تازہ تر ین

اگلی بازی فیر نیازی

انجینئر افتخار چودھری
جناب حسن نثارصاحب آپ میرے پروگرامز کے حوالے سے آئیڈیل ہیں۔ابرارالحق نے برادری ازم کے حوالے سے بات نہیں کی۔آپ کو غلط فہمی ہے۔نعروں میں فلسفہ نہ تلاش کریں اور نہ ہی نعرے منشور ہوتے ہیں۔دنیا کی کوئی بھی تحریک دیکھ لیں یہ نعرے جذبہ اور جنوں پیدا کرتے ہیں سب سے اعلیٰ نعرہ نعرہ تکبیر ہے۔ہر مذہب ہر قوم کے اپنے نعرے ہوتے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آپ جیسے دانشوروں اور صحافیوں کو وہاں اگلی صفوں میں بٹھایا جاتا لیکن ہم اتنے عقلمند کہاں۔ہم نے تو ان وزرا کو زبردستی سیٹیں خالی کروا کے آگے بڑھانا ہوتا ہے جن میں سے اکثر،،شریک سفر،،، نہ تھے۔میں نے یہ بھی دیکھا کہ کچھ وزرا کو جہاں جگہ ملی وہ بیٹھے گئے اس تقریب کے منتظم اعلیٰ فواد چوہدری اسد عمر شہباز گل فرخ حبیب تو کونے میں بیٹھ کر تقریب کو چلاتے رہے۔پاکستان کے نامور صحافی کالم نویس جناب حسن نثار نے اپنے پروگرام میں جو کچھ فرمایا اس کے جواب میں پیار اور محبت سے چند سطریں حاضر خدمت ہیں۔
اپوزیشن،،نیازی،، کہہ کر عمران خان کو چھیڑتی ہے وہ طعن و تشنیع سمجھ کر ایک عرصے سے یہ کام کر رہی ہے وہ سمجھتی ہے ہر نیازی جنرل نیازی ہوتا ہے اسے وہ دراز قد عبدالستار نیازی نہیں نظر آتا۔شائد اسی وجہ سے ہمارے،،ہمسفر،، نے یہ نعرہ تخلیق کیا ہے مبارک ہو ابرار بھائی۔
دوسری بات غریب کی ہے آپ جب ایسی بات کریں گے تو ہم سب طبقاتی تقسیم کی طرف نکل جائیں گے۔لوئر مڈل کلاس مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس تو آپ کی بات کو سراہیں گے مگر غریب نہیں۔یہ جن جھگیوں والوں کی آپ بات کرتے ہیں یہ پورے ملک کا ایک فی صد بھی نہیں۔محترم آپ معاشرے کی آنکھ ہیں آپ ان کی طرف دیکھیں جو صبح دیہاڑی کے لیے نکلتا ہے اور اسے ملتی نہیں وہ آٹھ دس گھنٹے بیلچہ گینتی چلانے منہ اندھیرے چوک میں آ جاتا ہے کبھی دیہاڑی لگتی ہے اور کبھی نہیں۔اپ اس غریب کی بات کریں جو مزدوری کے بعد رات کو گھر جاتے ہوئے گھی کا ایک ہاؤچ آٹے کا کلو تھوڑی سی چینی اور پتی لے جاتا ہے۔سر آپ درد مند دل رکھتے ہیں مجھے کہنے دیجیئے حسن نثار صاحب غربت نشہ نہیں ہے میں نے غربت دیکھی ہے جناب عالی اسے نشہ نہ کہیں یہ کیچڑ ہے دلدل ہے جس میں حالات کسی بد نصیب کو دھکا دے کر گراتے ہیں جس میں پاکستان کے تیس فی صد لوگ پھنس چکے ہیں ان کے سامنے بت بن کر کھڑی سرمایہ داروں کی بنی ہوئی ایک دیوار ہے۔آپ جسے لوئر مڈل کلاس کہتے ہیں وہ بھی غریب ہی ہے۔
”اگلی بازی فیر نیازی“کا نعرہ بھی وہ غریب ہی لگا رہا ہے جسے ”احساس“ سے فائدہ ملا ہے۔سر غریب کو اس طرح نہ دھتکاریں غربت نشہ نہیں ایک کنواں ہے جو امیر نے کھود رکھا ہے۔یہ ایک تگڑے آدمی کی کمزور پر سبقت لے جانے کے بعد کے اثرات اور مضمرات ہیں۔امریکہ میں بھی غریب ہیں مگر وہاں غربت کا پیمانہ ایک ڈالر فی کس کمانا نہیں وہاں بیس ڈالر ہے اوربیس ڈالر اگر پاکستان میں ملنے شروع ہو جائیں تو کوئی غریب نہیں رہتا۔حکومت نے مزدور کی تنخواہ ساڑھے سترہ ہزار رکھی ہے۔میں یہاں پوچھنا چاہوں گا اس اشرافیہ سے کہ دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ آپ سے جڑے لوگوں کو یہ تنخواہ مل رہی ہے۔میں اپنے رب کو گواہ رکھ کر بات کر رہا ہوں کہ میرے ساتھ جڑے لوگ یہ تنخواہ یہ لوگ چوکیدار ڈرائیور اور باورچی کی حیثیت سے لے رہے ہیں کبھی کسی وقت آپ کو بتاؤں اور دکھاؤں گا کہ میں نے نوکروں کے لیے گھر کی چھت پر ایک منزل کا اضافہ کیا ہے دو کمرے باتھ موجود ہے ان کے کپڑے دھونے کھانے پینے کا بندوبست کر رکھا ہے تنخواہ کچھ بھی ہو جائے پانچ سے پہلے دے دی جاتی ہے۔وہ بھی اپنی جان لڑا رہے ہیں سخت ڈیوٹی اور نرم ڈیوٹیاں دونوں انجام دے رہے ہیں۔یہ تین چار لوگ خط غربت سے نکل گئے ہیں اس لئے کہ ان کا ماہانہ خرچ کچھ بھی نہیں۔ اگر ہے بھی تو انہیں کچھ نہ کچھ دے دیا کرتا ہوں۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف غریب ہی اپنی تنگدستی کا زمہ دار ہے نہیں سر یہ کہہ کر ہم ان ظالموں کا ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں جو ان کی محنت کا مناسب عوضانہ نہیں دیتے۔امیر امیر تر ہے ان کی انڈسٹریز دن بدن پھیل رہی ہیں میں ایک سرمایہ دار کو جانتا ہوں جس کے پاس فیکٹریوں کی لائن لگی ہوئی ہے وہ اپنے لوگوں کو کیش تنخواہ دیتا ہے کوئی اس سے مطالبہ نہیں کرتا کہ مجھے سیلری بینک میں چاہئے ہر مہینے فقیروں کی طرح لائن میں لگا کر تنخواہ دی جاتی ہے تنخواہ کا لفافہ دیتے وقت ساتھ میں ایک آدھ چمچہ بیٹھا ہوتا ہے جو اس کے کیے پر لعن طعن کرتا ہے۔
یہ لوئر مڈل کلاس کا نمائندہ ہوتا ہے۔اگر تنخواہیں بینکوں کے ذریعے دے دی جائیں تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں بینک اس پر قرض دے سکتے ہیں ہاؤسنگ اتھارٹی سے قرضہ لیا جا سکتا ہے۔
میرا اپنا خیال ہے کہ اس وقت خط غربت سے نیچے والے لوگ جدوجہد کر رہے ہیں یہ اس کنویں سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے اوپر اپر کلاس کے لوگوں نے لوئر مڈل کلاس کا ایک نمائندہ بٹھا رکھا ہے جو انہیں جوتے مار کر پھر نیچے بھیج دیتا ہے۔ یہاں اس موقع پر آپ جیسے دانشور سے درخواست ہے انہیں غربت کے نشے کا کھلاڑی نہ قرار دیں بلکہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے اس گہرے کنویں سے نکالیں وہ آپ کو دعائیں دے گا۔
میں نے اپنی آنکھوں سے ان غریبوں کو دیکھا ہے جو ان جھونپڑیوں سے نکلے بیرون ملک چلے گئے اور وہاں سے امیر بن کر آئے پاکستان کی سڑکوں کی خوبصورتی انہی محنت کشوں کے دم سے ہے جو بیرون ملک سے آئے اور اس وطن کے نصیب روشن کئے۔ اس قوم میں کیادنیاکے ہرمحنتی شخص کے نصیب میں آسانیاں ہیں انا مع العسر یسرا ہر تکلیف کے بعد آسانی ہے۔لوگ ہمیں ریویو ڈالوں میں پھرتا دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں ہم شروع سے ہی امیر ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ 1979 میں ہم مرسیڈیز کے مالک تھے لیکن 1977 میں ہم عارضی طور پر غربت کی کھائی میں گر گئے۔1968 سے 1975 کا دور ایک مشکل دور تھا ہم غربت کی اس دلدل میں پھنس گئے جس کی تلخ یادیں آج بھی ہیں۔مجھے اسوقت یہ کیوں لکھنا پڑ رہا ہے اس کی بڑی وجہ آپ کا بیان ہے جناب حسن نثار صاحب یہ ان لوگوں کی کمر توڑ کے رکھ دے گا جو غربت کے اژدھے کی لپیٹ سے نکلنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہم بھی محنت سے نکلے انہیں بھی نکلنے دیں۔یقین کیجئے غربت ایک دلدل ہے اور اس سے نکلنے کی جد وجہد ایک نشہ ہے۔میں اس نشے کو نہیں بھول سکتا جب 1975 میں اپنے گھر بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی لے کر آیا۔
غریب کو طعنہ نہ دیں وہ آج بھی سر توڑ کوشش کر رہا ہے آپ اس سرمایہ دار کی بات کریں جو آج بھی اسے اسی کھائی میں رکھنا چاہتا ہے۔کاش ہماری حکومتیں ان امرا کے چنگل سے باہر آئیں انویسٹر کے چونچلے ضرور اٹھائیں مگر ان سے یہ تو پوچھیں کہ آپ اپنے ساتھ جڑے ہوئے لوگوں کو کیا دے رہے ہیں۔
آپ کو سعودی عرب اچھا نہیں لگتا میں آپ کو چھوٹی سی مثال دیتا ہوں ایک کمپنی میں پانچ دن کام کیا اور کسی وجہ سے الگ ہو گیا مجھے ان دنوں کی تنخوا بغیر مانگے ادا کر دی گئی میں 1977 کی بات کر رہا ہوں جب سعودی عرب ابھر رہا تھا ایک مہینہ کام کیا انہیں میرا کام پسند نہیں آیا ایک اضافی مہینے کی تنخواہ دے کر فارغ کیا گیا انہوں نے بتایا گرچہ کنٹریکٹ کے خلاف ہے اور آپ کا حق نہیں بنتا لیکن اس لئے دے رہے ہیں کہ آپ کو نوکری تلاش کرنے میں دقت نہ ہو۔
حضور یہ ہے احساس۔یہ پروگرام ہمارے ہاں کب نافذ ہو گا اس وقت ہو گا جب سرمایہ دار کہے گا یہ کو ایک مہینے کی تنخواہ اور راستہ ناپو۔یہاں ایک سیکورٹی گارڈ کو کہہ دیا جاتا ہے یہ کل سے گیٹ کے اندر نہ آئے۔
حضور عمران خان کا احساس پروگرام تو ہے لیکن احساس ان سرمایہ داروں میں نہیں۔بحریہ ٹاؤن میں ایک تقریب تھی میں مہمان خصوصی تھا وہاں اسلام آباد چیمبر سے ایک خاتون بھی آئی ہوئی تھیں میں نے جب غریب مزدور کی حالت زار کی بات چھیڑی تو موصوفہ نے کہا کہ ان کی حالت سنوارنے کا مسئلہ ہمارا نہیں آپ حکومت میں ہیں آپ حل کریں۔یعنی مال وہ کمائیں اور غریب کے بچے کی اسکولنگ اس کی ٹرانسپورٹ میڈیکل کا بندو بست حکومت کرے۔ہم فوج کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں مجھے پچھلے دنوں ایف ایف سی جانے کا موقع ملا ماچھی گوٹھ میں ان کی رہائش گاہ دیکھی دل باغ باغ ہو گیا ایک ڈپلومہ انجنیئر جس کا تجربہ دس سال ہے وہ اوسطا ڈیڑھ سے دو لاکھ کما رہا ہے رہائش بہترین بچوں کی اسکولنگ فری۔یہ کام ہمارے دوسرے لوگ کیوں نہیں کرتے۔اس لئے کہ ان کی جیب سے جاتا ہے اپنے بچوں کی آیا فلپائنی سے آتی ہے اور غریب کا بچہ اڑھائی سو فیس والے اسکول میں اللہ صحت دے شفقت محمود کو جس نے یکساں نصاب تعلیم دے دیا۔معاشی فکر سے آزاد مزدور جس کو میڈیکل بھی مل جائے اس کے بچے بہترین بسوں میں اسکول بھی جائیں اسے اور سہولتیں بھی حاصل ہوں اس کی پیداواری صلاحیت کیوں نہیں بڑھے گی یہ فوجیوں کو علم ہے قومی خدمت اپنی جگہ لیکن جو آسائشیں سہولتیں ان لوگوں کو دی جاتی ہیں ہمارا سرمایہ دار کیوں نہیں دیتا۔
مانی میرے پاس مزدوری کرتا تھا 502گجر گھر بنا رہا تھا سخت جان تھا دو مزدوروں کا کام کر جاتا تھا۔ وہ فوج میں چلا گیا ایک دن اسے گھر چائے پر بلایا تو پوچھا کیسے دن گزر رہے ہیں۔آپ کو بتاؤں اس نے فوج کیوں جوائن کی کہنے لگا تنخواہ اچھی ہے میڈیکل ہے اور سب سے بڑھ کے لوگ عزت کرتے ہیں۔
کاش ہم بھی اپنے مزدور کویہ چیزیں دیں عزت تنخواہ علاج معالجہ۔
آفرین ہے،،نیازی،، تو نے یہ کام کرنے شروع کر دئے ہیں ابراراحق نے،،اگلی بازی فیر نیازی،، کا نعرہ دے کر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ عمران خان نیازی کو لوگ پھر اقتدار میں لائیں گے۔
لفظ نیازی اس نیازی کے لیے نہیں ہے جو کراچی کی سڑکوں پر ٹینکر چلاتا ہے یہ شعر کے وزن کی ضرورت تھا جب اگلی وار فیر۔ شیر کا نعرہ لگتا ہے تواس سے مراد یہ نہیں ہوتا کہ چڑیا گھر سے شیر کو نکال کر اقتدار کی مسند پر بٹھایا جائے گا اس سے مراد نواز شریف ہے۔
عمران خان کے تین سال سچ ہوچھیں زرداری اور نواز شریف کے تیس پینتیس سالوں سے بہتر ہیں۔ اس روز ایک اور نعرہ بھی لگا تھا شائد وہ عوام کی جانب سے تھا غریبوں کی گیلری سے تھا،،فواد آیا سواد آیا،،۔
اس نعرے ہر بھی توجہ دی جائے۔قوموں میں جب جذبے پیدا ہوں تو نعرے بننے شروع ہوتے ہیں،،یہ جو نئی بیماری ہے زرداری ہے کا نعرہ میں نے دیا تھا یہ علامت ہوتی ہے کوئی منشور نہیں اگلی واری فیر کا جواب اگلی بازی فیر نیازی سے بہتر کوئی اور نعرہ نہیں ہو سکتا لہٰذہ جناب حسن نثار صاحب اسے برداشت کریں۔لفظ سنگر کو تضحیک کا نشانہ نہ بنائیں۔ دنیا کی کوئی تحریک دیکھ لیں اس میں شاعر ضرور ہوتا ہے تحریک پاکستان میں کسی شاعر ہی نے کہا تھا،،ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح،،۔
خود علامہ اقبال حمائت اسلام کے جلسوں میں ترنم سے نظم پڑھتے تھے تحریک پاکستان کے بعد کی تحریکوں میں امین گیلانی بھی ترنم سے نظمیں پڑھتے رہے اگلی بازی فیر نیازی کو تسلیم کیا جائے اس لئے کہ گلگت بلتستان آزاد جموں و کشمیر اور ڈسکہ انتحابات نے موسم کا حال بتا دیا ہے کہ کہ اللہ کے کرم سے اگلی بار عمران خان کی ہی ہے کینٹ الیکشن میں ثابت ہو جائے گا کہ نیازی کا دور اب وہاں بھی آنے والا ہے جہاں کبھی نہیں آیا۔اللہ وزیر اعظم پاکستان جناب عمران احمد خان نیازی کی عمر درازی کرے۔ایک اور بات بھی کرنا چاہوں گا کہ آرمی کے آفیسرز کی وردی کے اوپر ان کے ناموں کی بجائے بعض اوقات قوم قبیلے کا نام بھی ہوتا ہے۔اب ساری دنیا جنرل باجوہ کہتی ہے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ سیالکوٹ کے سارے باجوہ جنرل ہیں۔ویسے عمران خان کا سرکاری نام پاسپورٹ پر نام عمران احمد خان نیازی ہے۔اسے چلنے دیں۔میں معذرت خواہ ہوں اگر آپ کی دل شکنی ہوئی ہو آپ اس ملک کے دانشور ہیں جنہوں نے عمران خان کا بھرپور ساتھ دیا ہے میرے دوست احسن رشید کے دوست ہیں ہم آپ کو پڑھتے اور سنتے ہیں آپ کا کالم مزے دار ہوتا ہے آپ کے پروگرام لاجواب ہوتے ہیں۔ چلتے چلتے ایک بات کہے دیتا ہوں ان تین سالوں کے مکمل ہونے کے بعد جو تقریب جناح کنونشن سینٹر میں منعقد کی گئی سچ پوچھیں ”فواد آیا سواد آیا“کہنے پر مجبور ہوں۔
(تحریک انصاف شمالی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain