طالبان ہیرے ہیں ان کی قدرکریں

آغا خالد
یہ 2009-10کی بات ہے ملاعبدالغنی برادرکوکراچی سے حیدرآباد سے ملانیوالے موٹروے ایم 9 سے حراست میں لے لیاگیاتھایہ تعین آخرتک نہ ہوسکاکہ حرکت المجاہدیں سے متعلق مدرسہ سے رات کے آخری پہرانہیں لے جانے والی بڑی گاڑیوں میں سوارسادہ لباس میں ملبوس اہلکارکس ادارہ سے تھے تاہم اس سلسلہ میں حراست کی وجوہ کے حوالے سے متعددکہانیاں گشت کرتی رہیں جن میں ایک یہ بھی تھی کہ ملابرادرامریکہ بہادرسے براہ راست رابطوں کے بعدان سے خفیہ مذاکرات کیلئے کراچی پہنچے تھے۔
امریکہ کومطلوب طالبان رہنماؤں کی فہرست میں ان کانام اس وقت سرفہرست تھاجس کی وجہ سے وہ آزادانہ نقل وحرکت نہیں کرپاتے تھے اورخفیہ دورہ کاسراغ لگاکرانہیں حراست میں لیاگیاتھاجبکہ ان کی گرفتاری سے حکومت پاکستان نے لاعلمی ظاہرکی تھی مگراس کے باوجودبعض امریکی اخبارات نے الزام لگایاتھاکہ پاکستان نے طالبان سے براہ راست مذاکرات اوررابطوں کی زنجیرکاٹ کرامریکی کوششوں کوسبوتاژ کیاہے بہرصورت ملابرادر کی گرفتاری کاآپریشن اتنابڑااورڈرادینے والاتھاکہ ان کے میزبان مولاناعبدالحمیدعباسی اورمولاناسعادت اللہ خود بھی خوف زدہ ہوکراپنے ڈرائیورکے ساتھ روپوش ہوگئے تھے بعدمیں ملنے والی اطلاعات کے مطابق وہ اپنے موبائل بندکرکے سارادن گاڑی میں شہرکی سڑکوں پرگھومتے رہے تھے اورجب تھک جاتے توکسی بھی پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرکے سوجاتے۔یوں انہوں نے کئی ماہ کی مفروری گذاری مگراس کے باوجودوہ زندگی کی امان نہ پاسکے اورمفروری ختم کرکے مدرسہ میں واپسی کے کچھ ہی عرصہ بعدمولاناسعادت اللہ کراچی کی سڑکوں پرٹارگٹ کلنگ کانشانہ بن گئے جس کے بعدمولاناعباسی پھرایک بارلمبے عرصہ کیلئے غائب ہوگئے تھے کہاجاتاہے کہ ملابرادرکی گرفتاری کے بعدایک طرف طالبان ان کی جان کے دشمن بن گئے تھے جس کی وجہ شبہ تھاکہ مخبری کرکے ملابردرکوگرفتارکروایاگیاتھاجبکہ دوسری طرف امریکی بھی ناراض تھے اوران کابھی کچھ ایساہی خیال تھاکیونکہ ملابرادرکراچی پہنچنے کے بعد پٹیل پاڑہ کے حافظ صاحب کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے جہاں سے انہیں امریکیوں سے مذاکرات کیلئے مذکورہ مدرسہ لے جایاگیاتھامگراگلے مرحلہ سے قبل ہی وہ دھرلئے گئے یہ بھی کہاجاتاہے کہ ان رابطوں کے سرخیل نورالّدین ترابی تھے جوسابقہ افغان حکومت میں محتسب تھے وہ امریکیوں سے رابطہ میں تھے اوروہی ملابرادر ملاجلیل اورمولوی کلیم کوکراچی لائے تھے مگرپٹیل پاڑہ سے سہراب گوٹھ موٹروے منتقلی کے دوران باقی تینوں مدرسہ کے گیٹ پرکسی اورکام سے اترگئے جبکہ ملابرادرمدرسہ میں چلے گئے اورگرفتارہوگئے۔
پھر 9 سال بعدمنظرعام پرآئے اوراب وہ افغانستان کے حکمراں بننے جارہے ہیں اورشایدیہی وجہ ہے کہ امریکہ جیسی سپرپاورکوشکست دیکراپناملک آزاد کروانے والے ملابرادرکی جوتصویرہمارے آئی ایس آئی چیف کیساتھ گذشتہ روزمنظرعام پرآئی ہے وہ بغلگیرہوتے ہوئے نظریں چرارہے ہیں۔کہتے ہیں قیدی اورحوالدارکارشتہ ہمیشہ برقراررہتاہے تاہم پھربھی فخرکی بات یہ ہے کہ انہوں نے برملایہ اعلان کیاہے کہ ان کی سرزمیں پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اورپاکستان ہماراقابل اعتماددوست ہے۔
اس مرحلے پر ہماری دعاہے کہ جب افغانستان میں عبوری حکومت بن چکی ہے اور ملاعبدالغنی برادر نے پاکستان کے بارے میں نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہنابھی مناسب سمجھا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی صورت پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی وہ اس عزم پرقائم رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ مستقبل کا افغانستان کا نقشہ پوری امت مسلمہ کے لئے لائق فخر ہو کہ اس نے دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا غرور رات کی تاریکی میں نہیں بلکہ دن کی روشنی میں توڑا ہے اورامریکہ کو اس نے دم دبا کر بھاگنے پرمجبور کردیاہے۔ یہ تاریخ کاسبق ہے اورامریکہ کویہ سبق ازبرکرلینا چاہیے اور مستقبل میں کسی ملک پر جارحیت سے پہلے اسے سوچ بچار کرکے پیشقدمی کرنی چاہیے۔
(کالم نگارقومی وسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

طالبان شہریوں کو ملک چھوڑنے کی اجازت دینے کے وعدے پرقائم ہیں، امریکی وزیر خارجہ

انٹرنیشنل: امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ طالبان افغان شہریوں کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے عہد پر عمل کر رہے ہیں۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن قطر کے 2 روزہ دورے پر ہیں جہاں انھوں نے افغان انخلاء کاروں اور امریکی ٹیموں سے ملاقات کی اور امریکا جانے کے لیے ٹرانزٹ پرواز سے قطر آنے والے افغانوں کی نقل مکانی سے متعلق امور پر بات چیت کی۔

اینٹونی بلنکن نے اپنے قطری ہم منصب کے ہمراہ دوحہ میں پریس کانفرنس میں کہا کسی افغانستان سے امریکا کے لیے پرواز بھرنے والے کسی  ہوائی جہاز کو یرغمال بنانے جیسی صورتحال سے آگاہ نہیں۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے مزید کہا کہ طالبان افغانوں کو بیرون ملک جانے کی اجازت دیکر اپنے وعدوں پر اچھی طرح عمل کر رہے ہیں اور ہم اس حوالے سے طالبان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔

وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ کچھ مسافروں کی شناخت اور سیکیورٹی اسکریننگ کا مسئلہ ہے، چارٹر فلائٹس کے ساتھ مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں جس پر طالبان سے بات چیت جاری ہے۔

وزیر خارجہ کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب امریکی صدر جوبائیڈن کو اپنی ہی جماعت اور حریفوں کا شمالی مزار شریف سے امریکیوں سمیت کئی سو افراد کو طالبان انخلا سے روکنے پر دباؤ اور تنقید کا سامنا ہے۔

کابل پر 15 اگست کو طالبان کے کنٹرول حاصل کرلینے کے بعد سے افغانستان سے ایک لاکھ 20 ہزار افراد ہوائی جہاز کے ذریعے امریکا نقل مکانی کر گئے جن میں سے نصف ٹرانزٹ پروازوں کے ذریعے قطر اور متحدہ عرب امارات پہنچے ہیں۔

اس موقع پر قطر کے وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمان نے میڈیا کو بتایا کہ کابل ایئرپورٹ کی مکمل بحالی اور اسے فعال بنانے کے لیے ترکی کے ساتھ تیزی سے کام کر رہے ہیں جس سے مزید لوگوں کے انخلا کے عمل میں تیزی آجائے گی۔

آرمی چیف سے یورپی یونین کی سفیرکی ملاقات، افغانستان کی صورتحال پرگفتگو

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے یورپی یونین کی سفیراندرولا کامینارا نے ملاقات کی۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور، افغانستان اور خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ملاقات میں یورپی یونین اور پاکستان کے تعلقات کے فروغ کے حوالے سے بھی گفتگو کی گئی۔

اس موقع پر آرمی چیف کا کہنا تھاکہ مشترکہ مفادات پر مبنی تعلقات کے فروغ کے خواہاں ہیں  اور  پاکستان یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتا ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق یو رپی یونین کی سفیر نے افغانستان میں پاکستان کے کردار اور افغانستان سے پاکستان کے زیرانتظام کامیاب انخلا کو سراہا۔

صبا قمر اور گلوکار بلال سعید کے وارنٹ گرفتاری جاری

لاہور: اداکارہ صبا قمر اور گلوکار بلال سعید کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے۔

لاہور کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے اداکارہ صبا قمر اور گلوکار بلال سعید کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔

جوڈیشل مجسٹریٹ نے دونوں فنکاروں کے مسلسل غیر حاضر ہونے پر وارنٹ جاری کیے۔  اداکارہ صبا قمر اور گلوکار بلال سعید پر مسجد میں ویڈیو شوٹ کرنے کے الزام میں مقدمہ زیر سماعت ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں اداکارہ صبا قمر اور اداکار بلال سعید کے البم کے ایک گانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں دونوں فنکار لاہور کی مسجد وزیر خان میں موجود تھے۔

ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہی دونوں فنکاروں کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور تھانہ اکبری گیٹ میں دفعہ 295 کے تحت دونوں کے خلاف مقدمہ بھی درج کرایا گیا ہے۔

شہباز شریف سے ٹیلی فون پر صرف الیکشن کمیشن کے ممبران کی تعیناتی پر بات ہوئی

شہباز شریف سے ٹیلی فون پر صرف الیکشن کمیشن کے ممبران کی تعیناتی پر بات ہوئی
پاکستان کو جدید اسلامی ملک بنانا چاہتے ہیں جس کی مثال دنیا میں دی جائے

پی پی ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف لڑی طالبان حکومت بننے پر چاہتے ہیں دہشت گردی ختم ہو
ہماری اسمبلیوںسے استعفے نہ دینے کی بات سچ ثابت ہو رہی ہے

پاکستان سے مداخلت نہیں طالبان کا دنیا کو پیغام

کابل (مانیٹرنگ ڈیسک) افغان طالبان نے عارضی حکومت تشکیل دیتے ہوئے وزراء اور کابینہ اراکین کے ناموں کا اعلان کردیا جس کے مطابق نئی حکومت کا سربراہ محمد احسن اخوند کو منتخب کیا گیا ہے۔کابل میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد نے نئی حکومت کی تشکیل اور وزراء کے ناموں کا اعلان کیا۔انہوں نے بتایا کہ نئی حکومت کے سربراہ محمد احسن اخوند ہوں گے جبکہ ملاعبد الغنی برادر کو معاون سرپرست ریاست اور وزراء کا عہدہ دیا گیا ہے، اسی طرح مولوی محمد یعقوب مجاہد وزیردفاع، سراج حقانی کو وزیرداخلہ تعینات کیا گیا ہے۔ ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق مولوی ملا ہدایت اللہ وزیر ماحولیات، ملاخیراللہ وزیراطلاعات ہوں گے، ملا امیرخان متقی وزیرخارجہ، شیخ نور اللہ منیر سرپرست وزارت معارف، قاری دین محمد وزیر اقتصادی امور ہوں گے۔افغان طالبان کے ترجمان نے بتایا کہ نور محمد ثاقب وزارت حج و اوقاف، عبدالحکیم شرعی وزیر قانون، نوراللہ نوری وزیر سرحدی امور و قبائل، یونس اخونزادہ انٹیلی جنس چیف، شیخ محمد خالد کو دعوت و ارشاد کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ اسی طرح ملاعبد المنان فوائد و اعمال، حاجی ملا محمد عیسی معدنیات وپٹرولیم کے وزیر ہوں گے۔طالبان نے اپنی نئی حکومت کے قیام کا اعلان کردیا ہے اور محمد احسن اخوند عبوری وزیراعظم ہوں گے۔طالبان ترجمان نے اپنی نئی حکومت میں دیئے جانے والے عہدوں کا اعلان کرتے ہوئے ان مناصب پر فائز افراد کے ناموں کا اعلان کیا۔انہوں نے بتایا کہ ملا برادر غنی اور مولانا عبدالسلام دونوں مولانا محمد حسن کے معاون ہوں گے جبکہ ملا ہدایت اللہ وزیر مالیات اور محمد یعقوب مجاہد عبوری وزیر دفاع ہوں گے۔

کابل (مانیٹرنگ ڈیسک) ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ہم نے مکمل کوشش اور مشاورت کے بعد سیاسی کابینہ تشکیل دی، ہماری پہلی ترجیح ملک میں قیام امن ہے، جس کیلئے مختلف اقدامات کیے ہیں، موجودہ کابینہ نگران ہے اور عارضی طور پر اپنی خدمات انجام دے گی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ کابینہ میں وقت کے ساتھ سا تھ اصلاحات لاتے رہیں گے، ذمہ داریاں وقتی طور پر دی جارہی ہیں، وزراء اور کابینہ اراکین میں ردوبدل ہوسکتا ہے، نگران کابینہ کا اعلان ملک میں فوری نئی حکومت کی تشکیل کے لیے کیا ہے، مستقل حکومت کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے گی۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ آزادی سے متعلق ہونے والا کابل کا حالیہ مظاہرہ قانونی نہیں، اگر ایسے مظاہرے ہونے لگے تو ملک میں قیامِ امن کو نقصان پہنچ سکتا ہے، ہمارے سکیورٹی اہلکاروں کو مظاہرے کنٹرول کرنے کا تجربہ نہیں، ہماری اولین کوشش ہے کہ مظاہروں کے دوران شہر میں کسی بھی قسم کی بدنظمی نہ ہو۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ اب جومظاہرے کیے جا رہے ہیں وہ غیرقانونی ہیں، جب تک مظاہروں سے متعلق قانون نہیں بن جاتا عوام ان سے گریز کرے کیونکہ ایسے مظاہروں سے بیرونی ایجنڈے کا تاثر ملتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مداخلت سے متعلق پروپیگنڈا 20 سال سے جاری ہے، ہمارے معاملات میں پاکستان سمیت کسی ملک کی مداخلت نہیں ہے، ہم نے اپنی آزادی کے لیے تقریبا پوری دنیا سے جنگ لڑی، کوئی ثابت نہیں کرسکتاکہ ہمارے اقدامات سے پاکستان کو فائدہ ہوا کیونکہ ہم نے طویل جنگ لڑکی جس کے حالات کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ پنج شیرکا مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے، ہم کسی ایک قوم کی نمائندگی نہیں کرتے، ہمارے ساتھ تمام قومیت کے لوگ شامل ہیں، نگران کابینہ کی تشکیل میں بھی تمام اقوام کے لوگوں کو شامل کیا گیا ہے، جس سے قومیت کی بنیاد پر حکومت کی تشکیل کا تاثر غلط ثابت ہوگا۔انہوں نے کہا کہ پنج شیرمیں کچھ لوگوں کی جائیدادیں تھیں اور کچھ غرباء تھے، لوگوں نے قوم کے نام پر جائیدادیں بنائیں تھیں، جس کی وجہ سے دیگر اقوام کے لوگ محرومیوں کا شکار تھے، آج ہونے والے مظاہرے میں پنج شیر کی جنگ روکنے کا مطالبہ کیا گیا، جب ہم جنگ جیت چکے ہیں تو پھر روکنے کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے۔ذبیح اللہ مجاہد نے مزید کہا کہ ہمارے نظام کی تشکیل میں کسی اور کی مداخلت نہیں، افغانستان میں نظام حکومت کا انتخاب صرف افغان شہریوں کا حق ہے، اس معاملے میں کسی اور ملک کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی، عوام اپنا نظام قانون کے مطابق خود چلائیں گے۔امارات اسلامیہ کے ترجمان نے کہا کہ ہم دنیا اور بالخصوص خطے کے تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں، اب ملک چھوڑنے والے قانونی معاملات پورے کر کے ہی جا سکیں گے۔

PDMمیں نے بنائی،ایجنڈے سے ہٹ چکی، ایجنڈے پر واپس آئے،بلاول بھٹو زرداری

ملتان (سجاد بخاری‘نعیم ثاقب سے) پی ڈی ایم میں نے بنائی اور جس مسودہ پر ہم سب نے دستخط کئے تھے پاکستان پیپلزپارٹی آج بھی اس معاہدے پر قائم ہے۔ ہماری اسمبلیوں سے استعفے نہ دینے کی بات سچ ثابت ہوئی۔ شہبازشریف سے فون پر بات صرف الیکشن کمیشن ممبران کی نامزدگی کے بارے میں ہوئی۔ پاکستان پیپلزپارٹی انتہاء پسندی اور دہشتگردی کے خلاف ہے۔ ہم پاکستان کو ایک جدید اسلامک ملک بنانا چاہتے ہیں جس کی مثال دی جاسکے۔ موجودہ حکومت کی نالائقی عوام نے دیکھ لی ہے اور جنوبی پنجاب صوبے کا صرف لولی پاپ دیا جارہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ”خبریں“ میڈیا گروپ کے چیف ایڈیٹر امتنان شاہد سے ایک ملاقات میں کیا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ پی ڈی ایم کو میں نے خود بنایا اور اس کے اندر تمام اُصول وضوابط طے ہوئے کہ کونسا کام کس وقت کیا جائے گا۔ اس میں لانگ مارچ، دھرنے اور جلسے جلوس سے آغاز ہونا تھا جبکہ آخری آپشن استعفوں کا تھا مگر پی ڈی ایم کی قیادت نے آخری بات یعنی استعفے پہلے دینے کی کی جس کی ہم نے مخالفت کی اور آج استعفے نہ دینے کی ہماری بات سچ ثابت ہوئی۔ میں آج بھی پی ڈی ایم کے ساتھ چلنے کو تیار ہوں اگر وہ پی ڈی ایم کے ایجنڈے پر قائم رہتے ہیں تو مگر چونکہ وہ اپنے ایجنڈے سے ہٹ چکے ہیں لہٰذا ہماری راہیں پی ڈی ایم سے جدا ہوچکی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب تک اپوزیشن اکٹھی رہی اس وقت تک فتوحات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ پاکستان بھر میں بائی الیکشن میں پی ڈی ایم کے اُمیدوار زیادہ جیتے اور ہم نے قومی اسمبلی اور سینٹ میں بھی کامیابی حاصل کی۔ ایک اور سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت جنوبی پنجاب صوبہ کے سلسلے میں یہاں کے عوام کو لولی پاپ دے رہی ہے اور وہ صوبہ بنانے میں سنجیدہ نہیں ہے جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے دورِحکومت میں اس کیلئے باقاعدہ پارلیمنٹ کا کمیشن بنایا اور اس کمیشن نے ایک رپورٹ تیار کی جو آج بھی موجود ہے اور بل کی شکل میں ہم نے اسے سینٹ سے منظور کرایا مگر بدقسمتی سے قومی اسمبلی میں ہمارے پاس چونکہ اکثریت نہیں تھی لہٰذا ہم اسے پاس نہ کراسکے، اگر موجودہ حکومت مخلص ہے تو وہی ہمارا بل اسمبلی میں لے آئے، ہم حکومت کی امداد کریں گے۔ شہبازشریف سے بات کرنے کے سوال پر بلاول بھٹو زداری نے کہا کہ میری ان سے بات ہوئی تھی اور وہ الیکشن کمیشن کے دو ممبران جوکہ نامزد ہونے ہیں‘ اس کی بابت مشورہ کیا جانا تھا جس پر ہم نے مشترکہ طور پر ایک کمیٹی بنادی ہے جو چند نام پیش کرے گی پھر اس پر بات ہوسکے گی۔ افغانستان کی صورتحال پر بلاول بھٹو زرداری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے ہمیشہ انتہاء پسندی اور دہشتگردی کی مذمت کی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں یہ دونوں لعنتیں ختم ہوں جس کیلئے ہم نے کئی جانوں کی قربانیاں بھی دی ہیں لہٰذا پاکستان پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ وہ پاکستان کو ایک جدید اسلامک ملک بنائے جس کی مثال دُنیا دے سکے۔ موجودہ حکومت کی کارکردگی پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ انتہائی نالائق حکومت ہے۔ اس نے گزشتہ 3سالوں میں کچھ بھی ڈلیور نہیں کیا۔ یہ حکومت تمام شعبوں میں ناکام ہوچکی ہے۔ عوام نے جو اُمیدیں اس سے وابستہ کی تھیں وہ سب کی سب ختم ہوچکی ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے بارے میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مجھے انتہائی افسوس ہے کہ امریکہ جیسی سُپرپاور کے ساتھ ہمارے تعلقات صحیح نہیں ہیں، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی ناکام ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایک متوازن قسم کی خارجہ پالیسی بنائیں جس سے ناصرف امریکہ جیسی بڑی طاقت بلکہ دیگر ممالک سے ہماری عزت اور ہماری برابری کی بنیاد پر رشتہ قائم ہو اور ہم پوری دُنیا سے ملکر ایک کلیدی کردارادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ اور پاکستان میں اب فاصلے بڑھ گئے ہیں، موجودہ حکومت میں دُنیا بھر میں پاکستان کی سٹینڈنگ متاثر ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے امریکی صدر کا حکومت پاکستان سے رابطہ نہ کرنے کا انتہائی افسوس ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم نے طے کیا ہے کہ ہم سب سے پہلے پنجاب حکومت کو ہٹائیں گے اور پھر اس کے بعد وفاق میں عمران خان کی حکومت کو ہٹائیں گے اور یہ ہم نے ثابت بھی کیا ہے مگر افسوس کہ اپوزیشن کو یا تو ہماری بات سمجھ نہیں آرہی یا پھر وہ پی ڈی ایم کے بنیادی اُصولوں سے ہٹ چکی ہے۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے ہمیشہ اپنے بل بوتے پر جمہوریت کیلئے جدوجہد کی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔ اس ملاقات میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی بھی موجود تھے۔

ایک امکانی طورپربڑا خطرہ

خضر کلاسرا
بلاول بھٹو زرداری کا دورہ جنوب خاص توجہ کا مرکزیوں بن گیاہے کہ سید یوسف رضاگیلانی، بلاول بھٹوزرداری کے دورہ کو یادگار بنانے کیلئے وزیراعظم عمران خا ن کے سینیٹ کے الیکشن کے امیدوار حفیظ شیخ کی شکست جیسا سرپرائز دینے جارہے ہیں۔ اس میں وہ کتنا کامیاب ہوتے ہیں؟ اس کیلئے زیادہ انتظارنہیں کرنا پڑے گا۔ سیدیوسف گیلانی کے بارے میں اس بات پر تو سب اتفاق کرتے ہیں کہ موصوف سیاسی میدان میں مخالف پر وار کرنے میں ثانی نہیں رکھتے ہیں۔ اس کی مثال یوں بھی دی جاسکتی ہے کہ گیلانی نے نوازشریف کو ملتان سے اس وقت شکست دی تھی جب وہ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ بھی تھے۔ اسی طرح ابھی حال ہی میں حفیظ شیخ کو اس وقت شکست سے دوچار کیا،جب وزیراعظم عمران خان اپنی پوری حکومتی طاقت سے اس کے پیچھے بحیثیت تحریک انصاف امیدوار کھڑے تھے لیکن گیلانی صاحب نے وزیراعظم عمران خان کے امیدوار کو چاروں شانے چت کرکے پورے ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز کروادیا کہ وزیراعظم عمران خان کیساتھ تو اس کی پارٹی کے ارکان اسمبلی بھی نہیں ہیں۔کیوں کہ گیلانی کی جیت اس بات کی چغلی کھاکررہی تھی کہ تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کے ووٹوں کے بغیر جیت ممکن نہیں تھی۔
میرے جیسے لوگ گیلانی کی بحیثیت سینیٹ کے امیدوار اسلام آباد آمد پر ہی یہ بات کر رہے تھے کہ جو اپنے تئیں سمجھدار وزیراعظم عمران خان کو اسلام آباد کی سینیٹ کی نشت پر گیلانی کو بحیثیت امیدوار آسان لینے کا لقمہ دے رہے ہیں، وہ مخلص نہیں ہیں۔یوں یہی کرداروزیراعظم عمران خان کو اعتماد دے کر بڑے اپ سیٹ سے دوچارکروائینگے۔ پھر وہی ہوا کہ اقتدار میں آنے کے بعد پہلی بار وزیراعظم عمران خان، سید یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں حفیظ شیخ کی شکست پر سنبھلتے، سنبھلتے یوں جاسنبھلے کہ ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینا پڑا تھا جوکہ خاصا مشکل امتحان تھا کہ کہیں گیلانی وزیراعظم عمران خان کے ہی انویسٹر مطلب جہانگیر ترین کو اس کیخلاف استعمال کرکے وزیراعظم عمران خان کو ہی اعتماد کا ووٹ لینے سے نہ کردے۔ یہی وجہ تھی کہ چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی وزیراعظم عمران خان اور جہانگیر ترین کے مشترکہ دوستوں اور سمجھداروں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ گیلانی کے وار کو یہاں اب کامیاب نہ ہونے دیاجائے۔ادھر گیلانی بھی وزیراعظم عمران خان کیخلاف کوئی باریک گیم چل کر مسلم لیگ نواز کی قیادت کیلئے سیاسی میدان میں آسانی پیدا کرنے کے موڈ میں نہیں تھے؟سید یوسف رضاگیلانی کی سیاسی چالوں کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے دور اقتدار میں جب گیلانی وزیراعظم تھے تو موصوف نے سب سے زیادہ فنڈز اپوزیشن جماعت مسلم لیگ نواز کے ارکان اسمبلی کو دیئے جوکہ عموماً پاکستان جیسے ملک میں نہیں ہوتاہے،یہاں تو یہ فیشن ہے کہ اپوزیشن ارکان اسمبلی کو دیوار کے ساتھ لگا کر رکھاجاتاہے، فنڈز تو کہیں خوابوں اور خیالوں میں ملتے ہیں۔سید یوسف رضا گیلانی کے نواز لیگی ارکان اسمبلی کو فنڈز دینے کا انکشاف اس وقت ہوا جب پاکستان پیپلزپارٹی کے پارلیمنٹرین نوید قمر نے قومی اسمبلی میں سوال پوچھا کہ سید یوسف رضا گیلانی نے بحیثیت وزیراعظم سب سے زیادہ فنڈز کس جماعت کے ارکان اسمبلی کو دیئے ہیں تو پتہ چلا کہ سید یوسف رضا گیلانی نے سب زیادہ فنڈز اپنی جماعت پیپلزپارٹی کے ارکان اسمبلی کو نہیں بلکہ نوازلیگی ارکان اسمبلی کو جاری کیے ہیں۔یقینا پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت اورارکان قومی اسمبلی کیلئے یہ بات صدمہ سے کم نہیں تھی کہ گیلانی اپنی پارٹی پر مخالف جماعت مسلم لیگ نواز کو برتری دے رہے ہیں۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ گیلانی کو ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ اپنی پارٹی قیادت اور پیپلزپارٹی ارکان اسمبلی کو ناراض کیاجائے۔ہمارے خیال میں سید یوسف رضا گیلانی وہ سیاسی سرمایہ کاری نواز لیگی ارکان اسمبلی پر ان دنوں کیلئے کررہے تھے؟ مطلب اپوزیشن کے وقت کیلئے کررہے تھے، اس وقت کیلئے جب پاکستان پیپلزپارٹی کو مسلم لیگ نواز سمیت تحریک انصاف پر برتری کی ضرورت ہوگی۔
ہمارے خیال میں ایک تو نوازلیگی دور میں نوازلیگی ارکان اسمبلی وہ حکومت کا جہاں بھی حصہ تھے، ان کو یوسف رضا گیلانی بحیثیت وزیراعظم اپنے اوپر فنڈز کی شکل میں احسانات یاد تھے، اور گیلانی کیلئے وہ کچھ کرنے کا پنجاب کی روایات کے مطابق جذبہ رکھتے تھے۔ دوسرا سید یوسف رضاگیلانی نے بحیثیت وزیراعظم جو سیاسی سرمایہ کاری نوازلیگی ارکان اسمبلی اور جنوب کے مختلف پارٹیوں کے ارکان اسمبلی پر کی تھی اس کا فائدہ گیلانی کو وزیراعظم عمران خان کو ہوم گراونڈ مطلب اسلام آباد میں حفیظ شیخ کو سینیٹ کے الیکشن میں شکست سے دوچار کرکے ملاہے۔پاکستان پیپلزپارٹی کے بارے میں،تجزیہ کاروں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی وفاق میں اس وقت حکومت بنانے کی پوزیشن میں آسکتی ہے جب پیپلزپارٹی سندھ کے بعد پنجاب کے جنوب میں بڑی اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئے جیسا کہ ہم نے 2008ء کے الیکشن میں دیکھاتھا۔ اب یہ تو دیوار پہ لکھا سچ ہے کہ مسلم لیگ نواز کو وسطی پنجاب میں پیپلزپارٹی وہ ٹف دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے جوکہ بینظیر بھٹو کے وقت تک دیاجاتارہاہے۔ اب دلی دور است جیسی صورتحال ہے؟ وسطی پنجاب میں تو نوازلیگی اس قدر الیکشن سیاست میں مضبوط ہوچکے ہیں کہ 2018ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کو اسٹبشلمنٹ کی مکمل آشیر باد حاصل ہونے کے باوجود تحریک انصاف کو مسلم لیگ نواز کے مقابلے میں وہ نتائج نہیں ملے، جس کی وہ توقع کررہے تھے۔
یوں مسلم لیگ نواز کو تحریک انصاف نے وسطی پنجاب میں اکثریتی پارٹی تسلیم کرتے ہوئے اس کوشش میں ہے کہ پنجاب کے جنوب کو اپنے حصار میں رکھا جائے، جیسا کہ ہم نے 2018 ء کے الیکشن سے پہلے بھی دیکھا کہ عمران خان کیلئے وزیراعظم ہاوس تک پہنچنے کیلئے اس وقت تک راہ ہموار نہیں ہوئی جب تک جنوب کے ارکان اسمبلی نے صوبہ محاذ کے نام پر ایک دھڑا بنا کر منصوبہ بندی کے تحت تحریک انصاف کو جوائن نہیں کیا تھا۔مطلب اسلام آباد کیلئے تحریک انصاف، پاکستان پیپلزپارٹی یا نوازلیگی قیادت کو پنجاب کے جنوب کے سیاسی میدان میں اپنے آپ کو مضبوط ثابت کرنا ہوگا وگرنہ جس کے پیچھے جنوب کھڑا نہیں ہوگا وہ وفاق کے اقتدار سے دور ہی نہیں بلکہ بہت دور ہوجائیگا۔اس بات کا اندازہ وزیراعظم عمران خان، نوازلیگی لیڈر نواز شریف اور آصف علی زرداری کو بخوبی ہوچکا ہے؟ یوں الیکشن کا ذکر ہوتے ہی سب پارٹیوں کی نظریں جنوب پر مرکوزہو جاتی ہیں۔
تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز پرپاکستان پیپلزپارٹی کو جنوب میں برتری یوں ہے سید یوسف رضاگیلانی جنوب کے مرکز ملتان سمیت بہاولپور اور تھل میں خاصا اثرورسوخ اور اعتمادرکھتے ہیں جوکہ سیاست اور سیاست سے ہٹ کر بھی ہے۔ جنوب میں گیلانی کے بارے میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز کی طرح یہ بات مشہور ہے کہ گیلانی دھوکہ نہیں دے گا۔اسی طرح سمجھدار کہتے ہیں کاروبار میں ہی نہیں سیاست میں بھی اعتماد چلتاہے۔ادھر سید یوسف رضاگیلانی اس وقت پوری تیاری کے ساتھ وزیراعظم عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کو اگلے الیکشن میں جنوب سے آ ٓوٹ کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ کیوں کہ وزیراعظم عمران خان ہی نہیں اسٹبشلمنٹ بھی نہیں چاہ رہی ہے کہ نوازلیگی قیادت اگلے الیکشن میں اکثریتی جماعت کے طورپر سامنے آکر اقتدار سنبھال لے۔یوں گیلا نی کا فوکس نوازلیگ کی بجائے تحریک انصاف پرہے کہ اس کو جنوب میں الیکشن میں حفیظ شیخ جیسے انجام سے دوچار کیاجائے۔
(کالم نگاراسلام آباد کے صحافی اورتجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭

الوداع! اے کشمیر کے شیر دل مجاہد

مریم ارشد
زندگی میں ایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جن سے ہم نہ تو کبھی ملتے ہیں اور ناں ہی انہیں دیکھا ہوتا ہے۔ لیکن ان کی شخصیت میں کچھ عجب سا رنگ ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اپنی شخصیت کی اتنی گہری چھاپ لیے ہوتے ہیں کہ کوئی رشتہ نہ ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے اپنے سے لگتے ہیں۔ محترم سیّد علی شاہ گیلانی بھی کچھ ایسے ہی انسان تھے۔ ان کے چہرے کی متانت، سنجیدگی، نرمی اور افکار کی مضبوطی دل کی اتھاہ گہرائیوں میں اترتی جاتی ہے۔ سیّد علی گیلانی کی استقامت کو آج تک کوئی ہلا نہیں سکا۔ کشمیری عوام کے لیے وہ ایک ایسے چھتناور درخت تک کی حیثیت رکھتے تھے جس کے سائے تلے ایک قوم پنپ رہی تھی۔ ان کے چہرے پر جو ایک ٹھہراؤ تھا وہ بلا شبہ ایک داستان گو جیسا تھا۔ ہم سب ان کی وفات پر سوگوار ہیں۔ سیّد علی گیلانی 91 برس کی عمر میں اپنے لوگوں کی آزادی کے خواب پلکوں پہ سجائے اس دارِ فانی سے کُوچ کر گئے۔ وہ کشمیریوں کے ایسے عظیم رہنما تھے جس نے اپنی زندگی اپنے لوگوں کی آزادی اور سکون کے لیے وقف کر دی تھی۔ سیّد علی گیلانی آزادی کی بند سیپ میں چھپا وہ قیمتی موتی تھا جو عزم و استقلال کی چلتی پھرتی تصویر تھا۔ بقول شاعر:
؎جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم
جو چلے تو جاں سے گزر گئے
سیّد علی شاہ گیلانی 1929 کو سَو پُور بارہ مُولا میں پیدا ہوئے۔ وہ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے سربراہ بھی رہے۔ وہ جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے رُکن بھی رہے۔ وہ عمر بھر مضبوطی سے چٹان کی طرح اپنے اصولوں اور مؤقف پر ڈٹے رہے۔ سیّد علی شاہ گیلانی کشمیریوں کی آزادی کی ان تھک تحریک کا وہ روشن ستارہ تھے جو ظلم کی اندھیری راتوں میں چمکتا تھا۔ وہ خود تو کشمیر کی جنت نظیر وادی کی آزادی کی تمنا اس دل میں لیے ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ لیکن یہ تحریک جو عمروں سے بھی لمبی ہے یہ کشمیر کی آزادی تک چلتی ہی رہے گی۔ بھارت نے ایک بار پھر اپنا ظالم اور مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ بھارتی حکومت نے ان کی تدفین میں بھی رکاوٹیں کھڑی کیں۔ ان کی رحلت کی خبر سنتے ہی بھارتی حکومت نے ان کے گھر کا گھیراؤ خار دار تاریں لگا کر کیا۔ وصیتیں بھی امانتیں ہیں اور امانتیں بلا شبہ لوٹانے کے لیے ہوتی ہیں۔ مگر ظالم بھارت نے سیّد علی شاہ گیلانی کی وصیت کے مطابق ان کی تدفین سری نگر کے شہدا کے قبرستان میں نہیں ہونے دی۔ زبردستی ان کی تدفین حیدر پورہ کے آبائی قبرستان میں کی گئی۔ حتیٰ کہ ان کے بیٹے اور بہو کو زخمی بھی کیا۔ ان کے اہلِ خانہ کو پوری طرح سے آخری رسومات بھی ڈھنگ سے ادا نہیں کرنے دیں۔ سیّد علی گیلانی کی رحلت سے کشمیر کی عوام یتیم ہوگئی ہے۔ لیکن دنیا بھر کی سُپر طاقتوں کو انڈیا کی مارکیٹ تو نظر آتی ہے وہ افغان عورتوں کی آزادی کی بات تو کرتی ہیں مگر ان کو کشمیر کے درماندہ عوام دکھائی نہیں دیتے کیا؟ مقبوضہ جموں و کشمیر کے بابائے حقِ خود ارادیت کے انتقال سے نہ صرف کشمیر بلکہ تمام مسلمانوں میں ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے جو صدیوں تک نہیں بھر سکے گا۔ آج سے چھ برس پہلے جب سیّد علی شاہ گیلانی سعودی عرب میں اپنی بیمار بیٹی سے ملنے جانے کے لیے پاسپورٹ آفس گئے۔ تب بھارتی پولیس نے انہیں نظر بندی سے رہائی دی تھی۔ تب پاسپورٹ والوں نے کہا کہ انہوں نے اپنی شہریت کے خانے کو خالی رکھا مزید کہا کہ ان کی عرضی نا مکمل اور غیر قانونی ہے۔ تب اس شیر دل مجاہد نے کہا: “By Birth I am not Indian, we are under occupation” ہمارا کاز بہت مقدس ہے۔ ہم قبضہ ہوجانے کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں گزشتہ 69 سال سے and that will continue انشاء اللہ!
سید علی گیلانی صاحب کی کتابوں میں معصوم شہریوں کے قتل کی شدید مذمت کی گئی خواہ وہ کسی بھی مذہب یا طبقے سے تعلق رکھتے ہوں۔ لگ بھگ دو ڈھائی سال پہلے جب بزرگ رہنما سیّد علی گیلانی کو پھر سے نظر بند کیا گیا تو ان کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ کہہ رہے تھے: ”بتاؤ ہم کیوں بند ہیں؟ دروازہ کھولو! ہندوستان کی جمہوریت کا جنازہ نکل رہا ہے؟ کون اجازت نہیں دے رہا۔ دروازہ کھولو! ان کی ضعیف مگر توانا آواز نے بھارتی فوجیوں کو للکارا۔ دنیا بھر میں ان کی یہ آواز سنی گئی مگر افسوس صد افسوس! اقوام متحدہ جو انسانوں کے حقوق کی خاطر بنائی گئی اس کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ اے دنیا کی طاقتو! ہم تم سے سوال کرتے ہیں کہ کیا کشمیریوں کو یہ حق بھی نہیں کہ انہیں ان کی مرضی سے دفن کیاجاسکے۔ یہ بات مودی حکومت کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتی ہے۔ کشمیر پر قابض بھارتی فوج نے اس شیر دل مردِ مجاہد کو 12 برس سے مسلسل نظر بند رکھا۔ لیکن سلام ہے اس عظیم رہنما کو جو عمر بھر بھارتی سامراج کے سامنے ڈٹے رہے۔ سیّد علی گیلانی کی زندگی کا سفر بہت طویل تھا۔ انہوں نے بہت سے نشیب و فراز کو نہ صرف دیکھا بلکہ دلیری سے سامنا بھی کیا۔ وہ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیّد پیر شاہ گیلانی ایک قلی کی حیثیت سے کام کرتے تھے اور بہت محنتی آدمی تھے۔ وہ ان پڑھ تھے لیکن تعلیم کے ساتھ ان کی بہت محبت تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی اولاد تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو۔ سیّد علی گیلانی نے لاہور کے اورینٹل کالج سے اُردو اور فارسی میں تعلیم حاصل کی۔
بھارت نے اپنی مکارانہ چالوں سے روزِ اول سے ہی پوری کشمیر ریاست پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ 370 ہٹانے کے بعد بھارت نے کشمیر میں تمام مواصلاتی نظام بھی بند کر دیا۔ اب ان کے انتقال کے فوراً بعد ہی انٹرنیٹ اور موبائل سروس پھر سے بند کر دی گئی۔انہوں نے اپنی آخری سانس تک آزادی کی جنگ لڑی۔ اپنے لوگوں کی وہ پودوں کی طرح پتوں، شاخوں، گلابوں اور پھولوں کی طرح آبیاری کرتے رہے۔ ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ خدا ان کی قبر کو جنت کا باغیچہ بنائے! آمین! بلا شبہ وہ ایک شہید ہیں۔ الوادع! اے کشمیر کے شیر دل مجاہد! ایسے لوگ نایاب ہیں۔ بقول شاعر:
ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
(کالم نگارقومی وسماجی ایشوزپرلکھتی ہیں)
٭……٭……٭

جی ایس پی پلس کا مستقبل؟

مرزا روحیل بیگ
جی ایس پی پلس یورپی یونین کی جانب سے ایک ایسا ترجیحی نظام ہے جو کہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے عام قوانین سے چھوٹ اور آسانی فراہم کرتا ہے۔ جس کی سہولت یورپی یونین کی جانب سے 90 سے زائد ترقی پذیر ممالک کو دی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے 1971 میں ایک قرارداد منظور کی کہ یورپی ممالک ترقی پذیر ممالک کی برآمدات بڑھانے اور وہاں پر روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے ان ممالک کی مصنوعات کو یورپی منڈیوں تک رسائی دے۔ جس کے بعد جنرلائزڈ سکیم آف پریفرنسز کا آغاز ہوا۔ جس کے تحت یورپی منڈیوں تک پہنچنے والی مصنوعات کے ڈیوٹی ٹیرف کو ختم یا ان میں کمی کر دی جاتی ہے۔ اس سکیم کے تین مرحلے ہیں جس میں بنیادی جی ایس پی، جی ایس پی پلس اور ایوری تھنگ بٹ آرمز یعنی اسلحے کے علاوہ سب شامل ہیں۔ جس ملک کو بھی یہ درجہ دیا جاتا ہے اسے انسانی حقوق، مزدوروں کے حقوق، ماحولیات کے تحفظ اور گورننس میں بہتری سمیت 27 بین الاقوامی معاہدوں کی توثیق کرنا ہوتی ہے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے بنیادی اصولوں کے تحت صنعتوں اور کارخانوں میں یونین سازی کو یقینی بنانا ہو گا، جبکہ جبری یا رضاکارانہ مشقت، چائلڈ لیبر، کام کی جگہ پر جنس، رنگ و نسل اور عقیدے کی بنیاد پر امتیازی طرز عمل کو ختم کرنا ہو گا۔ رواں برس یورپی پارلیمنٹ نے پاکستان میں توہین مذہب کے حوالے سے الزامات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کو جی ایس پی پلس اسٹیٹس پر نظر ثانی کی قرارداد منظور کی۔ اگر خدانخواستہ پاکستان سے جی ایس پی پلس کا درجہ واپس لے لیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان ان ممالک کو مصنوعات برآمد نہیں کر سکے گا۔ تاہم ڈیوٹی فری سہولت واپس ہونے کی وجہ سے اسے جی ایس پی پلس کے حامل دیگر ممالک بشمول بنگلہ دیش سے مقابلہ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہو گا۔ یورپی یونین کے لئے پاکستانی برآمدات کا حجم جی ایس پی پلس اسٹیٹس سے قبل 2013 میں 4 ارب 53 کروڑ 80 لاکھ یورو تھا جو 2019 تک 65 فیصد اضافے کے بعد 7 ارب 49 کروڑ 20 لاکھ یورو ہو گیا تھا۔ وزارت خزانہ کے-20 2019 کے اقتصادی سروے کے مطابق گزشتہ مالی سال میں ڈالر کے مقابلے میں یورو کی قیمت میں کمی کے باوجود پاکستان یورپی منڈیوں میں اپنی تجارت بڑھانے میں کامیاب ہوا ہے۔
ویلیو ایڈڈ مصنوعات کے ساتھ پاکستان کی یورپی یونین کو برآمدات میں چھ اعشاریہ نو فیصد اضافہ ہوا۔ پاکستان یورپی منڈیوں میں کم و بیش آٹھ ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کرتا ہے جبکہ وہاں سے درآمدی بل پانچ ارب ڈالر کا ہے۔ دنیا کے بہت کم ممالک ہیں جن کے ساتھ ہمارا تجارتی حجم مثبت رہتا ہے اور ہمیں وہاں خسارہ نہیں ہوتا۔ ان میں ایک امریکا اور یورپ ہے۔ ہمارا یورپ کے ساتھ کم و بیش تین ارب ڈالر کا سر پلس ہے۔ عمومی طور پر یورپی یونین ممالک پر درآمدی ڈیوٹی کی شرح 10 سے 14 فیصد ہے اگر پاکستان سے یہ سہولت واپس لے لی جائے تو پاکستان کو بڑا نقصان ہو گا۔ سال -20 2019کے مطابق یورپی یونین پاکستان کی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی ہے اور جی ایس پی پلس کے تحت پاکستانی مصنوعات کو یورپی یونین کے 27 ملکوں میں بغیر کوئی ڈیوٹی کے رسائی حاصل ہے۔ یورپی یونین کو بیچی جانے والی اشیا میں سے سب سے زیادہ 76 فیصد حصہ ٹیکسٹائل مصنوعات کا بنتا ہے۔ حکومت کو جی ایس پی اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیئے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے، ورنہ پاکستان کو مستقبل میں بڑی معاشی مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ پاکستان کو یورپی یونین میں موجود ہر ملک کی قیادت کے ساتھ ملاقات کر کے صورتحال کو واضح کرنا ہو گا۔ اگر خدانخواستہ یہ سہولت ختم ہوئی تو پاکستان کی معیشت کو بھاری نقصان کا اندیشہ ہے۔
ہم گزشتہ کئی عشروں سے امریکا اور یورپی ممالک کے صف اول کے اتحادی بنے ہوئے ہیں اور ان کی ہر جائز و ناجائز خواہش اور فرمائش کے سامنے سر تسلیم خم کر رہے ہیں مگر پھر بھی ناپسندیدہ بنے ہوئے ہیں۔ ہم ان کی تمام تر غلامیوں اور احکامات کی بجا آوریوں کے باوجود مصر کی طرح بھی نہ ہو سکے جس نے اپنے قرضے معاف کرا لیئے یا بھارت کی طرح بھی نہ ہوئے جو ان کے نہ توکوئی ناجائز مطالبات مانتا ہے اور نہ ان کی سنتا ہے۔ یہی بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے میں ہمہ وقت متحرک رہتا ہے اور وہ اس وقت بھی پاکستان کے خلاف یورپی یونین کے ممالک میں لابنگ کر رہا ہے۔ لہٰذاحکومت یورپی یونین میں موجود کمرشل قونصلرز کو مزید متحرک کرے تاکہ جی ایس پی پلس کا درجہ برقرار رہے، کیونکہ پاکستان کی معاشی فلاح و بقا کا راز اسی میں مضمر ہے۔
(کالم نگارجرمنی میں مقیم،بین الاقوامی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭’