6 ستمبر کے جذبے زندہ ہیں

حیات عبداللہ
پاکستان جب بھی سیاسی خرخشوں اور علاقائی مخمصوں میں گِھر جاتا ہے، بھارتی سیاست دانوں کی رال ٹپکنے لگتی ہے۔یہاں جب بھی سیاسی حالات مخدوش ہوتے ہیں، بھارتی ہندو کی نربھاگ زبان پاکستان کے متعلّق منفی پروپینگنڈا کرنے کے لیے دو ہاتھ لمبی ہو جاتی ہے، وہ تَوا گرم دیکھ کر اپنی روٹی سینکنے لگ جاتا ہے، وجہ یہ ہے کہ بھارتی سیاست دانوں کی سوچ بڑی ہی بدبودار ہے اس لیے کہ وہ گائے کو گاؤ ماتا کہتا ہے، اس کی پوجا پاٹ کرتا ہے، اس کے گوبر کو متبرّک سمجھ کر اپنے گھر بالخصوص باورچی خانے میں لیپتا ہے۔وہ گائے کے پیشاب کو مقدّس جان کر اِس کے ساتھ اپنے آپ کو پاک و پوتر کرتا ہے، یہی سبب ہے کہ اس کی سوچ اور فکر میں بھی ہمہ قسم کی آلودگی داخل ہو چکی ہے، اس کے خیالات سے بھی گائے کے پیشاب جیسی بدبو کے بھبکے اٹھتے ہیں۔ہندو مذہب مرکب ہے برہمن، کھشتری، ویش اور شودر جیسی چار ذاتوں کا، شودر کو دلت اور ہریجن بھی کہا جاتا ہے مگر ہندو کی منفی سوچ دیکھیے کہ وہ اپنے ہم مذہب شودروں کو ملیچھ اور غلیظ سمجھتا ہے، وہ شودروں کو اچھی زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے نہ انہیں انسانی حقوق دینے پر رضا مند ہے۔جب اپنے ہم مذہب لوگوں کے ساتھ ہندوؤں کا سلوک اتنا بہیمانہ ہے تو مسلمانوں کے لیے کس طرح اس کے دل میں محبت پنپ سکتی ہے؟
رات کے تین بجے تھے۔اہلِ پاکستان آرام و سکون کی نیند سو رہے تھے مگر مسٹر چاون اور بھارتی کمانڈر اِن چیف جنرل جے این چودھری رات کی تاریکی میں پاکستان پر حملے کا منصوبہ بنا چکے تھے۔وہ آٹھ گھنٹوں میں لاہور اور 92 گھنٹوں میں پورے پاکستان پر قبضہ کرنے کے سپنے دیکھ رہے تھے۔وہ یہ یقین کر چکے تھے کہ تھوڑی ہی دیر بعد بی آر بی نہر کو عبور کر جائیں گے مگر دنیا نے بھارت کا تماشا بنتے دیکھا۔اپنے وطن کے ساتھ دیوانگی اور جنوں خیز جذبات کے سانچے میں ڈھلے اہلِ پاکستان پیدل اور سائیکلوں پر دیوانہ وار محاذِ جنگ کی طرف دوڑ پڑے۔بچے، بوڑھے اور جوانوں کے جو بھی ہاتھ لگا وہ لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑے۔بی آر بی نہر پر متعیّن پاک فوج نے بھارتی گیدڑوں کا منہ توڑ کر رکھ دیا۔جوڑیاں اور چھمب پر میجر سرور شہیدؒ نے جان قربان کر کے بھارتی عزائم کو قبر میں دفن کر دیا۔فلائیٹ لیفٹیننٹ یوسف علی اور ایم ایم عالم نے دشمن کے ساتھ جنگ کی وہ انوکھی داستانیں رقم کیں کہ دنیا آج تک ورطہ ء حیرت میں ہے۔پاکستانی بحریہ نے اپنے سے دس گنا بڑی بھارتی بحریہ کو بحرِ ہند میں غرق کر ڈالا۔میجر راجا عزیز بھٹی شہیدؒ نے اپنی یونٹ کو لے کر دشمن کی صفیں الٹ پلٹ کر رکھ دیں۔
مودی کے بڈھے کھوسٹ دماغ کی یاد داشت اگر ڈھیلی پڑ چکی ہے تو ہم بتا دیتے ہیں کہ پاکستان نیوی کے حملہ آور طیارے اپنے ٹارگٹ سے ایک سو مِیل کے فاصلے پر اس طرح جمع ہوئے کہ بھارتی”سورماؤں“ کو خبر تک نہ ہوئی۔جب ٹارگٹ پوائنٹ، توپ خانے کی زد میں آ گیا تو پاکستانی سپاہ نے اندھا دھند گولا باری شروع کر دی۔رات 12 بج کر 24 منٹ پر پاکستانی جنگی طیاروں نے 350 گولے برسا کر اپنا اہم ٹاسک محض چار منٹوں میں حاصل کر لیا۔مودی کو خبر ہونی چاہیے کہ ہم ایک ایسی قوم اور مُلک سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنا کوئی بھی اہم مشن چند منٹوں میں مکمل کر لیتے ہیں۔اگر مودی نے کسی طوطے کی طرح حقائق سے آنکھیں موند لی ہیں تو ہم اس کے وجود کو جھنجوڑ کر، اس کی آنکھیں کھول دیتے ہیں کہ چھمب، دیوا، رَن کچھ اور جوڑیاں کے محاذ پر بھارت سے اس قدر مالِ غنیمت چھینا گیا تھا کہ اس سے ایک ڈویژن فوج کو مسلح کیا جا سکتا ہے اور ایک بکتر بند رجمنٹ تیار کی جا سکتی ہے۔
بھارتی ہندو عیّار اور مکّار ہے، وہ سازشیں کرنے کا ماہر ہے۔بشیر احمد چودھری نے اپنی کتاب”تحریکِ پاکستان اور طلبہ“ میں مکّار پنڈت چانکیہ کے یہ تین اقوال درج کیے ہیں جن سے بھارتی ہندو کی سوچ اور فکر کی آلودگی کا اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں۔1، دشمن پر چیتے کی طرح جھپٹو، اگر دشمن طاقت ور ہے تو خرگوش کی طرح بھاگ جاؤ۔2، اپنے دل کی بات دشمن پر عیاں نہ ہونے دو، منہ سے میٹھی میٹھی بات کرو لیکن اپنے مقصد کو پیشِ نظر رکھو، جوں ہی دشمن غافل ہو پوری طاقت کے ساتھ حملہ کر دو۔3، اپنے ہمسائے کو اس قابل نہ رہنے دو کہ وہ تمہارے سامنے سَر اٹھا سکے، ہمیشہ اسے ختم کرنے کا منصوبہ سوچتے رہو۔
دیکھ لیجیے! آج بھی بھارتی ہندو کے خیالات اور کردار ان ہی تین اقوال کے عکاس ہیں۔ہندوؤں نے بھارت میں بھی دیگر تمام مذاہب کے لوگوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔موہن بھاگوَت کہتا ہے کہ ہندوستان کا ہر باشندہ ہندو کہلایا جانا چاہیے۔مودی حکومت کے کئی وزیر بھی ہندو اور ہندوتوا وغیرہ کی یہی تشریح کرتے ہیں۔مَیں حیران اس بات پر ہوں کہ بھارت کو ہندوستان کیوں کہا جاتا ہے؟ اس کا سرکاری نام ہندوستان نہیں بلکہ بھارت ہے، جس طرح پاکستان کے ہندوؤں کو پاکستانی کہا جاتا ہے، مسلمان نہیں، بِعَینہٖ بھارت کے تمام لوگوں کو بھی بھارتی کہا جانا چاہیے، ہندو نہیں۔
اگر مودی کی نظریں انتہائی کمزور ہو گئی ہیں تو اسے نزدیک کی عینک لگا کر جنگِ ستمبر پر سنڈے ٹائمز کا یہ تجزیہ پڑھ لینا چاہیے۔”پاکستان فضا میں پوری طرح چھایا ہوا ہے، بھارتی ہوا باز پاکستان کے مقابلے میں انتہائی گھٹیا درجے کے ہیں اور بھارت ایک ایسے مُلک کے ہاتھوں پٹ رہا ہے کہ جو آبادی میں اس سے چار گنا کم ہے“ مودی کو برطانوی اخبار”ڈیلی مرر“ کے نامہ نگار برائن سچن کی یہ رپورٹ بھی ملاحظہ کر لینی چاہیے کہ جس مُلک کے پاس پاکستان جیسی فوج ہو، اسے شکست دینا آسان کام نہیں۔
(کالم نگارقومی وسماجی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

افغانستان میں امن کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا

محمدنعیم قریشی
گزشتہ روز کابل ائیر پورٹ پر دھماکوں کے بعد پینٹا گون کا یہ بیان قابل غور ہے کہ افغانستان میں اس قسم کے مزید حملوں کا خدشہ ہے اور وہ اس سلسلے میں آخری منٹ تک پر وازیں چلائینگے،جبکہ یہ علاقہ جہاں دھماکے ہوئے ہیں امریکی سیکورٹی کے کنٹرول میں تھا لہٰذا طالبان کو اس کا ذمہ دار یا ان کی لاپرواہی قرار نہیں دی جاسکتی ہے، داعش کی جانب سے ان دھماکوں کو قبول کرلیا گیاہے،معروف خبررساں ایجنسی کے مطابق کابل دھماکوں سے چند گھنٹے قبل برطانیہ نے الرٹ جاری کیا کہ کسی بھی مقام پر انتہائی خطرناک حملہ ہو سکتا ہے برطانوی وزیر برائے مسلح افواج جیمز بیبی نے بتایا کہ افغان دارالحکومت میں انتہائی خطرناک حملے کی مصدقہ اطلاعات تھیں، اس سے قبل امریکہ نے بھی آج ہی اپنے شہریوں کو خبردار کردیا تھا کہ وہ ایئر پورٹ پر جمع نہ ہوں کیوں کہ ائیر پورٹ کے داخلی دروازوں پر دہشت گردی کی اطلاعات ہیں، پھر ہم نے دیکھا کہ کابل ایئر پورٹ پر یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے جس میں 13 امریکی فوجیوں سمیت 170افراد ہلاک ہوئے۔
یہ وہ اطلاعات تھیں جن میں آسٹریلیا نے بھی اس حوالے سے الرٹ جاری کیا تھا اورکہا تھا کہ ائیرپورٹ کے باہر موجود تمام شہری واپس لوٹ جائیں، ان وارننگز کے باوجود سینکڑوں افغان شہری ایئر پورٹ کے دروازوں پر موجود رہے اور دھماکوں کی زد میں آ گئے۔اس ساری صورتحال میں امریکی صدر نے کابل میں ضرورت پڑنے پر اضافی فوج بھیجنے کا عندیہ بھی دے ڈالا ہے اور ساتھ میں چن چن کر بدلہ لینے کا اعلان بھی کیاہے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر کی جانب سے اس قسم کی دھمکیاں اس وقت دی جارہی ہیں جب امریکی فوج افغانستان سے مکمل انخلا کے لیے تیار بیٹھی ہے۔دوسری جانب پاکستان کے نقطہ نظر سے پاکستان کی پریشانیوں میں اضافہ یا ا س قسم کے واقعے کو خطرے کی گھنٹی ضرور قرار دیا جاسکتا ہے کہ افغانستان میں اب بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو افغانستان میں اندرونی بے چینی اور خلفشار پیداکرنا چاہتے ہیں،لہذا افغان حکومت یا طالبان کی نئی قیادت پر یہ بات لازم ہوتی ہے کہ وہ ایسے عناصر سے نمٹنے کی مکمل تیاری رکھے کیونکہ اس قسم کی تنظیموں نے جہاں اب پوری دنیا کو یکے بعد دیگر دو دھماکے کرکے دکھا دیا جب افغانستان کے حالات معمول پر آنے والے تھے تو یقینی طورپر اس وقت بھی یہ تنظیمیں افغانستان میں دھماکے کرے گی۔ جب طالبان کی حکومت مکمل طور پر بن جائیگی دوسری جانب عقل یہ کہتی ہے کہ اس قسم کی تنظیموں کی کوشش یہ ہوگی طالبان کی حکومت کو بین الاقوامی قبولیت حاصل نہ ہو اور اس کے برعکس عالمی سطح پر یہ تصور ابھرے کہ طالبان افغانستان کے انتظامی ڈھانچے کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔
ایک اور بات یہ کہ ان انتہاپسندوں کی یہ بھی کوشش ہوگی کہ وہ اس افراتفری کے ماحول میں افغانستان میں اپنے لیے محفوظ ٹھکانے بنالیں۔ جہاں سے بیٹھ کر یہ افغانستان اور ہمسایہ ممالک میں دہشت گردانہ کارروائی کرکے پورے خطے میں نفسا نفسی کی فضاقائم کردی جائے لہذاس قسم کے واقعات سے بچنے کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ طالبان جلد سے جلد اپنی حکومت کو بناکر اپنا کنٹرول قائم کرلیں وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ افغانستان سے جڑے ہمسایہ ممالک بھی طالبان کی مدد کریں تاکہ وہاں ان کی ایک وسیع البنیاد حکومت بن جائے اوران کی اس طرح مدد کی جائے کہ وہ اندرونی طور پر اس قدر مظبوط ہوجائیں کہ وہ اپنے اندرونی مسائل اور دہشت گردانہ کارروائیوں سے بخوبی نمٹ سکیں، اس عمل کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ طالبان نے اپنی تحریک میں جو وعدے کیئے ہیں وہ پورے ہوجائیں تاکہ دنیا بھر میں ان کو قبولیت ملنا آسان ہوجائے۔
ویسے اگر دیکھا جائے تو افغانستان کی صورتحال کچھ اس قدر تیزی سے بدلی ہے کہ طالبان کی کابل میں حکومت بنتے ہی مختلف ممالک کی حکومتوں نے یہ سوچنا شروع کردیا ہے کہ کیا طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا چاہیے یا نہیں۔اگرچہ افغانستان میں طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ اطمینان تو ہوا ہوگا کہ وہاں انڈیا کے قریب اور پاکستان کے مخالف سمجھے جانے والی حکومت اب نہیں رہی تاہم دوسری طرف یہ تشویش بھی قائم ہے کہ افغانستان طالبان کی کامیابیاں کہیں پاکستان میں ریاست مخالف مذہبی انتہا پسند وں بالخصوص تحریک طالبان پاکستان کی حوصلہ افزائی نہ کر دیں لیکن یہ باتیں فی الحال قبل از وقت ہیں، امریکہ میں پاکستانی سفیر احمد مجید خان نے کہا کہ طالبان کس طرح پیش آتے ہیں اور ان کا طرز عمل کیا رہتا ہے یہ بھی پاکستان کے فیصلے پر اثر انداز ہوگا، اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے کہا کہ طالبان چاہتے ہیں کہ عالمی برادری انہیں قبو ل اور تسلیم کرے ہمیں اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیے تا کہ ان کی طرف سے اچھے رویے کویقینی بنایا جا سکے۔
ایک تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ افغانستان میں سوویت یونین کے ساتھ لگ بھگ دس برس جاری رہنے والی جنگ کے بعد طالبان نوے کی دہائی میں سامنے آئے تھے تو صرف تین ممالک نے طالبان کی حکومت کوتسلیم کر لیا تھا ان تین ممالک میں پاکستان سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل تھے، لیکن اس بارطالبان نے بیس سال میں بہت کچھ سیکھا ہے انہوں نے سفارت کاری میں بھی وہ مہارت حاصل کی ہے کہ امریکہ کو میدان جنگ ہی میں نہیں دوحا مذاکرات کی میز پر بھی سب کو حیران کردیا ہے،2001میں امریکہ کے حملے کے بعد طالبان پہاڑوں میں چلے گئے تھے تب ہماری سیکولر اور لبرل حلقے کہا کرتے تھے کہ یہ امریکہ سے لڑنے چلے تھے، مدرسوں کے مولوی جن کو دنیا کا کچھ پتہ ہی نہیں ہے، لیکن طالبان کی یہ فتح ایک بار پھر سے تاریخ رقم کر چکی ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ افغانستان والوں نے غلامی کی زنجیریں توڑدی ہیں اور یہ کہ اگر افغان طالبان نے تنہا فوجی طاقت سے حکومت بنائی تو اس سے خانہ جنگی ہوگی اور یہ پاکستان کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔بہرحال آنے والے دنوں میں سب واضح ہوجائے گا کہ فغانستان میں امن کا اونٹ آخر کس کروٹ بیٹھے گا۔
(کالم نگار مختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

امتنان شاہد کا تازہ انٹرویو

صحافت کے کم از کم 32 شعبے ہیں۔ خبر، فیچر، فورم، تبصرہ، تجزیہ، اداریہ، ڈاکومنٹری، کالم، انٹرویو وغیرہ یہ وہ بنیادی اجزاء ہیں جن کے گرد صحافت گھومتی ہے۔ انٹرویو کا آغاز تو اسی وقت ہوگیا تھا جب دو انسانوں نے ایک دوسرے سے پہلی گفتگو اور ابلاغ کیا تھا۔ تاہم جدید صحافت میں انٹرویو کی عمر محض تین سو سال سے بھی کم ہے۔ انگریزی صحافت میں پہلا انٹرویو اس وقت نئے صحافتی تجربات کرنے والے صحافی جیمز گورڈن بینیٹ سینئرJams Gordon Bennett Sr نے کیا جو اپریل 1836ء میں اخبار ”نیویارک ہیرالڈ“ میں شائع ہوا۔ یہ ایک قتل کیس میں سوال و جواب پر مشتمل نئے انداز کی تحریر تھی جسے شروع میں کم لیکن بعد میں بے حد پسند کیا گیا۔
انٹرویو بظاہر آسان عمل دکھائی دیتا ہے لیکن حقیقت میں یہ صحافت کے دیگر شعبوں سے زیادہ تکنیک، ہنر، نفسیات پر عبور اور محنت مانگتا ہے۔ اچھا اور بھرپور انٹرویو کرنے سے پہلے اس شخصیت بارے بہت کچھ جاننا اور اس کی زندگی کے ہر ہر پہلو بارے معلومات کا ذخیرہ موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ انٹرویو کے نام پر مذاق ہوتا ہے کہ اس شخصیت سے پوچھا جائے کہ آپ کا تعارف اور حالات زندگی کیا ہیں۔…
پاکستانی صحافت میں چند انٹرویوز بہت مشہور رہے ہیں جن میں حامد میر کا اسامہ بن لادن سے مبینہ انٹرویو بھی شامل ہے جو بعد میں بہت متنازعہ ثابت ہوا۔ پاکستانی صحافت میں ایک معروف انٹرویو سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا تھا جو سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں اس وقت کے انتہائی نو جوان صحافی امتنان شاہد نے دبئی میں کیا تھا۔ اس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ہر طرف سے انکار کے باوجود حکومت اور اپوزیشن میں ناصرف مذاکرات جاری تھے بلکہ کامیاب ہونے کے قریب تر تھے۔ (بعد میں یہ بات حرف بحرف ثابت ہوئی).
بے نظیر بھٹو کا تاریخی انٹرویو لینے والے امتنان شاہد نے حال ہی میں ایک میڈیا گروپ کو ایک ایسا انٹرویو دیا ہے جو موجودہ حالات و واقعات کے جامع تجزیے اور سیاسی پیش گوئیوں کے سبب آنے والے کئی سالوں تک یاد رکھا جائے گا۔ حالیہ آزاد جموں و کشمیر کے الیکشن میں مسلم لیگ ن ہار گئی۔ امتنان شاہد اس شکست کی وجہ الیکشن سے قبل نواز شریف کی سابق افغان سیکورٹی ایڈوائزر سے ملاقات کو قرار دیتے ہیں کیونکہ اس افغان سیکورٹی ایڈوائزر کا بیانیہ بھارت سے مستعار لیا ہوا تھا جو کشمیری عوام کو بالکل پسند نہیں آیا۔ امتنان شاہد نے میڈیا کی ایک قسم کے زوال اور دوسری کے مبینہ عروج کی طویل بحث کو چند الفاظ میں اس طرح سمیٹا کہ ”الیکٹرانک میڈیا ہو پرنٹ یا ڈیجیٹل میڈیا، عوام قابل اعتماد ذرائع سے سچی خبر مانگتے ہیں نہ کہ ناقابل اعتماد ذرائع سے جھوٹی اطلاعات، یہی وجہ ہے کہ جب تک پرنٹ الیکٹرانک میڈیا درست اور سچی خبر دیتا رہے گا زندہ رہے گا اور کبھی ختم نہیں ہو گا۔“ امتنان شاہد نے چھپے الفاظ میں دو قومی نظریہ کی مخالفت کرنے والوں کے دوغلے پن کو بھی واضح کیا تو پاکستانی میڈیا کے اندر بھارت کے حامی عناصر Pro India Segment کو بھی بے نقاب کردیا۔
امتنان شاہد اخبارات اور دیگر میڈیا تنظیموں کے بھی فعال عہدیدار رہے ہیں اور اس انٹرویو میں اس کا ذکر بھی انہوں نے کیا۔ امتنان شاہد کے اس رول کو سمجھنے سے پہلے سیرت نبویؐ کے ایک پہلو کو جاننا بہتر ہوگا۔ بعثت نبویؐ سے پہلے جب مکہ ایک تجارتی مرکز تھا تو مقامی تاجر باہر سے آنے والے تاجروں سے نا انصافی کرتے۔ کبھی کم تولتے، رقم نہ دیتے یا دیگر طریقوں سے انہیں نقصان پہنچاتے۔ اس طرح مکہ بطور تجارتی مرکز بدنام ہو رہا تھا۔ایسے میں حضرت محمدؐ کی کاوشوں سے تاجروں کی ایک تنظیم بنائی گئی جس کا مقصد تاجروں کے حقوق کی حفاظت کے ساتھ ساتھ تاجروں کا ذاتی محاسبہ کرنا بھی تھا۔ اس تنظیم کی کاوشوں سے مکہ کی بطور تجارتی مرکز حیثیت مستحکم ہو گئی۔ امتنان شاہد بھی میڈیا تنظیموں کا وہی رول چاہتے ہیں کہ میڈیا کے معاملات حکومت کے بجائے میڈیا تنظیموں کے اپنے ہاتھ میں رہیں۔ امتنان شاہد نے مذکورہ انٹرویو میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی خوبیوں اور خامیوں کا کھل کر تجزیہ کیا۔جہاں حکومت پر مہنگائی کے حوالے سے تنقید کی تو وہاں یہ بھی بتایا کہ اس سب کے باوجود عام آدمی کی عمران خان سے امیدیں ابھی تک برقرار ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ صدی تک مذہبی سیاست کا غلبہ رہا لیکن گزشتہ 2 عشروں میں مذہبی جماعتوں کی مقبولیت میں واضح کمی ہوئی ہے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی تو 10 نشستیں موجود ہیں لیکن تمام مذہبی جماعتوں کی ملا کر بھی 10 سیٹیں نہیں بنتیں۔ امتنان شاہد نے پیشین گوئی کی ہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان میں مذہبی جماعتیں آئندہ الیکشن میں قوت ہوں گی۔ صورتحال کا حقیقی اندازہ تو الیکشن کے بعد ہوگا لیکن نظر آ رہا ہے کہ امتنان شاہد کا اشارہ درست ثابت ہوگا۔
کسی بھی شعبے میں مہارت کے لئے خاص ماحول میں سخت ٹریننگ ضروری ہوتی ہے۔ عموماً ڈاکٹر کے بیٹے ہی ڈاکٹر بنتے ہیں تو اس کے پیچھے بھی ایک وجہ ہوتی ہے۔ ایسی ہی ایک وجہ ایک ڈاکٹر کے بیٹے (جو ہمارے دوست بھی ہیں) بتاتے ہیں کہ ہیومن اناٹومی اور فزیالوجی عام طالب علم تو ایف ایس سی کے بھی بعد ایم بی بی ایس میں پڑھتا ہے لیکن ڈاکٹر کے بیٹے کو گھر اور کلینک میں لگی تصاویر، نقشوں اور ماں باپ کی گفتگو کے باعث جسمانی اعضاء اور تمام سسٹمز پرائمری اور مڈل میں ہی ازبر ہو جاتے ہیں۔ یہی صورت حال پاکستان میں جدید صحافت کے بانی ضیا شاہد کے گھر پیدا ہونے والے امتنان شاہد کی ہے۔ جو اپنی انتہائی کم عمری میں ان تمام مراحل سے انتہائی سختی سے گزرے جہاں سے عام صحافی اپنی زندگی کے 40، 50 سالوں بعد گزرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امتنان شاہد کی کہی ہر بات میں وزن اور ہر تجزیہ حقیقت کے قریب تر نظر آتا ہے۔ لیکن تعلیم و تربیت کے بعد صلاحیت وہ نعمت ہے جسے اللہ جسے چاہے دیتا ہے… اور اس حوالے سے امتنان شاہد پر اللہ پاک کا بے پایاں کرم ہے۔
(کالم نگار قومی و سیاسی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

میڈیا کو ریگولیٹ کریں

وزیر احمد جوگیزئی
آئین بنانا اور آئین پر عمل درآمد کرنا،آئین کی پاسداری کرنا قوموں کی ذمہ داری ہو تی ہے،لیکن بدقسمتی سے ہم نے وہ کام کیے ہیں جو کہ ہمیں بطور قوم نہیں کرنے چاہئیں تھے،اور جو کام کرنے چاہئیں تھے، ان میں سے ایک بھی ہم سے نہیں ہو سکا ہے۔ملک کے آدھے حصے کو گنوانے کے بعد بھی ہم نے اس تلخ تجربے سے کتنا سیکھا ہے اور اس عظیم سانحے کا موجب بننے والے عوام کو کتنا ختم کرنے کی کوشش کی ہے اس پر بدستور ایک بہت بڑا سوالیہ نشان تاحال موجود ہے۔اللہ تعالیٰ کی جانب سے پاکستان کی صورت میں کتنا پیارا،وطن ہمیں نصیب ہوا، اور اس کو مستحکم کرنا ہماری ذمہ داری تھی لیکن بد قسمتی سے اس ملک کو دو لخت کرکے بھی ہماری لیڈرشپ آج تک یہ نہیں سمجھ پائی کہ کسی بھی مہذب جمہوری ملک میں‘ ایک آزاد‘ ذمہ دار باشعور اورصحت مند ذرائع ابلاغ کا ہونا بہت ضروری ہے۔
میں بات 60ء کی دہائی کی کر رہا ہوں جب ایوب خان نے پریس ٹرسٹ بنایا اور پریس پر پا بندیاں لگائی گئیں،بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ پریس پر پا بندیاں لگانا حکمرانوں کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ایوب خان کے دور میں پریس پر پابندیاں لگانا کسی صورت بھی ایوب خان یا پھر ان کے اقتدار کے لیے سود مند ثابت نہیں ہو سکا،بلکہ میڈیا کے ساتھ محاذ آرائی کا ایوب خان کی حکومت کے استحکام پر الٹا اثر ہوا اور ایوب خان کی حکومت زوال کا شکار ہو گئی۔لیکن بات ایوب خان تک محدودنہ رہی بلکہ ہر دور میں ہر حکومت اور ہر حکمران کی یہی کوشش رہی ہے کہ کسی طرح سے پریس پر کنٹرول رکھا جائے اور اس پر قدغنیں لگا کر اپنی حکومت کو مضبوط بنایا جائے لیکن ایسی پابندیاں کبھی کامیاب نہیں ہو ئیں بلکہ ہر بار ایسی قدغنوں کے الٹے اثرات مرتب ہو ئے ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ میڈیا پر پا بندی اور اس کو اپنی مرضی کے مطابق ریگولیٹ کرنے کی کوششیں کرنااب تو طر ز حکمرانی کا حصہ بن چکا ہے تو غلط نہ ہو گا۔
دور حاضر میں دنیا بھر میں جو بھی آزاد ملک ہیں، آزاد جمہوری ملک ہیں ان میں میڈیا پر کسی بھی قسم کی قدغن لگانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔پاکستان جیسے قوانین اور طریقہ کار جو کہ میڈیا کے لیے اپنائے جاتے ہیں وہ تو شاید تصور میں بھی نہ لائے جاسکتے ہو ں۔لیکن میں یہاں پر یہ تجویز دینا چاہوں گا کہ اگر حکومت میڈیا کو ریگولیٹ کرنا ہی چاہتی ہے اور اس سلسلے میں یہ موقف اپنائے ہوئے ہے کہ میڈیا کا ریگولیٹ کیا جانا ضروری ہے تو پھر کیوں نہ میڈیا کی ریگو لیشن کی ذمہ داری متعلقہ صحافتی اداروں اور پریس کلبز کو دی جائے،ان کو یہ اختیارات حاصل ہوں کہ وہ میڈیا پر نظر رکھیں اور کسی بھی ایسے کام کو نہ ہونے دیں جس سے کہ معاشرے میں خلل پیدا ہو۔
معاشرے میں میڈیا ایک اہم ترین ادارہ ہے اور یہ ایک ایسا ادارہ ہے جس میں کام کرنے والے تعلیم یافتہ ہیں،پڑھے لکھے ہیں اور با شعور ہیں،محب وطن ہیں اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور معاشرے کی خامیوں اور خوبیوں دونوں کا مکمل ادراک رکھتے ہیں،بہت سارے صحافی بہت ہی معیاری کام کرتے ہیں جبکہ کئی پیدل بھی ہوں گے لیکن پا بندی کسی بھی چیز کا حل نہیں ہو ا کرتی ہے۔پریس کلبز کو خود اپنے اداروں کو ریگولیٹ کرنے کا پابند بنانا چاہیے میں سمجھتا ہوں یہ طریقہ کار اختیار کرنے سے حکومت کو بھی بہتر نتائج حاصل ہوں گے۔آج کل جو ترکیب پریس کو ریگولیٹ کرنے کے لیے سوچی جا رہی ہے،اس کو شاید زیادہ تر لوگوں نے تو ابھی تک پڑھا ہی نہیں ہے اور اس پر تفصیلی غور نہیں کیا لیکن جس نے بھی اس کو اچھی طرح پڑھا ہے،اور سمجھا ہے اس نے اس بل کی مخالفت ہی کی ہے۔میری یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر کیوں ایسا ہو تا ہے کہ ہماری حکمران جماعتیں جو کہ جمہوری جماعتیں ہوا کرتی ہیں،اور الیکشن سے اور عوام کے ووٹوں کے ذریعے اور اسی میڈیا کی کوریج سے تقویت حاصل کرکے بر سر اقتدار آتی ہیں وہ کیوں اقتدار میں آنے کے بعد اسی میڈیا کے درپے ہو جاتی ہیں۔کیوں ان کو اس میڈیا سے چڑ ہونے لگتی ہے؟ اس کا جواب ایک ہی ہے کہ حکومت شفافیت کو بنیاد بنا کر معاملات چلا نہیں رہی ہو تی یا چلانا نہیں چاہتی ہے۔اگر حکومت اپنے معاملات کو شفاف رکھے اور درست طریقے سے معاملات چلائے تو اس کو پریس لا لانے کی کوئی ضرورت محسوس نہ ہو۔اسی طرح کے قوانین کے باعث میڈیا بھی اپنا معیار کھو بیٹھتا ہے اور یہ ملک کے لیے بھی نقصان کا باعث بنتا ہے۔ہمارے میڈیا میں بھی کمزوریاں بہت ہیں لیکن اگر میڈیا کی لیڈرشپ کو ذمہ دار بنایا جائے کہ اپنی ورک فورس کو ٹرینڈ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک معیاری اور ذمہ دار میڈیا ہمارے سامنے نہ آئے۔صرف دھونس سے یا زور زبردستی کرکے معاملات کبھی بھی ٹھیک نہیں ہو ں گے۔
بہر حال یہ ایک مشکل مرحلہ ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ میڈیا کے ذریعے اب طرز حکمرانی میں کو ئی تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ ایک اسٹیٹس کو ہی برقرار رہے گا۔اگر آزاد عدلیہ، پارلیمان کے ساتھ مل کر احتساب کا بیڑہ اٹھائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک میں بہتری دیکھنے میں نہ آئے۔اصل احتساب کو پبلک اکا ونٹ کمیٹی کے 365روز کام کرنے سے او ر میڈیا کے ان کا ساتھ دینے سے ممکن بنایا جاسکتا ہے۔اس حوالے سے کچھ دلچسپ پیشرفت ہو رہی ہے لیکن اس پر آگے چل کر بات کریں گے ابھی اس حوالے سے زیادہ بات کرنا مناسب نہ ہو گا۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭

ای او بی آئی میں نامناسب تبادلے اورتقرریاں

آغا خالد
ای او بی آئی میں انتظامیہ کی سرپرستی میں منظور نظر اور انتہائی جونیئرافسر طاہر صدیق نے ریجنل ہیڈز، ڈپٹی ریجنل ہیڈز اور بیٹ افسران کے بار بار تبادلوں کو شک کی نظرسے دیکھاجارہاہے ایک مالی سال کے دوران ای او بی آئی کے 60 ریجنل ہیڈز، ڈپٹی ریجنل ہیڈز اور بیٹ افسران کے ملک گیر تبادلوں کے باعث ادارہ کو “ٹرانسفر گرانٹ” کی مد میں 2 کروڑ روپے کا ٹیکہ لگاہے۔
کسی بھی سرکاری ادارہ میں ملازمین کے تبادلے و تقرریاں معمول کا انتظامی عمل ہے لیکن حیرت انگیزطورپر وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان کے ایک ذیلی ادارہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن EOBI میں سال 2007 اور سال2014 میں بھرتی شدہ انتہائی جونیئراورنان کیڈرافسران کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال کی رپورٹس نیب ایف آئی اے اوراعلیٰ حکام کوبھیج دی گئی ہے تفصیلات کے مطابق 2014 میں بھرتی ہونے والے جونیئر اور نان کیڈر افسر طاہر صدیق اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ نے خلاف ضابطہ ڈیپوٹیشن پر تعینات قائم مقام چیئرمین اور ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ کی سرپرستی کی وجہ سے ادارہ کے ریجنل ہیڈز، ڈپٹی ریجنل ہیڈز اور فیلڈ آپریشنز کے افسران کے بار بار تبادلے کئے ہیں ای او بی آئی ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کراچی سے طاہر صدیق اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے دستخطوں سے جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن نمبر 209/2021 بتاریخ 17 اگست کو ایک مالی سال کے دوران چوتھی مرتبہ ملک بھر میں ای او بی آئی کے فیلڈ آپریشنز کے 60 افسران،ریجنل ہیڈز، ڈپٹی ریجنل ہیڈز اور بیٹ افسران کے بڑے پیمانے پر تبادلے اور تقرریاں عمل میں آئی ہیں جس میں ادارہ کے آپریشنز ڈپارٹمنٹ کے سینئر اور تجربہ کار افسران کو یکسر نظر انداز کرکے صرف اور صرف سال2007 اور سال 2014 میں بھرتی شدہ انتہائی جونیئر اور ناتجربہ کار افسران کے مفادات کا بھرپور خیال رکھتے ہوئے انہیں ملک بھر کے ریجنل آفسوں میں انتہائی منفعت بخش اور کلیدی عہدوں پر تعینات کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ادارہ کے ملک بھر کے 39 ریجنل دفاتر کے ریجنل ہیڈز، ڈپٹی ریجنل ہیڈز اور بیٹ افسران کے ایک مالی سال کے دوران مسلسل چار بار تبادلوں اور تقرریوں سے ادارہ میں غیر یقینی کی کیفیت پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ سنگین انتظامی اور مالی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں بیک وقت پانچ انتہائی کلیدی عہدوں پر براجمان طاہر صدیق نے حال ہی میں 13 اگست کو اچانک تبادلہ ہوجانے والے ڈائریکٹر جنرل آپریشنز نارتھ اینڈ ساؤتھ محمد اعجاز الحق کے تبادلہ کے نوٹیفکیشن کو پوشیدہ رکھ کر ان کے حوالہ سے تبادلوں اور تقرریوں کی سمری تیار کی اور ڈیپوٹیشن پر تعینات قائم مقام چیئرمین اور ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ شازیہ رضوی سے منظوری حاصل کرلی جو طاہر صدیق پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کرتی ہیں۔ بعد ازاں طاہر صدیق نے پسند نا پسند کی بنیاد پر تبادلوں اور تقرریوں کی لوٹ سیل لگادی اور تبادلوں کی فہرست میں من مانے طریقہ سے ہیرا پھیری کرکے اپنے دستخطوں سے مذکورہ نوٹیفیکیشن جاری کردیا اور اس طرح طاہر صدیق نے فیلڈ آپریشنز کے ملک گیر 60 تبادلوں اور تقرریوں کی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دہوئے۔ طاہر صدیق نے اپنے پسندیدہ افسران مبشر رسول ڈائریکٹر (فیصل آباد میگا کرپشن کیس میں ملوث) کو ریجنل ہیڈ کریم آباد کے منفعت بخش عہدہ پر جبکہ پچھلے برس سرگودھا اور بہاولپور میں قادری ٹیکسٹائل ملز سے لاکھوں روپے بھتہ وصولی کے اعترافی جرم اور بدنام کرپٹ افسر مزمل کامل ملک، ڈپٹی ڈائریکٹر کو سابقہ چیئرمین کی جانب سے تین انکوائریوں کے بعد بطور سزا تاحیات کسی بھی انتظامی اور مالی عہدہ کے لئے نااہل قرار دینے کے باوجود ریجنل ہیڈ ناظم آباد کے منفعت بخش عہدہ پر تعینات کرادیاہے جس سے ای او بی آئی میں بدترین لاقانونیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
جب ان متاثرہ افسران نے حصول انصاف کے لئے قائم مقام چیئرمین شازیہ رضوی سے ملاقات کی تو انہوں نے ان کی بات سنی ان سنی کردی جس کے باعث ای او بی آئی کے سینئر اور تجربہ کار فیلڈ افسران میں سخت غم و غصہ اور احساس محرومی پایا جاتا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سال 2014 بیج کے جونیئرسابق چیئرمین اظہر حمید کی سرپرستی اور ملی بھگت سے اپنے پس پردہ مقاصد اور ذاتی مفادات کے حصول کے لئے ایک خودساختہ” ای او بی آئی آفیسرز ایسوسی ایشن ” بھی قائم کر رکھی ہے وہ خود کو ایسوسی ایشن کا صدر اور اپنے بیج کے ایک افسر اور گہرے دوست محمد وقاص عرف وقاص چوہدری کو اس ایسوسی ایشن کا جنرل سیکریٹری ظاہر کرتا ہے ذرائع کا کہنا ہے کہ ضابطہ کے مطابق سوائے انتہائی ناگزیر صورت حال میں کسی بھی افسر کا تین برس کی مدت میں ایک بار تبادلہ اور تقرری کی جاسکتی ہے موجودہ صورت حال میں ادارہ کے ریجنل ہیڈز، ڈپٹی ریجنل ہیڈز اور بیٹ افسران کے بلاجواز بار بار تبادلوں کے باعث اپنی فیملی کے لئے رہائش کے مناسب انتظام اور بچوں کا تعلیمی سلسلہ بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے شہر کے آجروں اور مالکان کو ہر تھوڑی مدت بعد ادارہ کے ریجنل ہیڈز، ڈپٹی ریجنل ہیڈز اور بیٹ افسران کے نئے نئے چہروں سے واسطہ پڑتا ہے ریجنل ہیڈز کو بھی اس علاقہ کے آجران سے واقفیت اور رابطوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے باعث ای او بی آئی کی ماہانہ کنٹری بیوشن کی وصولی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے ای او بی آئی کے ملازمین نے وفاقی سیکریٹری وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل جو بربنائے عہدہ ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر اور وزارت کے پرنسپل اکانٹس افسر بھی ہیں مطالبہ کیا ہے کہ ای او بی آئی میں تبادلوں اور تقرریوں میں ہونے والی سنگین بدعنوانیوں کی تحقیقات کرائیں اور طاہر صدیق، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ کو فوری طور پر اس کے عہدہ سے فارغ کرکے اس کے آمدنی کے برعکس بلند معیار زندگی، بینک اکانٹس اور اثاثہ جات کی شفاف جانچ پڑتال کرائیں اور الزامات ثابت ہونے پر اسے قرار واقعی سزا دیں تاکہ ملک کے غریب محنت کشوں کی پنشن کے لئے قائم یہ قومی فلاحی ادارہ سدا قائم و دائم رہ سکے۔
(کالم نگارقومی وسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

انعام بٹ نے بیچ ریسلنگ ورلڈ سیریز میں گولڈ میڈل جیت لیا

پاکستان کے پہلوان انعام بٹ نے بیچ ریسلنگ ورلڈ سیریز میں گولڈ میڈل جیت لیا۔

اٹلی میں جاری بیچ ریسلنگ ورلڈ سیریز کے فائنل میں انعام بٹ نے یوکرین کے پہلوان  یکوشک کو یکطرفہ مقابلے میں 0-3 سے ہرایا۔

اس سے قبل سیمی فائنل میں انعام بٹ نے رومانیہ کے پہلوان کو بھی 0-3 سے شکست دی تھی۔

کوارٹر فائنل میں انعام بٹ نے ترکی کے ریسلر کو ہرایا تھا۔

انعام بٹ کی جیت پر ان کے والد کا کہنا تھاکہ بیٹے نے چوتھی بارگولڈ میڈل حاصل کیا، بیٹے نے پاکستان کا نام روشن کیا جس پر فخرہے۔

کراچی میں بارش، نشیبی علاقے زیر آب، کرنٹ لگنے سے بچی سمیت 5 جاں بحق

کراچی: شہر میں موسلا دھار بارش کے بعد دوسرے روز شارع فیصل، ایم اے جناح روڈ، یونیورسٹی روڈ سمیت اہم شاہراہوں سے پانی کی نکاسی مکمل کرلی گئی، لیاقت آباد انڈر پاس سمیت نشیبی علاقوں میں اب بھی پانی جمع ہے، بارش کے دوران کرنٹ لگنے سے چار سالہ بچی سمیت پانچ افراد جاں بحق ہوگئے۔

ہفتہ کی صبح شہر کی مرکزی شاہراہوں ایم اے جناح روڈ، یونیورسٹی روڈ، شاہراہ فیصل، کوریڈور تھری سے پانی کی نکاسی کرکے ٹریفک کیلئے کلیئر کر دیا گیا۔ لیاقت آباد انڈر پاس، گلبرگ چورنگی، لیاقت آباد فلائی اوور، ملیر کالا بورڈ، قیوم آباد چورنگی سمیت شہر کے مختلف نشیبی مقامات پر پانی جمع ہے جس کی نکاسی کیلئے ٹیمیں کام کررہی ہیں، نارتھ ناظم آبادحیدی، گلستان جوہر، شاہراہ قائدین سمیت بعض علاقوں میں بارش کا پانی نکال لیا گیا۔

بارشوں سے بیشترعلاقوں میں متاثر ہونے والی بجلی کی فراہمی بھی معمول پر آگئی، بارش کے دوران کرنٹ لگنے سے پانچ افراد جاں بحق ہوئے۔

کلفٹن میں کرنٹ لگنے سے پہلی جماعت کی طالبہ چار سالہ تانیہ جاں بحق ہوگئی۔ تانیہ کے والد کے مطابق بدقسمت تانیہ گھر کے باہر بارش کے پانی میں کھیل رہی تھی۔ شام کے وقت کھمبے پر اسپارک ہوا تھا تاہم شکایت کے باوجود کے الیکٹرک نے کارروائی نہیں کی۔

بلدیہ عابدآبادمیں کام کے دوران کرنٹ لگنے سے یاسین، لیاقت آباد شریف آبادمیں کرنٹ لگنے سے محمد صابرجاں بحق ہوگیا، لائٹ ہاوس کے قریب کرنٹ لگنے سے ساجد لودھی نامی شخص انتقال کرگیا۔

پولیس کے مطابق عینی شاہدین کا کہنا ہے متوفی چپل گلی میں بجلی کے بلب چوری کر رہا تھا، بارش کے باعث جگہ گیلی ہونے سے اسے کرنٹ لگا، باغ کورنگی میں کرنٹ لگنے سے بھی ایک شخص جاں بحق ہوا ریسکیو زرائع کے مطابق بارش کے پانی میں کرنٹ آرہا تھا۔۔

یکم اکتوبر سے اندرون و بیرون ملک فضائی سفر کیلئے ویکسینیشن سرٹیفکیٹ لازمی قرار

سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) پاکستان نےکورونا ویکسینیشن سرٹیفکیٹ رکھنے سے متعلق ہدایت نامہ جاری کردیا۔

ہدایت نامے کے مطابق ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل فلائٹس پرکورونا ویکسینیشن یکم اکتوبر سے لازمی قرار دے دی گئی ہے جس کے بعد یکم اکتوبر سے بغیر کورونا ویکسینیشن کے فضائی سفر پر پابندی ہوگی۔

ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ 17 سال سے کم عمر افراد اور مریضوں کو کورونا ویکسینیشن سرٹیفکیٹ سے استثنیٰ ہوگا جبکہ مریضوں کو استثنیٰ سے متعلق معالج کا میڈکل سرٹیفکیٹ دکھانا ہوگا۔

سول ایوی ایشن اتھارٹی کے مطابق پاکستان آنے اور جانے والے مسافروں کیلئے سفر سے 72 گھنٹے  قبل کورونا ٹیسٹ کی شرط برقرار رہے گی جبکہ بیرون ملک جانے اور آنے والے مسافروں کے پاکستان کے ائیرپورٹس پر ریپڈ ٹیسٹ ہوں گے۔

سی اے اے نے تمام ائیرلائنز کو نئی ہدایات پر سختی سے عمل کی ہدایت کی ہے۔

ویکسین کی دوسری خوراک سے متعلق این سی او سی کی ہدایت جاری

علاوہ ازیں انسداد کورونا کے ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے بھی ویکسین کی دوسری خوراک سے متعلق ہدایت جاری کی ہے۔

این سی او سی کے مطابق جن شہریوں کی دوسری ڈوز کا وقت ہوچکا ہے وہ میسیج کا انتظار کیے بغیر دوسری خوراک لگواسکتے ہیں۔

این سی اوسی کا کہنا ہے کہ دوسری ڈوز کسی بھی ویکسین سینٹر سے لگوائی جاسکتی ہے جبکہ اتوار کا دن خصوصی طور پر دوسری ڈوز کیلئے مقرر ہے۔

آرمی چیف سے وزیراعظم آزاد کشمیر کی ملاقات، مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بات چیت

راولپنڈی:آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ سے وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر سردار عبدالقیوم نیازی نے ملاقات کی، جس میں بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر بات چیت کی گئی۔

مسلح افواج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر سردار عبدالقیوم نیازی نے جی ایچ کیو راولپنڈی میں ملاقات کی، جس میں بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر حالات، یکطرفہ بھارتی اقدامات اور لائن آف کنٹرول کی صورتحال پر بات چیت کی گئی۔

سینئر حریت رہنما سید علی گیلانی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ سید علی گیلانی نے ساری زندگی کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حصول کیلئے بے لوث جدوجہد جاری رکھی۔ انہوں نے وزیراعظم آزاد کشمیر کو یقین دلایا کہ پاک فوج کشمیر کاز کیلئے کشمیریوں مکمل حمایت جاری رکھے گی۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے سردار عبدالقیوم نیازی کو آزاد جموں و کشمیر کی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے پر مبارک باد دی اور خطہ کشمیر کے استحکام کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر سردار عبدالقیوم نیازی نے آزاد جموں و کشمیر میں سیکورٹی و ترقی کیلئے پاک فوج کے کردار کی تعریف کی۔

کابل میں جشن کے دوران ہوائی فائرنگ سے 17 افراد جاں بحق

کابل میں طالبان کی جانب سے افغانستان کی وادی پنج شیر میں قبضے کی اطلاع ملتے ہی جشن منایا اور ہوائی فائرنگ کی گئی جس کے نیتجے میں 17 افراد جاں بحق ہوگئے۔

غیرملکی خبرایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق پنج شیر کی مزاحمتی فورسز نے طالبان کے دعووں کو مسترد کردیا اور کہا کہ وادی پر ان کا کنٹرول ہے۔

مزید پڑھیں: پنج شیر کا کنٹرول حاصل کرلیا، طالبان ذرائع کا دعویٰ

افغانستان کی خبرایجنسی شمشاد کے مطابق گزشتہ رات کابل میں ہوائی فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں 17افراد جاں بحق اور 41 زخمی ہوگئے اور طلوع نیوز نے بھی اسی طرح کی رپورٹ دی۔

ننگر ہار کے صوبائی دارالحکومت جلال آباد میں ایک علاقائی ہسپتال کے ترجمان گل زادہ سانگر نے بتایا کہ ننگر ہار کے مشرقی علاقے میں جشن کے دوران ہوئی فائرنگ سے 14 افراد زخمی ہوگئے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ہوائی فائرنگ کے حوالے سے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ‘ہوائی فائرنگ سے گریز کیا جائے کیونکہ آپ کو دیا گیا اسلحہ عوامی اثاثہ ہے، کسی کو بھی اس سے نقصان کرنے کا حق حاصل نہیں، گولیوں سے شہریوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے، اس لیے ہوائی فائرنگ نہ کریں’۔

دوسری جانب پنچ شیر میں سابق مجاہدین کے کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے کے ساتھ موجود نائب صدر امراللہ صالح نے مزاحمتی فورسز (این آر ایف) کی خطرناک حالت کا اعتراف کیا۔

امراللہ صالح نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ‘حالات مشکل ہیں، ہمارے اوپر یلغار ہورہی ہے’۔

ویڈیو میں امراللہ صالح روایتی شلوار قمیض میں نظر آئے حالانکہ وہ مغربی لباس کے دلدادہ کے طور پر مشہور ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘مزاحمت جاری ہے اور جاری رہے گی’۔

یہ بھی پڑھیں: ملا برادر افغانستان میں نئی حکومت کی قیادت کریں گے

طالبان اور مزاحمتی فورسز کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پنچ شیر کے ضلع پاریان میں قبضے کے متضاد دعوے سامنے آتے رہے ہیں لیکن آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔

خیال رہے کہ طالبان نے 15 اگست کو کابل پر قبضہ کرلیا تھا لیکن پورے افغانستان میں پنچ شیر واحد علاقہ تھا جہاں طالبان قبضہ نہیں کر پائے تھے۔

طالبان مخالف فورسز اور سابق فوجی اہلکار پنچ شیر میں جمع ہوگئے تھے جہاں احمد شاہ مسعود کے 32 سالہ بیٹے احمد مسعود نے طالبان کے خلاف مزاحمت کا اعلان کیا تھا۔

بعد ازاں طالبان مخالف جنگجووں نے قومی مزاحمت فرنٹ (این آر ایف) کے نام سے ایک محاذ تشکیل دیا اور طالبان سے لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے عالمی طاقتوں سے مدد کا مطالبہ کیا تھا۔

پنج شیر دارالحکومت کابل سے 80 کلومیٹر شمال کی جانب واقع ہے جہاں سابق افغان سیکیورٹی فورسز اور طالبان مخالف ملیشیا (این آر ایف) کو وادی کے مخصوص جغرافیے کی وجہ سے مزاحمت کے لیے آسانی پائی جاتی ہے کیونکہ گزشتہ برسوں کے دوران افغانستان میں بیرونی اور اندورونی طور پر جنگ میں یہ علاقہ ناقابل تسخیر رہا ہے۔