افغان خواتین فٹبالرز کی اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آمد, پاکستان نے کل 115 افراد کو ویزے جاری کئے ہیں،حکام

افغانستان ویمن فٹبالر اپنی فیملیز اور کوچز کے ساتھ لاہور پہنچ گئیں۔

افغانستان کی خواتین فٹ بال کھلاڑی اور عہدیدار گذشتہ روز طورخم سرحد کے راستے پاکستان پہنچی تھی۔

صدر پاکستان فٹبال فیڈریشن اشفاق حسین کا کہنا ہے کہ اس وقت افغانستان ویمن فٹبالرز اپنی فیملیز اور کوچز کے ہمراہ لاہور میں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے اس سلسلے میں کل 115 افراد کو ویزے جاری کیے جبکہ پہلے مرحلے میں 79 افراد پاکستان آئے ہیں جن کا استقبال پی ایف ایف اور سپورٹس بورڈ پنجاب کے حکام نے کیا ہے۔

اشفاق حسین کا کہنا ہے کہ افغانستان کے دستے کے قیام کے لیے تمام انتظامات مکمل ہیں۔

ادھر پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کھلاڑیوں اور عہدیداروں کو خوش آمدید کہا اور واضح کیا کہ ان تمام کھلاڑیوں اور عہدیداروں کے پاس افغان پاسپورٹ اور پاکستان کے ویزے ہیں

نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ون ڈے کیلیے قومی ٹیم کا اعلان

راولپنڈی: نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلی جارہی ون ڈے سیریز کے پہلے میچ کے لیے قومی ٹیم کے 12 کھلاڑیوں کا اعلان کردیا گیا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ون ڈے انٹرنیشنل میچ کے لیے 12 رکنی اسکواڈ میں بابراعظم (کپتان)، شاداب خان (نائب کپتان)، فخر زمان، حارث رؤف، حسن علی، افتخار احمد، امام الحق، محمد رضوان (وکٹ کیپر)، سعود شکیل، شاہین شاہ آفریدی، عثمان قادر اور زاہد محمود شامل ہیں۔

پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین 3 میچز پر مشتمل ون ڈے انٹرنیشنل سیریز کا پہلا میچ جمعے کو پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا۔ میچ دوپہر 2:30 بجے شروع ہوگا۔ سیریز میں شامل بقیہ دو میچز 19 اور 21 ستمبر کو کھیلے جائیں گے، جس کے بعد دونوں ٹیمیں لاہور روانہ ہوجائیں گی، جہاں پانچ ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میچز کی سیریز 25 ستمبر سے 3 اکتوبر تک قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کھیلی جائے گی۔

آئندہ الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال روکنے کی درخواست مسترد

آئندہ الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال روکنے کی درخواست مسترد

الیکشن کمیشن سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اعتراضات کی مفصل رپورٹ طلب کی جائے، درخواست گزار

اسلام آباد ہائی کورٹ نےآئندہ الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال روکنے کی درخواست ناقابل سماعت قار دیتے ہوئے نمٹا دی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے آئندہ عام انتخابات کرانے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، درخواست گزار نے کہا کہ الیکشن کمیشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کی تجویز مسترد کر چکا ہے اور قائمہ کمیٹی کے سامنے 37 اعتراضات جمع کرائے، الیکشن کمیشن کے مطابق الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے دھاندلی نہیں روکی جا سکتی، پی ٹی آئی کے سوا تمام دیگر سیاسی جماعتیں اور خود الیکشن کمیشن بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے خلاف ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اعتراضات کے حوالے سے مفصل رپورٹ طلب کی جائے، وفاقی حکومت کو الیکشن 2023 کے لیے الیکشن کمیشن کے کام میں مداخلت سے روکا جائے۔

دلائل سننے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئندہ الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال روکنے کی درخواست مسترد کردی۔عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ ہائی کورٹ مناسب فورم نہیں جہاں سیاسی عدم استحکام سے متعلقہ معاملات کو اٹھایا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کے لیے تو قانون سازی نہیں ہو گی؟، ابھی یہ درخواست قبل از وقت نہیں؟ ابھی تو اس پر بحث ہو رہی ہے، میں آرڈر کر دوں گا آپ کو الیکشن کمیشن کے اعتراضات کی کاپی مل جائے گی۔ عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔

ڈونلڈ ٹرمپ بمقابلہ پاکستانی حکمران

عبدالستار خان
پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت کاکوئی بھی سیاستدان جب ملک کا صدر‘ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ بنتاہے تو بہت سے تنازعات کامجموعہ بن جاتاہے۔ کبھی کرپشن کے حوالے سے الزامات کی بوچھاڑ ہو جاتی ہے۔ کبھی واقعی بہت سنجیدہ قسم کی رپورٹ میڈیا میں آجاتی ہے۔کبھی تحقیقاتی ادارہ یا تو انکوائری شروع کردیتا ہے یا پھرگرفتار کرلیتاہے یا پھر کسی عدالت سے رہائی ہو جاتی ہے اوریا پھر سزا مل جاتی ہے۔ یعنی کہ کسی بھی صدر‘وزیراعظم اور وزیراعلیٰ چاہے اس کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق ہو۔ وہ تنازعات کے حوالے سے سب ہی زیادہ جانا اورپہچانا جاتا ہے۔ کتنی حقیقت ہے‘کتنی صداقت‘ بہرحال ہمارے لوگ حکمرانوں کو برائی کی جڑ سمجھنے پرمجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسا یقین ہونا شروع ہوجاتاہے کہ جیسے ملک کے تمام ترمسائل کی بنیادی وجہ ہی حکمران ہیں۔لیکن آج میں ایک ایسی صورتحال کو سامنے لا رہا ہوں جس نے ہمارے مبینہ طورپر یا حقیقی طورپر ہمارے کرپٹ حکمران ایک مسئلے پر کسی دوسرے ملک کے صدرسے بہتر ثابت ہوئے ہیں اور وہ ملک پاکستان کی نسبت اور غالباً پوری دنیاکے ممالک کی نسبت قانونی اوراخلاقی طورپر بہتر روایات کاپابند مانا جاتاہے اور وہ ملک ہے امریکہ اوروہ حکمران ہے امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ۔
ہم ایک چیز حقائق اور دستاویزاتی ثبوت کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی نسبت پاکستان کے موجودہ اور سابقہ صدر‘ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ زیادہ انکم ٹیکس جمع کرواتے رہے ہیں۔ آنے والے وقتوں میں ڈونلڈ ٹرمپ انکم ٹیکس کیس کی زد میں آسکتے ہیں اورکم ازکم انہیں 70ارب روپے دینے پڑ سکتے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے دو ہزار سولہ اور دوہزار سترہ میں مجموعی طورپر صرف اورصرف ایک لاکھ ستاون ہزار چارسو روپے انکم ٹیکس دیاتھا۔ ٹرمپ کے مقابلے میں پاکستان کے موجودہ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے دوہزار سولہ میں دو لاکھ پانچ ہزار 5سو چوّن روپے اوردوہزارسترہ میں تین لاکھ ستّر ہزار5سو گیارہ روپے انکم ٹیکس دیاتھا۔ مجموعی طورپر ان دونوں سالوں میں پاکستانی صدرڈاکٹر عارف علوی نے پانچ لاکھ اناسی ہزار باسٹھ روپے انکم ٹیکس دیا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی انہی دو سالوں کے انکم ٹیکس سے چار لاکھ اکیس ہزار چھ سو پینسٹھ روپے زیادہ ہے۔
اسی طرح سے پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان صاحب نے 2016ء میں ایک لاکھ انسٹھ ہزار روپے اور دو ہزار سترہ میں ایک لاکھ تین ہزار تریسٹھ روپے انکم ٹیکس دیاتھا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے گئے انکم ٹیکس سے ایک لاکھ5ہزار نو سوبہتر روپے زیادہ ہے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف صاحب نے دوہزار سولہ میں پچیس لاکھ تیس ہزار2سوتیرہ روپے انکم ٹیکس دیا اوردوہزار سترہ میں دو لاکھ تریسٹھ ہزار ایک سو تہتر روپے انکم ٹیکس دیا۔ مجموعی طورپر نوازشریف صاحب نے ان دوسالوں میں ستائس لاکھ چھیاسی ہزار تین سو چھیاسی روپے انکم ٹیکس دیا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے گئے انکم ٹیکس سے چھبیس لاکھ اٹھاسی ہزار نو سو چھیاسی روپے زیاد ہ ہیں۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دوہزار سولہ میں چھبیس لاکھ اُنسٹھ ہزار ایک سو تراسی روپے اور دوہزار سترہ میں تیس لاکھ چھیاسی ہزار نو سو روپے انکم ٹیکس دیا۔ مجموعی طورپر ان دوسالوں کے دوران شاہد خاقان عباسی صاحب نے ستاون لاکھ چھیالیس ہزار دوسو اکہترروپے انکم ٹیکس دیا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے گئے انکم ٹیکس سے پچپن لاکھ اٹھاسی ہزار آٹھ سو اکہتر روپے زیادہ ہیں۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف صاحب نے دوہزار سولہ میں 95,00,000روپے انکم ٹیکس دیا اوردوہزار سترہ میں ایک کروڑ روپے انکم ٹیکس دیا۔ مجموعی طورپر شہبازشریف نے ان دوسالوں میں ایک کروڑ95لاکھ روپے جمع کرائے جو ڈونلڈ ٹرمپ کے انہی دو سالوں میں جمع کرائے گئے انکم ٹیکس سے ایک کروڑ ترانوے لاکھ 45ہزار روپے زیادہ ہے۔
موجودہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ صاحب نے دوہزار سولہ میں 1,16,600روپے اوردوہزار سترہ میں 9,88,864روپے انکم ٹیکس دیا۔ مجموعی طورپر سید مراد علی شاہ صاحب نے ان دو سالوں میں 11,500,646روپے انکم ٹیکس دیا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے انکم ٹیکس سے9,48,064روپے زیادہ ہیں۔
کے پی کے سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک نے دو ہزارسولہ میں 8,18,869روپے انکم ٹیکس دیا اور2017ء میں 9,27,500روپے انکم ٹیکس دیا۔ مجموعی طورپر پرویزخٹک صاحب نے ان دو سالوں میں 11,500,644روپے انکم ٹیکس دیا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے انکم ٹیکس سے15,88,984روپے زیادہ ہیں۔
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار ثناء اللہ زہری صاحب نے2016ء میں 14,11,000اور 2017ء میں ایک کروڑروپے انکم ٹیکس دیا۔ مجموعی طورپر سردارثناء اللہ زہری نے ان دوسالوں میں ایک کروڑ14لاکھ روپے انکم ٹیکس دیا جوڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے انکم ٹیکس سے ایک کروڑ تیرہ لاکھ تریپن ہزار چھ سو روپے زیادہ ہیں۔
بلوچستان کے موجودہ وزیراعلیٰ جام کمال خان نے2016ء میں 40,17,743روپے انکم ٹیکس دیا۔2017ء میں 61,45,989روپے انکم ٹیکس دیا۔ مجموعی طورپر ان دوسالوں میں جام کمال خان نے ایک کروڑ ایک لاکھ تریسٹھ ہزار7سو23روپے انکم ٹیکس دیاجو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے گئے انکم ٹیکس سے ایک کروڑ روپے زیادہ ہیں۔
موجودہ وزیراعلیٰ کے پی کے محمود خان نے 2016ء میں کوئی انکم ٹیکس نہیں دیاتھا لیکن2017ء میں 2,32,725انکم ٹیکس دیا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے انکم ٹیکس سے 75,325روپے زیادہ ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی انکم ٹیکس کا موازنہ پاکستان کے موجودہ اورسابقہ وزیراعظم‘موجودہ اورسابقہ وزیراعلیٰ سے کرنے کایہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ہمارے سابقہ اورموجودہ حکمران امریکہ کے سابقہ صدر سے بہتر حکمران ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ڈرمپ کا انکم ٹیکس کے حوالے سے امریکہ کیInternal Revenue Service(IRS) یعنی کہ پاکستانیFBRکے پاس ہے امریکہ کے سابقہ صدر نے امریکہ کی انتہائی پیچیدہ ٹیکسیشن نظام کو انکم ٹیکس بچانے کے حوالے سے exploitکیا۔
پچھلے کئی سالوں سے ڈونلڈ ٹرمپ کی کمپنیاں خسارہ ظاہر کرتی رہیں اور انکم ٹیکس بچاتی رہیں لیکن اگرIRSنے ڈونلڈ ٹرمپ کے کیس کی پیچیدگیاں پکڑنے میں کامیاب ہوگئی تو ڈونلڈ ٹرمپ کو فوری طورپر70ارب روپے کے قریب ٹیکس جمع کروانا پڑ جائے گا۔ اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ کا مستقبل بھی بری طرح متاثر ہو سکتاہے۔ امریکہ میں بہرحال یہ تاثر رہاہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کیImpeachmentسے زیادہ ڈونلڈ ٹرمپ کا انکم ٹیکس کے حوالے سے کیس خطرناک ہے۔اسی لحاظ سے ڈونلڈ ٹرمپ بچ نہیں سکتا لیکن پاکستان میں معاملہ بالکل ہی برعکس ہے۔ موجودہ حکمران سابقہ حکمرانوں کا رونارو رہا ہوتاہے اور سابقہ حکمران موجودہ حکمرانوں کو لعن طعن کررہے ہوتے ہیں کوئی بھی سیاسی جماعت اورسیاسی رہنما مبّرہ نہیں۔ ایک دوسرے کو کوسنے اورذاتیات پرکیچڑ اُچھالنے کے علاوہ سیاستدانوں کے پاس کوئی اور مناسب کام وقت گزاری کے لئے نہیں ہے۔
پی پی کادورہوتوFIAمسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے پیچھے پڑ جاتی ہے اورپھر مسلم لیگ ن کے دور میں پی پی پی کے رہنماؤں کی باری آجاتی ہے اور پھر اگر ان دونوں سیاسی جماعتوں کی حکومت نہ ہوتوNABان دونوں سیاسی جماعتوں کے پیچھے پڑ جاتی ہے۔NABپر تنقید کرنے سے پہلے دونوں سیاسی جماعتوں کے رہنما یہ بھول جاتے ہیں کہNABزیادہ ترانہی کیسوں کو لے کر آگے چل پڑتی ہے جو دراصل انہی دونوں جماعتوں کے دور میں ایک دوسرے کے خلاف بنائے گئے ہوتے ہیں۔
نوازشریف صاحب ہوں‘آصف زرداری صاحب ہوں‘ ہر ایک سیاستدان ایک دوسرے کے بارے میں ضرورت سے زیادہ ہی کردار کشی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ امریکی نظام میں کسی بھی اثرورسوخ رکھنے والی شخصیت کے بچنے کاامکان ختم ہو جاتاہے جب ان کے خلاف کوئی چیز ثابت ہو جائے لیکن پاکستانی نظام ایک ایسا نظام ہے جس میں بچنے کی ضرورت سے زیادہ گنجائش ہے اوراگر کوئی شخصیت کسی بھی قسم کی کارروائی کی زد میں آجاتی ہے تو غالباً امکان بن جاتاہے کہ نظام تو غالباً ثابت نہ کرسکا لیکن طاقت اور اثرورسوخ استعمال ہو گیا۔
(کالم نگارمعروف صحافی‘اینکرپرسن ہیں)
٭……٭……٭

بیت المقدس،عالم اسلام اور اقوام متحدہ

سراج الحق
رمضان کریم کی بابرکت اور ایک ہزار مہینوں سے افضل رات لیلۃ القدر میں جب پوری دنیا کے مسلمان عبادت و ریاضت میں مصروف تھے۔فلسطین کے ہزاروں مسلمان بھی بیت القدس میں اپنے رب کے حضور سربسجود تھے کہ اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ پر دھاوا بول دیا اور گولہ باری اور فائرنگ سے عبادت میں مصروف سینکڑوں فلسطینیوں کو خون میں نہلا دیا۔مسجد کا صحن لاشوں اور زخمیوں سے بھر گیا اور فرش فلسطینیوں کے پاکیزہ خون سے لہو رنگ ہو گیا۔ اسرائیل نے انسانی حقوق کی دھجیاں اڑاتے ہوئے غزہ کو کھنڈر اور ملبے کا ڈھیر بنادیا۔دنیا میں میڈیا کی آزادی کے بڑے بڑے دعویدار وں کے سامنے غزہ میں کئی منزلہ عمارت کو میزائلوں سے تباہ کردیا گیا جس میں مختلف ملکوں کے درجنوں ٹی وی چینلز کے دفاتر تھے مگر مجال ہے اس اندھی گونگی اور بہری اقوام متحدہ پر کہ ایک بھی لفظ مذمت کا بولا ہو۔اسرائیل نے گیارہ روزہ جنگ میں ساڑھے تین سو نہتے فلسطینیوں کو میزائلوں کی بارش کرکے شہید کردیا،جن میں سو سے زائدمعصوم بچے اور چالیس خواتین بھی شامل ہیں جبکہ ہزاروں زخمی اور ڈیڑھ لاکھ بے گھر ہیں۔ امریکہ نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں اسرائیل کے خلاف چار بار مذمتی قرارداد کو روکا اور مسلسل اسرائیل کی سرپرستی کرتا رہا۔ امریکہ نے محض اپنا اسلحہ بیچنے کیلئے جگہ جگہ جنگ چھیڑ رکھی ہے۔یواین او نے ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کی،سلامتی کونسل میں سات کفن چوروں کا ٹولہ بیٹھا ہے۔یواین او کا کردار مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ متعصبانہ رہا ہے۔فلسطین اور کشمیر کے مسائل ابھی تک صرف اس لئے حل نہیں ہوسکے کیونکہ ان علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔اسلامی ملک کے حصے بخرے کرنے ہوں تو مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان جیسے مسائل خود ہی پیدا کئے جاتے ہیں اور پھر گھنٹوں میں حل ہوجاتے ہیں۔عالم اسلام کے کمزور حکمران عالمی استعمار کی غلامی پر راضی ہیں۔یہ یہودیوں یا ہندوؤں کو نہیں بلکہ اپنے ہی عوام کو ڈراتے رہتے ہیں۔
بیت المقدس وہ مسجد ہے جس میں امام الانبیاء حضرت محمد ﷺ نے حضرت آدم ؑ سے لیکر حضرت عیسیٰ ؑ تک تمام انبیاء کی امامت کی اور وہیں سے آپ ﷺمعراج شریف پر تشریف لے گئے۔بعثت کے بعد آپ ﷺ ڈیڑھ سال تک مسجد اقصیٰ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے اسی لئے اسے مسلمانوں کے قبلہ اول کی حیثیت حاصل ہے۔
مسئلہ کشمیر کی طرح مسئلہ فلسطین بھی برطانیہ کا پیدا کردہ ہے جس نے پہلی عالمی جنگ کے بعد 1918 سے دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر سرزمین فلسطین پر بسانا شروع کیا اور اس کو یہودیوں کیلئے ”قومی گھر“قرار دیا۔1948میں اسرائیل کو باقاعدہ ایک ملک کی حیثیت دیکر عالم اسلام کے عین سینے میں خنجر گھونپ دیا گیا۔ اسرائیل ایک فاشسٹ اور ناجائز ریاست ہے جس کی پون صدی سے امریکہ اور برطانیہ سمیت عالمی استعماری قوتیں سرپرستی کررہی ہیں۔ 636ء میں عرب فاتحین نے خون کا ایک قطرہ بہائے بغیراسے فتح کر لیا یہودی یہاں ہمیشہ اقلیت میں رہے۔یہودیوں نے اپنی سازشوں سے کبھی اس خطہ کو امن نصیب نہیں ہونے دیا،صلیبی جنگوں میں عیسائیوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا اور بیت المقدس پر قبضہ کرلیا،1189ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کیا اور یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو گئی۔چار صدیوں تک عثمانیوں کی حکمرانی کے بعد 1917ء میں برطانیہ نے اس خطے کو اپنی تحویل میں لے لیا اور اعلان بالفور کے ذریعہ یہودیوں کے لیے ایک قومی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا گیا۔
1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعہ فلسطین کو تقسیم کر کے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ برطانیہ نے اس علاقے سے 1948ء میں اپنی افواج واپس بلالیں اور 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کی آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ عالم اسلام نے ظلم و جبرکے اس فیصلے کومسترد کر دیا اور مصر، اردن، شام، لبنان، عراق اور سعودی عرب نے اسرائیل پر حملہ کر دیا،مگر اپنوں کی بے وفائی اور اغیار کی سازشوں کی وجہ سے اسے ختم کرنے میں ناکام رہے۔ 1949ء میں اسرائیل نے عربوں کے ساتھ الگ الگ صلح کے معاہدے کیے اس کے بعد اردن نے غرب اردن کے علاقے پر قبضہ کر لیا جب کہ مصر نے غزہ کی پٹی اپنی تحویل میں لے لی۔ 1967میں اسرائیل نے مصر پر حملہ کرکے نہ صرف نہر سوئیزپر قبضہ کرلیا بلکہ غزہ فلسطین کے ایک لاکھ آٹھ ہزار مربع میل پر قبضہ کرلیا۔
عالم اسلام اب اس حقیقت کو تسلیم کرلے کہ کشمیر اور فلسطین جیسے مسائل قراردادوں اور امریکہ سمیت عالمی استعماری قوتوں کی لونڈی یو این او سے اپنے مسائل کے حل کی بھیک کب تک مانگتے رہیں گے۔ساٹھ سے زیادہ مسلم ممالک جن کے پاس چالیس لاکھ سے زیادہ منظم افواج ہیں، پاکستان ایٹمی قوت بھی ہے مگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ان کی پر کاہ کے برابر وقعت نہیں، پونے دو ارب مسلمانوں کو سلامتی کونسل میں نمائندگی اس لئے نہیں دی جارہی کہ ان کیلئے کوئی ٹھوس آواز اٹھانے کیلئے تیار نہیں۔ امت کے مسائل کے حل کیلئے اگر عالم اسلام کے حکمران متحد نہ ہوئے تو پھر وہ وقت دور نہیں جب بزدل حکمرانوں سے نجات کیلئے دنیا بھر کے مسلمان متحد ہوجائیں گے۔
اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ عالم اسلام فلسطین،کشمیر سمیت دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے تحفظ کیلئے مشترکہ طور پر ٹھوس قدم اٹھائیں اور غلامی کی زنجیروں کو ہمیشہ کیلئے کاٹ پھینکیں۔پاکستان ترکی،انڈونیشیا،ایران، ملائشیا اور سعودی عرب سلامتی کونسل میں نمائندگی کیلئے متحد ہوجائیں اور جنرل اسمبلی میں دو ٹوک موقف اختیار کریں کہ اگر مسلمانوں کو سلامتی کونسل میں نمائندگی نہ دی گئی تو وہ عالم اسلام کی الگ مسلم اقوام متحدہ بنالیں گے۔قبلہ اول کی حفاظت کیلئے مسلم ممالک اپنی فوج بھیجیں۔جن مسلم ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے وہ فوری طور پر اعلان لاتعلقی کریں۔ فلسطین کے تحفظ اور بحالی کیلئے عالم اسلام مشترکہ فنڈ قائم کرے۔عالم اسلام کو امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے فیصلے خود کرنا ہونگے۔پاکستان کے لوگ مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے عالم اسلام کے ہر مسئلے پر اپنی ذمہ داری پوری کی۔
(امیر جماعت اسلامی پاکستان ہیں)
٭……٭……٭

معیشت کی بہتری اورگردشی قرضے

ڈاکٹر شاہد رشیدبٹ
ایک جانب حکومت کی جانب سے معیشت میں بہتری کے دعوے ہیں تو دوسری جانب زمینی صورتحال حکومت کے دعوؤں کی صحیح معنوں میں عکاسی کرتی ہو ئی نظر نہیں آتی ہے۔عوام مسلسل مہنگائی کے بوجھ تلے دبتے چلے جا رہے ہیں اور روز مرہ استعمال کی اشیا ء سمیت ہر چیز کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔بڑھتی ہو ئی مہنگائی کی ایک وجہ ڈالر کی قیمت اور اس کے نتیجے میں بڑھتی ہو ئی بجلی،گیس اور پیٹرول کی قیمتیں ہیں۔یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی میں اپنے گزشتہ کالمز میں با رہا نشان دہی کرتا آیا ہوں،کہ پاکستان کی برآمدات اور درآمدات میں عدم توازن ملک کی معیشت کے لیے زیر قاتل ہے جس پر جلد از جلد قابو پایا جانا ضروری ہے۔گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان کی برآمدات 25.3ارب ڈالر جبکہ ترسیلات زر 29.4ارب ڈالر رہیں تھیں،جبکہ حکومت کو 1.5ارب ڈار روشن ڈیجیٹل اکا ؤنٹ کی مدد میں بھی حاصل ہو ئے اور کل ملا کر یہ رقم 56ارب ڈالر کے لگ بھگ بنتی ہے۔
پاکستان کی کی درآمدات کل ملا کر اس سے کم رہیں جس کے نتیجے میں ہم نے پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کچھ عرصے کے لیے منفی سے نکل کر مثبت ہو تے ہوئے بھی دیکھا لیکن اب ایک بار پھر پاکستان کا کرنٹ اکا ؤنٹ خسارہ 2ارب ڈا لر کے قریب پہنچ چکا ہے جبکہ اس میں مزید اضافے کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔اس سال حکومت نے برآمدات کا تخمینہ 30ارب ڈالر لگایا ہے جو کہ گزشتہ مالی سال کی نسبت 5ارب ڈالرسے زائد ہے،جبکہ ترسیلات زر 31ارب ڈالر رہنے کی امید ظاہر کی جا رہی ہے،جبکہ روشن ڈیجیٹل اکاونٹ کی مدمیں بھی حاصل ہو نے والی رقم کا تخمینہ 2.5ارب امریکی ڈالر ہے۔اس طرح زرمبادلہ کی مدد میں پاکستان کی رواں مالی سال کل آمدنی کا تخمینہ 64ارب ڈالرز کے قریب ہے۔کچھ پڑھنے والوں کے ذہن میں یہ بات یقینا گردش کررہی ہوں گی جب ملک کی برآمدات بڑھ رہی ہیں،ترسیلات زر میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور روشن ڈیجیٹل اکا ونٹ سے بھی حکومت کو زر مبادلہ حاصل ہو رہا ہے تو پھر آخر کیوں ڈالر کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہے اور روپے پر اتنا دباؤ کیوں آرہا ہے،جس کے باعث کہ پیٹرول کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔اس بات کا آسان جواب یہی ہے کہ جس رفتار سے پاکستان کی برآمدات اور ترسیلات زر بڑھ رہی ہیں اس سے کہیں زیادہ رفتار کے ساتھ پاکستان کی درآمدات بڑھ رہی ہے گزشتہ ماہ پاکستان کی برآمدات تقریبا ً ایک ماہ کے عرصے کے دوران 2.3ارب ڈالر رہیں جبکہ پاکستان کی برآمدات 5ارب ڈالر سے زیادہ تھیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا کرنٹ اکاونٹ ایک بار پھر دباؤ میں ہے،پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔اندازے کے مطابق اس سال درآمدات کا حجم 70ارب ڈالر کے قریب رہنے کی توقع ظاہر کی گئی تھی لیکن اب کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی درآمدات اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہیں جو کہ یقینا حکومت اور عوام کے لیے بھی فکر کا باعث ہے۔روز بروز بڑھتی ہو ئی مہنگائی عوام کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے،اور آئی ایم ایف کے مطالبے پر اکتوبر میں بجلی کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافے کی خبریں عوام کی بے چینی میں مزید اضافہ کررہی ہیں۔حکومت کو اس حوالے سے بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
صرف بہتر اشاریوں کی باتیں کرنے سے عوام کو ریلیف نہیں ملے گا اس کے لیے حکومت کوعملی طور ہر سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔اگر معیشت میں تیزی ہے تو اس کافائدہ عوام کو ملنا چاہیے ورنہ ایسے معاشی استحکام کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے اور حکومت کو اس حوالے سے سیاسی طور پر بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔یہاں پر میں ایک اور موضوع پر بات کرنا چاہوں گا،وہ یہ ہے پاکستان کا توانائی کا شعبہ جس نے گزشتہ کئی برس سے پاکستان کی معیشت کو یر غمال بنا رکھا ہو ا ہے،اور بڑھتے ہوئے گردشی قرض اور دوسری طرف بڑھتی ہو ئی توانائی کی قیمتوں نے پاکستان کے عوام کے ساتھ ساتھ پاکستان کی صنعتوں کا بھی برا حال کر دیا ہے،حکومت نے حالیہ کچھ عرصے کے دوران برآمدی صنعت کے لیے تو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا ہے اور اس حوالے سے ان صنعتوں کو خصوصی سبسڈی بھی دی جا رہی ہے لیکن دیگر شعبے ابھی بھی توانائی کی بڑھتی ہو ئی قیمتوں سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔ اس معاملے کو حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں موجودہ دور میں کی گئی ہیں لیکن ان کوششوں کا کوئی خاطر خواہ فائدہ ابھی تک سامنے نہیں آسکا ہے۔
حکومت نے آئی پی پیز کے ساتھ ازسر نو معاہدے کرنے کی بھرپور کوششیں کیں اور کچھ آئی پی پیز کے ساتھ حکومت کے نئے معاہدے بھی ہوئے ہیں لیکن مجموعی طورپر پاکستان کے سرکلر ڈیٹ اور توانا ئی کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہیں آسکی ہے۔اس سلسلے میں حالیہ دنوں کے دوران ہی ایک نئی پیشرفت سامنے آئی ہے جو کہ حوصلہ افزا ہے اور اس حوالے سے امید رکھی جا سکتی ہے کہ یہ نئی پیشرفت توانائی کے شعبے کی بہتری کے لیے اہم ثابت ہو گی۔
مشترکہ مفادات قونصل نے توانائی کی خریداری کے حوالے سے 2005ء سے زیر التوا آئی جی سی ای پی ماڈل کی منظوری دے دی ہے۔اس معاہدے کے دو بنیادی نکات ہیں ایک تو یہ کہ حکومت بجلی گھروں سے ضرورت کے مطابق یعنی کہ ڈیمانڈ اور سپلائی کی بنیاد پر بجلی خرید سکے گی اور دوسرا یہ کہ اوپن بڈنگ کے ذریعے حکومت سب سے کم بولی لگانے والے بجلی گھر سے بجلی خرید سکے گی،ایک تو اس معاہدے سے توانائی کے شعبے میں مقابلہ بڑھے گا اور مسابقت کو فروغ ملے گا حکومت کی جان کیپسیٹی ادائیگوں سے چھوٹ جائے گی اور بجلی کم قیمت پر حاصل کی جاسکے گی جس کے باعث نہ صرف گردی قرض میں خاطر خواہ کمی آنے کا امکان ہے بلکہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کی توقع بھی کی جاسکتی ہے۔توانا ئی کا شعبہ ملکی معیشت کے لیے ایک اندھا کنواں بن چکا ہے اور اس شعبے میں وسیع پیمانے پر فوری اصلاحات کی ضرورت موجود ہے،یہ آمر خوش آئند ہے کہ موجودہ حکومت اس حوالے سے سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے۔اللہ کرے کہ توانائی شعبے سمیت تمام دیگر شعبوں میں آنے والے دنوں میں نمایاں بہتری آئے جس سے ملکی معیشت بھی مضبوط ہو اور عوام کو بھی ریلیف مل سکے۔
(سابق صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس ہیں)
٭……٭……٭

سچ تو یہ ہے

مریم ارشد
ممتاز سکالر ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کی ”سچ تو یہ ہے“ میرے پاس بہت عرصہ پہلے آئی تھی۔ چونکہ میں خوفناک کرونا کا شکار ہو گئی تھی اور پھر بعد ازاں پوسٹ کووڈ پیچیدگیوں نے اس قدر الجھائے رکھا کہ سُدھ بُدھ بھی جاتی رہی اور جان کے لالے پڑے رہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کی کتاب پڑھنے میں دیر سے دیر ہی ہوتی گئی۔اب پڑھنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ یہ کتاب پاکستان کی تاریخ کو مسخ کرنے کی سازشوں اور قائدِ اعظمؒ سے بدظن کرنے کے من گھڑت الزامات اور نشرو اشاعت کو تاریخ کے مستند شواہد سے سچ کی سنہری کرنوں کو سامنے لانے کے مترادف ہے۔
محترم ڈاکٹر صفدر محمود کی یہ کتاب 40مضامین پر مشتمل ہے۔ یہ کالم چھپنا تو پہلے چاہیے تھا لیکن دیر ہو گئی۔ ڈاکٹر صاحب ملکِ عدم کو روانہ ہو چکے ہیں۔ وہ انتہائی دیانت دار سول سروس کے آفیسر تھے۔ نظریہ پاکستان کے محافظ اور روحانی فرزند تھے۔ پاکستان کی نوجوان نسل کو فکری انتشار سے بچانا اُن کا اولین مقصد تھا۔کتاب ”سچ تو یہ ہے“اب تاریخ کا حصہ بن گئی ہے۔ وہ اسلامی نظریہ کے داعی تھے۔ اللہ ان سے مہربانی کا سلوک کرے آمین! پوری کتاب کو کسی ایک کالم میں سمونا خاصا مشکل کام ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان اور قائدِ اعظم سے محبت ہی ڈاکٹر صاحب کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ قائدِ اعظم مشکلات اور خطرات کے سامنے ہار ماننے والے شخص نہ تھے۔ وہ ممتاز ترین رہنما تنِ تنہا تمام مسئلوں کو سُلجھاتے رہے۔ جب وہ عوام کے درمیان ہوتے تو ان کے دل کی دھڑکن عوام کی دھڑکن بن جاتی۔خرابی صحت کے باوجود قائدِ اعظم مسلسل کئی سالوں تک صرف کام ہی کرتے رہے۔ ”سچ تو یہ ہے“ پڑھنے کے بعد دل میں ارمان پیدا ہوتا ہے کہ اس کتاب کے ہر مضمون پر کچھ نہ کچھ لکھا جائے لیکن آج میں بات کروں گی قائدِ اعظم کے یومِ وفات 11ستمبر کے حوالے سے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ دنیا میں سینکڑوں لیڈران کا انتقال ہوا ہے لیکن کسی میں بھی آپ کو وہ حُسنِ اتفاق نہیں ملے گا جو قائدِ اعظم کے حوالے سے ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ قدرت کے فیصلوں میں بعض اوقات ایسے راز ہوتے ہیں جن کا مقصد واضح پیغام دینا ہوتا ہے۔ جو لوگ حد درجہ تشکیک اور مادیت کے زیر اثر پائے جاتے ہیں وہ ایسے رازوں کو نہیں سمجھتے۔ ڈاکٹر صاحب اسی کالم میں لکھتے ہیں میرے ایک محترم دوست ریاضی کے استاد ہیں اور علم الاعداد میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے فزکس کے ساتھ کائنات اور روحانیت کا مطالعہ بھی کر رکھا ہے۔ قصہ آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قائدِ اعظم کے یومِ وفات سے کچھ دن پہلے میرے موبائل اور وہی میسج پروفیسر صاحب کے موبائل پہ بھی موصول ہوا تھا۔ میں نے موبائل کے فضول پیغاموں کی طرح اسے پڑھنے کی بھی زحمت نہ کی۔ لیکن پروفیسر صاحب علم الاعداد کی روشنی میں اس میسج پہ غور کرتے رہے اور پھر اعلان کیا کہ قدرت نے پاکستان اور قائدِ اعظم کو لازم و ملزوم قراردے دیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ پروفیسر صاحب نے کہا! ڈاکٹر صاحب میں نے علم الاعداد کی روشنی میں امریکہ، ہندوستان اور بنگلہ دیش کا مطالعہ کیا ہے۔ حیرت ہے کہ مجھے وہ مماثلت یا قدرت کا راز کہیں نظر نہیں آیا جو قائدِ اعظم کی شخصیت میں ہے۔ ڈاکٹر صاحب آپ نے کئی برس پہلے ایک کالم میں لکھا تھا کہ قائدِ اعظم کا یومِ پیدائش، یومِ وفات، اور قیامِ پاکستان کا دن ایک ہی ہوتا ہے۔ مثلاً 2016میں 14اگست11ستمبر اور 25دسمبر کا دن اتوار ہی ہے۔ زندگی و موت پر اختیار صرف اور صرف اللہ کے پاس ہے۔ انسان ان میں بے بس ہے۔ اس لیے اگر ان فیصلوں میں کوئی پوشیدہ حقیقت یا راز نظر آئے تو اسے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ پروفیسر صاحب نے اپنے مشاہدے، ادراک اور احساس کے حوالے سے پاکستان کے کئی مرحوم لیڈروں کا ذکر کیا اور کہا کہ اُن کہ ایامِ پیدائش و وفات کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوا جوقدرت نے قائدِ اعظم کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔ مجھے ان میں وہ مماثلتیں نظر نہیں آئیں جس میں شہادت کے حوالے سے لیاقت علی خان بھی شامل ہو چکے ہیں۔ اُٹھتے اُٹھتے پروفیسر صاحب نے علم الاعداد پر دسترس کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: ڈاکٹر صاحب قائدِ اعظم کے حوالے سے یہ تین ایام اہم اور بنیادی حیثیت کے حامل ہیں۔ (1) پیدائش 25 دسمبر (2) وفات 11 ستمبر (3) یومِ پاکستان 14اگست۔ اگر ریاضی کے حوالے سے دیکھیں تو 25 سے 11منفی کریں تو 14 بچتا ہے جو ہمارا یومِ آزادی ہے۔اگر 25سے 14منفی کریں تو 11(قائدِ اعظم کا یومِ وفات)جمع کریں تو 25کا ہندسہ حاصل ہوتا ہے جو قائدِ اعظم کا یومِ پیدائش ہے۔ اگر قدرت نے ان ہندسوں میں سے کسی ایک کو بھی تبدیل کر دیا ہوتا تو صورتِ حال مختلف ہوتی۔ با ت ختم کرتے ہوئے پروفیسر صاحب نے اپنے علمی انداز میں کہا ”ہے ناں حیرت انگیز، منفرد اور فکر انگیز حقیقت؟ اسی لیے میں اسے قدرت کا وہ راز کہتا ہوں جسے عیاں کرنا مقصود تھا۔ یہ سب پڑھ کر میں تو خود حیرت کے سمندر میں ڈوب گئی۔ جھٹ میں نے اپنے موبائل میں اس سال کا کیلنڈر کھول کر دیکھا تو 14اگست، 11ستمبر،25دسمبر سب کا دن ہفتہ ہے۔ حتیٰ کے پروفیسر صاحب کے مطابق 16اکتوبر جو لیاقت علی خان کی شہادت کا دن ہے وہ بھی ہفتہ ہی ہے۔ یہ واقعی ایک حیرت انگیز حقیقت ہے۔ ستمبر کے اوائل ہی سے قائدِ اعظم کے ڈاکٹروں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ اب ان کی صحت ٹھیک نہیں ہو گی۔
علالت کے باوجود اکثر عالم خواب میں ان کی زبان سے کشمیر، مہاجرین، آئین اور پاکستان کے الفاظ سنائی دیتے۔ قائدِ اعظم کہا کرتے تھے ”قوم نے جو کام میرے سپرد کیا ہے اور قدرت نے جس کے لیے مجھے مقرر کیا وہ کام پورا ہو گیا۔ پاکستان بن گیا ہے۔ اب یہ قوم کا کام ہے کہ وہ اسے ناقابلِ تسخیر اور ترقی یافتہ ملک بنائے۔ حکومت کا نظم و نسق دیانت داری اور محنت سے چلائے۔ میں تھک گیا ہوں۔ اب مجھے زندگی سے زیادہ دلچسپی نہیں رہی۔“ 11ستمبر کو عزم و استقلال، فہم و فراست،بصیرت اور وفا کا لاثانی لیڈر اپنی قوم سے جدا ہو گیا۔ آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے: آمین!
(کالم نگارقومی وسماجی ایشوزپرلکھتی ہیں)
٭……٭……٭

گینگسٹر

علی سخن ور
شکر کی بات یہ کہ ’وکاس دوبے‘نام کے بھارتی گینگسٹر کو بھارتی میڈیا نے وقاص کہہ کر مسلمان قرار نہیں دے دیا اور اس کی ڈوریاں پاکستان سے ملانے کی کوشش بھی نہیں کی۔پھر یہ بھی ہوا کہ وکاس کی چتا جلانے کے تصاویر بھی منظر عام پر آگئیں جن سے لوگوں کو پختہ یقین ہوگیا کہ مذکورہ مجرم مسلمان نہیں تھا۔Vikas Dubayایک عرصے تک سارے بھارت میں خوف کے استعارے کے طور پر موضوع گفتگو رہا، پھر یہ ہوا کہ پچھلے برس 3جولائی کو ایک پولیس پارٹی اس کی تلاش میں اس کے گاؤں بکرو کی طرف روانہ ہوئی۔ یہ گاؤں اتر پردیش کے علاقے میں ہے۔ وکاس پولیس کو ایک قتل کے جرم میں مطلوب تھا۔اس گینگسٹر کو پولیس پارٹی کی آمد کی پیشگی اطلاع بھی مقامی پولیس سٹیشن میں تعینات اس کے نمک خواروں نے دے دی۔ وکاس اور اس کے ساتھیوں نے مکانوں کی چھتوں سے ایسی اندھا دھند فائرنگ کی کہ پولیس پارٹی کے 8افراد پل بھر میں ڈھیر ہوگئے۔ اس قتل و غارت کے نتیجے میں وکاس دوبے اور بھی شیر ہوگیا، اس نے اعلانیہ سارے کے سارے پولیس ڈیپارٹمنٹ کو دھمکیاں دینا شروع کردیں۔ اسی سال 10جولائی کو اس گینگسٹر کو پولیس مقابلے میں پار کردیا گیا۔ وکاس کے ہاتھوں مارے جانے والے آٹھ پولیس ملازمین کے قتل کے ساتھ ساتھ خود وکاس کے پولیس مقابلے میں مارے جانے کی عدالتی تحقیقات شروع ہوئیں تو ایسے ایسے راز سامنے آئے کہ لوگ حیران رہ گئے۔
عدالتی کمیشن نے ٹھوس شواہد کے ساتھ رپورٹ میں بتایا کہ مقامی انتظامیہ سے لے کر بہت اوپر تک 26سے زائد افسر ایسے تھے جو اس گینگسٹر کے لیے مسلسل ڈھال تھے۔ اسے اسلحہ لائیسنسوں کے اجراء سے لے کر مختلف فرضی کاروبار ی اجازت ناموں تک سرکاری اہلکاروں کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔سرکاری اہلکاروں کی مجرموں کی سہولت کاری کوئی بالکل نئی بات نہیں لیکن اس کیس میں یہ بات بھی سننے میں آ رہی ہے کہ وکاس دوبے کو بی جے پی کے مختلف انتہا پسند گروہوں کی آشیر باد بھی حاصل تھی۔ اس آشیر باد کے عوض ’وکاس دوبے‘ مسلمانوں کو خصوصی طور پر اپنی لوٹ مار کا نشانہ بناتا تھا۔یہ بات بھی سننے میں آرہی ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد بی جے پی اسی طرح کے بہت سے پیشہ ور مجرمان کو مختلف بھیس بدل کر افغانستان بھیجنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ ان پیشہ ور مجرموں کو ایک ہی ٹارگٹ دیا جائے گا کہ کسی طرح افغان عوام کو پاکستان کے خلاف اکسا کر سرحد کے دونوں اطراف حالات کو خراب کریں۔ اگرچہ گذشتہ ہفتے ہمارے آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کے دورہ افغانستان اور دو تین روز پہلے پاکستان میں ہونے والے خطے کے آٹھ ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مشترکہ اجلاس کے بعد بھارت کے لیے بظاہر ایسی کوئی شرارت ممکن تو نہیں دکھائی دیتی لیکن چھوٹے موٹے بچگانہ واقعات کے امکان کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔واضح رہے کہ بھارت کو اس اہم اجلاس میں شرکت کی دعوت ہی نہیں دی گئی تھی۔
افغانستان کی تعمیر و ترقی میں پاکستان کے ہر قسم کے کردار کو ختم کرنے کے خواہشمند ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں، آئی ایس آئی چیف کے دورہ افغانستان پر جو صف ماتم بچھی اس کی شدت کو بیان کرنا کوئی آسان کام نہیں۔بھارت کا شاید ہی کوئی نیوز چینل یا اخبار ہو جس میں آئی ایس آئی چیف کے دورہ افغانستان پر آہ و بکا سننے میں نہ آئی ہو۔رہی سہی کثر پاکستان میں ہونے والے کثیر القومی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اجلاس نے پوری کردی۔ اس اجلاس میں روس، چین، ایران، تاجکستان،قازقستان،ترکمانستان اور ازبکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان نے شرکت کی۔ اس اجلاس کا بنیادی مقصد افغانستان میں فروغ امن کے لیے منصوبہ بندی کرنے کے ساتھ ساتھ افغانستان کو مستقبل قریب میں درپیش ممکنہ خطرات سے بچانے کے لیے حکمت عملی کا تعین کرنا بھی تھا۔ماہرین اس اجلاس کو اس لیے بھی بہت اہمیت دے رہے ہیں کہ اس اجلاس کے پاکستان میں انعقاد نے دنیا کو یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور کردیا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان سے بڑھ کر کوئی اور ملک مخلص نہیں ہوسکتا۔یہاں اس سچائی کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد دنیا کا سیاسی منظر نامہ نہایت تیزی سے تبدیل ہورہا ہے۔
روس، چین، ایران، تاجکستان، قازقستان، ترکمانستان، افغانستان اور ازبکستان جیسے ممالک پاکستان کے ساتھ مل کر ایک ایسا بلاک تشکیل دے رہے ہیں جو خطے میں امریکی مفادات کو بری طرح زک پہنچا سکتا ہے۔صرف امریکا ہی نہیں بلکہ اس کے حواری ملکوں کے لیے بھی اس خطے میں شاید آئیندہ کئی دہائیوں تک کوئی جگہ ہی نہیں رہے گی۔ ایسے میں بھارت کے پاس جلنے کڑھنے کے سوا اور کوئی بھی راستہ باقی نہیں رہے گا۔ سنگلاخ پہاڑوں میں بسنے والے افغان بھائیوں کو آج تک نہ کوئی فوج شکست دے سکی ہے نہ ہی کوئی ہتھیار۔افغان اپنی دوستی اور دشمنی دونوں  معاملات میں ہمیشہ سے ایک بے لچک رویے کے حامل رہے ہیں۔گیارہ ستمبر کو ایک طرح سے افغانستان کے قومی دن کی حیثیت دینے والے افغانوں کے بارے میں اگر یہ تاثر ہے کہ ان پر زور زبردستی ان کے ارادوں کو متزلزل کرسکتی ہے تو یقین مانیں کہ یہ اس صدی کی سب سے احمقانہ بات ہوگی۔افغان قوم بھارتی گینگسٹر وکاس دوبے کی طرح نہیں کہ جسے بی جے پی حکومت کرائے کے ٹٹو کے طور پر استعمال کرتی رہی اور جب اس کی ضرورت نہیں رہی تو اسے گولیوں سے بھون دیا گیا۔
(کالم نگار اردو اور انگریزی اخبارات میں
قومی اور بین الاقوامی امور پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

چین نے تھوریئم ایندھن والا، دنیا کا پہلا تجارتی ایٹمی بجلی گھر بنا لیا

بیجنگ: چین نے دنیا کا پہلا ایسا تجارتی ایٹمی بجلی گھر تیار کرلیا ہے جس میں نیوکلیائی ایندھن کے طور پر یورینیم یا پلوٹونیم کی جگہ تھوریئم استعمال کی جاتی ہے۔

یہ ایٹمی بجلی گھر اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کیونکہ اسے ٹھنڈا رکھنے کےلیے روایتی ایٹمی بجلی گھروں کے برعکس، پگھلا ہوا نمک استعمال ہوتا ہے۔

’’مولٹن سالٹ ری ایکٹر‘‘ کہلانے والی یہ ٹیکنالوجی آج سے تقریباً 60 سال پہلے امریکا میں ایجاد کی گئی تھی لیکن 1969 میں اس پر کام ترک کردیا گیا تھا۔

Advertisement

اس ٹیکنالوجی میں عام نمک کو بجلی گھر کے مرکزی حصے (core) کے اندر، مائع حالت میں، نیوکلیائی ایندھن کے ساتھ حل کیا جاتا ہے جو نہ صرف ری ایکٹر کا درجہ حرارت قابو میں رکھتا ہے بلکہ بجلی بنانے میں نیوکلیائی ایندھن کی مدد بھی کرتا ہے۔

چین نے اسی ٹیکنالوجی کو مزید ترقی دیتے ہوئے ایک ایسا تجارتی ایٹمی بجلی گھر تیار کرلیا ہے جس کا ایندھن ’’تھوریئم‘‘ دھات ہے۔

حفاظتی نقطہ نگاہ سے یہ بجلی گھر شمالی چین میں صحرائے گوبی کے ایک ایسے ویران علاقے میں بنایا گیا ہے جو انسانی آبادی سے بہت دور ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یورینیم اور پلوٹونیم ایندھن والے ایٹمی بجلی گھروں کے مقابلے میں تھوریئم ایندھن والے ایٹمی بجلی گھر زیادہ بہتر ثابت ہوسکتے ہیں جبکہ ’’مولٹن سالٹ‘‘ ٹیکنالوجی سے انہیں اور بھی زیادہ محفوظ اور ماحول دوست بنایا جاسکتا ہے۔

اگرچہ تھوریئم ایندھن والے ایٹمی بجلی گھروں (تھوریئم نیوکلیئر ری ایکٹرز) کے معاملے میں بھی خطرات و خدشات موجود ہیں لیکن وہ روایتی (یورینیم/ پلوٹونیم ایندھن والے) ایٹمی بجلی گھروں کے مقابلے میں خاصے کم ہیں۔

دنیا کے اس پہلے تھوریئم نیوکلیئر ری ایکٹر سے نہ صرف چین بلکہ عالمی ماہرین کو بھی بہت امیدیں وابستہ ہیں کیونکہ اگر یہ ری ایکٹر کامیاب رہا تو ایٹمی طاقت کے پرامن اور ماحول دوست استعمال کا ایک نیا راستہ ہمارے سامنے ہوگا۔

چینی ذرائع کے مطابق، صحرائے گوبی میں بنایا گیا پہلا تھوریئم نیوکلیئر ری ایکٹر اسی مہینے میں کام شروع کر دے گا۔ البتہ اس حوالے سے کسی خاص دن اور تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

پاکستان کے دورہ بنگلادیش کے شیڈول کا اعلان ‏

پاکستان کرکٹ بورڈ نے اعلان کیا ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم پانچ سال بعد بنگلا دیش کا دورہ کرے گی جہاں تین ٹی ‏ٹونٹی انٹرنیشنل میچز اور دو ٹیسٹ میچ کھیلے جائیں گے۔

یہ دونوں میچز آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا حصہ ہوں گے۔

دورے میں شامل تمام ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میچز شیر بنگلا اسٹیڈیم ڈھاکا میں کھیل جائیں گے. یہ میچز 19، 20 ‏اور 21 نومبر کو کھیلے جائیں گے. ‏

دونوں ٹیموں کے مابین ٹیسٹ سیریز کا پہلا میچ ظہور احمد چوہدری اسٹیڈیم چٹاگانگ میں کھیلے جائیں گے. ‏یہ میچ 26 سے 30 نومبر تک جاری رہے گا. سیریز کا دوسرا ٹیسٹ میچ چار سے آٹھ دسمبر تک ڈھاکہ میں کھیلا ‏جائے گا.‏

آئی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ میں پاکستان کی ٹیم ایک جیت کے ساتھ فی الحال دوسرے نمبر پر موجود ہے ‏جبکہ بنگلہ دیش نے چیمپئن شپ میں اپنے سفر کا آغاز ابھی نہیں کیا ہے.‏