جو بائیڈن افغان انخلا کے ساتھ امریکا کے عالمی کردار کے خاتمے کے خواہاں

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکہ واپس آگیا ہے، تاہم ان کا افغانستان سے انخلا ظاہر کرتا ہے کہ امریکا معمول کے مطابق عالمی کردار میں واپس نہیں آئے گا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق جو بائیڈن عالمی سطح پر امریکی اقدار کو مسلط کرنے کے لیے وسیع فوجی وسائل کا استعمال روکنے میں بہت زیادہ دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔

جو بائیڈن نے کہا کہ ‘افغانستان کے بارے میں یہ فیصلہ صرف افغانستان کے بارے میں نہیں ہے، یہ دیگر ممالک کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے بڑی فوجی کارروائیوں کا دور ختم کرنے کے بارے میں ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘انسانی حقوق ہماری خارجہ پالیسی کا مرکز ہوں گے تاہم یہ فوجی تعیناتیوں کے ذریعے نہیں ہوگا’۔

مزید پڑھیں: پنج شیر کا کنٹرول حاصل کرلیا، طالبان ذرائع کا دعویٰ

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہماری حکمت عملی کو تبدیل کرنا ہوگا’۔

اٹلانٹک کونسل کے یورپ سینٹر کے ڈائریکٹر اور ٹرانس اٹلانٹک تعلقات کے ماہر بینجمن حداد نے اس تقریر کو ‘گزشتہ دہائیوں میں کسی بھی امریکی صدر کی جانب سے بین الاقوامی لبرل ازم کی سب سے واضح تردید قرار دیا۔

ان امریکیوں کے لیے جو اپنے ملک کو ایک منفرد، ناقابل تسخیر سپر پاور تصور کرتے ہیں، یہ ایک بہت بڑا صدمہ ہے۔

تاہم ظاہر کرتے ہیں کہ زیادہ تر لوگوں میں جو بائیڈن کا بیانیہ مقبول ہونے کا امکان ہے۔

ٹرمپ، بائیڈن کن باتوں پر متفق ہیں؟

جو بائیڈن کی صدارت کو عام طور پر ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کی تردید کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

یہ سچ ہے کہ بہت کچھ 20 جنوری کو جو بائیڈن کے اوول آفس میں داخل ہونے کے بعد ہی تبدیل ہوچکی ہیں۔

تاہم جو بائیڈن کا امریکی فوجی مہم جوئی کو ترک کرنا، جسے ‘دنیا کی پولیس’ کہا جاتا ہے، ٹرمپ کی سوچ تھی۔

مارکوٹ لا اسکول کے پروفیسر اور مارکویٹ رائے شماری کے ڈائریکٹر چارلس فرینکلن نے کہا جب جو بائیڈن نے افغانستان کے بارے میں اعلان کیا کہ ‘اب وقت آگیا ہے کہ یہ ہمیشہ کی جنگ ختم ہوجائے، یہ اعلان ٹرمپ بھی با آسانی کرسکتے تھے’۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ آج عوام بڑے بین الاقوامی کردار کے لیے پرعزم نہیں ہیں، یقینا اس طرح کے نہیں جو امریکا نے 1950 سے 1990 کے درمیان میں ادا کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو طالبان کے ساتھ حقیقت پسندانہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے، شاہ محمود قریشی

خاص طور پر افغانستان کے بارے میں واشنگٹن پوسٹ-اے بی سی نیوز کے سروے کے مطابق 77 فیصد انخلا کے لیے مضبوط حمایت دکھاتے ہیں یہاں تک کہ جو بائیڈن انخلا کے جلد بازی پر لڑ رہے ہیں۔

اتحاد خطرے میں؟

جہاں جو بائیڈن تنہائی پسند ڈونلڈ ٹرمپ سے یکسر مختلف ہیں، وہ اتحاد قائم کرنے کے جوش میں ہیں۔

جو بائیڈن کا نظریہ ہے کہ امریکا ایک بڑھتا ہوا عالمی پولیس نہیں ہو سکتا تاہم یہ ایک دوستانہ کمیونٹی لیڈر ہو سکتا ہے۔

ان کی انتظامیہ نے واشنگٹن کو بڑی قوتوں اور ایران کے درمیان اپنی ایٹمی پالیسی، ماحولیاتی معاہدے اور نیٹو جیسے روایتی اتحاد کے حوالے سے سخت مذاکرات کے مرکز میں ڈال دیا۔

جی 7 اور نیٹو کے اجلاسوں کے لیے جون میں یورپ کا دورہ، جو بائیڈن کا اب تک کا واحد غیر ملکی دورہ ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب ان میں سے چند اتحادی گھبرائے ہوئے ہیں۔

امریکی یونیورسٹی کے قانون کے شعبے میں انسداد دہشت گردی کی ماہر ٹریشیا بیکن نے اے ایف پی کو بتایا کہ اتحادی افغانستان سے امریکا کی روانگی میں ہم آہنگی کے فقدان پر ‘کافی حد تک مایوسی’ محسوس کرتے ہیں۔

واشنگٹن میں عرب سینٹر کے ریسرچ ڈائریکٹر عماد ہارب نے کہا کہ صرف یورپی شراکت دار اکیلے حیرت میں نہیں ہیں۔

انہوں نے تھنک ٹینک کی ویب سائٹ پر لکھا کہ ‘امریکا کے ساتھ قریبی تعلقات کے عادی عرب حکومتوں کو پریشان ہونا چاہیے کہ افغانستان میں کیا ہوا’۔

کابل میں حکومت سازی مسلسل تعطل کا  شکار ہے جس کے باعث مشکلات بڑھ رہی ہیں

کابل میں حکومت سازی مسلسل تعطل کا  شکار ہے جس کے باعث مشکلات بڑھ رہی ہیں اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کے رہنماء بھی مختلف رائے رکھتے ہیں ہمارے نمائندے آصف شہزاد اس وقت افغانستان نجات پارٹی کے رہنماء ڈاکٹر عمر زاخیلوال کے ساتھ موجود ہیں ان سے جانتے ہیں

آرمی چیف سے برطانوی وزیر خارجہ کی ملاقات، افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال

برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈومینک راب نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی جس میں ‘باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سلامتی، افغانستان کی موجودہ صورتحال اور مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون بڑھانے کے اقدامات’ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ‘دونوں فریقین دفاع، تربیت اور انسداد دہشت گردی کے شعبوں میں تعاون کے راستوں کی تلاش جاری رکھنے پر متفق ہیں’۔

آرمی چیف نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان، افغانستان میں امن اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوششوں کے لیے پرعزم ہے اور ایک جامع حکومت کی حمایت کرتا ہے۔

دونوں نے خطے میں امن و سلامتی کی کوششیں اور کووڈ 19 کے خلاف جنگ سمیت دیگر شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کو مزید بڑھانے کی خواہش کا اعادہ کیا۔

مزید پڑھیں: پاکستان کو طالبان کے ساتھ حقیقت پسندانہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے، شاہ محمود قریشی

آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ‘مہمان خصوصی نے افغان صورتحال میں پاکستان کے کردار بشمول انخلا کے کامیاب آپریشن، علاقائی استحکام کو سراہا اور ہر سطح پر پاکستان کے ساتھ سفارتی تعاون میں مزید بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا عہد کیا’۔

خیال رہے کہ ڈومینک راب جمعرات کو پاکستان پہنچے تھے جہاں نور خان ایئربیس پر اترنے کے بعد ان کا وزارت خارجہ اور برطانوی ہائی کمیشن کے حکام نے استقبال کیا۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ جمعہ کے روز دفتر خارجہ میں ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا تھا کہ ‘ہم طالبان کو ایک حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کرتے تاہم ہم ان کے ساتھ براہ راست رابطے کو اہم سمجھتے ہیں’۔

پاک ۔ برطانیہ تعلقات

ڈومینک راب اور شاہ محمود قریشی نے اپنی ملاقات کے دوران دوطرفہ تعلقات کی صورتحال کا بھی جائزہ لیا تھا۔

دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ‘دوطرفہ تعلقات کے تناظر میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ پاکستان اور برطانیہ کے مضبوط دوطرفہ تعلقات خاص طور پر معاشی اور تجارتی شعبوں میں تعلقات کو مزید فروغ دینا چاہیے’۔

شاہ محمود قریشی نے برطانوی حکومت کی جانب سے پاکستان کو سفر کے لیے ’ریڈ لسٹ‘ میں رکھنے کے فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ کیا، جس کے تحت پاکستان سے آنے والے لوگوں کے لیے برطانیہ میں ہوٹل میں قرنطینہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: برطانوی وزیر خارجہ دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچ گئے، ایجنڈے پر افغانستان سرفہرست

اجلاس میں انہوں نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے ایکشن پلان پر عملدرآمد میں پاکستان کی پیش رفت پر بھی روشنی ڈالی اور اس امید کا اظہار کیا کہ اس عمل کو سیاسی رنگ دینے کی کوئی کوشش نہیں کی جائے گی۔

ڈومینک راب نے کہا کہ ‘برطانیہ اور پاکستان کے تعلقات کی بنیاد بہت مضبوط ہے اور برطانیہ اسے اگلے درجے تک لے جانے کی خواہش رکھتا ہے، افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے بھی ہماری بہت واضح اور مشترکہ دلچسپی ہے، ہم طالبان کے بارے میں فیصلہ ان کی باتوں کے بجائے ان کے عمل سے کریں گے’۔

وزیر اعظم سے ملاقات

بعد ازاں ڈومینک راب نے وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی۔

ملاقات میں وزیراعظم نے افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتحال کو مضبوط بنانے، امن کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے اور بڑے پیمانے پر ہجرت کو روکنے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ انسانی بحران کی روک تھام اور معیشت کو مستحکم کرنا فوری ضروریات ہیں۔

انہوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ افغان عوام کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑی ہو، مثبت مشغولیت اختیار کرے اور پرامن، مستحکم اور جامع سیاست کو یقینی بنانے کی ترغیب دے۔

پنجاب حکومت کا گولڈ میڈلیسٹ حیدر علی کیلئے 25 لاکھ روپے انعام کا اعلان

ٹوکیو پیرا لمپکس میں گولڈ میڈل جیت کر ملک کا نام روشن کرنے والے حیدرعلی کے لیے پنجاب حکومت نے 25 لاکھ روپے انعام کا اعلان کردیا ہے۔

وزیرکھیل پنجاب رائے تیمور بھٹی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ٹوکیو پیرالمپکس میں گولڈ میڈل جیت کر حیدر علی نےپوری قوم کاسرفخرسےبلند کردیا ہےاس کارنامے پر محکمہ کھیل پنجاب کی طرف سے حیدرعلی کے لیے 25 لاکھ روپے انعام کااعلان کرتا ہوں۔

وزیرکھیل پنجاب کا کہنا  تھا کہ حیدر علی کو یہ انعامی رقم ان کی وطن واپسی پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ایک تقریب میں دیں گے۔

یاد رہے کہ جمعے کو  ٹوکیو پیرالمپکس میں مردوں کے ڈسکس تھرو مقابلے میں پاکستان کے حیدر علی نے تاریخ رقم کرتے ہوئے پاکستان کیلئے پہلا گولڈ میڈل جیتا تھا ۔

اچھے دن آئے ہیں

افضل عاجز
ہمارے وزیراعظم کی آنکھوں میں کچھ خواب ہیں مگر وہ یہ خواب جاگتی آنکھوں سے دیکھتے ہیں حالانکہ خواب دیکھنے کیلئے سونا بہت ضروری ہے اور پھر اچھے اور سچے خواب کی نشانی یہ ہے کہ وہ صبح کی اذان سے پہلے آئے تو اس کی تعبیر بھی جلد سامنے آتی ہے۔
وزیراعظم کے ارد گرد کے لوگ بھی خواب کم اور وزیراعظم کا چہرہ زیادہ دیکھتے ہیں اور پھر وزیراعظم کے چہرے کے تاثرات کے مطابق اپنا خواب بدل لیتے ہیں۔ حکومت کی تین سالہ کارکردگی کی تقریب میں جب عطا اللہ عیسیٰ خیلوی نے اپنی کانپتی ہوئی آواز اور لرزتے ہوئے ہاتھوں کے
”اچھے دن آئے ہیں“
گنگنایا تو وزیراعظم کا چہرہ خوشی سے سرخ ہو گیا۔ ہال تالیوں سے گونج اٹھا بعض سیٹوں سے اُٹھ کر بھنگڑے ڈالنے لگے اور یوں وزیراعظم کو کسی نے کانوں کان خبر بھی نہ ہونے دی کہ.اچھے دن آئے ہیں. کو سن کے سکرینوں کے سامنے بیٹھے لوگ کس طرح اپنا سینہ پیٹ کے سوال کر رہے ہیں کہ یہ اچھے دن کہاں آے ہیں….
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کیلئے ماضی میں بھی بہت برے دن آتے رہے ہیں مگراب کے کسی ایک حوالے سے بھی کہیں کوئی مثبت تبدیلی نظر نہیں آتی روز مرہ اشیائے ضرورت کی چیزوں میں مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے۔ بجلی گیس پٹرول کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ نے ایک عام آدمی کو برباد کر کے رکھ دیا ہے وزیراعظم جس عام آدمی حالات بہتر بنانے کی بات کرتے ہیں حکومتی اقدامات سے سب سے زیادہ تکلیف بھی اسی عام آدمی کوہے۔ کسی بھی حکومتی ادارے میں کہیں بھی بہتری نظر نہیں آتی آپ جس ادارے میں بھی چلے جائیں رشوت کے ریٹ دگنے ہو چکے ہیں پہلے تو اداروں کے لوگ چھپا کے رشوت لیتے تھے مگر اب کھلے بندوں وصول کرتے ہوئے مزید کا تقاضا کرتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر گزشتہ ایک سال سے بیگم کے علاج کیلئے مختلف سرکاری اور نجی ہسپتالوں کے چکر لگا رہا ہوں ہسپتالوں میں جانے کے بعد معلوم ہوا کہ سرکاری ہسپتالوں میں میڈیسن تو دور کی بات کسی ڈاکٹر کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ مرض کی تشخیص کیلئے کچھ سنجیدگی دکھائے میری بیگم کو ابتدا میں گلے کی تکلیف ہوتی تو میں اسے ایک دوست ملک کے بادشاہ کے نام سے منسوب ہسپتال میں لے گیا چھ ماہ تک علاج کرنے کے باوجود وہ یہ نہ بتا سکے کہ مریض کو کیا تکلیف ہے حالانکہ وہ اس دوران درجنوں ٹیسٹ لکھ لکھ کے دیتے رہے مگر مرض کو نہ پہچان سکے یہ تو بھلا ہو ایک دوست کا جس کی مدد سے بائیو آپسی کروائی تو معلوم ہوا مریض کو گلے کا کینسر ہے سو علاج کیلئے شوکت خانم کا رخ کیا ذہن میں تھا کہ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جہاں کسی سفارش کی ضرورت نہیں ہوتی اور یہاں غریب لوگوں کا علاج مفت ہوتا ہے مگر وہاں جا کے معلوم ہوا کہ میرا شمار ملک کے امرامیں ہوتا ہے اور پھر مجھے بتایا گیا کہ آپ کا مریض آخری سانسوں پر ہیں اسے گھر لے جاؤ اور محلے کہ کسی ڈاکٹر کے پاس لے جاؤیہاں علاج ممکن نہیں ہے۔ حیرت ہوئی اتنے بڑے اعلیٰ ہسپتال کے ڈاکٹر کسی مریض کو ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں۔حالانکہ یہ خیراتی ادارہ ہے مگر میں سوچتا ہوں وزیراعظم جن کی والدہ محترمہ کینسر میں مبتلا ہوئیں تو انہوں نے ماں کے دکھ کو دل پہ لیتے ہوئے شوکت خانم ہسپتال کی بنیاد رکھی ان کے اس فیصلے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اور عوام خواص نے بڑھ چڑھ کے اپنا حصہ ڈالا اور تو اور نواز شریف خاندان نے اسے ادارے کے قیام میں عمران خان کی بہت مدد کی۔ خود میں نے عمران خان کے ساتھ چندہ مہم میں حصہ لیا اور عام لوگوں کے ہاتھوں سے پیسے پکڑ پکڑ کے عمران خان کے ہاتھوں میں پکڑائے مگر مجھ سمیت ہر شخص نے یہ سب کچھ خالص انسانی خدمت کے جذبے کے تحت کیا اور ہسپتال مکمل ہوگیا۔
پچھلے دور حکومت میں کسی بھی سرکاری ہسپتال میں چلے جاتے علاج کیلئے ہر طرح کی سہولیات میسر تھیں ایمرجنسی میں درجنوں ڈاکٹر ہر وقت موجود ہوتے تھے جو چوبیس گھنٹے مریضوں کی دیکھ بھال کرتے نظر آتے علاج معالجے کی ہر سہولت میسر تھی ہسپتال داخلے کیلئے پرچی کی فیس تک نہ ہونے کے برابر تھی اکا دکا شکایت کے باوجود مجموعی طور پر اچھا ماحول تھا مگر اب صورتحال یہ ہے کہ پینا ڈول اور اسپرین تک آپ کو باہر سے خرید کے لانا پڑتی ہیں جب کہ امید تھی کہ عمران خان کے دور میں اور کچھ نہیں تو صحت کے شعبے میں بہت ترقی نظر آئے گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا
گزشتہ دنوں میانوالی جو وزیراعظم کا آبائی ضلع اور حلقہ ہے وہاں میرے جاننے والے خاندان کی ایک خاتون کو آنکھ کے نیچے پھنسی نکل آئی جس کی وجہ سے ان کی ایک آنکھ بند ہوگئی انہوں نے میانوالی کے بڑے سرکاری ہسپتال سے رجوع کیا انہوں نے مریض کو چیک کرنے کے بعد فرمایا مریض کا یہاں علاج نا ممکن ہے لہذا اسے پنڈی یا پھر لاہور لے جاؤ اور جتنی جلدی لے جا سکتے ہو لے جاؤ یہ سن کے وہ لوگ جیسے تیسے کر کے یہاں لاہور لے آئے اورمحلے کے ایک ڈاکٹر کے علاج سے مریض تیسرے دن چنگا بھلا ہوگیااب سوال یہ ہے کہ ان ہسپتالوں کی حالت کون درست کرے گا۔
اب آخر میں کرونا ویکسین کے حوالے سے بھی دیکھ لیجیے۔پنجاب کے دیہی علاقوں میں کیا لاہور جیسے بڑے شہر میں پنجاب حکومت کی ناک کے نیچے لوگ جعلی سرٹیفکیٹ بنوا رہے ہیں عملہ پیسے لے کرنام درج کر رہا ہے اور ہزاروں لوگ عملے کی ملی بھگت اور رشوت دے کرویکسین لگوائے بغیر نام لکھوا رہے ہیں۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے کوئی کیسے کہہ سکتا ہے
اچھے دن آئے ہیں. ….
(کالم نگارمعروف شاعر اورادیب ہیں)
٭……٭……٭

افغانستان نئے موڑ پر

سجادوریا
افغانستان کی تاریخ جدوجہد،جنگ وجدل اور خون خرابے سے بھری پڑی ہے۔افغان عوام نے ظلم و ستم سے بھر پور کئی دہائیاں اپنے اوپر سے ایسے گزاری ہیں جیسے ”آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے“ اور وہ مسلسل کئی عالمی طاقتوں کا میدانِ جنگ بنا رہا۔افغانستان کی بدقسمتی بھی شامل ِ حال رہی کہ افغانستان کو مخلص اور محب وطن قیادت بھی نہیں نصیب ہوئی،افغانستان کی سیاسی،مذہبی اور جہادی قیادت نے بھی ہوش و خرد کا مظاہرہ نہیں کیا۔حامد کرزئی اور افغان نژاد امریکی زلمے خلیل زاد نے نسبتاََ بہتر کردار ادا کیا کہ امریکہ کے تسلط کو کمزور کیا جا سکے۔ایک نے سفارتی محاذ پر اور دوسرے نے اندرونی سیاسی محاذ پر۔انتہائی شرم ناک کردار کا مظاہرہ اشرف غنی،امراللہ صالح اور جنرل دوستم نے کیا۔مقام ِ عبرت اور شرمندگی ہے کہ بھڑکیں مارنے والے،پاکستان کے خلاف بکنے والے،ہندوستان کی بولی بولنے والے سُورماوٗں نے بزدلی کا مظاہرہ کیا اور طالبان کی ایک ہی دھاڑ کے بعد دُم دبا کر بھاگ نکلے۔
سوویت یونین کے بعد امریکہ بھی افغانستان میں اپنی عالمی دہشت کو اس خطے میں برقرار رکھنے کی امید لے کر یہاں آیا تھا،لیکن دو دہائیوں کے بعد شکست کی رُسوائیاں سمیٹے واپس ایسے بھاگا ہے کہ اس میں بھی بددیانتی شامل تھی۔امریکی قیادت میں نیٹواتحاد کی بدنیتی اس طرح شامل تھی کہ طالبان سے مذاکرات بھی کر رہے تھے اور اشرف غنی حکومت کو بھی دھوکے میں رکھا،اچانک ایسے غائب ہوئے کہ کابل میں اقتدارِ انتقال کو بھی ممکن نہیں بنایا۔ طالبان کا رویہ انتہائی ذمہ دارانہ رہا،طالبان جب کابل کے دروازے پر پہنچے تو اشرف غنی خفیہ طریقے سے بھاگ نکلا۔اگر امریکہ کی سوچ میں بددیانتی نہ ہوتی تو باقاعدہ انتقال ِ اقتدار کو ممکن بناتا۔لیکن مجھے ایسے لگتا ہے کہ اس وقت طالبان بہت عمدگی اور ذمہ داری سے کھیل رہے ہیں۔پاکستان کا کردار بھی انتہائی مثبت،ذمہ دارانہ،قابلِ ستائش ہے۔پاکستان نے کمال ذہانت و دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو عالمی طاقتوں کو افغانستان میں ایسے گھسیٹا کہ ان کو شکست سے دو چار ہو نا پڑا۔
پاکستان نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ ملکر بہترین حکمتِ عملی ترتیب دی ہے۔اس وقت چین،ایران،روس سمیت اہم ممالک پاکستان کے ساتھ مشاورت کو نئی منصوبہ بندی کے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔پاکستان اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔پاکستان نے اپنی حکمت سے بھارت سمیت تمام اہم کھلاڑیوں کو میدان سے ناک آوٗٹ کر دیا ہے۔اس ساری صورتحال کا اگر تجزیہ کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کے غرور و تکبر کو ایک بڑی چوٹ لگی ہے۔امریکہ نے رُسوائی سمیٹ لی لیکن خود کو افغانستان سے نکالنا مناسب سمجھا۔امریکہ کی بدمعاشی،ہٹ دھرمی اور فرعونیت دھری کی دھری رہ گئی ہے۔اس تمام ذلت کے باوجود میں سمجھتا ہوں امریکہ نے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے،جذباتیت اور رعونت کو ایک طرف رکھ کر امریکہ نے اپنی بقا کو پیش ِ نظر رکھا ہے۔
امریکہ نے سمجھ لیا ہے کہ بھارت اور اشرف غنی خالی نعروں اور دعووں کے علاوہ کچھ نہیں کر پا رہے اور امریکہ مسلسل دباوٗ کا سامنا کر رہا ہے۔جس میں سب سے بڑا معاشی دباوٗ ہے جو امریکی معیشت کو مسلسل برباد کر رہا ہے۔امریکہ کی سوچ بدلنے کے مختلف محرکات ہو سکتے ہیں،کچھ اندرونی اور کچھ بیرونی بھی ہو سکتے ہیں۔میری دانست میں سب سے مضبوط محرک چین کی معیشت اور چین کی سیاسی و فوجی ترقی امریکہ کے لئے مستقبل کے بڑے چیلنج ثابت ہو سکتے ہیں۔امریکہ نے سمجھ لیا ہے کہ چین نے خود کو جنگوں سے دور رکھا ہوا ہے،اپنی توجہ معاشی ترقی پر مرکوز رکھی ہوئی ہے،چین دنیا میں معاشی تعلقات قائم کر رہا ہے،اپنی ساکھ کو بہتر بنا رہا ہے۔دنیا اس وقت چین پر اعتبار کر تی ہے اور کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتی جبکہ امریکہ کی دنیا میں ساکھ خراب ہو چکی ہے،امریکہ بدمعاشی کی علامت بن چکا ہے،اقوامِ متحدہ کی منافقت بھی آشکار ہو چکی ہے۔
افغانستان کی رسوائی امریکہ کی رعونت میں آخری کیل ثابت ہو گی۔دیگر ممالک بھی محسوس کر چکے ہیں کہ امریکہ اب جارحانہ انداز اختیار کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔امریکہ کی خواہش تو ہو سکتی ہے کہ چین،روس سمیت مخالف ممالک پر جنگ مسلط کی جائے لیکن عملی طور پر اس کو پایہ ء تکمیل تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔
میرا”گمان“ ہے کہ امریکہ اب بہت محتاط ہوکرکھیلے گا۔اپنی معاشی اور فوجی استعدا د کو بے جا ضائع نہیں کرے گا،خودکوسفارتی اور خارجی محاذ کو متحرک کرے گا،سازشوں اور پراپیگنڈے کا استعمال کرے گا۔لیکن بہر حال امریکہ کی اخلاقی ساکھ،بندمٹھی میں ریت کی طرح پھسلتی جا رہی ہے،جتنی قوت سے مُٹھی بند کی جائے اتنی ہی ریت پھسلتی جاتی ہے۔امریکہ نے دلدل سے نکلنے کی کوشش کی ہے۔میں سمجھتا ہوں امریکی نقطہ نظر سے یہ بہترین اور قدرے تاخیر سے ہی سہی لیکن عملیت پسندی کا فیصلہ ہے۔اگر مخالف نقطہٗ نظر سے دیکھا جائے تو چین اور روس تو چاہتے تھے کہ امریکہ اسی طرح افغانستان میں اُلجھا رہے۔
اب بات کر تے ہیں طالبان کی فتح کی۔افغان طالبان کو مبارک کہ انہوں نے طویل جنگ لڑی اور فتح پائی۔لیکن یہ جیت اور حکومت ان کے لئے کڑا امتحان ثابت ہو گا۔انہوں نے طویل جدوجہد کے بعد افغانستان پر اپنی حکومت قائم کی ہے۔اسی طرح ان کے سامنے بڑے چیلنجز ہیں۔افغان طالبان بہت ذمہ داری کا مظاہرہ کررہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دنیا کے ساتھ تعلقات استوار کریں۔لیکن سوال یہ کہ دنیا ایسا چاہے گی؟عالمی طاقتیں جن کو دہشت گرد سمجھتی رہیں کیا ان کی حکومت کو تسلیم کریں گیں؟حالات و واقعات اور مجبوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے تجزیہ کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کیونکہ طالبان اس بار ماضی کی غلطیوں کو نہیں دُہرائیں گے۔ان کی حکمت عملی میں چین اور روس ان کا ساتھ دے سکتے ہیں۔طالبان اگر تعاون پر آمادہ ہوئے تو روس چین،ترکی پاکستان اور ایران خاص طور پر امن لانے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

نوٹس لینے اور رپورٹ طلب کرنے کا کلچر

ندیم اُپل
ہمارے ہاں اکثر وبیشتر جب کوئی بڑا سانحہ یا واقعہ وقوع پذیر ہوتا ہے تو متاثرہ فریق کو انصاف دلانے کیلئے سرکاری طور پر ان مخصوص الفاظ میں تسلی دی جاتی ہے کہ اعلیٰ حکام نے واقعہ کانوٹس لے کر آئی جی سے رپورٹ طلب کر لی۔یہ ترّدد بھی اس وقت کیا جاتا ہے جب ظلم و زیادتی پرمبنی کسی واقعہ کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں،رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں اور سڑکوں پر ٹائر جلاکر احتجاجی مظاہر ے کرتے ہیں یا کسی واقعہ کے بارے میں سوشل میڈیا پر شور مچ جائے وگرنہ ہمارے معاشرے میں کسی مظلوم کے ساتھ کوئی زیادتی ہو جائے تو تھانے میں اس کے کہنے پر ایف آئی آر تو کیا سادہ شکایت تک درج نہیں ہوتی البتہ کسی واقعہ پر شدید عوامی ردعمل آنے کی صورت میں بیوروکریسی کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ معاملہ ٹھنڈا کرنے کیلئے پہلے سے تیار شدہ بیان از خود جاری کردے کہ اعلیٰ حکام نے فوری نوٹس لے لیا ہے اور فلاں فلاں پولیس افسر سے رپورٹ طلب کر لی گئی ہے۔دراصل یہ ہماری بیوروکریسی کے کام کرنے کا ایک مخصوص طریق کار ہے جو برسوں سے قائم ہے اوربدقسمتی سے آج بھی اسی پر عمل ہو رہا ہے یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی مظلوم کو انصاف نہیں ملا۔
ایسے بہت سے واقعات ہیں کہ جن کا نوٹس تو ضرور لیا گیا۔پولیس سے رپورٹیں بھی طلب کی گئیں مگر انصاف آج تک کسی کو نہ مل سکا۔
کیاساہیوال کے وہ معصوم بچے جن کے سامنے ان کے والدین کو گولیاں مار کر قتل کردیا گیا تھا کیاان کو انصاف مل گیا۔ان کے چچا کو ایک چیک دے کر منہ تو بند کر دیا گیا مگر قاتل کون تھے کہاں گئے یہ آج تک پتہ نہیں چل سکام۔موٹر وے پر بچوں کے سامنے ان کی ماں کے ساتھ زیادتی کرنے والے مجرموں کو جو اعتراف جرم بھی کر چکے ہیں انہیں سزا ہونے کے باوجود اس پر عمل درآمد میں غیر معمولی تاخیر کس لیے؟سیالکوٹ کاوہ واقعہ جس میں بھرے ہجوم میں مجرموں نے دو سگے بھائیوں (ان میں ایک حافظ قرآن تھا)کو ڈنڈے مار مار کر ہلاک کر دیا تھا جس پر اس وقت کے خادم اعلیٰ نے فوری نوٹس بھی لیا تھا اور بڑی رپورٹیں طلب کی تھیں کیا ان کے لواحقین کو انصاف ملا؟
حال ہی میں چوہنگ میں ماں بیٹی کے ساتھ زیادتی کیس میں جس کا فوری نوٹس لیا گیا تھا اور رپورٹ طلب کی گئی تھی کیا ابھی تک ان کو انصاف ملا۔ابھی چند روز قبل مقامی اخبارات کی خبر تھی کہ ایک ہی رو ز میں لاہور کے مختلف علاقوں میں سات خواتین سے زیادتی ہوئی۔اس پر چونکہ عوامی سطح پر احتجاج نہیں ہو ا اس لیے کسی نے اس واقعے کا کو ئی نوٹس لیا اور نہ ہی پولیس سے رپورٹ طلب کی گئی۔ایسے ہی معاشرے کے کمزور افراد سے ہونے والے ظلم پر یہ کہہ کر بقول چودھری شجاعت حسین (مٹی پاؤ) کہہ کربات ختم کر دی جاتی ہے۔مگر جس واقعہ پر لوگ جان کو آجائیں اس پرنوٹس بھی لے لیا جاتا ہے اور پولیس سے فوری رپورٹ بھی طلب کی جاتی ہے۔تاہم اس کیساتھ کیساتھ کچھ اچھے کاموں کا اعتراف کر لینے میں بھی بخل سے کام لینا اچھا نہیں۔مثلاً قصور کی زینب کا واقعہ،کوئٹہ میں قتل ہونے والے گیارہ کان کنوں اور نور مقدم کیس جس میں ملزم کے والدین بھی زیر حراست ہیں ان تینوں واقعات پراس لیے کارروائی ہوئی کہ ان واقعات نے پوری انتظامیہ کو ہلا کر رکھ دیا تھااور اگر مزید اچھی کارکردگی کا حوالہ دینا مقصود ہو تو 14اگست کو گریٹر اقبال پارک میں ہونے والے واقعے کا حوالہ بھی دیا جا سکتا ہے جس پر غفلت برتنے والے پانچ اعلیٰ افسران کو بھی برطرف کر دیا گیا تھا اور جس تک پولیس ابھی تک پرجوش انداز میں اپنی تفتیش جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ وہ کیس ہے کہ جس تک پولیس والے خوشی خوشی کام کر رہے ہیں وہ یہ کام کیوں خوشی خوشی کر رہے ہیں اس بارے میں ہم سب جانتے ہیں لہٰذا اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔
اگر اس ملک میں اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے نوٹس لینے کے بعد کوئی منطقی کارروائی ہوئی تو وہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مدت ملازمت کے آخری دن تھے جب پولیس اور اعلیٰ بیوروکریسی کی شامت آئی ہوتی تھی اورسپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں صبح سویرے ہی اعلی بیوروکریسی کی حاضریاں شروع ہو جاتی تھیں۔جب تک جسٹس ثاقب نثار اپنے عہدے پر فائز رہے ان کے احکامات پر فوری عمل درآمد بھی ہوا،ظالم کو باقاعدہ سزا ور مظلوم کو باقائدہ انصاف ملامگر جیسے ہی جسٹس ثاقب نثار کی مدت ملازمت ختم ہوئی ان کے باقی ماندہ احکامات کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیاگیا۔ہم نے سطور بالا میں جن واقعات کا حوالہ دیا ہے ان میں دیکھا جائے تو ہم سب برابر کے قصور وار ہیں کسی ایک کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔اگر پولیس پر الزامات آتے ہیں توعوام کے تحفظ کے لیے وہ اپنی جانوں کا جو نذرانہ پیش کرکے امربھی ہو جاتے ہیں اسے بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔
پولیس میں بھی کیپٹن مبین ڈی آئی جی ٹریفک اورزاہد گوندل ایس ایس پی آپریشنز کا جذبہ رکھنے والے سپوت موجود ہیں تاہم کالی بھیڑیں تو ہرجگہ ہوتی ہیں۔اسی طرح عام عوام میں بھی ایسے لوگ ہیں جولب سڑک کسی بیہوش یازخمی شخص کودیکھا کراس کو ہسپتال نہیں پہنچاتے مگر مال غنیمت کے طور پر اس کے پرس اور موبائل وغیرہ پر ضرور ہاتھ صاف کر جاتے ہیں مگر ہم بنیادی سوال یہ لے کرچلے تھے جب زیادتی کاکوئی مجرم خود ہی اعتراف جرم کر لیتا ہے اور آدھا شہر اس کی گواہی بھی دیتا ہے توپھر جان بوجھ کر تفتیش کا دائرہ کار کیوں بڑھایا جاتا ہے اورایسے ثبوت کیوں مانگے جاتے ہیں جس کا فائدہ اقرار جرم کرنے والے ملزم کو پہنچ سکتا ہے۔مثال کے طور پرموٹروے کے ملزمان نے نہ صرف اقرار جرم کیا بلکہ یہ بھی اقرار کرلیا کہ وہ ماضی میں بھی اس قسم کے گھناؤنے جرائم میں ملوث رہے ہیں۔چوہنگ کے واقعہ میں ماں بیٹی سے زیادتی کرنے والا ملزم چند روز قبل ایسے ہی ایک جرم میں سزا بھگت کر باہر آیا تھا۔سو جب تک ایسے مجرموں کو نشان عبرت نہیں بنایا جائے گا ان کے ناپاک وجود کو صفحہ ہستی سے نہیں مٹایا جائے گا اس وقت تک سانحہ موٹر وے اورسانحہ چوہنگ ایسے المیے رونما ہوتے رہیں محض فوری نوٹس لینے اور رپورٹ طلب کرنے سے بات نہیں بنے گی۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

حجاب عورت کی حفاظت اور عظمت

لیاقت بلوچ
اسلام دین فطرت ہے۔ اسلام کی تعلیمات اور رہنمائی مردو خواتین کے لیے باعث خیر اور دنیا و آخرت کی کامیابی کا ذریعہ ہیں۔اسلام ایک متوازن زندگی کا طرز عمل اپنانے کا حکم دیتاہے اور یہ درس ہے کہ نیکی یہ نہیں کہ ”تم اپنے چہر ے مشرق کی طرف یا مغرب کی طرف کر لو بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخرت و ملائکہ، اللہ کی نازل کی ہوئی کتابوں اور پیغمبروں کو دل سے مانے۔“اسلام دکھاوے، نمائش کے اسلوب نہیں مستقل شرم و حیا اور بامقصداور کامیاب زندگی کا راستہ بتاتاہے۔کامیاب وہی ہے جو آخرت میں جنت کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا حق دار بن گیا۔ قرآن و سنت کے احکامات کی پابندی ہی انسانی زندگی کی کامیابی کی کلید ہے۔
اللہ نے موت و حیات کو اس لیے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتاہے، اور”جو لوگ اللہ کی راہ میں، اللہ کی رضا کے لیے مجاہدہ کرتے ہیں،اللہ تعالیٰ انہیں اپنے راستہ کی سچائی سے لازماً آگاہ کردیتے ہیں، یقیناً اللہ نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔“ زندگی کے تمام اعمال وہ ہیں جنہیں نیکی اور بدی کی صورت میں بعد موت روز قیامت پالے گا، کوئی بھی عمل جو ظاہر یا باطن میں ہوتاہے اللہ سے چھپا نہیں ہوتا۔ مرد و خواتین اہل ایمان کی کامیابی اس میں ہے کہ اللہ کی رسی قرآن کریم کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں، تفرقوں میں نہ پڑیں۔ بے حیائی، فحاشی کی اشاعت کا حصہ نہ بنیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہی اب دنیا میں بہترین امت ہے جسے انسانوں کی اصلاح و فلاح کے لیے میدان میں لایا گیاہے اس کی بنیادی ذمہ داری نیکی کو عام کرنا، بدی اور خرابیوں کو روکنا اور عامۃ الناس میں شعور پیدا کرنا کہ اللہ پر کامل ایمان رکھیں۔ معاشرہ میں مردو عورت نظام زندگی کے دو بنیادی ستون ہیں، انہیں ہی انسانوں کے درمیان بہترین معاشرہ تشکیل دینے کا فرض ادا کرنا ہے۔
انسانی معاشرہ میں مردوعورت کی ذمہ داری الگ الگ ضرورہے لیکن اس کے اعمال سے معاشرہ مثبت یا منفی اعتبار سے اثرات قبول کرتاہے۔ عورتیں تہذیبوں کی عمارت کا بنیادی ستون ہوتی ہیں۔ عورت اللہ کے لطف و جمال اور صفتِ تخلیق کا مظہر ہے۔ شیطانی قوتیں جب بھی کسی معاشرہ و سماج کو بگاڑ کا شکار کرناچاہتی ہیں تو سب سے پہلا وارعورت کی صفت ِحیا پر کرتاہے۔
اسلامی تہذیب اور اسلامی معاشرت کی علمبردار خواتین نے علمائے کرام کی مشاورت اور رہنمائی میں 4 ستمبر کو عالمی یوم حجاب قرار دیاہے۔ یہ زندگی کی علامت ہے کہ بگڑتی معاشرت، اخلاقی اور تہذیبی گراوٹ کے ماحول میں خواتین اسلام نے خود آگے بڑھ کر علم بلند کیا ہے۔اسلامی تہذیب، گھروں کی حفاظت، نئی نسل کو تباہی سے بچائے رکھنے کی تمنا کرنے والے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وقت کی اس اہم ضرورت، مقصد، فلسفہ کو جانیں اور اس کے پشتی بان بنیں۔ حجاب عورت کا فخر اور حق ہے یہ حق چھیننے والی قوتوں کے شیطانی ایجنڈا کے سدباب کے لیے سب کو اپنا فرض ادا کرناہے، اپنے حصہ کی شمع جلاناہے۔
مغربی تہذیب، مغربی سرمایہ دارانہ نظام، مغربی تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ میں ترقی ایک حقیقت ہے اور اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ امریکہ اور روس کی سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد یورپ امریکہ کی چھتری تلے آگیا اور یوں یک محوری طاقت نے پوری دنیا میں نیو ورلڈ آرڈر، من پسند تہذیب اور سماج کا ایجنڈا مسلط کرنے کا راستہ اختیار کرلیا لیکن اللہ تعالیٰ ہی مالک، خالق،قادر مطلق ہے، دنیا نے یہ منظر خود دیکھ لیا کہ مغربی استعمار اور امریکہ کا فلسفہ، مذہب بے زاری، بے مقصد علم، حق سے ناآشنا تہذیب اور انسانی ہڈیوں کو نچو ڑ لینے والا اقتصادی نظام پٹ گیا۔ اسلحہ، بارود اور طاقت کے تسلط کے خلاف بغاوت عام ہوگئی ہے۔ اس پس منظر میں اسلامی تعلیمات، مساجد و مدارس، منبر و محراب، اسلامی تہذیب، خاندان کا نظام، مسلم معاشروں کو غلامانہ ذہنیت دینا اور خصوصاً خواتین کو ہدف بنالیا گیا۔ عورت کا حجاب ان کے لیے نفسیاتی ہیجانی کیفیت بن گیاہے۔ یورپی ممالک میں حجاب پر پابندی، باحجاب عورتوں کو پارلیمنٹ سے باہر کرنا، حجاب کی پابند بچیوں پر تعلیم کے دروازے بند کرنا ظالمانہ روش کی صورت اختیار کر گیالیکن اب یہ قوتیں پسپاہورہی ہیں۔ عورت خود اپنے آپ کو تباہ کرنے سے انکاری ہے اب وہ زمانہ تو گیا جب حجاب کو جبر اور قید کی علامت بنا کر پیش کیا جاتاتھا۔ حجاب نہ زبردستی کرایا جاسکتاہے اور نہ ہی زبردستی حجاب کیا جاسکتاہے۔ یہ ماحول، ترغیبات کے زیر اثر ہوتا ہے۔ بے حجابی اور بے حیائی کو معاشرے نے عورت کو بے وقعت، مارکیٹ کی شمع بنادیا اس لیے عورت نے طاقت سے مسلط مغربی تہذیب سے بغاوت کرد ی ہے۔ اسلام کی تعلیمات بھی پھیل رہی ہیں اور حجاب اب عورت کے لیے وقار، افتخار اور اعتبار کی علامت بن رہاہے۔
مغرب کے ایک دانشور بڑے اضطراب میں مسلم عورت کے حجاب پر جُز بُزہو رہے تھے تو برطانیہ کے ہی ایک مسلم شہری نے پوچھا کہ کیا ملکہئ برطانیہ سب سے ہاتھ ملاتی ہیں اس نے فوراً کہاکہ یہ اس کی شان کے خلاف ہے کہ وہ ہر ایرے غیرے سے ہاتھ ملائے اسی فرد نے اسے جواب دیا کہ اسلام ہر عورت کو ملکہ کا درجہ دیتاہے اسے ہر ایک سے ملن سے باز رہنے کی تلقین کرتاہے ہر قیمتی، مبارک چیز چھپی اور غلاف میں ہوتی ہے۔عورت کو بھی گھر کی مالکہ اور ملکہ بنایاہے۔ عورت کی تخلیق بڑی مبارک ہے اس لیے اس اس کا حجاب ہی اس کی طاقت ہے۔ حجاب عورت کی تعلیم، ترقی، روزگار،ملازمت اور قومی ترقی میں رکاوٹ نہیں اب باحجاب عورت تعلیم، سماج، بزنس اور ہر میدا ن میں بھر پو رشمولیت کا کردار ادا کر رہی ہے۔عورت حجاب و حیا کی پابند رہے تو پوری آزادی اور تحفظ سے ترقی کی منازل طے کر لیتی ہے۔ بے حجابی عورت کی ترقی، عزت و وقار اور مقام عظمت کے لیے رکاوٹ بنتی جارہی ہے۔ بے حجابی معاشرہ میں نئے معاشرتی حادثات کا موجب بن گئی ہے جبکہ باحجاب عورت گھر، والدین، شوہر اور اولاد کے لیے باعث عزت بن گئی ہے۔ مسلم ممالک کی مالدار خواتین دنیا کے ان ممالک میں جانا ترجیح بناتی ہیں جہاں ان کا حجاب اور وقار سلامت رہے۔
تہذیبی کشمکش میں مرد و خواتین کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ عورت کو شمع محفل بنا کر دنیا برباد ہوئی ہے۔ عورت کی تعلیم، وراثت، عزت و وقار کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔ عورت بھی اسے زندگی کا مشن بنا لے کہ نامحرم اور اجنبی مرد سے ملنے سے اجتناب بھی ہو،ناگزیریت میں وقار، جرأت اور احساس عزت برقرار رہے۔ شرم و حیا کی حفاظت کریں۔ گھروں کو اولادوں کو اسلامی تعلیمات و اخلاق سے وابستہ کریں۔
4 ستمبر یوم حجاب خواتین، طالبات اور نوجوان بیٹیوں کے لیے بہت اہم دن ہے۔ عورت کو کردار، علم اور ذہانت کی بنیاد پر معاشرہ میں مقام دلانا، عورت کے وہ حقوق َہیں جو اسلام نے انہیں دیے ہیں۔ سیکولر نظام نے اس سے وہ حقوق چھین لیے ہیں، خواتین ان حقوق کے حصول کی علمبردار بن جائیں۔ حجاب کو نسوانیت کی فخریہ علامت اور حجاب کو عورت کی پاکیزگی اور آزادی کی تواناعلامت بنادیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ باحجاب خاتون ہیں، حکومت کو خواتین میں حجاب کلچر عام کرنے کی مہم اور ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ ریاست مدینہ کے نظام کے لیے حجاب اور حیا کی علمبردار عورت بنیاد ہے۔
(جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیرہیں)
٭……٭……٭

ہندوستان کی چیخ و پکار اور افغانستان کے نئے چیلنجز

سلمیٰ اعوان
لگتا ہے جیسے ہندوستان کی شہ رگ کو کِسی نے آہنی انگوٹھے سے دبا دیا ہے کہ اس کی تو چیخیں نکل گئی ہیں۔ ”ارے بھئی صبر سے سکون سے۔“چھوٹے چھوٹے چینلز اور یو ٹیوبز والوں نے ٹاک شوز اور ٹاکروں کا جو سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ان میں مسلمان عورتوں اور مردوں سے بحث کا جو انداز اپنایا گیاہے وہ اِس قوم کی بیمار ذہنیت کا عکاس ہے۔ ایک شو میں مدعو مسلمان خاتون کا کہنا تھا کہ آخر آپ لوگ امریکہ کے کردار پر بات کیوں نہیں کرتے ہیں کہ وہ بیس سال پہلے وہاں کیا کرنے گیا تھا اور اب اس طرح کیوں نکلا۔میں نے تو طالبان کی حمایت میں کچھ بھی نہیں کہا ہے اور آپ ہیں کہ مجھے مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ شرعیہ نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اور ہندوستانی مسلمان بھی اسی نظام کے خواہش مند ہیں۔اس لیے بہتر ہے کہ وہ افغانستان چلے جائیں۔بھئی کیوں چلے جائیں۔تم کوئی مامے ہو اِس سرزمین کے۔اظہار رائے کا مطلب کتنا الٹا لے رہو ہو۔
خاتون بھی بڑی دبنگ تھی۔تکرار جب زیادہ بڑھی۔وہ کھڑی ہوگئی۔تم لوگ سچی بات سُننا ہی نہیں چاہتے ہو جو میں کہناچاہ رہی ہوں؟اور نتیجہ یہ ہوا کہ خاتون واک آوٹ کرگئی۔
اب مسلمان مرد کی کھلڑی ادھیڑ نے لگے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ میں ہندوستانی ہوں۔ایک محب وطن ہندوستانی ہونے کے ناطے مجھے اِس کا احساس ہے کہ میرے ملک نے افغانستان میں بہت سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ہمیں مشتعل ہونے اور گھبراہٹ کی بجائے ٹھنڈے دل و دماغ سے صورت حال کا جائزہ لینا چاہیے۔ہمارا ان کی طرف تعاون بھرا ہاتھ بڑھنا چاہیے۔
اب اِس شاداب چوہان نامی شخص پر تابڑتوڑ حملے ہونے لگے۔تان اسی پر توڑی جارہی تھی کہ آپ لوگوں کی ہمدردیاں پاکستان اور اِن طالبان کے ساتھ ہیں۔جمعرات کی شام ایک چینل پر ایک تیز طرار اینکر پرسن ایک میجر کے ساتھ طالبان کے بخیئے ادھیڑ رہی تھی۔امریکہ کو کم،اشرف غنی پربہت اور طالبان پر لعن طعن کا سلسلہ زیادہ زور وشور سے جاری تھا۔ عمران خان، چین اور روس پر نکتہ چینی ہورہی تھی۔ کسی معتدل نے کہا۔ ہمارے لیے دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی بہت بہتر ہے۔ مگر اُن کے لہجوں کی کاٹ اتنی شدید تھی کہ لگتا تھا کہ جیسے بس نہ چل رہا ہو کہ داڑھیوں اور چپلوں والوں کا قیمہ کردیں۔
اُف یہ خونی انقلابوں سے گزرنے والا ملک 1960 کی ساری دہائی، ظاہر شاہ کا عہد حکومت آنکھوں کے سامنے تھا۔ہماری جوانی کے زمانے کے اس پر امن اور خوش حال ملک کا دارالحکومت کابل بڑا آئیڈیل اور خواب ناک قسم کا شہر تھا۔جس کی یونیورسٹی میں سکرٹ اور اونچی ایڑی کے جوتے پہننے والی لڑکیاں پڑھتی تھیں جن کے بارے ہم پڑھ پڑھ کر ان پر رشک کرتی تھیں۔اس شہر کے پارکوں، نہروں اور ریڑھیوں پر بکتے قندھاری اناروں، سیبوں کی تفصیلات سے ہم مستنصر حسین تاڑر کی ”نکلے تیری تلاش میں“ کو پڑھتے ہوئے شناسا ہوئے تھے۔کابل کی رعنائیوں اور دل ربائیوں دونوں نے اُسے دیکھنے کی تمنا دل میں جگائی تھی۔
ظاہر شاہ کے شاہی خاندان کی رسالوں میں چھپی تصویریں آج بھی یاد ہیں۔ہائے ایسی ہوتی ہیں شہزادیاں اور ملکائیں۔سوچا کرتے تھے۔زمانہ شاید 1973کا تھا جب ایک دن یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ شاہی خاندان کا تختہ الٹا دیا گیا ہے۔شاہ کا فرسٹ کزن اور بہنوئی فوج کی مدد سے ملک پر قابض ہوگیا ہے۔شاہ بیچارہ تو علاج کے لیے اٹلی گیا ہوا تھا۔اگر یاداشت دھوکہ نہیں دے رہی ہے غالباً 1977کا ہی سال تھا جب سردار داؤد پاکستان دورے پر آئے تھے۔شالامار باغ میں استقبالیہ تھا۔خوش قسمتی سے تقریب کا کارڈ مل گیا کہ گہر ی دوست کے میاں صدیق علوی منتظم اعلیٰ تھے۔سردار داؤد فکری طور پر کیمونسٹ تھا۔آغاز میں سوویت سے بہت متاثر تھا۔یہی وجہ تھی کہ مسجدوں پر تالے لگادئیے،داڑھیوں پر پابندی لگ گئی۔عورتوں کے لیے سکرٹ لازمی ٹھہرا۔ظالم بھی بہت تھا۔مخالف کو اغوا کرنا اور پار لگوانا اس کے لیے کھیل تماشے جیسا ہی تھا۔بعدازاں سوویت سے بھی تعلقات خراب کرلیے۔ 78کے انقلاب میں پروکیمونسٹوں کے ہاتھوں ہی مارا گیا۔بڑی المناک موت تھی۔اُسے خاندان کے تیس(30) افراد کے ساتھ دو گڑھوں میں پھینک دیا گیا۔نہ غسل، نہ کفن اور نہ ہی کوئی نماز جنازہ۔
2008میں ایک اتفاقیہ کھدائی کے دوران دونوں قبریں دریافت ہوئیں۔ سردار داؤد کی شناخت اُن کے جوتوں سے ہوئی جو اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہے تھے۔یہ بڑے خاص الخاص جوتے تھے جو سوئیزلینڈ کی ایک کمپنی اپنے اہم ممبران کے لیے بناتی تھی۔شاہ ظاہر شاہ بھی یہی جوتے پہنتا تھا۔یہ بھی اس کا ممبر تھا۔ جب قتل کے بعد لاش گھیسٹی گئی تو وہ یہی جوتے پہنے ہوئے تھا۔
کوہ ہندوکش کوہساروں کی اس زمین کے نصیب میں بھی امن چین نہیں۔خون،وحشت اوربربریت ہی اس کا مقدر بن گیاہے۔کبھی نور محمد ترکئی سے لے کر نجیب اللہ تک کیمونسٹ فکر کی چھتری نے لالو لال کیا اورکبھی اسلامی سٹیٹ کی چھاؤں میں یہ لہولہان ہوا۔بڑی طاقتیں بھی بھاگی بھاگی آئیں پر اِسے برباد ہونے سے نہ بچا سکیں اور بیچ منجدھار کے چھوڑ کر بھاگ گئیں۔
اب ایک باریہ پھر آزمائش کی سولی پر چڑھنے لگا ہے۔ایسے میں دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ یہ نیا انقلاب اس کے لیے چین اور خوشحالی کا باعث بنے۔(آمین)
(کالم نگار معروف سفرنگار اورناول نگار ہیں)
٭……٭……٭

عدم سے بینظیر کا خط بلاول کے نام

سید سجاد حسین بخاری
نورِ چشم‘ لخت ِجگر بلاول
ہمیشہ سلامت رہو
بیٹا! مجھے انتہائی خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے جنوبی پنجاب کو فوکس کیا ہے اور آج آپ کے سات روزہ دورے کا پہلا دن ہے۔ مجھے علم ہے کہ آج آپ نے پورا دن پارٹی کارکنان کے گھروں میں فاتحہ خوانی کیلئے جانا ہے‘ بہت ہی اچھی بات ہے۔
بیٹا! جس شہر میں آپ آج موجود ہو یہ بزرگوں اور اولیاء کا شہر ہے‘ اسے مدینتہ الاولیاء کہتے ہیں اور یہ تقریباً پانچ ہزار سال قدیم شہر ہے۔ اس کی ایک مسلمہ حیثیت ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا لہٰذا میری چند باتیں غور سے سنو اور انہیں پلے باندھ لوگے تو کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔
بیٹا بلاول! ملتان شہر نے آپ کے نانا اور میرے بابا شہید ذوالفقار علی بھٹو پر جن محبتوں کا قرض چڑھایا تھا‘ ہم وہ آج تک نہیں اُتار سکے۔ یہاں کے لوگ (عوام) آم اور سوہن حلوے کی طرح میٹھے ہیں‘ محبتوں اور قربانیوں سے سرشار ہیں خصوصاً مڈل اور لوئر مڈل کلاس۔
بیٹا بلاول! 1971ء میں جب شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ملتان میں اپنے چند دوستوں کو پی پی میں شمولیت کی دعوت دی تو سب نے انکار کردیا۔ ملتان شہر میں پاکستان پیپلزپارٹی کا ٹکٹ کسی نے نہیں لیا تھا‘ بالآخر آپ کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے خود الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا۔ اس وقت ضلع ملتان کی سات تحصیلیں ہوتی تھیں اور کل 9سیٹیں قومی اسمبلی کی ہوتی تھیں جن کی تفصیل آپ کو بیٹا بتانا ضروری ہے تاکہ مستقبل میں آپ کو فیصلے کرنے میں آسانی ہو۔ ملتان شہر سے آپ کے نانا کامیاب ہوئے۔ تحصیل شجاع آباد سے آپ کے نانا کے دوست اور کلاس فیلو مخدوم حامد رضا گیلانی کے مقابلے میں رانا تاج نون کو ٹکٹ دیا کیونکہ حامد رضا گیلانی نے ٹکٹ لینے سے انکار کردیا تھا اور وہ رانا تاج نون کے مقابلے میں شکست بھی کھا گئے تھے۔ اسی طرح بیٹا خانیوال سے برکت اللہ ایڈووکیٹ اور کبیروالا سے عباس حسین گردیزی‘ تحصیل میلسی سے کھچیوں کے مقابلے میں ارشاد خان پٹھان کامیاب ہوئے البتہ تحصیل وہاڑی سے مسلم لیگ کے صدر ممتاز دولتانہ کامیاب ہوگئے مگر وہ 1974ء میں آپ کے نانا کے ساتھ مل گئے۔ آپ کے نانا نے انہیں برطانیہ میں سفیر بنادیا اور پھر ضمنی الیکشن میں ریاض دولتانہ نے الیکشن جیتا۔ ان کی پوتی نتاشا دولتانہ آج کل آپ کے ساتھ ہے‘ ان کا خاص خیال رکھنا۔ بیٹا بلاول! لودھراں بھی ملتان کی تحصیل تھی‘ یہاں سے سید ناصر رضوی کامیاب ہوئے اور آپ کے نانا نے انہیں وفاقی وزیر بھی بنایا تھا۔ بیٹا! ضلع ملتان کی قومی اسمبلی کی 9نشستوں میں سے 8نشستیں پاکستان پیپلزپارٹی نے جیتی تھیں۔ اس زمانے میں ملتان ڈویژن کی حدود کے فورٹ منرو تک بلکہ بارکھان اور کوہلو تک اثرات ہوتے تھے۔ مظفرگڑھ سے غلام مصطفی کھر‘ ضلع لیہ سے مہر منظور سمرا‘ ڈیرہ غازیخان سے جمال لغاری ہمارے ساتھ تھے مگر ہار گئے تھے اور راجن پور سے شوکت مزاری آپ کے نانا کی ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے‘ تاہم بہاولپور چونکہ ایک الگ ریاست تھی جو قیام ِپاکستان کے بعد پاکستان میں ضم ہوئی اور پھر جب یونٹ ٹوٹا تو بہاولپور میں مقامی سطح پر ایک محاذ بنا جس کا نعرہ ریاست کی بحالی تھا۔ یہاں پر ایک کامیاب تحریک چلی اور اسی تحریک سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے محاذ نے الیکشن میں اپنے اُمیدوار کھڑے کردیئے جس کا نقصان پی پی پی کو ہوا۔ تاہم رحیم یار خان سے میجر عبدالغنی کانجو اور بہاولنگر سے رفیق شاہ پی پی پی کی ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔
بلاول بیٹا! یہ نام یقینا آپ کیلئے اجنبی ہوں گے اور ان میں اب ایک بھی زندہ نہیں ہے۔ تاہم ان کی نسلیں باقی ہیں اور بڑی تھوڑی تعداد میں وہ مختلف سیاسی جماعتوں میں شامل ہیں۔
بیٹا! 1971ء میں آپ کے نانا الیکشن جیت کر وزیراعظم پاکستان بن گئے۔ جیساکہ میں نے آپ کو بتایا کہ آپ کے نانا کے ان ساتھیوں میں 60 سے 70فیصد لوگ مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے اور باقی فیوڈل تھے مگر جب آپ کے نانا وزیراعظم بنے تو اس خطے کے نامور جاگیرداروں نے رابطہ کیا اور پی پی پی میں شمولیت اختیار کرتے گئے۔ آپ کے نانا نے ان میں سے اکثریت کو سفیر اور مشیر لگادیا۔ رفتہ رفتہ جاگیرداروں کی تعداد پی پی پی میں بڑھتی گئی اور ان لوگوں کی تعداد کم ہوتی گئی جو پارٹی کا اصل سرمایہ تھے۔ آپ کے نانا کو وڈیروں اور جاگیرداروں نے پارٹی سمیت یرغمال بنالیا اور ان کی مرضی چلنے لگی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1977ء میں جب عام انتخابات ہوئے تو پوری جماعت پر اکثریت جاگیرداروں کی چھا چکی تھی۔ عوام سے ان جاگیرداروں نے آپ کے نانا کو الگ کردیا اور انہی جاگیرداروں نے مطلق العنانی قائم کی جس کا نتیجہ تحریک نظام مصطفیؐ کی شکل میں نکلا جس کا آغاز بھی اسی ملتان سے ہوا تھا اور بالآخر 5جولائی 1976ء کو ایک ڈکٹیٹر نے جمہوریت پر شب ِخون مارکر آپ کے نانا کو تختہ دار پر چڑھا دیا۔ پارٹی پر بہت بُرا وقت آیا جن وڈیروں اور جاگیرداروں کو آپ کے نانا نے نوازا تھا‘ وہ سب غائب ہوگئے اور قربانی کیلئے غریب کارکنان سڑکوں پر نکلے جنہوں نے قید‘ کوڑے‘ شاہی قلعہ اور جیلیں دیکھیں۔
میری آنکھوں کے ٹھنڈک بلاول بیٹا! پھر اس خطے کے جاگیرداروں کی اکثریت نے مجلس شوریٰ میں شمولیت اختیار کی اور 1985ء کے غیرجماعتی الیکشن میں ڈکٹیٹر کی اسمبلی میں چلے گئے مگر مڈل کلاس قیادت اور غریب کارکن نہ بدلا‘ وہ قربانیاں دیتا رہا۔ ہاں یہ بھی بتادوں کہ اسی ملتان شہر میں آپ کی نانی اماں کا لہو بھی گرا تھا۔ کالونی ملز میں مزدوروں کے قتلِ عام کے خلاف جب آپ کی نانی اماں احتجاج کیلئے آئیں تو میری ماں پر ڈنڈے برسائے گئے جس سے وہ شدید زخمی ہوگئیں۔
بلاول میرے چاند! جب ضیاء الحق ڈکٹیٹر اپنے انجام کو پہنچا تو 1988ء میں عام انتخابات ہوئے تو میں نے سب سے پہلا کام ان انکلوں کی چھٹی کرائی جو میرے بابا کے قاتلوں کے مددگار تھے اور پھر مجھے ایک مرتبہ پھر مڈل کلاس قیادت اور غریب کارکنان نے اپنے بابا کی نشست پر بٹھا دیا۔
بیٹا بلاول! یہ مختصر سا اس خطے کا احوال تھا جو میں نے آپ کو بتانا ضروری سمجھا اور یہ ہدایت بھی دینا تھی کہ کوشش کرو عوام اور کارکنان تک خود پہنچو‘ انہیں سینے سے لگاؤ‘ میری اور اپنے نانا کی یادیں تازہ کردو۔ اگر آپ نے میری ان باتوں پر عمل کیا تو یقینا کامیابی پاؤ گے۔ اس خطے کی ایک بڑی داستان ہے جس میں کارکنان کی قربانیاں‘ وڈیروں کی بے وفائیاں / مفادپرستیاں‘ اقتدار کی ہوس سب شامل ہیں جن کو بیان کرنے کیلئے طویل وقت درکا ہے جو وقتاً فوقتاً میں آپ کو بتاتی رہوں گی۔ فی الحال ایک ہی بات یاد رکھنا کہ مڈل کلاس قیادت اور غریب کارکن کا خاص خیال رکھنا۔ یہ آپ کی کامیابی کی ضمانت ہیں۔
والسلام
آپ کی والدہ بینظیر بھٹو
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭