تازہ تر ین

وزیراعلیٰ پنجاب اورتعلیمی ادارے

ڈاکٹرعبدالقادر مشتاق
جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالتے ہی روشن خیالی کا تصور متعارف کروایا۔ جس کی تشریح ہر مکتبہ فکر نے اپنے اپنے حوالے سے کی۔ کسی نے تو اسے بے حیائی اور فحاشی تک قرار دئے دیا۔ تاریخ دانوں نے اس کے دو پہلو نکالے۔ اول معاشرے سے انتہا پسندی کا خاتمہ، دوم تعلیم پر انحصار۔ تعلیم کو عام کرنے کے لئے مختلف پالیسیاں متعارف کروائی گئیں۔ ان پالیسیوں کے تحت نئے تعلیمی اداروں کا قیام قابل ذکر تھا۔ مشہور گورنمنٹ کالجز کو یونیورسٹیوں کی شکل دے دی گئی۔ گورنمنٹ کالج فیصل آباد کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد، گورنمنٹ کالج لاہور کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور بنا دیا گیا۔ اس پر دو مختلف طرح کی آرا سامنے آئی۔ کچھ لوگوں نے اسے تنقیدی نظر سے دیکھا اور حکومت کی تعلیمی پالیسیوں کو ملک کے لئے زہر قاتل قرار دیا۔
دوسرے لوگوں کا خیال تھا کہ ان گورنمنٹ کالجوں کو یونیورسٹیوں کا نام نہیں دینا چاہے تھا بلکہ الگ سے نئے ادارے قائم کرنے کی ضرورت تھی۔ تیسری طرح کے لوگوں نے اسے خوش آئند قرار دیا اور اس اقدام کوملک کی ترقی کا اورایک نئے دور کا آغاز کہا۔ نئے تعلیمی اداروں نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ترقی میں کبھی ایک ادارہ کسی سے سبقت لے جاتا کبھی دوسرا۔ اکرم چودھری وائس چانسلر سرگودھا یونیورسٹی کے دور میں سرگودھا یونیورسٹی کی دھوم مچ گئی کہ وہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔ یونیورسٹی آف گجرات، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور نے بھی آہستہ آہستہ اپنا سفر جاری رکھا۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کو یہ برتری حاصل تھی کہ اس کے طالب علم بیوروکریسی میں اہم پوزیشنیں لئے ہوئے تھے اور پالیسی سازی میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اس لئے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے لئے اتنے مسائل نہیں ہوتے جتنے باقی اداروں کے لئے تھے۔ پاکستان کی پرانی اور بڑی یونیورسٹیوں کی نظر میں ان تعلیمی اداروں کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ان نئے تعلیمی اداروں میں جتنے بھی وائس چانسلر آئے انہوں نے ادارے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد ڈاکٹر آصف اقبال، ڈاکٹر عارف زیدی، ڈاکٹر شاہد محبوب رانا، ڈاکٹر ذاکر حسین، پروفیسر ڈاکٹر محمد علی صاحب تک سب لوگوں نے اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔ شعبہ جات بھی بنائے گئے، تعمیرات بھی ہوئیں، اساتذہ کرام کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ لیکن قومی سطح پر اپنی پوزیشن بنانے میں ادارے کو وقت درکار تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر شاہد کمال موجود وائس چانسلر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد نے جب ادارے کی حدود میں قدم رکھا تو ان کو بھی سابقہ وائس چانسلرز کی طرح ان مسائل کا سامنا تھا جو کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتے ہیں۔ اساتذہ کرام کا ایک خاص گروہ اپنی شیروانی ہمیشہ تیار رکھتا ہے۔ اور شیروانی کو ہر ماہ دھو کے پھر رکھ دیتا ہے۔ لیکن وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد کمال کی مدبرانہ اور منصفانہ حکمت عملی نے آہستہ آہستہ چیزوں پر پڑی دھند کو صاف کر دیا۔ انہوں نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کو اپنا لیڈر مانتے ہوئے ان کی کام کام اور کام کی پالیسی کو اپنا شعار بنا لیا۔ لوگوں کو اپنی ٹیم میں جگہ دی اور ان سے کام لینے کے لئے ان کی ہمت بندھائی۔ وہ اساتذہ کرام جو غیر منصفانہ فیصلوں کی وجہ سے ادارے سے مایوس ہو چکے تھے ان کو تعلیمی دھارے میں لائے۔ اساتذہ کے پرموشن کے عمل کو شفاف بنایا اور میرٹ کی بالادستی کے لئے اپنی کاوش جاری رکھی۔ ایک سال کے اندر اندر ہی پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسرز کی تعداد میں اضافہ کیا۔
سال کے اندر دو نوکری کے اشتہارات دے کر طالب علم اور اساتذہ کی تعداد میں توازن قائم کیا۔ جس کے نتائج اگلے کئی سال تک ادارے کو ترقی کی طرف رواں دواں رکھیں گے۔ اس سے جہاں اساتذہ کی ادارے کے ساتھ وفاداری بڑھے گی وہیں معیار تعلیم بھی بہتر ہوگا۔ جب ادارے کے ساتھ اساتذہ کرام کی وفاداری مستحکم ہوئی تو انہوں نے بھی ادارے کی بہتری کے لئے کام شروع کر دیا۔ کسی بھی ادارے کے تین مضبوط ستون ہوتے ہیں۔ اول طالب علم، دوم اساتذہ اور سوم موجودہ انتظامیہ۔ وائس چانسلر نے تینوں ستونوں میں توازن پیدا کیا۔ جہاں اساتذہ کی ترقیاں کیں وہیں انتظامیہ میں بھی لوگوں کو مایوس نہیں ہونے دیا۔ ایک سے سولہ گریڈ کے تمام ملازمین کو اگلے گریڈ میں ترقی دے دی گئی۔ جن انتظامی سیٹوں پر ایڈہاک ازم چل رہا تھا وہاں مستقل لوگوں کی تعیناتی کو یقینی بنایا۔ اس سے انتظامیہ کی وفاداری ادارے کے ساتھ مستحکم ہوئی۔ اور ان کا کام کرنے کا معیار بھی بہتر ہوا۔ طلبہ و طالبات کے لئے بہت سے انقلابی اقدام اٹھائے۔ شعبہ جات کے قابل اور مستعد چیئرمین حضرات لگائے۔ جنھوں نے طلبہ و طالبات کی بہتری کے لئے کام کیا۔ ڈائریکٹر نظامت امور طلبہ کو فعال کیا جس سے ادارے کے طلبہ و طالبات نے ادبی مقابلہ جات میں پاکستان بھر میں پوزیشنیں اپنے نام کیں۔ کنٹرولر امتحانات نے بروقت رزلٹ کے اعلانات کر کے طلبہ و طالبات میں پیدا ہونے والی بے چینی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا۔
ORIC اور QEC کے دفاتر کو اہم ذمہ داری دی کہ میرا یہ ٹارگٹ ہے کہ میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کو بین الاقوامی اداروں کی لسٹ میں سب سے نمایاں کر دوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قوموں کی زندگیوں میں قیادت کا ویژن بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔وائس چانسلر نے بہت ہی کم عرصے میں اپنے ویثرن کو عملی شکل دی اور جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد دنیا کی چھ سو بہترین یونیورسٹیوں میں اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ پاکستان میں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے بعد پاکستان کی دوسری بہترین یونیورسٹی بن چکی ہے۔ پنجاب میں تعلیمی اداروں میں سب سے بہترین یونیورسٹی کا مقام حاصل کرنا گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے لئے بہت بڑی اعزاز کی بات ہے۔ اس سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پنجاب حکومت وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی قیادت میں تعلیمی اداروں کو بہتر کرنے میں برسرپیکار ہے۔ اس وقت بہت سارے تعلیمی اداروں کو معاشی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ لیکن گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد پاکستان کا وہ واحد ادارہ ہے جو معاشی طور پر مستحکم ہو چکا ہے۔ غیر ضروری اخراجات کو روکنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے لیکن وائس چانسلر اور ان کا خزانچی اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے بنائے گئے تعلیمی اداروں سے تعلیم کے فروغ میں سبقت لے جانا اس بات کی گواہی ہے کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد پنجاب کی مضبوط ہاتھوں میں ہے۔
(کالم نگار جی سی یونیورسٹی فیصل آبادکے
شعبہ ہسٹری کے چیئرمین ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain