تازہ تر ین

ایک امکانی طورپربڑا خطرہ

خضر کلاسرا
بلاول بھٹو زرداری کا دورہ جنوب خاص توجہ کا مرکزیوں بن گیاہے کہ سید یوسف رضاگیلانی، بلاول بھٹوزرداری کے دورہ کو یادگار بنانے کیلئے وزیراعظم عمران خا ن کے سینیٹ کے الیکشن کے امیدوار حفیظ شیخ کی شکست جیسا سرپرائز دینے جارہے ہیں۔ اس میں وہ کتنا کامیاب ہوتے ہیں؟ اس کیلئے زیادہ انتظارنہیں کرنا پڑے گا۔ سیدیوسف گیلانی کے بارے میں اس بات پر تو سب اتفاق کرتے ہیں کہ موصوف سیاسی میدان میں مخالف پر وار کرنے میں ثانی نہیں رکھتے ہیں۔ اس کی مثال یوں بھی دی جاسکتی ہے کہ گیلانی نے نوازشریف کو ملتان سے اس وقت شکست دی تھی جب وہ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ بھی تھے۔ اسی طرح ابھی حال ہی میں حفیظ شیخ کو اس وقت شکست سے دوچار کیا،جب وزیراعظم عمران خان اپنی پوری حکومتی طاقت سے اس کے پیچھے بحیثیت تحریک انصاف امیدوار کھڑے تھے لیکن گیلانی صاحب نے وزیراعظم عمران خان کے امیدوار کو چاروں شانے چت کرکے پورے ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز کروادیا کہ وزیراعظم عمران خان کیساتھ تو اس کی پارٹی کے ارکان اسمبلی بھی نہیں ہیں۔کیوں کہ گیلانی کی جیت اس بات کی چغلی کھاکررہی تھی کہ تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کے ووٹوں کے بغیر جیت ممکن نہیں تھی۔
میرے جیسے لوگ گیلانی کی بحیثیت سینیٹ کے امیدوار اسلام آباد آمد پر ہی یہ بات کر رہے تھے کہ جو اپنے تئیں سمجھدار وزیراعظم عمران خان کو اسلام آباد کی سینیٹ کی نشت پر گیلانی کو بحیثیت امیدوار آسان لینے کا لقمہ دے رہے ہیں، وہ مخلص نہیں ہیں۔یوں یہی کرداروزیراعظم عمران خان کو اعتماد دے کر بڑے اپ سیٹ سے دوچارکروائینگے۔ پھر وہی ہوا کہ اقتدار میں آنے کے بعد پہلی بار وزیراعظم عمران خان، سید یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں حفیظ شیخ کی شکست پر سنبھلتے، سنبھلتے یوں جاسنبھلے کہ ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینا پڑا تھا جوکہ خاصا مشکل امتحان تھا کہ کہیں گیلانی وزیراعظم عمران خان کے ہی انویسٹر مطلب جہانگیر ترین کو اس کیخلاف استعمال کرکے وزیراعظم عمران خان کو ہی اعتماد کا ووٹ لینے سے نہ کردے۔ یہی وجہ تھی کہ چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی وزیراعظم عمران خان اور جہانگیر ترین کے مشترکہ دوستوں اور سمجھداروں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ گیلانی کے وار کو یہاں اب کامیاب نہ ہونے دیاجائے۔ادھر گیلانی بھی وزیراعظم عمران خان کیخلاف کوئی باریک گیم چل کر مسلم لیگ نواز کی قیادت کیلئے سیاسی میدان میں آسانی پیدا کرنے کے موڈ میں نہیں تھے؟سید یوسف رضاگیلانی کی سیاسی چالوں کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے دور اقتدار میں جب گیلانی وزیراعظم تھے تو موصوف نے سب سے زیادہ فنڈز اپوزیشن جماعت مسلم لیگ نواز کے ارکان اسمبلی کو دیئے جوکہ عموماً پاکستان جیسے ملک میں نہیں ہوتاہے،یہاں تو یہ فیشن ہے کہ اپوزیشن ارکان اسمبلی کو دیوار کے ساتھ لگا کر رکھاجاتاہے، فنڈز تو کہیں خوابوں اور خیالوں میں ملتے ہیں۔سید یوسف رضا گیلانی کے نواز لیگی ارکان اسمبلی کو فنڈز دینے کا انکشاف اس وقت ہوا جب پاکستان پیپلزپارٹی کے پارلیمنٹرین نوید قمر نے قومی اسمبلی میں سوال پوچھا کہ سید یوسف رضا گیلانی نے بحیثیت وزیراعظم سب سے زیادہ فنڈز کس جماعت کے ارکان اسمبلی کو دیئے ہیں تو پتہ چلا کہ سید یوسف رضا گیلانی نے سب زیادہ فنڈز اپنی جماعت پیپلزپارٹی کے ارکان اسمبلی کو نہیں بلکہ نوازلیگی ارکان اسمبلی کو جاری کیے ہیں۔یقینا پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت اورارکان قومی اسمبلی کیلئے یہ بات صدمہ سے کم نہیں تھی کہ گیلانی اپنی پارٹی پر مخالف جماعت مسلم لیگ نواز کو برتری دے رہے ہیں۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ گیلانی کو ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ اپنی پارٹی قیادت اور پیپلزپارٹی ارکان اسمبلی کو ناراض کیاجائے۔ہمارے خیال میں سید یوسف رضا گیلانی وہ سیاسی سرمایہ کاری نواز لیگی ارکان اسمبلی پر ان دنوں کیلئے کررہے تھے؟ مطلب اپوزیشن کے وقت کیلئے کررہے تھے، اس وقت کیلئے جب پاکستان پیپلزپارٹی کو مسلم لیگ نواز سمیت تحریک انصاف پر برتری کی ضرورت ہوگی۔
ہمارے خیال میں ایک تو نوازلیگی دور میں نوازلیگی ارکان اسمبلی وہ حکومت کا جہاں بھی حصہ تھے، ان کو یوسف رضا گیلانی بحیثیت وزیراعظم اپنے اوپر فنڈز کی شکل میں احسانات یاد تھے، اور گیلانی کیلئے وہ کچھ کرنے کا پنجاب کی روایات کے مطابق جذبہ رکھتے تھے۔ دوسرا سید یوسف رضاگیلانی نے بحیثیت وزیراعظم جو سیاسی سرمایہ کاری نوازلیگی ارکان اسمبلی اور جنوب کے مختلف پارٹیوں کے ارکان اسمبلی پر کی تھی اس کا فائدہ گیلانی کو وزیراعظم عمران خان کو ہوم گراونڈ مطلب اسلام آباد میں حفیظ شیخ کو سینیٹ کے الیکشن میں شکست سے دوچار کرکے ملاہے۔پاکستان پیپلزپارٹی کے بارے میں،تجزیہ کاروں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی وفاق میں اس وقت حکومت بنانے کی پوزیشن میں آسکتی ہے جب پیپلزپارٹی سندھ کے بعد پنجاب کے جنوب میں بڑی اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئے جیسا کہ ہم نے 2008ء کے الیکشن میں دیکھاتھا۔ اب یہ تو دیوار پہ لکھا سچ ہے کہ مسلم لیگ نواز کو وسطی پنجاب میں پیپلزپارٹی وہ ٹف دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے جوکہ بینظیر بھٹو کے وقت تک دیاجاتارہاہے۔ اب دلی دور است جیسی صورتحال ہے؟ وسطی پنجاب میں تو نوازلیگی اس قدر الیکشن سیاست میں مضبوط ہوچکے ہیں کہ 2018ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کو اسٹبشلمنٹ کی مکمل آشیر باد حاصل ہونے کے باوجود تحریک انصاف کو مسلم لیگ نواز کے مقابلے میں وہ نتائج نہیں ملے، جس کی وہ توقع کررہے تھے۔
یوں مسلم لیگ نواز کو تحریک انصاف نے وسطی پنجاب میں اکثریتی پارٹی تسلیم کرتے ہوئے اس کوشش میں ہے کہ پنجاب کے جنوب کو اپنے حصار میں رکھا جائے، جیسا کہ ہم نے 2018 ء کے الیکشن سے پہلے بھی دیکھا کہ عمران خان کیلئے وزیراعظم ہاوس تک پہنچنے کیلئے اس وقت تک راہ ہموار نہیں ہوئی جب تک جنوب کے ارکان اسمبلی نے صوبہ محاذ کے نام پر ایک دھڑا بنا کر منصوبہ بندی کے تحت تحریک انصاف کو جوائن نہیں کیا تھا۔مطلب اسلام آباد کیلئے تحریک انصاف، پاکستان پیپلزپارٹی یا نوازلیگی قیادت کو پنجاب کے جنوب کے سیاسی میدان میں اپنے آپ کو مضبوط ثابت کرنا ہوگا وگرنہ جس کے پیچھے جنوب کھڑا نہیں ہوگا وہ وفاق کے اقتدار سے دور ہی نہیں بلکہ بہت دور ہوجائیگا۔اس بات کا اندازہ وزیراعظم عمران خان، نوازلیگی لیڈر نواز شریف اور آصف علی زرداری کو بخوبی ہوچکا ہے؟ یوں الیکشن کا ذکر ہوتے ہی سب پارٹیوں کی نظریں جنوب پر مرکوزہو جاتی ہیں۔
تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز پرپاکستان پیپلزپارٹی کو جنوب میں برتری یوں ہے سید یوسف رضاگیلانی جنوب کے مرکز ملتان سمیت بہاولپور اور تھل میں خاصا اثرورسوخ اور اعتمادرکھتے ہیں جوکہ سیاست اور سیاست سے ہٹ کر بھی ہے۔ جنوب میں گیلانی کے بارے میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز کی طرح یہ بات مشہور ہے کہ گیلانی دھوکہ نہیں دے گا۔اسی طرح سمجھدار کہتے ہیں کاروبار میں ہی نہیں سیاست میں بھی اعتماد چلتاہے۔ادھر سید یوسف رضاگیلانی اس وقت پوری تیاری کے ساتھ وزیراعظم عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کو اگلے الیکشن میں جنوب سے آ ٓوٹ کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ کیوں کہ وزیراعظم عمران خان ہی نہیں اسٹبشلمنٹ بھی نہیں چاہ رہی ہے کہ نوازلیگی قیادت اگلے الیکشن میں اکثریتی جماعت کے طورپر سامنے آکر اقتدار سنبھال لے۔یوں گیلا نی کا فوکس نوازلیگ کی بجائے تحریک انصاف پرہے کہ اس کو جنوب میں الیکشن میں حفیظ شیخ جیسے انجام سے دوچار کیاجائے۔
(کالم نگاراسلام آباد کے صحافی اورتجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain