تازہ تر ین

میڈیا کو ریگولیٹ کریں

وزیر احمد جوگیزئی
آئین بنانا اور آئین پر عمل درآمد کرنا،آئین کی پاسداری کرنا قوموں کی ذمہ داری ہو تی ہے،لیکن بدقسمتی سے ہم نے وہ کام کیے ہیں جو کہ ہمیں بطور قوم نہیں کرنے چاہئیں تھے،اور جو کام کرنے چاہئیں تھے، ان میں سے ایک بھی ہم سے نہیں ہو سکا ہے۔ملک کے آدھے حصے کو گنوانے کے بعد بھی ہم نے اس تلخ تجربے سے کتنا سیکھا ہے اور اس عظیم سانحے کا موجب بننے والے عوام کو کتنا ختم کرنے کی کوشش کی ہے اس پر بدستور ایک بہت بڑا سوالیہ نشان تاحال موجود ہے۔اللہ تعالیٰ کی جانب سے پاکستان کی صورت میں کتنا پیارا،وطن ہمیں نصیب ہوا، اور اس کو مستحکم کرنا ہماری ذمہ داری تھی لیکن بد قسمتی سے اس ملک کو دو لخت کرکے بھی ہماری لیڈرشپ آج تک یہ نہیں سمجھ پائی کہ کسی بھی مہذب جمہوری ملک میں‘ ایک آزاد‘ ذمہ دار باشعور اورصحت مند ذرائع ابلاغ کا ہونا بہت ضروری ہے۔
میں بات 60ء کی دہائی کی کر رہا ہوں جب ایوب خان نے پریس ٹرسٹ بنایا اور پریس پر پا بندیاں لگائی گئیں،بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ پریس پر پا بندیاں لگانا حکمرانوں کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ایوب خان کے دور میں پریس پر پابندیاں لگانا کسی صورت بھی ایوب خان یا پھر ان کے اقتدار کے لیے سود مند ثابت نہیں ہو سکا،بلکہ میڈیا کے ساتھ محاذ آرائی کا ایوب خان کی حکومت کے استحکام پر الٹا اثر ہوا اور ایوب خان کی حکومت زوال کا شکار ہو گئی۔لیکن بات ایوب خان تک محدودنہ رہی بلکہ ہر دور میں ہر حکومت اور ہر حکمران کی یہی کوشش رہی ہے کہ کسی طرح سے پریس پر کنٹرول رکھا جائے اور اس پر قدغنیں لگا کر اپنی حکومت کو مضبوط بنایا جائے لیکن ایسی پابندیاں کبھی کامیاب نہیں ہو ئیں بلکہ ہر بار ایسی قدغنوں کے الٹے اثرات مرتب ہو ئے ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ میڈیا پر پا بندی اور اس کو اپنی مرضی کے مطابق ریگولیٹ کرنے کی کوششیں کرنااب تو طر ز حکمرانی کا حصہ بن چکا ہے تو غلط نہ ہو گا۔
دور حاضر میں دنیا بھر میں جو بھی آزاد ملک ہیں، آزاد جمہوری ملک ہیں ان میں میڈیا پر کسی بھی قسم کی قدغن لگانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔پاکستان جیسے قوانین اور طریقہ کار جو کہ میڈیا کے لیے اپنائے جاتے ہیں وہ تو شاید تصور میں بھی نہ لائے جاسکتے ہو ں۔لیکن میں یہاں پر یہ تجویز دینا چاہوں گا کہ اگر حکومت میڈیا کو ریگولیٹ کرنا ہی چاہتی ہے اور اس سلسلے میں یہ موقف اپنائے ہوئے ہے کہ میڈیا کا ریگولیٹ کیا جانا ضروری ہے تو پھر کیوں نہ میڈیا کی ریگو لیشن کی ذمہ داری متعلقہ صحافتی اداروں اور پریس کلبز کو دی جائے،ان کو یہ اختیارات حاصل ہوں کہ وہ میڈیا پر نظر رکھیں اور کسی بھی ایسے کام کو نہ ہونے دیں جس سے کہ معاشرے میں خلل پیدا ہو۔
معاشرے میں میڈیا ایک اہم ترین ادارہ ہے اور یہ ایک ایسا ادارہ ہے جس میں کام کرنے والے تعلیم یافتہ ہیں،پڑھے لکھے ہیں اور با شعور ہیں،محب وطن ہیں اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور معاشرے کی خامیوں اور خوبیوں دونوں کا مکمل ادراک رکھتے ہیں،بہت سارے صحافی بہت ہی معیاری کام کرتے ہیں جبکہ کئی پیدل بھی ہوں گے لیکن پا بندی کسی بھی چیز کا حل نہیں ہو ا کرتی ہے۔پریس کلبز کو خود اپنے اداروں کو ریگولیٹ کرنے کا پابند بنانا چاہیے میں سمجھتا ہوں یہ طریقہ کار اختیار کرنے سے حکومت کو بھی بہتر نتائج حاصل ہوں گے۔آج کل جو ترکیب پریس کو ریگولیٹ کرنے کے لیے سوچی جا رہی ہے،اس کو شاید زیادہ تر لوگوں نے تو ابھی تک پڑھا ہی نہیں ہے اور اس پر تفصیلی غور نہیں کیا لیکن جس نے بھی اس کو اچھی طرح پڑھا ہے،اور سمجھا ہے اس نے اس بل کی مخالفت ہی کی ہے۔میری یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر کیوں ایسا ہو تا ہے کہ ہماری حکمران جماعتیں جو کہ جمہوری جماعتیں ہوا کرتی ہیں،اور الیکشن سے اور عوام کے ووٹوں کے ذریعے اور اسی میڈیا کی کوریج سے تقویت حاصل کرکے بر سر اقتدار آتی ہیں وہ کیوں اقتدار میں آنے کے بعد اسی میڈیا کے درپے ہو جاتی ہیں۔کیوں ان کو اس میڈیا سے چڑ ہونے لگتی ہے؟ اس کا جواب ایک ہی ہے کہ حکومت شفافیت کو بنیاد بنا کر معاملات چلا نہیں رہی ہو تی یا چلانا نہیں چاہتی ہے۔اگر حکومت اپنے معاملات کو شفاف رکھے اور درست طریقے سے معاملات چلائے تو اس کو پریس لا لانے کی کوئی ضرورت محسوس نہ ہو۔اسی طرح کے قوانین کے باعث میڈیا بھی اپنا معیار کھو بیٹھتا ہے اور یہ ملک کے لیے بھی نقصان کا باعث بنتا ہے۔ہمارے میڈیا میں بھی کمزوریاں بہت ہیں لیکن اگر میڈیا کی لیڈرشپ کو ذمہ دار بنایا جائے کہ اپنی ورک فورس کو ٹرینڈ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک معیاری اور ذمہ دار میڈیا ہمارے سامنے نہ آئے۔صرف دھونس سے یا زور زبردستی کرکے معاملات کبھی بھی ٹھیک نہیں ہو ں گے۔
بہر حال یہ ایک مشکل مرحلہ ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ میڈیا کے ذریعے اب طرز حکمرانی میں کو ئی تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ ایک اسٹیٹس کو ہی برقرار رہے گا۔اگر آزاد عدلیہ، پارلیمان کے ساتھ مل کر احتساب کا بیڑہ اٹھائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک میں بہتری دیکھنے میں نہ آئے۔اصل احتساب کو پبلک اکا ونٹ کمیٹی کے 365روز کام کرنے سے او ر میڈیا کے ان کا ساتھ دینے سے ممکن بنایا جاسکتا ہے۔اس حوالے سے کچھ دلچسپ پیشرفت ہو رہی ہے لیکن اس پر آگے چل کر بات کریں گے ابھی اس حوالے سے زیادہ بات کرنا مناسب نہ ہو گا۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain