تازہ تر ین

افغانستان میں امن کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا

محمدنعیم قریشی
گزشتہ روز کابل ائیر پورٹ پر دھماکوں کے بعد پینٹا گون کا یہ بیان قابل غور ہے کہ افغانستان میں اس قسم کے مزید حملوں کا خدشہ ہے اور وہ اس سلسلے میں آخری منٹ تک پر وازیں چلائینگے،جبکہ یہ علاقہ جہاں دھماکے ہوئے ہیں امریکی سیکورٹی کے کنٹرول میں تھا لہٰذا طالبان کو اس کا ذمہ دار یا ان کی لاپرواہی قرار نہیں دی جاسکتی ہے، داعش کی جانب سے ان دھماکوں کو قبول کرلیا گیاہے،معروف خبررساں ایجنسی کے مطابق کابل دھماکوں سے چند گھنٹے قبل برطانیہ نے الرٹ جاری کیا کہ کسی بھی مقام پر انتہائی خطرناک حملہ ہو سکتا ہے برطانوی وزیر برائے مسلح افواج جیمز بیبی نے بتایا کہ افغان دارالحکومت میں انتہائی خطرناک حملے کی مصدقہ اطلاعات تھیں، اس سے قبل امریکہ نے بھی آج ہی اپنے شہریوں کو خبردار کردیا تھا کہ وہ ایئر پورٹ پر جمع نہ ہوں کیوں کہ ائیر پورٹ کے داخلی دروازوں پر دہشت گردی کی اطلاعات ہیں، پھر ہم نے دیکھا کہ کابل ایئر پورٹ پر یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے جس میں 13 امریکی فوجیوں سمیت 170افراد ہلاک ہوئے۔
یہ وہ اطلاعات تھیں جن میں آسٹریلیا نے بھی اس حوالے سے الرٹ جاری کیا تھا اورکہا تھا کہ ائیرپورٹ کے باہر موجود تمام شہری واپس لوٹ جائیں، ان وارننگز کے باوجود سینکڑوں افغان شہری ایئر پورٹ کے دروازوں پر موجود رہے اور دھماکوں کی زد میں آ گئے۔اس ساری صورتحال میں امریکی صدر نے کابل میں ضرورت پڑنے پر اضافی فوج بھیجنے کا عندیہ بھی دے ڈالا ہے اور ساتھ میں چن چن کر بدلہ لینے کا اعلان بھی کیاہے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر کی جانب سے اس قسم کی دھمکیاں اس وقت دی جارہی ہیں جب امریکی فوج افغانستان سے مکمل انخلا کے لیے تیار بیٹھی ہے۔دوسری جانب پاکستان کے نقطہ نظر سے پاکستان کی پریشانیوں میں اضافہ یا ا س قسم کے واقعے کو خطرے کی گھنٹی ضرور قرار دیا جاسکتا ہے کہ افغانستان میں اب بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو افغانستان میں اندرونی بے چینی اور خلفشار پیداکرنا چاہتے ہیں،لہذا افغان حکومت یا طالبان کی نئی قیادت پر یہ بات لازم ہوتی ہے کہ وہ ایسے عناصر سے نمٹنے کی مکمل تیاری رکھے کیونکہ اس قسم کی تنظیموں نے جہاں اب پوری دنیا کو یکے بعد دیگر دو دھماکے کرکے دکھا دیا جب افغانستان کے حالات معمول پر آنے والے تھے تو یقینی طورپر اس وقت بھی یہ تنظیمیں افغانستان میں دھماکے کرے گی۔ جب طالبان کی حکومت مکمل طور پر بن جائیگی دوسری جانب عقل یہ کہتی ہے کہ اس قسم کی تنظیموں کی کوشش یہ ہوگی طالبان کی حکومت کو بین الاقوامی قبولیت حاصل نہ ہو اور اس کے برعکس عالمی سطح پر یہ تصور ابھرے کہ طالبان افغانستان کے انتظامی ڈھانچے کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔
ایک اور بات یہ کہ ان انتہاپسندوں کی یہ بھی کوشش ہوگی کہ وہ اس افراتفری کے ماحول میں افغانستان میں اپنے لیے محفوظ ٹھکانے بنالیں۔ جہاں سے بیٹھ کر یہ افغانستان اور ہمسایہ ممالک میں دہشت گردانہ کارروائی کرکے پورے خطے میں نفسا نفسی کی فضاقائم کردی جائے لہذاس قسم کے واقعات سے بچنے کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ طالبان جلد سے جلد اپنی حکومت کو بناکر اپنا کنٹرول قائم کرلیں وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ افغانستان سے جڑے ہمسایہ ممالک بھی طالبان کی مدد کریں تاکہ وہاں ان کی ایک وسیع البنیاد حکومت بن جائے اوران کی اس طرح مدد کی جائے کہ وہ اندرونی طور پر اس قدر مظبوط ہوجائیں کہ وہ اپنے اندرونی مسائل اور دہشت گردانہ کارروائیوں سے بخوبی نمٹ سکیں، اس عمل کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ طالبان نے اپنی تحریک میں جو وعدے کیئے ہیں وہ پورے ہوجائیں تاکہ دنیا بھر میں ان کو قبولیت ملنا آسان ہوجائے۔
ویسے اگر دیکھا جائے تو افغانستان کی صورتحال کچھ اس قدر تیزی سے بدلی ہے کہ طالبان کی کابل میں حکومت بنتے ہی مختلف ممالک کی حکومتوں نے یہ سوچنا شروع کردیا ہے کہ کیا طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا چاہیے یا نہیں۔اگرچہ افغانستان میں طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ اطمینان تو ہوا ہوگا کہ وہاں انڈیا کے قریب اور پاکستان کے مخالف سمجھے جانے والی حکومت اب نہیں رہی تاہم دوسری طرف یہ تشویش بھی قائم ہے کہ افغانستان طالبان کی کامیابیاں کہیں پاکستان میں ریاست مخالف مذہبی انتہا پسند وں بالخصوص تحریک طالبان پاکستان کی حوصلہ افزائی نہ کر دیں لیکن یہ باتیں فی الحال قبل از وقت ہیں، امریکہ میں پاکستانی سفیر احمد مجید خان نے کہا کہ طالبان کس طرح پیش آتے ہیں اور ان کا طرز عمل کیا رہتا ہے یہ بھی پاکستان کے فیصلے پر اثر انداز ہوگا، اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے کہا کہ طالبان چاہتے ہیں کہ عالمی برادری انہیں قبو ل اور تسلیم کرے ہمیں اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیے تا کہ ان کی طرف سے اچھے رویے کویقینی بنایا جا سکے۔
ایک تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ افغانستان میں سوویت یونین کے ساتھ لگ بھگ دس برس جاری رہنے والی جنگ کے بعد طالبان نوے کی دہائی میں سامنے آئے تھے تو صرف تین ممالک نے طالبان کی حکومت کوتسلیم کر لیا تھا ان تین ممالک میں پاکستان سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل تھے، لیکن اس بارطالبان نے بیس سال میں بہت کچھ سیکھا ہے انہوں نے سفارت کاری میں بھی وہ مہارت حاصل کی ہے کہ امریکہ کو میدان جنگ ہی میں نہیں دوحا مذاکرات کی میز پر بھی سب کو حیران کردیا ہے،2001میں امریکہ کے حملے کے بعد طالبان پہاڑوں میں چلے گئے تھے تب ہماری سیکولر اور لبرل حلقے کہا کرتے تھے کہ یہ امریکہ سے لڑنے چلے تھے، مدرسوں کے مولوی جن کو دنیا کا کچھ پتہ ہی نہیں ہے، لیکن طالبان کی یہ فتح ایک بار پھر سے تاریخ رقم کر چکی ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ افغانستان والوں نے غلامی کی زنجیریں توڑدی ہیں اور یہ کہ اگر افغان طالبان نے تنہا فوجی طاقت سے حکومت بنائی تو اس سے خانہ جنگی ہوگی اور یہ پاکستان کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔بہرحال آنے والے دنوں میں سب واضح ہوجائے گا کہ فغانستان میں امن کا اونٹ آخر کس کروٹ بیٹھے گا۔
(کالم نگار مختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain