تازہ تر ین

خشک سالی اور منافعوں کی ہوس

جاوید ملک
بائیں بازو کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کرونا وباء کے باعث ماحولیاتی بحران پر لوگوں کی توجہ کسی حد تک کم ہوئی ہے۔ البتہ اس کے شدید اثرات اب بھی موجود ہیں۔ آج ہم ماحولیاتی تبدیلی کے نتائج بھگت رہے ہیں، جبکہ شدید موسمیاتی تبدیلیاں معمول بنتی جا رہی ہیں۔ خصوصاً اس سال، دنیا بھر کے مختلف خطوں کو خشک سالی نے متاثر کیا ہے جو تباہ کن مستقبل کا پیش خیمہ ہے۔
کیلیفورنیا، برازیل اور تائیوان میں تاریخ کی سب سے بڑی خشک سالی دیکھنے کو ملی ہے۔ یورپ، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے تمام خطوں میں بھی پانی کی شدید قلت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ دہائیوں سے جاری سرمایہ دارانہ بد نظمی، کرپشن اور ماحولیاتی تبدیلی نے پانی کا شدید بحران پیدا کر دیا ہے، جو انسانیت کو دو راستوں میں سے ایک چننے کا اختیار دے رہی ہے؛ یا تو ہم ہنگامی بنیادوں پر منصوبہ بندی کریں، یا پھر اپنی زمین کے بڑے حصوں کو نہ رہنے کے قابل بنتا ہوا دیکھیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق، دنیا بھر میں ہر سال 5 کروڑ 50 لاکھ افراد خشک سالی سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اس صورتحال سے دنیا کے تقریباً ہر حصے میں مال مویشیوں اور فصلوں کو شدید خطرہ درپیش ہے۔ یہ لوگوں کے ذرائع معاش کے لیے خطرہ ہے، اس سے امراض کی بڑھوتری کا خدشہ بڑھ رہا ہے، اور دیوہیکل پیمانے پر لوگوں کی نقل مکانی کا سبب بن رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2030ء تک، خشک سالی کے نتیجے میں 70 کروڑ افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوں گے۔ ’نیچر جیو سائنس‘ میں شائع کی گئی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق، یورپ میں موسمِ گرما کے دوران دیکھی جانے والی خشک سالی کی شدت نے پچھلے 2 ہزار 1 سو سالوں کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔
یہ صورتحال مزید بد تر ہوتی جا رہی ہے۔ نقصان دہ گیسوں کے اخراج کے باعث، خاص کر زیرِ زمین ایندھن کے ذریعے، زمین روز بروز گرم ہوتی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے خشک سالی میں مزید شدت اور طوالت آنے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ حتیٰ کہ ’ماحولیاتی دفاعی فنڈ‘ (ای ڈی ایف) نے طویل عرصے پر محیط خشک سالی کے معمول بن جانے کے امکانات کا ذکر کیا ہے، جو دو یا دو سے زیادہ دہائیوں تک جاری رہے گی۔
دریا، جھیل اور پانی کے ذخائر خشک ہو رہے ہیں، اور ’ناسا‘ نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا میں زیرِ زمین پانی کے 37 اہم ترین ذخائر میں سے 13 اتنی تیزی کے ساتھ خالی ہو رہے ہیں کہ ان کا دوبارہ بھرنا مشکل ہو رہا ہے۔ زمین کا 70 فیصد میٹھا پانی زراعت میں، اور 20 فیصد صنعت میں استعمال ہوتا ہے، جو مجموعی طور 90 فیصد بنتا ہے۔ ان اعداد و شمار سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ پانی کے ذاتی استعمال میں احتیاط برتنے کی انفرادی کوششوں سے اس مسئلے کا ذرّہ برابر خاتمہ بھی ممکن نہیں ہے۔
سرمایہ داری کے اندر زراعت کے بہت سارے پہلو مکمل طور پر غیر معقول ہیں۔ مثال کے طور پر کیلیفورنیا کی بات کرتے ہیں۔ یہ امریکی ریاست اتنی خشک ہے کہ اسے صحرا کہنا غلط نہیں ہوگا، جہاں سال میں محض 8 سینٹی میٹر بارش ہوتی ہے۔ پھر بھی یہ امریکہ کی موسمِ سرما والی سبزیوں میں سے 90 فیصد پیدا کرنے والا خطہ ہے۔ کیلیفورنیا میں زمین کا ایک بڑا حصہ برسیم اور بادام پیدا کرنے کے لیے مختص ہے، جو ان فصلوں میں سے ہیں جس کے لیے بہت بڑی مقدار میں پانی درکار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ میں دوسرے نمبر پر چاول کی سب سے بڑی کاشت بھی کیلیفورنیا میں کی جاتی ہے۔ یہاں کسان اپنے چاول کے کھیتوں کو بہت بڑی مقدار میں پانی فراہم کرتے ہیں، جو اتنی ہی تیزی کے ساتھ بخارات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مگر اب، خشک سالی کے باعث، کسان ماضی کی نسبت 1 لاکھ ایکڑ کم چاول کاشت کر سکیں گے، جو اس ریاست میں ہونے والی 5 لاکھ ایکڑ کاشت میں 20 فیصد کمی ہوگی۔
یہ کاروباری فصلیں ہیں، جو ان زمینوں کے مالکان اس لیے اگاتے ہیں تاکہ اچھی پیداوار حاصل کر کے زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔ مگر یہ قریبی شہروں کے رہائشی ہی ہیں جنہیں پانی کی شدید قلت کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔ عقلی بنیادوں پر دیکھا جائے تو یہ ساری صورتحال بالکل بکواس لگتی ہے۔ پانی کے انتظامات کے نقطہ نظر سے، یہ فصلیں محض کیلیفورنیا کے محدود ذخائر کو مزید خشک کرنے کا کام کرتی ہیں، جو اس کے مکمل انہدام کا راستہ ہموار کر رہی ہے۔
یہ سرمایہ داری کے تحت زمین کی نجی ملکیت کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ زرعی کاروباروں کے مالکان کو اپنے کھیتوں پر بے تحاشا پانی صرف کرنا اس لیے ٹھیک دکھائی دیتا ہے کیونکہ اگر ان میں سے کوئی پانی کے استعمال کو کم کرنے کی خاطر مختلف قسم کی فصل کاشت کریں، تو وہ ریاست کے اندر منافع بخش فصل کی کاشت کرنے والے دیگر مالکان کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ منڈی کی اندھا دھند مقابلہ بازی کا مطلب یہ ہے کہ پانی کے ذخائر جتنا خشک ہوتے جاتے ہیں، اتنا ہی زرعی کاروباروں کی پیاس مزید بڑھتی جاتی ہے، جو اس کے مکمل خشک ہونے سے پہلے پہلے جتنا زیادہ ممکن ہو ان قیمتی اور محدود وسائل کو لوٹنا چاہتے ہیں۔
یہ صرف ایک مثال ہے۔ اس قسم کی حرکتیں دنیا بھر میں ہوتی ہیں؛ چاہے زرعی زمین پر ضرورت سے زیادہ پانی صرف کرنا ہو (جو کھیت سیراب کرنے کا سب سے کم مؤثر طریقہ ہے)، تیز منافعے کمانے کی غرض سے ناسازگار حالات میں فصلیں کاشت کرنا ہو، یا پھر تھوڑی مدت کی زرخیزی کے لالچ سے ایمازون سمیت دیگر برساتی جنگلات کی کٹائی ہو۔
اسی خطے کے اندر، پانی کے ذخائر کی خشکی ممالک کے بیچ تناؤ کو اشتعال دے رہی ہے۔ 1975ء سے لے کر اب تک، ترکی میں ہائیڈرو الیکٹرک ڈیموں کی تعمیر کے باعث عراق کو جانے والے پانی میں 90 فیصد جبکہ شام کو جانے والے میں 40 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ دونوں ملکوں نے ترکی کے اوپر پانی کی ذخیرہ اندوزی کا الزام لگایا ہے۔
عراق کے اندر 2019ء میں ابھرنے والی احتجاجی تحریک کی ایک چنگاری بلاشبہ پانی تک رسائی کا فقدان ہی تھا۔
عوام کو موسمِ گرما برداشت کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا، جس میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا اور ان کو پانی یا بجلی دستیاب نہیں ہوتا تھا۔
ان مسائل میں سے کوئی بھی مسئلہ موجودہ نظام کے تحت حل نہیں ہوسکتا اسی بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے روزنامہ خبریں کے بانی جناب ضیا شاہد مرحوم نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ پاکستان میں پانی کے وسائل کو پیدا کرنے یا پھر پانی کی بچت کرنے کے لیے صرف کر دیا لازم ہے کہ وطن عزیز کے اندر جہاں 2025ء میں پانی کا بحران ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آرہا ہے ضیاء شاہد مرحوم کی اس تحریک کو وہیں سے شروع کیاجائے جہاں سے وہ یہ تحریک محض اس لیے چھوڑ کر چلے گئے کہ ان کی زندگی نے ان کا ساتھ نہ دیا۔
بائیں بازو کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جب سرمایہ داری کا خاتمہ ہوچکا ہوگا تو ہم بالآخر ان بے شمار ماحولیاتی تباہ کاریوں کی روک تھام کرنے کے قابل ہوجائیں گے اس بوسیدہ نظام کی وجہ سے ہرگزرتے دن کے ساتھ یہ بحران شدید ہوتا جارہا ہے اور اس کی قیمت غریب لوگوں کو اپنی زندگی کی صورت میں چکانا پڑتی ہے۔
(کالم نگار سیاسی و سماجی ایشوز پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain