اگلی بازی فیر نیازی

انجینئر افتخار چودھری
جناب حسن نثارصاحب آپ میرے پروگرامز کے حوالے سے آئیڈیل ہیں۔ابرارالحق نے برادری ازم کے حوالے سے بات نہیں کی۔آپ کو غلط فہمی ہے۔نعروں میں فلسفہ نہ تلاش کریں اور نہ ہی نعرے منشور ہوتے ہیں۔دنیا کی کوئی بھی تحریک دیکھ لیں یہ نعرے جذبہ اور جنوں پیدا کرتے ہیں سب سے اعلیٰ نعرہ نعرہ تکبیر ہے۔ہر مذہب ہر قوم کے اپنے نعرے ہوتے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آپ جیسے دانشوروں اور صحافیوں کو وہاں اگلی صفوں میں بٹھایا جاتا لیکن ہم اتنے عقلمند کہاں۔ہم نے تو ان وزرا کو زبردستی سیٹیں خالی کروا کے آگے بڑھانا ہوتا ہے جن میں سے اکثر،،شریک سفر،،، نہ تھے۔میں نے یہ بھی دیکھا کہ کچھ وزرا کو جہاں جگہ ملی وہ بیٹھے گئے اس تقریب کے منتظم اعلیٰ فواد چوہدری اسد عمر شہباز گل فرخ حبیب تو کونے میں بیٹھ کر تقریب کو چلاتے رہے۔پاکستان کے نامور صحافی کالم نویس جناب حسن نثار نے اپنے پروگرام میں جو کچھ فرمایا اس کے جواب میں پیار اور محبت سے چند سطریں حاضر خدمت ہیں۔
اپوزیشن،،نیازی،، کہہ کر عمران خان کو چھیڑتی ہے وہ طعن و تشنیع سمجھ کر ایک عرصے سے یہ کام کر رہی ہے وہ سمجھتی ہے ہر نیازی جنرل نیازی ہوتا ہے اسے وہ دراز قد عبدالستار نیازی نہیں نظر آتا۔شائد اسی وجہ سے ہمارے،،ہمسفر،، نے یہ نعرہ تخلیق کیا ہے مبارک ہو ابرار بھائی۔
دوسری بات غریب کی ہے آپ جب ایسی بات کریں گے تو ہم سب طبقاتی تقسیم کی طرف نکل جائیں گے۔لوئر مڈل کلاس مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس تو آپ کی بات کو سراہیں گے مگر غریب نہیں۔یہ جن جھگیوں والوں کی آپ بات کرتے ہیں یہ پورے ملک کا ایک فی صد بھی نہیں۔محترم آپ معاشرے کی آنکھ ہیں آپ ان کی طرف دیکھیں جو صبح دیہاڑی کے لیے نکلتا ہے اور اسے ملتی نہیں وہ آٹھ دس گھنٹے بیلچہ گینتی چلانے منہ اندھیرے چوک میں آ جاتا ہے کبھی دیہاڑی لگتی ہے اور کبھی نہیں۔اپ اس غریب کی بات کریں جو مزدوری کے بعد رات کو گھر جاتے ہوئے گھی کا ایک ہاؤچ آٹے کا کلو تھوڑی سی چینی اور پتی لے جاتا ہے۔سر آپ درد مند دل رکھتے ہیں مجھے کہنے دیجیئے حسن نثار صاحب غربت نشہ نہیں ہے میں نے غربت دیکھی ہے جناب عالی اسے نشہ نہ کہیں یہ کیچڑ ہے دلدل ہے جس میں حالات کسی بد نصیب کو دھکا دے کر گراتے ہیں جس میں پاکستان کے تیس فی صد لوگ پھنس چکے ہیں ان کے سامنے بت بن کر کھڑی سرمایہ داروں کی بنی ہوئی ایک دیوار ہے۔آپ جسے لوئر مڈل کلاس کہتے ہیں وہ بھی غریب ہی ہے۔
”اگلی بازی فیر نیازی“کا نعرہ بھی وہ غریب ہی لگا رہا ہے جسے ”احساس“ سے فائدہ ملا ہے۔سر غریب کو اس طرح نہ دھتکاریں غربت نشہ نہیں ایک کنواں ہے جو امیر نے کھود رکھا ہے۔یہ ایک تگڑے آدمی کی کمزور پر سبقت لے جانے کے بعد کے اثرات اور مضمرات ہیں۔امریکہ میں بھی غریب ہیں مگر وہاں غربت کا پیمانہ ایک ڈالر فی کس کمانا نہیں وہاں بیس ڈالر ہے اوربیس ڈالر اگر پاکستان میں ملنے شروع ہو جائیں تو کوئی غریب نہیں رہتا۔حکومت نے مزدور کی تنخواہ ساڑھے سترہ ہزار رکھی ہے۔میں یہاں پوچھنا چاہوں گا اس اشرافیہ سے کہ دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ آپ سے جڑے لوگوں کو یہ تنخواہ مل رہی ہے۔میں اپنے رب کو گواہ رکھ کر بات کر رہا ہوں کہ میرے ساتھ جڑے لوگ یہ تنخواہ یہ لوگ چوکیدار ڈرائیور اور باورچی کی حیثیت سے لے رہے ہیں کبھی کسی وقت آپ کو بتاؤں اور دکھاؤں گا کہ میں نے نوکروں کے لیے گھر کی چھت پر ایک منزل کا اضافہ کیا ہے دو کمرے باتھ موجود ہے ان کے کپڑے دھونے کھانے پینے کا بندوبست کر رکھا ہے تنخواہ کچھ بھی ہو جائے پانچ سے پہلے دے دی جاتی ہے۔وہ بھی اپنی جان لڑا رہے ہیں سخت ڈیوٹی اور نرم ڈیوٹیاں دونوں انجام دے رہے ہیں۔یہ تین چار لوگ خط غربت سے نکل گئے ہیں اس لئے کہ ان کا ماہانہ خرچ کچھ بھی نہیں۔ اگر ہے بھی تو انہیں کچھ نہ کچھ دے دیا کرتا ہوں۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف غریب ہی اپنی تنگدستی کا زمہ دار ہے نہیں سر یہ کہہ کر ہم ان ظالموں کا ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں جو ان کی محنت کا مناسب عوضانہ نہیں دیتے۔امیر امیر تر ہے ان کی انڈسٹریز دن بدن پھیل رہی ہیں میں ایک سرمایہ دار کو جانتا ہوں جس کے پاس فیکٹریوں کی لائن لگی ہوئی ہے وہ اپنے لوگوں کو کیش تنخواہ دیتا ہے کوئی اس سے مطالبہ نہیں کرتا کہ مجھے سیلری بینک میں چاہئے ہر مہینے فقیروں کی طرح لائن میں لگا کر تنخواہ دی جاتی ہے تنخواہ کا لفافہ دیتے وقت ساتھ میں ایک آدھ چمچہ بیٹھا ہوتا ہے جو اس کے کیے پر لعن طعن کرتا ہے۔
یہ لوئر مڈل کلاس کا نمائندہ ہوتا ہے۔اگر تنخواہیں بینکوں کے ذریعے دے دی جائیں تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں بینک اس پر قرض دے سکتے ہیں ہاؤسنگ اتھارٹی سے قرضہ لیا جا سکتا ہے۔
میرا اپنا خیال ہے کہ اس وقت خط غربت سے نیچے والے لوگ جدوجہد کر رہے ہیں یہ اس کنویں سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے اوپر اپر کلاس کے لوگوں نے لوئر مڈل کلاس کا ایک نمائندہ بٹھا رکھا ہے جو انہیں جوتے مار کر پھر نیچے بھیج دیتا ہے۔ یہاں اس موقع پر آپ جیسے دانشور سے درخواست ہے انہیں غربت کے نشے کا کھلاڑی نہ قرار دیں بلکہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے اس گہرے کنویں سے نکالیں وہ آپ کو دعائیں دے گا۔
میں نے اپنی آنکھوں سے ان غریبوں کو دیکھا ہے جو ان جھونپڑیوں سے نکلے بیرون ملک چلے گئے اور وہاں سے امیر بن کر آئے پاکستان کی سڑکوں کی خوبصورتی انہی محنت کشوں کے دم سے ہے جو بیرون ملک سے آئے اور اس وطن کے نصیب روشن کئے۔ اس قوم میں کیادنیاکے ہرمحنتی شخص کے نصیب میں آسانیاں ہیں انا مع العسر یسرا ہر تکلیف کے بعد آسانی ہے۔لوگ ہمیں ریویو ڈالوں میں پھرتا دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں ہم شروع سے ہی امیر ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ 1979 میں ہم مرسیڈیز کے مالک تھے لیکن 1977 میں ہم عارضی طور پر غربت کی کھائی میں گر گئے۔1968 سے 1975 کا دور ایک مشکل دور تھا ہم غربت کی اس دلدل میں پھنس گئے جس کی تلخ یادیں آج بھی ہیں۔مجھے اسوقت یہ کیوں لکھنا پڑ رہا ہے اس کی بڑی وجہ آپ کا بیان ہے جناب حسن نثار صاحب یہ ان لوگوں کی کمر توڑ کے رکھ دے گا جو غربت کے اژدھے کی لپیٹ سے نکلنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہم بھی محنت سے نکلے انہیں بھی نکلنے دیں۔یقین کیجئے غربت ایک دلدل ہے اور اس سے نکلنے کی جد وجہد ایک نشہ ہے۔میں اس نشے کو نہیں بھول سکتا جب 1975 میں اپنے گھر بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی لے کر آیا۔
غریب کو طعنہ نہ دیں وہ آج بھی سر توڑ کوشش کر رہا ہے آپ اس سرمایہ دار کی بات کریں جو آج بھی اسے اسی کھائی میں رکھنا چاہتا ہے۔کاش ہماری حکومتیں ان امرا کے چنگل سے باہر آئیں انویسٹر کے چونچلے ضرور اٹھائیں مگر ان سے یہ تو پوچھیں کہ آپ اپنے ساتھ جڑے ہوئے لوگوں کو کیا دے رہے ہیں۔
آپ کو سعودی عرب اچھا نہیں لگتا میں آپ کو چھوٹی سی مثال دیتا ہوں ایک کمپنی میں پانچ دن کام کیا اور کسی وجہ سے الگ ہو گیا مجھے ان دنوں کی تنخوا بغیر مانگے ادا کر دی گئی میں 1977 کی بات کر رہا ہوں جب سعودی عرب ابھر رہا تھا ایک مہینہ کام کیا انہیں میرا کام پسند نہیں آیا ایک اضافی مہینے کی تنخواہ دے کر فارغ کیا گیا انہوں نے بتایا گرچہ کنٹریکٹ کے خلاف ہے اور آپ کا حق نہیں بنتا لیکن اس لئے دے رہے ہیں کہ آپ کو نوکری تلاش کرنے میں دقت نہ ہو۔
حضور یہ ہے احساس۔یہ پروگرام ہمارے ہاں کب نافذ ہو گا اس وقت ہو گا جب سرمایہ دار کہے گا یہ کو ایک مہینے کی تنخواہ اور راستہ ناپو۔یہاں ایک سیکورٹی گارڈ کو کہہ دیا جاتا ہے یہ کل سے گیٹ کے اندر نہ آئے۔
حضور عمران خان کا احساس پروگرام تو ہے لیکن احساس ان سرمایہ داروں میں نہیں۔بحریہ ٹاؤن میں ایک تقریب تھی میں مہمان خصوصی تھا وہاں اسلام آباد چیمبر سے ایک خاتون بھی آئی ہوئی تھیں میں نے جب غریب مزدور کی حالت زار کی بات چھیڑی تو موصوفہ نے کہا کہ ان کی حالت سنوارنے کا مسئلہ ہمارا نہیں آپ حکومت میں ہیں آپ حل کریں۔یعنی مال وہ کمائیں اور غریب کے بچے کی اسکولنگ اس کی ٹرانسپورٹ میڈیکل کا بندو بست حکومت کرے۔ہم فوج کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں مجھے پچھلے دنوں ایف ایف سی جانے کا موقع ملا ماچھی گوٹھ میں ان کی رہائش گاہ دیکھی دل باغ باغ ہو گیا ایک ڈپلومہ انجنیئر جس کا تجربہ دس سال ہے وہ اوسطا ڈیڑھ سے دو لاکھ کما رہا ہے رہائش بہترین بچوں کی اسکولنگ فری۔یہ کام ہمارے دوسرے لوگ کیوں نہیں کرتے۔اس لئے کہ ان کی جیب سے جاتا ہے اپنے بچوں کی آیا فلپائنی سے آتی ہے اور غریب کا بچہ اڑھائی سو فیس والے اسکول میں اللہ صحت دے شفقت محمود کو جس نے یکساں نصاب تعلیم دے دیا۔معاشی فکر سے آزاد مزدور جس کو میڈیکل بھی مل جائے اس کے بچے بہترین بسوں میں اسکول بھی جائیں اسے اور سہولتیں بھی حاصل ہوں اس کی پیداواری صلاحیت کیوں نہیں بڑھے گی یہ فوجیوں کو علم ہے قومی خدمت اپنی جگہ لیکن جو آسائشیں سہولتیں ان لوگوں کو دی جاتی ہیں ہمارا سرمایہ دار کیوں نہیں دیتا۔
مانی میرے پاس مزدوری کرتا تھا 502گجر گھر بنا رہا تھا سخت جان تھا دو مزدوروں کا کام کر جاتا تھا۔ وہ فوج میں چلا گیا ایک دن اسے گھر چائے پر بلایا تو پوچھا کیسے دن گزر رہے ہیں۔آپ کو بتاؤں اس نے فوج کیوں جوائن کی کہنے لگا تنخواہ اچھی ہے میڈیکل ہے اور سب سے بڑھ کے لوگ عزت کرتے ہیں۔
کاش ہم بھی اپنے مزدور کویہ چیزیں دیں عزت تنخواہ علاج معالجہ۔
آفرین ہے،،نیازی،، تو نے یہ کام کرنے شروع کر دئے ہیں ابراراحق نے،،اگلی بازی فیر نیازی،، کا نعرہ دے کر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ عمران خان نیازی کو لوگ پھر اقتدار میں لائیں گے۔
لفظ نیازی اس نیازی کے لیے نہیں ہے جو کراچی کی سڑکوں پر ٹینکر چلاتا ہے یہ شعر کے وزن کی ضرورت تھا جب اگلی وار فیر۔ شیر کا نعرہ لگتا ہے تواس سے مراد یہ نہیں ہوتا کہ چڑیا گھر سے شیر کو نکال کر اقتدار کی مسند پر بٹھایا جائے گا اس سے مراد نواز شریف ہے۔
عمران خان کے تین سال سچ ہوچھیں زرداری اور نواز شریف کے تیس پینتیس سالوں سے بہتر ہیں۔ اس روز ایک اور نعرہ بھی لگا تھا شائد وہ عوام کی جانب سے تھا غریبوں کی گیلری سے تھا،،فواد آیا سواد آیا،،۔
اس نعرے ہر بھی توجہ دی جائے۔قوموں میں جب جذبے پیدا ہوں تو نعرے بننے شروع ہوتے ہیں،،یہ جو نئی بیماری ہے زرداری ہے کا نعرہ میں نے دیا تھا یہ علامت ہوتی ہے کوئی منشور نہیں اگلی واری فیر کا جواب اگلی بازی فیر نیازی سے بہتر کوئی اور نعرہ نہیں ہو سکتا لہٰذہ جناب حسن نثار صاحب اسے برداشت کریں۔لفظ سنگر کو تضحیک کا نشانہ نہ بنائیں۔ دنیا کی کوئی تحریک دیکھ لیں اس میں شاعر ضرور ہوتا ہے تحریک پاکستان میں کسی شاعر ہی نے کہا تھا،،ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح،،۔
خود علامہ اقبال حمائت اسلام کے جلسوں میں ترنم سے نظم پڑھتے تھے تحریک پاکستان کے بعد کی تحریکوں میں امین گیلانی بھی ترنم سے نظمیں پڑھتے رہے اگلی بازی فیر نیازی کو تسلیم کیا جائے اس لئے کہ گلگت بلتستان آزاد جموں و کشمیر اور ڈسکہ انتحابات نے موسم کا حال بتا دیا ہے کہ کہ اللہ کے کرم سے اگلی بار عمران خان کی ہی ہے کینٹ الیکشن میں ثابت ہو جائے گا کہ نیازی کا دور اب وہاں بھی آنے والا ہے جہاں کبھی نہیں آیا۔اللہ وزیر اعظم پاکستان جناب عمران احمد خان نیازی کی عمر درازی کرے۔ایک اور بات بھی کرنا چاہوں گا کہ آرمی کے آفیسرز کی وردی کے اوپر ان کے ناموں کی بجائے بعض اوقات قوم قبیلے کا نام بھی ہوتا ہے۔اب ساری دنیا جنرل باجوہ کہتی ہے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ سیالکوٹ کے سارے باجوہ جنرل ہیں۔ویسے عمران خان کا سرکاری نام پاسپورٹ پر نام عمران احمد خان نیازی ہے۔اسے چلنے دیں۔میں معذرت خواہ ہوں اگر آپ کی دل شکنی ہوئی ہو آپ اس ملک کے دانشور ہیں جنہوں نے عمران خان کا بھرپور ساتھ دیا ہے میرے دوست احسن رشید کے دوست ہیں ہم آپ کو پڑھتے اور سنتے ہیں آپ کا کالم مزے دار ہوتا ہے آپ کے پروگرام لاجواب ہوتے ہیں۔ چلتے چلتے ایک بات کہے دیتا ہوں ان تین سالوں کے مکمل ہونے کے بعد جو تقریب جناح کنونشن سینٹر میں منعقد کی گئی سچ پوچھیں ”فواد آیا سواد آیا“کہنے پر مجبور ہوں۔
(تحریک انصاف شمالی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات ہیں)
٭……٭……٭

ہم تاریخی حقائق سے کیوں خوفزدہ ہیں؟

عاقل ندیم
پاکستان میں تاریخی حقائق کو اپنی مرضی کے مطابق توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی روایت کا آغاز 60 کی دہائی سے شروع ہوا اور 80 اور بعد کی دہائیوں میں اسے عروج نصیب ہوا۔
اب تاریخ کو اس قدر مسخ کر دیا گیا ہے کہ ہمارے طالب علموں کو اپنے ملک کے اہم سماجی اور سیاسی واقعات کے بارے میں نصابی کتابوں میں غیرجانبدار اور درست معلومات نہیں مل پاتیں۔ وہ معلومات مہیا کی جاتی ہیں جو ایک خصوصی سوچ کو پروان چڑھانے میں مدد کرتی ہیں اور واقعات کو چند افراد اور گروہوں کے مفادات کے مطابق بیان کرتی ہیں۔
پاکستانی تاریخ کے اس سیاسی استعمال اور استحصال کی وجہ سے ہماری تاریخ نہ تو جامع ہے اور نہ ہی حقیقت پر مبنی۔
اسی لیے ہمارے ریاستی نظام تعلیم سے فارغ التحصیل طالب علموں کی ایک بڑی تعداد کو مغرب میں تحقیق پر مبنی پاکستان کی تاریخ کے بارے میں کتابیں پڑھ کر پریشانی اور حیرت ہوتی ہے۔ بہت سارے طالب علم اسے پاکستان کے خلاف پروپیگینڈا سمجھتے ہوئے مسترد کر دیتے ہیں۔
ہماری کسی تاریخ کی نصابی کتاب میں قائد اعظم کی پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کو 11 اگست کی اہم تقریر کا کوئی ذکر نہیں ملے گا۔ یہی حال ہماری ملکی سیاست کے سب سے بڑے المیے سقوط مشرقی پاکستان کا ہے۔ ایک منظم کوشش کے ذریعے ہمارے نوجوانوں کے ذہن میں اس المیے کے بارے میں نصابی کتابوں کے ذریعے غلط معلومات ڈالنے کا بڑی کامیابی سے اہتمام کر دیا گیا ہے۔
80 کی دہائی سے تعلیمی نصاب میں سقوط مشرقی پاکستان کی ساری ذمہ داری اس وقت کے حکمران جرنیلوں کی غلط پالیسیوں سے ہٹا کر سیاست دانوں اور ہمسایہ ملک پر ڈالنے کی کامیاب کوشش کی گئی اور اس کے لیے تعلیمی نصاب کو من پسند طریقوں سے استعمال کیا گیا۔
تاریخ کے استحصال اور قتل کے ذریعے اس تصور کو تقویت دی گئی جیسے 1958 سے لے کر 1971 کے 12 سالوں میں سیاست دانوں کی حکومت تھی اور وہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان فاصلوں کی وجہ بنے۔ اس المیے کے اہم ذمہ داروں جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور جنرل نیازی کو اس سنگین جرم سے مبرا کرنے کی یہ کوشش کافی حد تک کامیاب رہی اور اس وقت ملک کے بیشتر نوجوان اور طالبہ اس نصابی غلط بیانی کی وجہ سے اس بات پر ایمان کی حد تک یقین کرنے لگے ہیں کہ سقوط مشرقی پاکستان کے ذمہ دار ذوالفقارعلی بھٹو اور بھارت تھے۔
اس تصور کو مضبوط کرنے کے لیے سیاست دانوں کو پاکستان کے بننے کے بعد آئین وقت پر نہ بنانے کا بھی الزام لگایا گیا حالانکہ 1956 میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیاست دانوں نے مل کر متفقہ آئین تیار کرلیا تھا جس میں دونوں بازوں کے سیاست دانوں نے دانش مندی اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں حصوں کی برابری کو تسلیم کیا اور زبان کے مسئلہ کو بھی کامیابی سے حل کرکے اردو اور بنگالی دونوں کو قومی زبان کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔
اس آئین کو سکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کی سازشوں کی وجہ سے نہ چلنے دیا گیا اور صرف دو سال بعد 1958 میں پاکستان کے پہلے متفقہ آئین کو ایوب خان کے مارشل لا کے ذریعے ختم کر دیا گیا مگر ہماری تاریخ اور نصاب کی کتابوں میں اس کی ناکامی کا ذمہ دار سیاست دانوں کو ٹھہرایا گیا۔
اس متفقہ آئین کے خاتمے نے پاکستان کی سلامتی پر پہلا جان لیوا حملہ کیا جو ایوبی مارشل لا کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد بنا۔ اس دور میں جنرل ایوب اور مرکز نے ساری سیاسی طاقت سنبھال لی اور دونوں صوبوں کے 1956 کے آئین میں دیے گئے صوبائی اختیارات تقریبا ختم کر دیے گئے جو ایک وسیع عوامی بے چینی کا سبب بنے۔
اسی طرح سیاسی جماعتوں کے 1962 کے انتخابات میں پابندی نے ملکی یکجہتی کو مزید کمزور کیا۔ 1962 میں مشرقی پاکستان میں ایوب خان کے حمایتی گورنر منیم خان نے ظالمانہ طریقے سے ایوب مخالف جماعتوں اور رہنماں کو نہ صرف دبایا بلکہ انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا اور ایوب خان کے لیے ایک حمایتی سیاسی گروپ کو پروان چڑھایا گیا۔
1965 کی انتخابی مہم میں ہزاروں بنگالی سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا اور پریس کو بھی سختی سے کنٹرول کیا گیا۔ طالب علموں کی ہڑتالوں سے تشدد سے نمٹا گیا اور یونیورسٹیوں میں گھس کر طالب علموں کو گرفتار کیا گیا۔ اس طرح کی ظالمانہ کارروائیوں نے مشرقی پاکستان کی سیاسی قیادت کو نہ صرف ایوب خان سے مایوس کیا بلکہ مغربی پاکستان کے خلاف بھی ایک غصے اور کچھ حد تک نفرت کو بھی ہوا دی کیونکہ ایوب خان کو مغربی پاکستان کا نمائندہ سمجھا جانے لگا۔
1965 کی جنگ نے ان خیالات کو مزید قوت دی اور یہ خیال بھی جڑ پکڑنے لگا کہ مشرقی پاکستان کو بھارتی جارحیت کے خلاف بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا تھا۔ معاشی ترقی میں بھی ایوبی دور میں مغربی پاکستان کئی درجہ آگے نکل گیا اور 1959 اور 1960 میں فی کس آمدنی میں مشرقی پاکستان سے 32 فیصد برتری حاصل کر لی۔ یہ برتری 1970 میں بڑھ کر 61 فیصد ہو گی۔
اس سیاسی اور معاشی ناانصافی نے ہمیں 1971 کے المیے سے دوچار کیا جب ہماری فوجی قیادت نے مغربی پاکستان کے کچھ سیاسی رہنماں سے مل کر مشرقی پاکستان کے عوام کے سیاسی فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کیا اور اپنی ہی عوام کے خلاف لشکر کشی کردی جس کی وجہ سے بے تحاشا ہلاکتیں ہوئیں اور آخرکار ملک دولخت ہو گیا۔
لیکن یہ سارے تلخ تاریخی حقائق آپ کو نصاب کی کتابوں میں نہیں ملیں گے۔ ہماری نصابی کتابوں کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مشرقی پاکستان کبھی ہمارا حصہ ہی نہیں تھا اور بنگالی ہمارے ساتھ شروع سے ہی رہنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
عموما سمجھدار قومیں تاریخ کی ان غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں مگر ہم نے ان تلخ تاریخی حقیقتوں سے سبق سیکھنے کی بجائے ان سے آنکھیں چھپاتے ہوئے اور کچھ اداروں کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ان حقیقتوں کو آہستہ آہستہ ہمارے طالب علموں کے سامنے مسخ کرکے پیش کرنا شروع کر دیا۔
کسی حد تک حقائق سے چشم پوشی کی یہ روایت آج کل بلوچستان اور سابق فاٹا کے علاقوں میں بھی کی جا رہی ہے۔ کیا یہ رویہ ہمیں ایک پڑھی لکھی قوم بنا سکتا ہے اور ہمیں ماضی کی غلطیوں سے بچنے میں مدد گار ہو سکتا ہے؟
(کالم نگار پاکستان کے سابق سفیر ہیں)
٭……٭……٭

صوبائی تعصب کو ہوا نہ دیں

شفقت حسین
29 اگست ہفتے کے روز کراچی میں منعقد ہونے والے جلسے کے حاضرین کی تعداد پی ڈی ایم کے مطابق ایک لاکھ سے زائد ہو یا آزاد ذرائع کے مطابق یہ تعداد 30 ہزار ہو، پاکستان تحریک انصاف کے نزدیک حاضرین دس ہزار ہوں یا ایجنسیوں کے ظاہر کردہ اعداد و شمار کے اعتبار سے 20 ہزار شرکا ہوں لیکن ایک بات تو بہر حال واضح ہو چکی ہے کہ اس وقت منتشر الخیال اپوزیشن حکومت وقت کے لئے کسی سردردی کا باعث بن سکتی ہے اور نہ ہی پی ڈی ایم لاکھوں عوام کو اسلام آباد کی جانب جلوس لے جانے اور جلسے منعقد کرنے کے قابل ہے کیونکہ پی ڈی ایم کے پاس فی الوقت کوئی پُرکشش ایجنڈا اور نعرہ نہیں ہے کہ عوام جوق در جوق ایک قابل لحاظ تعداد میں اپوزیشن کے کہنے پر سڑکوں پر آئیں اور سختیاں جھیلیں۔ کیونکہ جب ذہنی اُپج اور اپروچ یہ ہو کہ ایک بڑی سیاسی جماعت جو کبھی ماضی میں چاروں صوبوں کی زنجیر تصور کی جاتی رہی ہے اس کے سربراہ یہ فرمائیں کہ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے شخص کو سندھی عوام کے حقوق پر ڈاکہ نہیں ڈالنے دیں گے (واضح رہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے ”سندھ کے عوام“ کے الفاظ استعمال نہیں کئے انہوں نے لفظ ”سندھی عوام“ اپنے بیان میں چنا ہے) اگر وہ ”سندھ میں بسنے والے عوام“ کے الفاظ کا چناؤ کرتے تو ہم جیسے کم فہم بھی یہ سمجھ لیتے کہ چونکہ سندھ بالخصوص کراچی حیدرآباد دو ملٹی کلاس شہر ہیں اور یوں بھی سندھ میں پاکستانی مسلمانوں کے علاوہ ہندو آبادی اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی بستے ہیں لہٰذا انہوں نے من جملہ تمام پاکستانیوں کے حقوق کی بات کی ہے۔ لیکن نہیں۔ جناب بلاول نے ”سندھی عوام“ کے لفظ استعمال کر کے نفرت بلکہ قوم پرستی کی سیاست کو جنم دیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کسی قومی دھارے اور بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کو زیب نہیں دیتا نہ ہی اس کے شایان شان رویہ اور طرز عمل سمجھا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ بلاول بھٹو اس سیاسی راہنما کے صاحبزادے ہیں جنہوں نے اپنی شریک حیات کی تدفین کے وقت اٹھنے والے ایک فتنے کو ”پاکستان کھپے“ کہہ کر گویا دبا دیا تھا۔
بلاول بھٹو کا یہ کہنا بھی قرین دانش نہیں ہے کہ سندھ کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا، ایسا تعصب کی عینک لگا کر ہی کہا جا سکتا ہے، بقامی ہوش و حواس کوئی عقلمند شخص اس طرح کی گفتگو نہیں کر سکتا کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کل کلاں آج کی اپوزیشن اور بطور خاص پاکستان پیپلزپارٹی برسراقتدار آ جاتی ہے تو یہی اسلام آباد میں بیٹھا ہوا شخص (عمران خان) آپ کو مطعون قرار دیئے بغیر نہیں رہے گا اور آپ کی اپوزیشن بھی آپ کو اسی طرح چاروں شانے چت کرنے پر اپنی تمام تر طاقت اور قوت کو بروئے کار لانے میں حق بجانب ہو گی جس طرح آپ آج اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں۔
ہمیں معلوم ہے کہ اقتدار سے باہر بیٹھا ہوا کوئی بھی شخص وہ بلاول بھٹو ہوں یا میاں صاحبان، مولانا فضل الرحمن ہوں یا کوئی اور ایک خاص مفہوم میں کسی نہ کسی حد تک ہی سہی بوکھلاہٹ کا شکار ہوتے ہیں اور وہ گفتگو کے دوران میں اعتدال اور میانہ روی کے کلچر کے احترا کی پرواہ نہیں کرتے کہ انہیں ہر حال میں مسند اقتدار ہی پیاری ہوتی ہے۔
ماضی اگرچہ کبھی خوشگوار نہیں ہوتا اور اپنے دامن میں اکثروبیشتر تلخ یادیں ہی سمیٹے ہوتا ہے۔ انہی تلخ یادوں میں ایک یاد یہ بھی ہے جب میاں محمد نوازشریف نے جوش فضول میں دوران خطاب ”جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ“کہہ دیا تھا۔ قارئین کرام! یہ ایسا زہریلا اور صوبائی عصبیت پر مبنی جملہ تھا جس نے بعد کے کئی سالوں تک صوبوں کے درمیان ہم آہنگی کی فضا کو مکدر بنانے میں ایک ناخوشگوار کردار ادا کیا۔ کیونکہ اس سے پہلے پنجاب سے بدقسمتی سے ایک حقیقی لاش (ذوالفقار علی بھٹو) گڑھی خدا بخش اور دوسری زندہ لاش (محمد خان جونیجو) کی صورت میں سندھڑی جا چکی تھی۔ جس سے دونوں بڑے صوبوں کے درمیان نفرت کا لاوا مسلسل پکتا رہا لیکن الحمدللہ یہ لاوا پھٹنے سے محفوظ رہا۔ اب اگر اس ڈگر پر بلاول بھٹو چلتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اسلام آباد میں بیٹھا ہوا شخص سندھی عوام کے حقوق پرڈاکہ نہیں ڈال سکتا اور اگر وہ یہ کہیں کہ سکھر کا (اشارہ جوہری طور پر خورشید شاہ کی طرف ہے) اپوزیشن لیڈر جیل میں ہے اور لاہور کا اپوزیشن لیڈر (یہاں اشارہ میاں محمد شہباز شریف کی جانب ہی لگتا ہے) آزاد گھوم رہا ہے تو اسے بھی تعصب پر مبنی رویہ قرار نہ دیا جائے تو کیا کہا جائے۔ اگر بلاول بھٹو اور مریم نوازشریف بہن بھائی بن کر بھی اور پوری پی ڈی ایم ملک بھر میں منظم اور بھرپور جلسے کرنے کے باوصف حکومت گرانے میں ناکام رہے ہیں تو اس میں قصور کس کا ہو سکتا ہے؟ کیا اس کا جواب منتشر اپوزیشن کے پاس ہے۔
میں کبھی وزیراعظم کا سپورٹر اور حمائتی نہیں رہا لیکن میری ایماندارانہ رائے ہے کہ عمران خان نے یقینا بعض حوالوں سے غلطیوں کے باوجود کبھی صوبائی عصبیت پر مبنی گفتگو نہیں کی اور نتیجہ یہ ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے تمام تر پھبتیاں کسے جانے کے باوجود وزیراعظم نے پوری اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ بھی لگا رکھا ہے اور حکومت بھی پُرسکون انداز میں کرتے چلے جا رہے ہیں۔تو دانشمند کون؟ وزیراعظم یا پی ڈی ایم،آپ یا عمران خان فیصلہ آپ خود ہی کر لیں، ہم اگر عرض کریں گے تو شکائت ہو گی۔ فی الوقت ہمارا مشورہ ہے کہ چاروں صوبوں کی زنجیر سمجھی جانے والی جماعت کے سربراہ خود کو منظم کریں۔ عوام میں اپنی جڑیں مضبوط بنائیں اور پاکستان پیپلزپارٹی کو پھر سے صفِ اول کی جماعت بنانے پر اپنی توجہات مرکوز کریں۔
(کالم نگار سیاسی‘سماجی اورمعاشرتی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

وزیراعظم کا عالمی برادری پر افغانستان کی تعمیر نو میں کردار ادا کرنے پر زور

اسلام آباد: وزیراعظم پاکستان اور ابوظہبی کے ولی عہد کا ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے جس میں افغانستان کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ پرامن اور مستحکم افغانستان خطے کے اہم مفاد میں ہے، عالمی برادری افغان عوام کی معاشی اور تعمیر نو میں مدد کرے۔

تفصیل کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پرامن اور مستحکم افغانستان پاکستان اور خطہ کے مفاد میں ہے۔ افغانستان کا ایک جامع سیاسی تصفیہ یہاں کے لوگوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کا بہترین راستہ ہے، عالمی برادری افغان عوام کی معاشی مدد اور تعمیر نو میں کردار ادا کرے۔

وزیراعظم عمران خان سے ابوظہبی کے ولی عہد اور متحدہ عرب امارات کی مسلح افواج کے ڈپٹی سپریم کمانڈر محمد بن زید نے ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ اس دوران دونوں رہنمائوں نے باہمی دلچسپی کے امور کے ساتھ ساتھ علاقائی پیش رفت خاص طور پر افغانستان کی تازہ ترین صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔

وزیراعظم نے اس موقع پر متحدہ عرب امارات کے ساتھ اپنے مضبوط برادرانہ تعلقات اور دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعاون کی اہمیت کے عزم کا اعادہ کیا۔ افغانستان کی تازہ ترین صورتحال کے تناظر میں وزیراعظم نے زور دیا کہ پرامن اور مستحکم افغانستان پاکستان اور خطہ کے وسیع تر مفاد میں ہے، افغانستان کے عوام کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ سلامتی اور حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے آگے بڑھنے کا بہترین راستہ جامع سیاسی تصفیہ تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ افغان عوام کی معاشی مدد کرنے اور ملک کی تعمیر نو میں مدد کیلئے نسبت قائم رکھے۔

انہوں نے کہا کہ انسانی ضروریات کو پورا کرنے اور افغانستان کے معاشی استحکام کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے آمدہ ایکسپو 2020ء کیلئے بہترین انتظامات کرنے پر ولی عہد کو مبارکباد دی۔ انہوں نے اس میگا ایونٹ کی کامیابی کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ وزیراعظم اور ولی عہد نے باہمی دلچسپی کے تمام شعبہ جات میں تعاون بڑھانے کیلئے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔

بدعنوانی کے خاتمہ کیلئے نیب نےموثرحکمت عملی وضع کی، موجودہ انتظامیہ کے دور میں نیب نےاب تک 535 ارب روپے کی ریکورکئے۔جسٹس جاویداقبال

اسلام آباد۔(اے پی پی):قومی احتساب بیوروکے چئیرمین جسٹس جاویداقبال نے کہاہے کہ بدعنوانی کے خاتمہ کیلئے نیب نےموثرحکمت عملی وضع کی جس کے نتیجہ میں موجودہ انتظامیہ کے دورمیں اب تک 535 ارب روپے ریکور کئے ۔ انہوں نے کہاکہ گیلانی اینڈگیلپ کے سروے میں 59 فیصد پاکستانی عوام نے نیب پراعتمادکااظہارکیاہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قومی احتساب بیورو قانون کے مطابق نیب بلاتفریق احتساب کاعمل جاری رکھے ہوئے ہے۔بدعنوانی کے خاتمہ کیلئے فعال حکمت عملی کی وجہ سے سزاوں کی مجموعی شرح 66 فیصد ہے جو دنیا بھرمیں وائیٹ کالرجرا ئم کی تحقیقات میں اہم کامیابی ہے۔ دنیابھرمیں موقر اداروں جیسے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، عالمی اقتصادی فورم ، گلوبل پیس کینیڈا، پلڈاٹ اورمشال پاکستان نے بدعنوانی کے خاتمہ کیلئے نیب کے مثالی کوششوں کو سراہاہے۔  چیئرمین  نیب نے کہاکہ قومی احتساب بیورو کسی دھمکی اورتنقید کے باوجود اپنی قانونی ذمہ داریاں اداکرے  گا ۔نیب کی انتظامیہ قانون کے مطابق انکوائریز اورتحقیقات کاعمل جاری رکھیں گی۔چئیرمین نیب نے کہاکہ نیب نے بدعنوانی کی تمام صورتوں اورمظاہرکو ختم کرنے کا تہیہ کررکھا ہے، نیب نے بالخصوص بدعنوانی، منی لانڈرنگ، عوام الناس سے دھوکہ دہی، جان بوجھ کربینک ڈیفالٹ ہونے، اختیارات کے غلط استعمال اورریاسی فنڈز پرخرد برد پراپنی توجہ مرکوز کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ کرپشن کے خاتمہ اوربدعنوان لوگوں سے لوٹی ہوئی رقوم کی واپسی نیب کی اولین ترجیح ہے،ملک کوکرپشن سے پاک کرنے کیلئے کرپشن کے خلاف جدوجہد ہمارا عزم ہے۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہاکہ اقوام متحدہ کے کنونشن برائے انسداد بدعنوانی (یواین سی اے سی) کے تحت نیب پاکستان میں فوکل ادارہ ہے،پاکستان اس کنونشن کی توثیق اوراس پردستخط کرچکاہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان دنیا میں واحد ملک ہے جس نے کرپشن کے خاتمہ کیلئے چین سے مفاہمت کی دستاویز پردستخط کئے ہیں جبکہ نیب سارک اینٹی کرپشن فورم کا چئیرمین بھی ہے، نیب سارک ممالک میں رول ماڈل ادارے کی حیثیت رکھتاہے۔انہوں نے کہاکہ گزشتہ تین برسوں میں نیب کے علاقائی بیوروز کی کارگردگی مثالی رہی ہے۔ نیب کی موجودہ انتظامیہ کے دورمیں اکتوبر2017 سے لیکرجون 2021 تک کی مدت میں 535 ارب روپے ریکورکرکے قومی خزانہ میں جمع کئے گئے، نیب نے کل 179 میگا کرپشن کے کیسز میں 93 کیسز فائل کئے۔ یہ کیسز مختلف احتساب عدالتوں میں چل رہے ہیں ۔ 10 کیسز انکوائری کے مرحلہ میں ہیں۔ اسی طرح کئی میگا کیسز میں تحقیقات ہورہی ہے۔چئیرمین نے کہاکہ میگاکرپشن کے کیسوں کومنطقی انجام تک پہنچانا ہماری اولین ترجیح ہے۔ 179 میگا کرپشن کیسز میں 66 کیسز کوقانون کے مطابق نمٹایا گیا،ملک بھرمیں 1273 نیب کے ریفرنس مختلف احتساب عدالتوں میں زیرسماعت ہیں جن میں 1300 ارب روپے کی مبینہ خورد برد ہوئی ہے۔

مستقبل میں بھی افغان امن کیلئے کام کرتے رہیں گے، ڈی جی آئی ایس آئی

ڈی جی آئی ایس آئی کا کہنا ہے کہ مستقبل میں بھی افغان امن کیلئے کام کرتے  رہیں گے۔

ذرائع کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ایک روزہ دورے پر کابل پہنچ گئے جہاں انہوں نے پاکستانی سفیر سے ملاقات کی جس میں پاک افغان سرحد صورتحال پر گفتگو کی گئی۔

ذرائع کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے طالبان کے اہم نمائندوں سے بھی ملاقات کی جس میں پاکستان کے ذریعے غیر ملکی شہریوں کے انخلا کے معاملے پر ،  افغانستان میں امن و امان اور پاک افغان سرحد پر آمدو رفت کے معاملے پر بات چیت کی گئی۔

وادی پنجشیر میں طالبان کی پیش قدمی جاری

افغانستان کی وادی پنجشیر میں طالبان جنگجوؤں کی جانب سے پیش قدمی جاری ہے۔

اطالوی امدادی ایجنسی کے مطابق طالبان پنجشیر میں آگے بڑھ کر  انابا کے علاقے میں پہنچ گئے ہیں تاہم پنجشیرمیں شدید لڑائی کے باوجود ہمارے آپریشن میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی۔

اطالوی ایجنسی’ایمرجنسی‘ کے مطابق پنجشیر میں طالبان کے ساتھ لڑائی میں زخمی ہونے والے کچھ افراد کو  انابا میں ہمارے طبی مرکز  لایا گیا۔

دوسری جانب ایڈیٹر امریکی لانگ وار جرنل کے مطابق پنجشیر میں کئی اضلاع پر طالبان کے قبضے کی اطلاعات ہیں تاہم یہ تصدیق شدہ نہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجشیر میں اب بھی غیر یقینی صورتحال ہے، امر اللہ صالح بھی پنجشیر میں سنگین صورت حال سے خبردار کر چکے ہیں۔

دوسری جانب ترجمان مزاحمتی فورسز  علی میثم نظارے کا کہنا ہے کہ مزاحمت کبھی ناکام نہیں ہو گی۔

خیال رہے کہ حال ہی میں افغان طالبان نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اب تک ناقابل تسخیر  رہنے والی وادی پنجشیر  پر  بھی کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔

طالبان نے دعویٰ کیا  تھا کہ وادی پنجشیر کے تمام اضلاع پر ان کا کنٹرول ہے جبکہ  سابق افغان نائب صدر امر اللہ صالح کے تاجکستان فرار ہونے کی اطلاعات ہیں۔

عراق میں پولیس چیک پوسٹ پر حملے میں 13 اہلکار ہلاک

بغداد: عراق میں وفاقی پولیس کی چیک پوسٹ پر مسلح افراد نے اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 13 اہلکار ہلاک اور 5 زخمی ہوگئے۔ 

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق عراق کے صوبے کرکوک میں وفاقی پولیس کی چیک پوسٹ پر مسلح افراد نے دھاوا بول دیا جس پر پولیس نے بھی سخت مزاحمت کی۔

ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی جھڑپ میں وفاقی پولیس کے 13 اہلکار ہلاک اور 5 زخمی ہوگئے۔ مزید نفری طلب کی گئی تاہم حملہ آوروں نے چیک پوسٹ کو آنے والی سڑک کو بم دھماکوں سے تباہ کردیا۔

یہ خبر پڑھیں : عراق میں امریکی فوجی اڈے پر 12 راکٹ حملے 

حملہ آور جاتے ہوئے اپنے ہمراہ عراقی پولیس کا اسلحہ اور جنگی ساز و سامان لے گئے۔ تاحال کسی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم اس علاقے میں داعش متحرک اور منظم ہے۔

یہ خبر بھی پڑھیں : بغداد میں یکے بعد دیگرے 2خودکش حملوں میں 30 افراد ہلاک، 73 زخمی 

واضح رہے کہ عراق میں اتحادی افواج نے داعش کو ختم کرنے کا دعویٰ کیا ہے تاہم اب بھی دوردراز علاقوں میں جنگجو موجود ہیں اور شہر میں آکر کارروائیاں کرتے ہیں۔

خطہ بدلنے جا رہا ہے ،ممکن ہے ایک نیا بلاک بننے والا ہو، وزیرداخلہ شیخ رشید

طورخم: وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ بھارت کو افغانستان میں ذلت اور رسوائی اٹھانا پڑی۔ خطہ بدلنے جا رہا ہے، ممکن ہے ایک نیا بلاک بننے والا ہو۔

شیخ رشید کا طورخم بارڈر پر میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان میں دیرپا قیام امن اور استحکام چاہتا ہے۔ ہمارا اورافغانستان کا یہ عزم ہے کہ ہم اپنی سرزمین کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جنرل فیض حمید کا دورہ کابل خوش آئند ہے۔ دنیا کو افغانستان کے مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ ہندوستان کو بڑی شکست ہوئی۔ جنرل فیض حمید کے دورہ کابل سے بھارت تکلیف میں مبتلا ہے۔ ان کے ٹی وی چینل صبح سے لیکر شام تک اس دورے پر تبصرے کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر امریکا، قطر اور برطانیہ کے حکام کابل گئے ہتو پاکستان کی عظیم ترین انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ کے دورے سے ان کو کیا تکلیف ہے۔

وزیر داخلہ نے کہاکہ جنرل فیض حمید اگرک ابل گئے ہیں تو یہ اچھائی کی بات ہے۔ وزیر داخلہ نے یوم دفاع پاکستان کے موقع پر شہدائے وطن کو خراج تحسین بھی پیش کیا۔

چشمہ بیراج اور قیمتی پیالہ

روہیل اکبر
ہماری بدقسمتی ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک قربانیاں دینے والے ہمیشہ مسائل،مشکلات اور تکالیف سے دوچار رہے جبکہ مفاد پرست اورخوش آمدی قسم کے لوگ ہمیشہ آگے آگے رہے۔ پاکستان بنا تو اپنا مال لٹا کر بچوں کو قربان کرکے پاکستان پہنچنے والے کیمپوں میں ذلیل و رسوا ہوتے رہے جبکہ لوٹ مار کرنے والے فراڈیوں نے بڑی بڑی حویلیاں اور مکان سنبھال لیے۔ اسی طرح انگریزوں کے پٹھو ٹیڑھے منہ کرکے انگریزی بولنے والے ہم پر حکمرانی کرنے لگے جو چپڑاسی بھرتی ہونے کے لائق نہیں تھے انہیں سابق حکمرانوں نے پکڑ پکڑ کراعلیٰ عہدے بانٹ دئیے جن کی وجہ سے آج ہر محکمہ کارکردگی کے لحاظ سے صفر ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک گاؤں میں سیلاب آگیا، ایک حکومتی افسر گاؤں پہنچا اور لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ پانی کا بہاؤ بہت بڑھ گیا ہے، پانی خطرے کے نشان سے 2 فٹ اونچا ہوگیا ہے۔ لوگوں نے خوفزدہ ہوکر کہا کہ اب کیا ہوگا؟ افسر نے کہا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہم نے انتظام کرلیا ہے خطرے کے نشان کو دو فٹ سے بڑھا کر چار فٹ کردیا ہے۔ سیلاب اور پانی کا ذکر ہوا ہے توچشمہ بیراج کے ارد گرد رہنے والوں کا ذکر نہ کیا جائے تو زیادتی ہوگی ان لوگوں نے بھی پاکستان کے لیے بہت بڑی قربانی دی مگر سابق حکمرانوں نے جہاں اداروں کو تباہ کیا وہیں پر انہوں نے اس علاقے کے لوگوں کو بھی برباد کیا۔چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت ان کی قربانیوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتی انہیں ان کی زمینوں کا زیادہ سے زیادہ معاوضہ دینے کے ساتھ ساتھ انہیں اتنی ہی زمین کسی اور علاقے میں الاٹ کردی جاتی اور چشمہ بیراج پر ان افراد کا نام سنہری حروف سے لکھا جاتا ہے مگر ان حکمرانوں کو لوٹ مار کے سوا اور کوئی کام آتا ہی نہیں تھااسی علاقہ کے رہائشی میجر(ر) رئیس کی داستان بھی عجب داستان ہے جو اپنے علاقہ کے لوگوں کے دکھ اور درد لیے ہر جگہ پہنچے مگر مجال ہے کہ کسی کے کان پر جوں تک بھی رینگی ہو اب انہیں عمران خان اور بزدار سرکار سے امید ہے کہ وہ ان کے دیرنیہ مسائل ضرور حل کریں گے۔
آئیے کچھ باتیں میجر صاحب کی زبانی سن لیں جن کا کہنا ہے کہ بڑے دل گردہ والے تلوکر بار بار حکومت پاکستان کو اپنی خاندانی جدی پشتی زمینیں کوڑیوں کے بھاؤ دینے کے باوجود تمام تر بنیادی سہولیات سے آج تک محروم ہیں چہ جائیکہ ان کی زمینوں پر بننے والے میگا پراجیکٹس اربوں کی سالانہ آمدن حکومت کی جھولی میں ڈال رہے ہیں۔ستم ظریفی ملاحظہ ہو چشمہ بیراج کے ہیڈ سے کم از کم چار کلو میٹر نکاسی والی سائیڈ کو محفوظ بنانا واپڈا۔صوبائی و قومی حکومت کی قانونی و اخلاقی ذمہ داری ہے مگر کیا کریں ہم سیاسی یتیم جو ٹھہرے۔
چشمہ بیراج سے جنوب میں دریا کے دونوں اطراف پچھلے بیس تیس سالوں سے مسلسل دریا کا کٹاؤ جاری ہے جس کی وجہ سے دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر آباد تلوکر برادری کے متعدد دیہات و ڈیرہ جات بمعہ زمینوں کے دریا بردہو ئے تھے جو بکھڑا کچہ کالو کے جنوب میں واقع تھے۔ان متاثرہ علاقوں کے لوگ خانقاہ سراجیہ،نیو ڈنگ شریف،زمان خیلانوالا،لال خیلانوالا،شہباز خیلانوالہ تھل میں نقل مکانی کرگئے تھے اورکچھ لوگ چشمہ بیراج کے مغربی کنارے موضع بکھڑا کی کچہ پار کی زمینوں پر آباد ہوگئے جوخطہ اطلس،شہباز خیلانوالہ کچہ،جلال خیلانوالہ کچہ،فوجے خیلانوالہ کچہ،دھنڑائی خیلانوالہ کچہ اوربلوچی خیلانوالہ کچہ کے ناموں سے دیہات و ڈیرہ جات کے آباد کار بنے۔اب کی بار دریائے سندھ کا شکار یہ لوگ بنے ان میں خاص کر تلوکر برادری کے شہباز خیل و دھنڑائی خیل زیادہ متاثرہوئے تھے ویسے تو دریائے سندھ کے کٹاؤ کا شکار موضع شاہنواز والا و دریا کی دونوں طرف کلور کوٹ ڈی آئی خان زیر تعمیر پل تک کے علاقے دریا کے کٹاؤ کا شکار ہیں مگر چشمہ بیراج سے چار پانچ کلو میٹر تک جنوب میں موضع بکھڑا کی تلوکر برادری زیادہ متاثر ہے یہ سب لوگ گھروں اور زمینوں سمیت متاثرہو رہے ہیں موضع بکھڑا متاثرین چشمہ بیراج میں سب سے زیادہ زمینوں و گاؤں کی قربانی دینے والا موضع ہے اور پاکستان اٹامک انرجی میں بھی اس موضع کا بہت حصہ ہے ویسے بھی دونوں موضع جات موضع بکھڑا و موضع ڈنگ کھولا بار بار متاثرہونے والے موضع جات ہیں مگر افسوس صد افسوس یہ علاقے تمام حکومتوں میں نظر اندازہوتے آئے ہیں اور آج بھی وہی حال ہے میری وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان،چیئرمین واپڈا،وزیراعلیٰ پنجاب و متعلقہ وزارتوں و متعلقہ محکموں و متعلقہ منتخب نمائندوں ایم این اے،ایم پی اے اور کرتا دھرتاؤں سے پر زور اپیل ہے کہ چشمہ بیراج کے جنوب میں دونوں اطراف آبادیوں و زمینوں کو محفوظ بنایا جائے اس سے قبل کہ ان لوگوں کا صبر کا پیمانہ لبریز ھوجائے بلکہ ٹوٹ جائے اگر اس علاقہ میں لگائے گئے میگا پراجیکٹس کی آمدن ور رائیلٹی میں سے 20 فیصد حصہ اس علاقہ کی فلاح و بہبود کے لیے مختص کر دیا جائے تو تمام مسائل بخوبی حل ہو سکتے ہیں امید ہے کہ میری اس گزارش کو مثبت لیا جائے گا۔ یہ صرف ایک فرد کا نوحہ نہیں ہے بلکہ چشمہ بیراج کے علاقہ کے باسیوں کی متفقہ آواز ہے۔
امید ہے وزیر اعظم عمران خان اور سردار عثمان بزدار اس حوالہ سے عوام کے دیرنیہ مسائل کے حل پر پوری توجہ دینگے آخر میں ایک لطیفہ ان مظلوم اور مجبور عوام کے نام جنہیں ہر بار حکمران چونا لگانا نہیں بھولے قدیم نوادرات جمع کرنے کی شوقین ایک خاتون نے دیکھا کہ ایک شخص اپنی دکان کے کاؤنٹر پر بلی کو جس پیالے میں دودھ پلا رہا ہے اس چینی کے قدیم پیالے کی قیمت تیس ہزار ڈالر سے کم نہیں۔ خاتون نے سوچا کہ شاید یہ شخص اس پیالے کی قیمت سے ناواقف ہے اس خاتون نے اپنے طور پر چالاکی سے کام لیتے ہوئے کہا۔ جناب! کیا آپ یہ بلی فروخت کرنا پسند کریں گے؟ تو اس شخص نے کہا۔ یہ میری پالتو بلی ہے، پھر بھی آپ کو یہ اتنی ہی پسند ہے تو پچاس ڈالر میں خرید لیجیے۔ خاتون نے فوراً پچاس ڈالر نکال کر اس شخص کو دیے اور بلی خرید لی، لیکن جاتے جاتے اس دکان دار سے کہا۔ میرا خیال ہے کہ اب یہ پیالہ آپ کے کسی کام کا نہیں رہا۔ براہ کرم اسے بھی مجھے دے دیجیے۔ میں اس پیالے میں بلی کو دودھ پلایا کروں گی۔ دکان دار نے کہابی بی! میں آپ کو یہ پیالہ نہیں دے سکتا، کیونکہ اس پیالے کو دکھا کر اب تک 300 بلیاں فروخت کرچکا ہوں۔
(کالم نگارسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭