تازہ تر ین

سٹرکچرز اور سسٹمز

لیفٹیننٹ جنرل(ر)اشرف سلیم
انسانوں کی طرح سسٹمز بھی پیدا ہوتے ہیں اپنا مجوزہ کام کرتے ہیں آہستہ آہستہ جوانی اور پھر بڑھاپے کی منازل طے کرتے ہیں ان منازل کے دوران ان کو مزید جوان رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ان کو نیا خون دیا جاتا ہے وٹامن کی غذا کے طور پر ان سسٹمز کو چلانے کے لئے نئے تعلیم یافتہ لوگ اور نئی ٹیکنالوجی سسٹم میں لائی جاتی ہے اس طرح ان سسٹمز کو توانا اور متحرک رکھنے کا ہر حربہ استعمال میں لایا جاتا ہے۔ مگر سسٹمز اور سٹرکچرز بالکل انسانوں کی طرح کچھ عرصہ اور طاقت ور رہ کر ڈلیور (deliver) کرتے رہتے ہیں مگر پھرایک وقت آتا ہے یہ سسٹمز صرف بیساکھیوں کے سہارے چلتے ہیں اور آخر ہسپتال میں داخل کسی مریض کی طرح وقتا فوقتا تھوڑا کھانستے اور زور زور سے سانس لے کر چلنے کی کوشش کے باوجود اپنے ساتھ باقی سب سسٹمز (subsystems) کو بھی بیمار کرنا شروع کر دیتے ہیں اور آخر وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔
یعنی یہ سسٹمز اور سٹرکچرز اپنی آپ موت مر جاتے ہیں۔ مگر افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ ان سسٹمز کو چلانے اور ان سسٹمز سے چلنے والے انسانوں کو اس کا احساس بہت دیر کے بعد ہوتا ہے کہ جن سٹرکچرز اور سسٹمز پر ان کی ذاتی، معاشرتی اور قومی زندگی کا انحصار ہوتا ہے وہ تو در اصل مر چکے ہوتے ہیں اور ہزار کوشش کے باوجود ان سے وہ نتائج نہیں حاصل ہوتے جن کے لئے ان پر وسائیل اور انرجی خرچ کی جارہی ہوتی ہے۔یہ سسٹمز غیر حرکی یا (dysfunctional)ہو جاتے ہیں۔ جو انسان فوت ہو جاتا ہے اس کو دفن کردیا جاتا ہے اور اس کی جگہ نئے لوگ لے لیتے ہیں اور یوں زندگی کا نظام اپنی پوری آب و تاب سے رواں دواں رہتا ہے۔ یہ قانون قدرت ہے۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارے جان سے پیارے ملک پاکستان پر کیا بیتی۔
انگریز نے جب بر صغیر پاک و ہند پر اپنا مکمل قبضہ جما لیا تو اس نے یہاں کے وسائیل اور پیداوار کو اپنے صنعتی مقاصد اور اپنی آدھی دنیا پر پھیلی بادشاہت کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے لئے ہندوستان کو نئے طریقے سے تقسیم کیا کبھی بنگال کو تقسیم کیا تو کبھی سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کیا نئے اضلاع اور انتظامی تقسیم عمل میں لائی۔ نئے جاگیردار اور اپنے تابع فرمان طبقوں کو بنایا گیا اور نوازا گیا۔ نئے سسٹمز جن میں نہری نظام، ریلوے کا سسٹم، پولیس کا نظام، عدالتی نظام اور نئی سرکاری مشینری ترتیب دی گئی جن کو الیٹ (elite) بنیادوں پر استوار کر کے عام لوگوں کو کنٹرول کرنے کے فرائض سونپے گئے۔ اور پھر جس طریقے سے بر صغیر کو لوٹا گیا اس کی تفصیل مشہور انڈین کانگریس کے لیڈر ششی تھرور نے اپنی کتاب An Era Of Darkness- The British Empire in India
میں دی ہے۔ ان تفاصیل میں جائے بغیر جس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ ہے انگریز کے بنائے ہوئے سسٹمز اور سٹرکچرز کا رول‘ جو ان سسٹمز نے انگریز کے اقتدار کو طول دینے اور ان کی لوٹ کھسوٹ کو پروان چڑھانے میں ادا کیا۔ 1947 میں آزادی کے بعد ان سٹرکچرز اور سسٹمز کی نہ صرف اہمیت ختم ہو گئی بلکہ ان کا کردار بھی جو اب نئے حالات کے لئے معدوم تھا کسی حد تک نیچے کی طرف آنا شروع ہو گیا۔ مگر مقتدر قوتوں نے ان سسٹمز اور سٹرکچرز کو نہ صرف طول دیا بلکہ انہیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ہمیشہ بطور ڈھال استعمال کیا اور کر رہے ہیں۔
آزادی کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ پاکستان بنیادی طور تقسیم سے پہلے کے استحصالی طبقات جو زیادہ تر ہندو قوم سے تعلق رکھتے تھے سے مسلمانوں کی نجات کے لئے بنایا گیا تھا جہاں مسلمانان ہند اپنے نظریات اور کلچر کے مطابق نظام ترتیب دیں جو ہر قسم کے استحصال سے پاک ہو اور اپنے مذہب اور نظریات پر مبنی نظام میں ترقی اور خوشحالی کی منازل طے کر سکیں۔
مگر بدقسمتی سے قائد اعظمؒ اور لیاقت علی خان کے آنکھیں بند کرتے ہی پرانے اور نئے استحصالی طبقوں نے وہ دھماچوکڑی مچائی کہ اللہ کی پناہ۔ انہی بوسیدہ اور انگریز کے بنائے ہوئے استحصالی سٹرکچرز اور سسٹمز کو نہ صرف دوام مل گیا بلکہ قومی تعصبات اور لسانی جھگڑوں کا آغاز کروا کر پوری قوم کو نئے استحصالی طبقوں کی گرفت میں باندھ دیا گیا۔ بہت سی حکومتیں تبدیل ہوئیں بہت سی نام نہاد اصلاحات لائی گئیں‘ کبھی پارلیمانی اور کبھی صدارتی اور کبھی فوجی نظام کے تجربات ہوئے مگر قوم اسی چوراہے پر دست بستہ کھڑی حیران و پریشان ہے۔ وہی غلامی والے چال چلن وہی سرکاری افسروں کے ٹھاٹھ باٹھ۔ وہی بوسیدہ عدالتی نظام جس میں کئی سال انصاف معدوم اور انتہائی مہنگا جو عوام کی مالی طاقت سے کوسوں اوپر۔
جائیں تو جائیں کہاں؟
ہر سیاسی پارٹی وعدے اور سہانے خواب دکھا کر الیکشن میں اترتی ہے لیکن چونکہ یہ تمام سیاسی پارٹیاں صرف ایک طبقے یعنی مالدار زمیندار، صنعتکار اور سیاسی و ڈیرے اور سردار گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے کوئی معنی خیز یا حقیقی تبدیلی لانے والا پروگرام نہ بنتا ہے اور نہ اس پر عمل درآمد ہوتا ہے۔ بس یرغمال ووٹرز کو بیوقوف بنایا جاتا ہے خواب دکھائے جاتے ہیں اور کچھ پیسہ بھی استعمال ہوتا ہے ووٹوں کی خرید و فروخت میں۔ ان حالات میں کوئی سیاسی پارٹی چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اپنے پہلے دور حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں لینڈ ریفارمز کا ارادہ رکھنے اور انہیں اسمبلی سے پاس کرانے کے باوجود ان پر عمل درآمد صرف سطحی ہی کر اسکی۔ اس ملک میں مقتدر اور موثر مافیاز کوئی ریفارم یا کوئی ایسا قدم جو ان کے مفادات کے خلاف ہو اس کو آگے بڑھنے ہی نہیں دیتے۔ جو طبقات با اختیار ہیں وہ کوئی تبدیلی لانا نہیں چاہتے اور جو تبدیلی چاہتے ہیں ان کے پاس اختیار نہیں۔ یہ ایک جمود یا status quo کا سماں ہے۔ بغیر بڑی اور موثر تبدیلی کے یہ ملک نہ تو اقتصادی لحاظ سے اور نہ معاشرتی لحاظ سے ترقی کر سکتا ہے۔ اور نہ اس میں حقیقی جمہوری روایات جنم لے سکتی ہیں۔
آج کے اس کالم میں بغیر تفصیل میں جائے ان موضوعات کا صرف ذکر ہو گا جن میں موثر تبدیلی ضروری ہے اور جس تبدیلی کے بغیر ہمارا ملک اور عوام کنویں کے بیل کی طرح رات دن چکر تو کاٹ سکتے ہیں مگر اس معتوب جمود اور بدحالی کے گردش سے باہر جانا ممکن نہیں۔
ا۔ سب سے پہلے انگریز کے دئیے ہوئے استحصالی اور بالکل غیر موثر ملکی اندرونی سٹرکچر سے آگے ایک سمارٹ اور موثر کارکردگی والے نظام کا قیام لازمی ہے جس میں چھوٹے مگر سمارٹ گورنینس والے صوبے ہوں جہاں حاکم عوام کی حکمران کے بجائے عوام کی خادم ہو۔ یعنی گورننس کو عوام کی دہلیز پر لے کر آنا ہے۔
ب۔ حکمرانوں اور نوکرشاہی کے عوام کی طرف رویہ میں ایک موثر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ حکمران اور نوکر شاہی کا نظام لوگوں کے مسائل کا حل تلاش کرے چہ جائیکہ وہ ان کے لئے خود ایک بہت بڑا مسئلہ بن جائے۔
پ۔ موثر اور انصاف پر مبنی زرعی اور صنعتی اصلاحات کا نفاذ بہت ضروری ہے جس میں کاشتکاروں چھوٹے زمینداروں اور صنعتی حصہ داروں اور مزدوروں کو ان کے جائز حقوق اور منافع میں حصہ دار بنایا جائے۔
ت۔ سرکاری مشینری اور پولیس کے سٹرکچر کو لوکل گورنمنٹ کے سٹرکچر کے ہم آہنگ کرنا اور اس کو لوکل گورنمنٹ سسٹم کے مختلف لیول کے آگے جوابدہ بنانا ضروری ہے۔
ٹ۔ لوکل گورنمنٹ کا سسٹم Bottom-Up یا جمہوریت کو نیچے سے اوپر کی طرف استوار کرنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ لوکل گورنمنٹ کی نچلی ترین سطح گاؤں کی حکومت ہے۔جس کو village council یا کوئی اور نام دیا جا سکتا ہے اور اسی سطح پر لوگوں کے بنیادی اور چھوٹے موٹے مسائل حل ہونے چاہئیں علاقے کا پولیس افسر یا تھانیدار ہر مہینے اس کونسل کو اپنی کارکردگی جو کہ اس کونسل سے متعلق ہو کی رپورٹ پیش کرے۔ اوراسی کونسل میں گاؤں کی پنچایت چھوٹے جھگڑوں اور disputes کا حل کر سکے اور یہ حل ملکی قانون کے مطابق ہو جس میں انسانی حقوق اور قانونی تحفظ شامل ہو۔
ث۔ چھوٹے صوبے بنانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بہت ساری غیر موثر tiers یا حکومتی لیول درمیان سے ختم کر کے نہ صرف اخراجات بچائے جائیں بلکہ اختیارات کو نیچے منتقل کیا جائے۔ مثلاً جب لوکل گورنمنٹ کا سسٹم آئے تو اختیارات ان کو دئے جائیں اور حکومتی نظام کو اس سے ہم آہنگ کیا جائے۔ ضلع کا سائیز size چھوٹا کر کے تحصیل کا لیول ختم کیا جا سکتا ہے۔ ضلع اپنے نیچے یونین کونسل کے نظام کو کنٹرول کرے۔ چونکہ ضلع کا رقبہ اب والے اضلاع سے تقریبا تیسرا حصہ ہو گا اس لئے ضلع کے لئے بیس سے تیس یا اس سے بھی زیادہ یونین کونسل کے نظام کو چلانا مشکل نہیں۔ ضلعی حکومتوں کے سسٹم کو مزید بہتر اور سمارٹ بنایا جا سکتا ہے جس کی تفصیل مزید وضع کی جا سکتی ہے۔
ج۔ سیاسی اصلاحات جس میں سیاسی پارٹیوں میں اصلاحات بہت ہی اہم ہیں۔ سیاسی پارٹی کو کسی خاص گروپ یا خاندان کا آلہئ کار ہونا یا بنانا جمہوریت کی بدترین نفی ہے یا دوسرے لفظوں میں جمہوریت کا رد یا anti-thesis ہے۔ جمہوری سیاسی پارٹی کے لئے رجسٹریشن کے علاوہ الیکشن کمیشن کی نگرانی میں پارٹی کے اندر فری اینڈ فئیر الیکشن لازمی ہوں اور یہ ملک میں ہر جنرل الیکشن یا عام انتخابات سے ایک سال پہلے کرانا لازم ہواور جو پارٹی انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروائے اس پر عام انتخابات میں حصہ لینے پر مکمل پابندی ہو۔ ہر سیاسی پارٹی کا ایک مطبوعہ سٹرکچر یا تنظیم ہو منشور ہو اور ہر پارٹی ملکی آئین اور سلامتی کے تحفظ کا عہدکرے تب الیکشن کمیشن اس پارٹی کو رجسٹر کرے۔ ہر الیکشن میں ہر پارٹی کو عام الیکشن میں سارے ڈالے گئے ووٹوں کا کم سے کم تین فیصد ووٹ لینا لازم ہو ورنہ پارٹی کی رجسٹریشن ختم تصور ہونی چاہئے۔ اسی طرح ملک میں این جی اوز پر بھی رجسٹریشن کی پابندی ہو۔ انہی شرائط کے ساتھ جو سیاسی پارٹیوں پر لاگو ہیں سوائے تین فیصد ووٹ لینے کی پابندی کے۔ اور وزارت داخلہ این جی اوز کی موثر نگرانی کے لئے اپنا سسٹم وضع کرے تاکہ باہر سے فنڈ لینے والی این جی اوز پر مکمل نگرانی ہو سکے۔
(کالم نگار ہلال ملٹری امتیازاورسابق ہائی کمشنر ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain