تازہ تر ین

امتنان شاہد کا تازہ انٹرویو

صحافت کے کم از کم 32 شعبے ہیں۔ خبر، فیچر، فورم، تبصرہ، تجزیہ، اداریہ، ڈاکومنٹری، کالم، انٹرویو وغیرہ یہ وہ بنیادی اجزاء ہیں جن کے گرد صحافت گھومتی ہے۔ انٹرویو کا آغاز تو اسی وقت ہوگیا تھا جب دو انسانوں نے ایک دوسرے سے پہلی گفتگو اور ابلاغ کیا تھا۔ تاہم جدید صحافت میں انٹرویو کی عمر محض تین سو سال سے بھی کم ہے۔ انگریزی صحافت میں پہلا انٹرویو اس وقت نئے صحافتی تجربات کرنے والے صحافی جیمز گورڈن بینیٹ سینئرJams Gordon Bennett Sr نے کیا جو اپریل 1836ء میں اخبار ”نیویارک ہیرالڈ“ میں شائع ہوا۔ یہ ایک قتل کیس میں سوال و جواب پر مشتمل نئے انداز کی تحریر تھی جسے شروع میں کم لیکن بعد میں بے حد پسند کیا گیا۔
انٹرویو بظاہر آسان عمل دکھائی دیتا ہے لیکن حقیقت میں یہ صحافت کے دیگر شعبوں سے زیادہ تکنیک، ہنر، نفسیات پر عبور اور محنت مانگتا ہے۔ اچھا اور بھرپور انٹرویو کرنے سے پہلے اس شخصیت بارے بہت کچھ جاننا اور اس کی زندگی کے ہر ہر پہلو بارے معلومات کا ذخیرہ موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ انٹرویو کے نام پر مذاق ہوتا ہے کہ اس شخصیت سے پوچھا جائے کہ آپ کا تعارف اور حالات زندگی کیا ہیں۔…
پاکستانی صحافت میں چند انٹرویوز بہت مشہور رہے ہیں جن میں حامد میر کا اسامہ بن لادن سے مبینہ انٹرویو بھی شامل ہے جو بعد میں بہت متنازعہ ثابت ہوا۔ پاکستانی صحافت میں ایک معروف انٹرویو سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا تھا جو سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں اس وقت کے انتہائی نو جوان صحافی امتنان شاہد نے دبئی میں کیا تھا۔ اس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ہر طرف سے انکار کے باوجود حکومت اور اپوزیشن میں ناصرف مذاکرات جاری تھے بلکہ کامیاب ہونے کے قریب تر تھے۔ (بعد میں یہ بات حرف بحرف ثابت ہوئی).
بے نظیر بھٹو کا تاریخی انٹرویو لینے والے امتنان شاہد نے حال ہی میں ایک میڈیا گروپ کو ایک ایسا انٹرویو دیا ہے جو موجودہ حالات و واقعات کے جامع تجزیے اور سیاسی پیش گوئیوں کے سبب آنے والے کئی سالوں تک یاد رکھا جائے گا۔ حالیہ آزاد جموں و کشمیر کے الیکشن میں مسلم لیگ ن ہار گئی۔ امتنان شاہد اس شکست کی وجہ الیکشن سے قبل نواز شریف کی سابق افغان سیکورٹی ایڈوائزر سے ملاقات کو قرار دیتے ہیں کیونکہ اس افغان سیکورٹی ایڈوائزر کا بیانیہ بھارت سے مستعار لیا ہوا تھا جو کشمیری عوام کو بالکل پسند نہیں آیا۔ امتنان شاہد نے میڈیا کی ایک قسم کے زوال اور دوسری کے مبینہ عروج کی طویل بحث کو چند الفاظ میں اس طرح سمیٹا کہ ”الیکٹرانک میڈیا ہو پرنٹ یا ڈیجیٹل میڈیا، عوام قابل اعتماد ذرائع سے سچی خبر مانگتے ہیں نہ کہ ناقابل اعتماد ذرائع سے جھوٹی اطلاعات، یہی وجہ ہے کہ جب تک پرنٹ الیکٹرانک میڈیا درست اور سچی خبر دیتا رہے گا زندہ رہے گا اور کبھی ختم نہیں ہو گا۔“ امتنان شاہد نے چھپے الفاظ میں دو قومی نظریہ کی مخالفت کرنے والوں کے دوغلے پن کو بھی واضح کیا تو پاکستانی میڈیا کے اندر بھارت کے حامی عناصر Pro India Segment کو بھی بے نقاب کردیا۔
امتنان شاہد اخبارات اور دیگر میڈیا تنظیموں کے بھی فعال عہدیدار رہے ہیں اور اس انٹرویو میں اس کا ذکر بھی انہوں نے کیا۔ امتنان شاہد کے اس رول کو سمجھنے سے پہلے سیرت نبویؐ کے ایک پہلو کو جاننا بہتر ہوگا۔ بعثت نبویؐ سے پہلے جب مکہ ایک تجارتی مرکز تھا تو مقامی تاجر باہر سے آنے والے تاجروں سے نا انصافی کرتے۔ کبھی کم تولتے، رقم نہ دیتے یا دیگر طریقوں سے انہیں نقصان پہنچاتے۔ اس طرح مکہ بطور تجارتی مرکز بدنام ہو رہا تھا۔ایسے میں حضرت محمدؐ کی کاوشوں سے تاجروں کی ایک تنظیم بنائی گئی جس کا مقصد تاجروں کے حقوق کی حفاظت کے ساتھ ساتھ تاجروں کا ذاتی محاسبہ کرنا بھی تھا۔ اس تنظیم کی کاوشوں سے مکہ کی بطور تجارتی مرکز حیثیت مستحکم ہو گئی۔ امتنان شاہد بھی میڈیا تنظیموں کا وہی رول چاہتے ہیں کہ میڈیا کے معاملات حکومت کے بجائے میڈیا تنظیموں کے اپنے ہاتھ میں رہیں۔ امتنان شاہد نے مذکورہ انٹرویو میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی خوبیوں اور خامیوں کا کھل کر تجزیہ کیا۔جہاں حکومت پر مہنگائی کے حوالے سے تنقید کی تو وہاں یہ بھی بتایا کہ اس سب کے باوجود عام آدمی کی عمران خان سے امیدیں ابھی تک برقرار ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ صدی تک مذہبی سیاست کا غلبہ رہا لیکن گزشتہ 2 عشروں میں مذہبی جماعتوں کی مقبولیت میں واضح کمی ہوئی ہے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی تو 10 نشستیں موجود ہیں لیکن تمام مذہبی جماعتوں کی ملا کر بھی 10 سیٹیں نہیں بنتیں۔ امتنان شاہد نے پیشین گوئی کی ہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان میں مذہبی جماعتیں آئندہ الیکشن میں قوت ہوں گی۔ صورتحال کا حقیقی اندازہ تو الیکشن کے بعد ہوگا لیکن نظر آ رہا ہے کہ امتنان شاہد کا اشارہ درست ثابت ہوگا۔
کسی بھی شعبے میں مہارت کے لئے خاص ماحول میں سخت ٹریننگ ضروری ہوتی ہے۔ عموماً ڈاکٹر کے بیٹے ہی ڈاکٹر بنتے ہیں تو اس کے پیچھے بھی ایک وجہ ہوتی ہے۔ ایسی ہی ایک وجہ ایک ڈاکٹر کے بیٹے (جو ہمارے دوست بھی ہیں) بتاتے ہیں کہ ہیومن اناٹومی اور فزیالوجی عام طالب علم تو ایف ایس سی کے بھی بعد ایم بی بی ایس میں پڑھتا ہے لیکن ڈاکٹر کے بیٹے کو گھر اور کلینک میں لگی تصاویر، نقشوں اور ماں باپ کی گفتگو کے باعث جسمانی اعضاء اور تمام سسٹمز پرائمری اور مڈل میں ہی ازبر ہو جاتے ہیں۔ یہی صورت حال پاکستان میں جدید صحافت کے بانی ضیا شاہد کے گھر پیدا ہونے والے امتنان شاہد کی ہے۔ جو اپنی انتہائی کم عمری میں ان تمام مراحل سے انتہائی سختی سے گزرے جہاں سے عام صحافی اپنی زندگی کے 40، 50 سالوں بعد گزرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امتنان شاہد کی کہی ہر بات میں وزن اور ہر تجزیہ حقیقت کے قریب تر نظر آتا ہے۔ لیکن تعلیم و تربیت کے بعد صلاحیت وہ نعمت ہے جسے اللہ جسے چاہے دیتا ہے… اور اس حوالے سے امتنان شاہد پر اللہ پاک کا بے پایاں کرم ہے۔
(کالم نگار قومی و سیاسی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain