر خشک ہو رہے ہیں، اور ’ناسا‘ نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا میں زیرِ زمین پانی کے 37 اہم ترین ذخائر میں سے 13 اتنی تیزی کے ساتھ خالی ہو رہے ہیں کہ ان کا دوبارہ بھرنا مشکل ہو رہا ہے۔ زمین کا 70 فیصد میٹھا پانی زراعت میں، اور 20 فیصد صنعت میں استعمال ہوتا ہے، جو مجموعی طور 90 فیصد بنتا ہے۔ ان اعداد و شمار سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ پانی کے ذاتی استعمال میں احتیاط برتنے کی انفرادی کوششوں سے اس مسئلے کا ذرّہ برابر خاتمہ بھی ممکن نہیں ہے۔
سرمایہ داری کے اندر زراعت کے بہت سارے پہلو مکمل طور پر غیر معقول ہیں۔ مثال کے طور پر کیلیفورنیا کی بات کرتے ہیں۔ یہ امریکی ریاست اتنی خشک ہے کہ اسے صحرا کہنا غلط نہیں ہوگا، جہاں سال میں محض 8 سینٹی میٹر بارش ہوتی ہے۔ پھر بھی یہ امریکہ کی موسمِ سرما والی سبزیوں میں سے 90 فیصد پیدا کرنے والا خطہ ہے۔ کیلیفورنیا میں زمین کا ایک بڑا حصہ برسیم اور بادام پیدا کرنے کے لیے مختص ہے، جو ان فصلوں میں سے ہیں جس کے لیے بہت بڑی مقدار میں پانی درکار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ میں دوسرے نمبر پر چاول کی سب سے بڑی کاشت بھی کیلیفورنیا میں کی جاتی ہے۔ یہاں کسان اپنے چاول کے کھیتوں کو بہت بڑی مقدار میں پانی فراہم کرتے ہیں، جو اتنی ہی تیزی کے ساتھ بخارات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مگر اب، خشک سالی کے باعث، کسان ماضی کی نسبت 1 لاکھ ایکڑ کم چاول کاشت کر سکیں گے، جو اس ریاست میں ہونے والی 5 لاکھ ایکڑ کاشت میں 20 فیصد کمی ہوگی۔
یہ کاروباری فصلیں ہیں، جو ان زمینوں کے مالکان اس لیے اگاتے ہیں تاکہ اچھی پیداوار حاصل کر کے زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔ مگر یہ قریبی شہروں کے رہائشی ہی ہیں جنہیں پانی کی شدید قلت کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔ عقلی بنیادوں پر دیکھا جائے تو یہ ساری صورتحال بالکل بکواس لگتی ہے۔ پانی کے انتظامات کے نقطہ نظر سے، یہ فصلیں محض کیلیفورنیا کے محدود ذخائر کو مزید خشک کرنے کا کام کرتی ہیں، جو اس کے مکمل انہدام کا راستہ ہموار کر رہی ہے۔
یہ سرمایہ داری کے تحت زمین کی نجی ملکیت کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ زرعی کاروباروں کے مالکان کو اپنے کھیتوں پر بے تحاشا پانی صرف کرنا اس لیے ٹھیک دکھائی دیتا ہے کیونکہ اگر ان میں سے کوئی پانی کے استعمال کو کم کرنے کی خاطر مختلف قسم کی فصل کاشت کریں، تو وہ ریاست کے اندر منافع بخش فصل کی کاشت کرنے والے دیگر مالکان کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ منڈی کی اندھا دھند مقابلہ بازی کا مطلب یہ ہے کہ پانی کے ذخائر جتنا خشک ہوتے جاتے ہیں، اتنا ہی زرعی کاروباروں کی پیاس مزید بڑھتی جاتی ہے، جو اس کے مکمل خشک ہونے سے پہلے پہلے جتنا زیادہ ممکن ہو ان قیمتی اور محدود وسائل کو لوٹنا چاہتے ہیں۔
یہ صرف ایک مثال ہے۔ اس قسم کی حرکتیں دنیا بھر میں ہوتی ہیں؛ چاہے زرعی زمین پر ضرورت سے زیادہ پانی صرف کرنا ہو (جو کھیت سیراب کرنے کا سب سے کم مؤثر طریقہ ہے)، تیز منافعے کمانے کی غرض سے ناسازگار حالات میں فصلیں کاشت کرنا ہو، یا پھر تھوڑی مدت کی زرخیزی کے لالچ سے ایمازون سمیت دیگر برساتی جنگلات کی کٹائی ہو۔
اسی خطے کے اندر، پانی کے ذخائر کی خشکی ممالک کے بیچ تناؤ کو اشتعال دے رہی ہے۔ 1975ء سے لے کر اب تک، ترکی میں ہائیڈرو الیکٹرک ڈیموں کی تعمیر کے باعث عراق کو جانے والے پانی میں 90 فیصد جبکہ شام کو جانے والے میں 40 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ دونوں ملکوں نے ترکی کے اوپر پانی کی ذخیرہ اندوزی کا الزام لگایا ہے۔
عراق کے اندر 2019ء میں ابھرنے والی احتجاجی تحریک کی ایک چنگاری بلاشبہ پانی تک رسائی کا فقدان ہی تھا۔
عوام کو موسمِ گرما برداشت کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا، جس میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا اور ان کو پانی یا بجلی دستیاب نہیں ہوتا تھا۔
ان مسائل میں سے کوئی بھی مسئلہ موجودہ نظام کے تحت حل نہیں ہوسکتا اسی بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے روزنامہ خبریں کے بانی جناب ضیا شاہد مرحوم نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ پاکستان میں پانی کے وسائل کو پیدا کرنے یا پھر پانی کی بچت کرنے کے لیے صرف کر دیا لازم ہے کہ وطن عزیز کے اندر جہاں 2025ء میں پانی کا بحران ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آرہا ہے ضیاء شاہد مرحوم کی اس تحریک کو وہیں سے شروع کیاجائے جہاں سے وہ یہ تحریک محض اس لیے چھوڑ کر چلے گئے کہ ان کی زندگی نے ان کا ساتھ نہ دیا۔
بائیں بازو کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جب سرمایہ داری کا خاتمہ ہوچکا ہوگا تو ہم بالآخر ان بے شمار ماحولیاتی تباہ کاریوں کی روک تھام کرنے کے قابل ہوجائیں گے اس بوسیدہ نظام کی وجہ سے ہرگزرتے دن کے ساتھ یہ بحران شدید ہوتا جارہا ہے اور اس کی قیمت غریب لوگوں کو اپنی زندگی کی صورت میں چکانا پڑتی ہے۔
(کالم نگار سیاسی و سماجی ایشوز پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

سٹرکچرز اور سسٹمز

لیفٹیننٹ جنرل(ر)اشرف سلیم
انسانوں کی طرح سسٹمز بھی پیدا ہوتے ہیں اپنا مجوزہ کام کرتے ہیں آہستہ آہستہ جوانی اور پھر بڑھاپے کی منازل طے کرتے ہیں ان منازل کے دوران ان کو مزید جوان رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ان کو نیا خون دیا جاتا ہے وٹامن کی غذا کے طور پر ان سسٹمز کو چلانے کے لئے نئے تعلیم یافتہ لوگ اور نئی ٹیکنالوجی سسٹم میں لائی جاتی ہے اس طرح ان سسٹمز کو توانا اور متحرک رکھنے کا ہر حربہ استعمال میں لایا جاتا ہے۔ مگر سسٹمز اور سٹرکچرز بالکل انسانوں کی طرح کچھ عرصہ اور طاقت ور رہ کر ڈلیور (deliver) کرتے رہتے ہیں مگر پھرایک وقت آتا ہے یہ سسٹمز صرف بیساکھیوں کے سہارے چلتے ہیں اور آخر ہسپتال میں داخل کسی مریض کی طرح وقتا فوقتا تھوڑا کھانستے اور زور زور سے سانس لے کر چلنے کی کوشش کے باوجود اپنے ساتھ باقی سب سسٹمز (subsystems) کو بھی بیمار کرنا شروع کر دیتے ہیں اور آخر وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔
یعنی یہ سسٹمز اور سٹرکچرز اپنی آپ موت مر جاتے ہیں۔ مگر افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ ان سسٹمز کو چلانے اور ان سسٹمز سے چلنے والے انسانوں کو اس کا احساس بہت دیر کے بعد ہوتا ہے کہ جن سٹرکچرز اور سسٹمز پر ان کی ذاتی، معاشرتی اور قومی زندگی کا انحصار ہوتا ہے وہ تو در اصل مر چکے ہوتے ہیں اور ہزار کوشش کے باوجود ان سے وہ نتائج نہیں حاصل ہوتے جن کے لئے ان پر وسائیل اور انرجی خرچ کی جارہی ہوتی ہے۔یہ سسٹمز غیر حرکی یا (dysfunctional)ہو جاتے ہیں۔ جو انسان فوت ہو جاتا ہے اس کو دفن کردیا جاتا ہے اور اس کی جگہ نئے لوگ لے لیتے ہیں اور یوں زندگی کا نظام اپنی پوری آب و تاب سے رواں دواں رہتا ہے۔ یہ قانون قدرت ہے۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارے جان سے پیارے ملک پاکستان پر کیا بیتی۔
انگریز نے جب بر صغیر پاک و ہند پر اپنا مکمل قبضہ جما لیا تو اس نے یہاں کے وسائیل اور پیداوار کو اپنے صنعتی مقاصد اور اپنی آدھی دنیا پر پھیلی بادشاہت کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے لئے ہندوستان کو نئے طریقے سے تقسیم کیا کبھی بنگال کو تقسیم کیا تو کبھی سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کیا نئے اضلاع اور انتظامی تقسیم عمل میں لائی۔ نئے جاگیردار اور اپنے تابع فرمان طبقوں کو بنایا گیا اور نوازا گیا۔ نئے سسٹمز جن میں نہری نظام، ریلوے کا سسٹم، پولیس کا نظام، عدالتی نظام اور نئی سرکاری مشینری ترتیب دی گئی جن کو الیٹ (elite) بنیادوں پر استوار کر کے عام لوگوں کو کنٹرول کرنے کے فرائض سونپے گئے۔ اور پھر جس طریقے سے بر صغیر کو لوٹا گیا اس کی تفصیل مشہور انڈین کانگریس کے لیڈر ششی تھرور نے اپنی کتاب An Era Of Darkness- The British Empire in India
میں دی ہے۔ ان تفاصیل میں جائے بغیر جس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ ہے انگریز کے بنائے ہوئے سسٹمز اور سٹرکچرز کا رول‘ جو ان سسٹمز نے انگریز کے اقتدار کو طول دینے اور ان کی لوٹ کھسوٹ کو پروان چڑھانے میں ادا کیا۔ 1947 میں آزادی کے بعد ان سٹرکچرز اور سسٹمز کی نہ صرف اہمیت ختم ہو گئی بلکہ ان کا کردار بھی جو اب نئے حالات کے لئے معدوم تھا کسی حد تک نیچے کی طرف آنا شروع ہو گیا۔ مگر مقتدر قوتوں نے ان سسٹمز اور سٹرکچرز کو نہ صرف طول دیا بلکہ انہیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ہمیشہ بطور ڈھال استعمال کیا اور کر رہے ہیں۔
آزادی کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ پاکستان بنیادی طور تقسیم سے پہلے کے استحصالی طبقات جو زیادہ تر ہندو قوم سے تعلق رکھتے تھے سے مسلمانوں کی نجات کے لئے بنایا گیا تھا جہاں مسلمانان ہند اپنے نظریات اور کلچر کے مطابق نظام ترتیب دیں جو ہر قسم کے استحصال سے پاک ہو اور اپنے مذہب اور نظریات پر مبنی نظام میں ترقی اور خوشحالی کی منازل طے کر سکیں۔
مگر بدقسمتی سے قائد اعظمؒ اور لیاقت علی خان کے آنکھیں بند کرتے ہی پرانے اور نئے استحصالی طبقوں نے وہ دھماچوکڑی مچائی کہ اللہ کی پناہ۔ انہی بوسیدہ اور انگریز کے بنائے ہوئے استحصالی سٹرکچرز اور سسٹمز کو نہ صرف دوام مل گیا بلکہ قومی تعصبات اور لسانی جھگڑوں کا آغاز کروا کر پوری قوم کو نئے استحصالی طبقوں کی گرفت میں باندھ دیا گیا۔ بہت سی حکومتیں تبدیل ہوئیں بہت سی نام نہاد اصلاحات لائی گئیں‘ کبھی پارلیمانی اور کبھی صدارتی اور کبھی فوجی نظام کے تجربات ہوئے مگر قوم اسی چوراہے پر دست بستہ کھڑی حیران و پریشان ہے۔ وہی غلامی والے چال چلن وہی سرکاری افسروں کے ٹھاٹھ باٹھ۔ وہی بوسیدہ عدالتی نظام جس میں کئی سال انصاف معدوم اور انتہائی مہنگا جو عوام کی مالی طاقت سے کوسوں اوپر۔
جائیں تو جائیں کہاں؟
ہر سیاسی پارٹی وعدے اور سہانے خواب دکھا کر الیکشن میں اترتی ہے لیکن چونکہ یہ تمام سیاسی پارٹیاں صرف ایک طبقے یعنی مالدار زمیندار، صنعتکار اور سیاسی و ڈیرے اور سردار گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے کوئی معنی خیز یا حقیقی تبدیلی لانے والا پروگرام نہ بنتا ہے اور نہ اس پر عمل درآمد ہوتا ہے۔ بس یرغمال ووٹرز کو بیوقوف بنایا جاتا ہے خواب دکھائے جاتے ہیں اور کچھ پیسہ بھی استعمال ہوتا ہے ووٹوں کی خرید و فروخت میں۔ ان حالات میں کوئی سیاسی پارٹی چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اپنے پہلے دور حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں لینڈ ریفارمز کا ارادہ رکھنے اور انہیں اسمبلی سے پاس کرانے کے باوجود ان پر عمل درآمد صرف سطحی ہی کر اسکی۔ اس ملک میں مقتدر اور موثر مافیاز کوئی ریفارم یا کوئی ایسا قدم جو ان کے مفادات کے خلاف ہو اس کو آگے بڑھنے ہی نہیں دیتے۔ جو طبقات با اختیار ہیں وہ کوئی تبدیلی لانا نہیں چاہتے اور جو تبدیلی چاہتے ہیں ان کے پاس اختیار نہیں۔ یہ ایک جمود یا status quo کا سماں ہے۔ بغیر بڑی اور موثر تبدیلی کے یہ ملک نہ تو اقتصادی لحاظ سے اور نہ معاشرتی لحاظ سے ترقی کر سکتا ہے۔ اور نہ اس میں حقیقی جمہوری روایات جنم لے سکتی ہیں۔
آج کے اس کالم میں بغیر تفصیل میں جائے ان موضوعات کا صرف ذکر ہو گا جن میں موثر تبدیلی ضروری ہے اور جس تبدیلی کے بغیر ہمارا ملک اور عوام کنویں کے بیل کی طرح رات دن چکر تو کاٹ سکتے ہیں مگر اس معتوب جمود اور بدحالی کے گردش سے باہر جانا ممکن نہیں۔
ا۔ سب سے پہلے انگریز کے دئیے ہوئے استحصالی اور بالکل غیر موثر ملکی اندرونی سٹرکچر سے آگے ایک سمارٹ اور موثر کارکردگی والے نظام کا قیام لازمی ہے جس میں چھوٹے مگر سمارٹ گورنینس والے صوبے ہوں جہاں حاکم عوام کی حکمران کے بجائے عوام کی خادم ہو۔ یعنی گورننس کو عوام کی دہلیز پر لے کر آنا ہے۔
ب۔ حکمرانوں اور نوکرشاہی کے عوام کی طرف رویہ میں ایک موثر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ حکمران اور نوکر شاہی کا نظام لوگوں کے مسائل کا حل تلاش کرے چہ جائیکہ وہ ان کے لئے خود ایک بہت بڑا مسئلہ بن جائے۔
پ۔ موثر اور انصاف پر مبنی زرعی اور صنعتی اصلاحات کا نفاذ بہت ضروری ہے جس میں کاشتکاروں چھوٹے زمینداروں اور صنعتی حصہ داروں اور مزدوروں کو ان کے جائز حقوق اور منافع میں حصہ دار بنایا جائے۔
ت۔ سرکاری مشینری اور پولیس کے سٹرکچر کو لوکل گورنمنٹ کے سٹرکچر کے ہم آہنگ کرنا اور اس کو لوکل گورنمنٹ سسٹم کے مختلف لیول کے آگے جوابدہ بنانا ضروری ہے۔
ٹ۔ لوکل گورنمنٹ کا سسٹم Bottom-Up یا جمہوریت کو نیچے سے اوپر کی طرف استوار کرنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ لوکل گورنمنٹ کی نچلی ترین سطح گاؤں کی حکومت ہے۔جس کو village council یا کوئی اور نام دیا جا سکتا ہے اور اسی سطح پر لوگوں کے بنیادی اور چھوٹے موٹے مسائل حل ہونے چاہئیں علاقے کا پولیس افسر یا تھانیدار ہر مہینے اس کونسل کو اپنی کارکردگی جو کہ اس کونسل سے متعلق ہو کی رپورٹ پیش کرے۔ اوراسی کونسل میں گاؤں کی پنچایت چھوٹے جھگڑوں اور disputes کا حل کر سکے اور یہ حل ملکی قانون کے مطابق ہو جس میں انسانی حقوق اور قانونی تحفظ شامل ہو۔
ث۔ چھوٹے صوبے بنانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بہت ساری غیر موثر tiers یا حکومتی لیول درمیان سے ختم کر کے نہ صرف اخراجات بچائے جائیں بلکہ اختیارات کو نیچے منتقل کیا جائے۔ مثلاً جب لوکل گورنمنٹ کا سسٹم آئے تو اختیارات ان کو دئے جائیں اور حکومتی نظام کو اس سے ہم آہنگ کیا جائے۔ ضلع کا سائیز size چھوٹا کر کے تحصیل کا لیول ختم کیا جا سکتا ہے۔ ضلع اپنے نیچے یونین کونسل کے نظام کو کنٹرول کرے۔ چونکہ ضلع کا رقبہ اب والے اضلاع سے تقریبا تیسرا حصہ ہو گا اس لئے ضلع کے لئے بیس سے تیس یا اس سے بھی زیادہ یونین کونسل کے نظام کو چلانا مشکل نہیں۔ ضلعی حکومتوں کے سسٹم کو مزید بہتر اور سمارٹ بنایا جا سکتا ہے جس کی تفصیل مزید وضع کی جا سکتی ہے۔
ج۔ سیاسی اصلاحات جس میں سیاسی پارٹیوں میں اصلاحات بہت ہی اہم ہیں۔ سیاسی پارٹی کو کسی خاص گروپ یا خاندان کا آلہئ کار ہونا یا بنانا جمہوریت کی بدترین نفی ہے یا دوسرے لفظوں میں جمہوریت کا رد یا anti-thesis ہے۔ جمہوری سیاسی پارٹی کے لئے رجسٹریشن کے علاوہ الیکشن کمیشن کی نگرانی میں پارٹی کے اندر فری اینڈ فئیر الیکشن لازمی ہوں اور یہ ملک میں ہر جنرل الیکشن یا عام انتخابات سے ایک سال پہلے کرانا لازم ہواور جو پارٹی انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروائے اس پر عام انتخابات میں حصہ لینے پر مکمل پابندی ہو۔ ہر سیاسی پارٹی کا ایک مطبوعہ سٹرکچر یا تنظیم ہو منشور ہو اور ہر پارٹی ملکی آئین اور سلامتی کے تحفظ کا عہدکرے تب الیکشن کمیشن اس پارٹی کو رجسٹر کرے۔ ہر الیکشن میں ہر پارٹی کو عام الیکشن میں سارے ڈالے گئے ووٹوں کا کم سے کم تین فیصد ووٹ لینا لازم ہو ورنہ پارٹی کی رجسٹریشن ختم تصور ہونی چاہئے۔ اسی طرح ملک میں این جی اوز پر بھی رجسٹریشن کی پابندی ہو۔ انہی شرائط کے ساتھ جو سیاسی پارٹیوں پر لاگو ہیں سوائے تین فیصد ووٹ لینے کی پابندی کے۔ اور وزارت داخلہ این جی اوز کی موثر نگرانی کے لئے اپنا سسٹم وضع کرے تاکہ باہر سے فنڈ لینے والی این جی اوز پر مکمل نگرانی ہو سکے۔
(کالم نگار ہلال ملٹری امتیازاورسابق ہائی کمشنر ہیں)
٭……٭……٭

2022ء عام انتخابات کا سال ہے؟

سید سجاد حسین بخاری
موجودہ اسمبلی کی مدت حساب کتاب کے مطابق12اکتوبر2023ء کو نئے الیکشن ہوں گے اورخدانخواستہ اگر کوئی ایسی پیشرفت ہوگئیتو نگران حکومت مزید وقت بھی لے سکتی ہے مگر ملک بھر میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں کہ موجودہ حکومت عام انتخابات نومبر 2022ء میں کرانا چاہتی ہے جس کیلئے انہوں نے اپنا ہوم ورک بھی شروع کردیا ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ مولانا فضل الرحمن نے 26جولائی 2018ء کو ہی اپنی شکست کے بعد عمران خان کی فتح کو جعلی قرار دے کر دوبارہ عام انتخابات کرانے کا مطالبہ کردیا تھا۔ سب سے پہلے مولانا فضل الرحمن نے عمران خان کے خلاف آواز بلند کی پھر بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن) بھی شامل ہوگئی، پھر موجودہ اپوزیشن نے پی ڈی ایم کے نام سے ایک مشترکہ پلیٹ فارم بھی بنادیا اور اس پلیٹ فارم پر اپوزیشن کو ضمنی انتخابات میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ جب بلاول بھٹو کو مسلم لیگ (ن) نے شوکاز دیا تو وہ الگ ہوگئے اور پھر پی ڈی ایم زوال پذیر ہوناشروع ہوگئی۔ پی ڈی ایم کی تشکیل اور کامیابیوں پر ایک نظر ڈالیں تو مسلم لیگ (ن) کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے اور وہ بھی مریم نواز کو کیونکہ شہبازشریف کو مزاحمتی سیاست میں آگے نہیں آنے دیا گیا لہٰذا مریم نواز نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے خوب فائدہ اُٹھایا اور یہاں تک کہ انہوں نے اپنی لیڈرشپ کو تسلیم کرانے کے علاوہ اپنے والد میاں نوازشریف کے ووٹ بینک کو بھی سنبھال کررکھا بلکہ اس میں اضافہ بھی کیا اور اس وقت پاکستان میں مریم نواز مزاحمتی سیاست کی واحد لیڈر ہیں انہوں نے دل کھول کر اپنے والد کے بیانیے کو آگے بڑھایا ہے حالانکہ پی ڈی ایم کے علاوہ بعض مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں نے بھی محسوس کیا کہ مریم نواز تو بھارتی اور امریکی ایجنڈے پر کام کررہی ہیں جبکہ اسی نقطے پر مسلم لیگ (ن) دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ مزاحمت کی سیاست نوازشریف اور مریم نواز جبکہ مفاہمت کیلئے شہبازشریف اور ان کے چند رفقاء کار مگر موجودہ حالات میں ملک کی مقتدر قوتوں نے نوازشریف اور مریم نواز کی سیاست کو پاکستان میں فی الحال ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جبکہ شہبازشریف کیلئے کچھ جگہ باقی رکھی ہے۔
اب اصل بات کی طرف آتے ہیں کہ وہ کیا وجوہات ہیں جن کو بنیاد بناکر ملک میں عام انتخابات ایک سال قبل کرانے کی نہ صرف باتیں ہورہی ہیں بلکہ اب تو مقتدر قوتوں نے 2022ء کو انتخابات کا سال قرار دے دیا ہے۔ عمران خان کی حکومت پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو صرف ایک بات نظر آتی ہے کہ جو وعدے اور دعوے عمران خان نے کئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے، معاشی صورتحال ہے کہ سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی، وزرائے خزانہ تین بار تبدیل ہوئے، متعدد وفاقی سیکرٹریز اور وزراء کے قلمدان بھی تبدیل ہوئے مگر معیشت کی صورتحال بہتر نہ ہوسکی، نہ ڈالر، نہ مہنگائی قابو میں آئی، نہ روزگار کے مواقع پیدا ہوئے، نہ ملازمتیں، نہ گھر بنائے گئے، بجلی، گیس ندارد، پٹرول وڈیزل کی قیمتوں میں ہر 15دن بعد اضافہ، گندم کی فصل ریکارڈ پیدا ہونے کے باوجود بیرون ملک سے گندم اور چینی منگوائی جارہی ہے، آٹا ابھی سے مہنگا ہونا شروع ہوگیا ہے حالانکہ گندم وافر مقدار میں موجود ہے۔
معیشت کی بہتری کیلئے عمران خان اور ان کی ٹیم نے بے تحاشا زور لگایا مگر معیشت ٹھیک نہ ہوسکی۔ متعدد مرتبہ عمران خان نے خود ہی مایوسی کا اظہار کیا اور برباد معیشت کی ذمہ داری سابق حکومتوں پر ڈال دی مگر ایک کام عمران خان نے اچھا کیا کہ اعدادوشمار میں ہیرا پھیری نہیں کی، صحیح صورتحال سے قوم کو آگاہ رکھا اور قرض وقت پر اُتارنے شروع کئے۔ اس کا فائدہ اتنا ہوا کہ معیشت اصل حالت میں سنبھلتی رہی اور بالآخر معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی تو ہوگئی مگر عام پاکستانی کو اس کا فائدہ نہ ہوا حالانکہ عمران حکومت کیلئے یہ بہت ہی آسان نسخہ تھا کہ وہ بھی شریف برادران کی طرح قرضے لیکر عارضی طور پر ڈالر، تیل اور اشیاء خوردنی کی قیمتوں میں استحکام رکھتے مگر عمران حکومت نے ایسا نہ کیا۔ اس وقت بظاہر معیشت اگرچہ مضبوط اور مستحکم ہے مگر غریب مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔ مردہ ادارے فعال نہ ہونے کی وجہ سے ملازمین کو نکال دیا گیا، ایک بھی نئی ملازمت نہ ملی۔ معیشت کے علاوہ سیاسی طور پر بھی عمران خان کے ہاتھ اور پاؤں باندھ کر وزیراعظم کی کُرسی پر انہیں بٹھا دیا گیا ہے جن اصلاحات کا عمران خان نے وعدہ کیا تھا اس کیلئے قانون سازی ضروری ہے مگر عمران خان کی حکومت اسمبلی میں نئی قانون سازی نہیں کرسکتی کیونکہ ان کے پاس اکثریت نہیں ہے۔ اسی طرح کسی بھی قانون میں ترمیم لانے کیلئے دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے، جو ان کے پاس قطعاً نہیں ہے لہٰذا عمران خان نہ اپنے وعدے پورے کرسکتے ہیں، نہ معیشت بہتر کرسکتے ہیں اور نہ ہی ملک میں نئے صوبے خصوصاً جنوبی پنجاب بناسکتے ہیں، وجہ صرف اسمبلیوں میں واضح اکثریت کا نہ ہونا ہے اور 3سال تک عمران خان نے بہت کوشش کی کہ اپوزیشن کے ممبران کو توڑ کر اپنے ساتھ ملایا جائے وہ بھی نہ ہوسکا اور گزشتہ 3سالوں میں سب سے بڑا دھچکا سینٹ کے انتخابات میں لگا کہ قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے ہونے کے باوجود گیلانی کامیاب ہوگئے۔
گیلانی کی قومی اسمبلی میں کامیابی وزیراعظم پر عدم اعتماد تھا جس کا تقاضا تھا کہ وزیراعظم اسی وقت مستعفی ہوجائیں۔ واقفان حال نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ عمران خان نے مقتدر قوتوں کو یہ پیشکش کردی تھی مگر انہوں نے وزیراعظم کو منع کیا اور چیئرمین سینٹ کی کامیابی کی گارنٹی دی تب جاکر وزیراعظم نے اگلے دن اعتماد کا ووٹ لیا مگر اس وقت ملکی صورتحال سے زیادہ بین الاقوامی صورتحال بڑی تشویشناک ہے۔ حکومت اسمبلیوں سے چند ایک آئینی ترامیم کروانا چاہتی ہے مگر دوتہائی اکثریت نہیں ہے۔ کچھ نئے قوانین بنانا چاہتی ہے پھر بھی مشکلات ہیں۔ خطے کی تازہ ترین صورتحال کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں ایک مضبوط اور مستحکم حکومت ہو جس کے پاس دوتہائی اکثریت ہونی چاہیے تاکہ وہ عالمی قوتوں کے مقابلے کیلئے بروقت اور ٹھوس فیصلے کرسکے لہٰذا ان حالات وواقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے مقتدر قوتوں اور عمران خان نے مقررہ مدت سے ایک سال قبل عام انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے جوکہ 2022ء کی آخری سہ ماہی میں متوقع تو ہے مگر اصل گنتی خدا کی ہوتی ہے۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کا دورہ پاکستان ختم کرنا دہرا معیار ہے، عثمان خواجہ

لاہور: عثمان خواجہ نے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی جانب سے پاکستان کا دورہ ختم کرنے کو دہرا معیار قرار دیدیا۔

آسٹریلوی ٹیسٹ کرکٹر عثمان خواجہ نے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کرکٹ بورڈ کی جانب سے پاکستان کے دورے ختم کرنے کے فیصلے کو دہرا معیار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے مقابلے میں بھارت میں حالات جیسے بھی ہوں مگر بھارت میں کرکٹ کھیلنے کو سب تیار ہوتے ہیں، اگر بھارت میں یہ صورتحال ہوتی تو پھر کوئی بھی ایسا نہ کرتا، اس کا مطلب تو یہ ہوا ہے کہ پیسہ بولتا ہے اور میرے خیال میں یہ ہی اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

بائیں ہاتھ کے اوپنر نے پاکستان میں کرکٹ سیریز کھیلنے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ثابت کیا ہے کہ وہ ہر لحاظ سے محفوظ جگہ ہے، وہاں سکیورٹی کے سخت اور مثالی انتظامات کیے جاتے ہیں، میں نے سب سے یہ سنا ہے کہ لوگ وہاں محفوظ ہیں، میرے نزدیک پاکستان کے ٹورز کو ختم نہیں کرنا چاہیے۔