تازہ تر ین

نوٹس لینے اور رپورٹ طلب کرنے کا کلچر

ندیم اُپل
ہمارے ہاں اکثر وبیشتر جب کوئی بڑا سانحہ یا واقعہ وقوع پذیر ہوتا ہے تو متاثرہ فریق کو انصاف دلانے کیلئے سرکاری طور پر ان مخصوص الفاظ میں تسلی دی جاتی ہے کہ اعلیٰ حکام نے واقعہ کانوٹس لے کر آئی جی سے رپورٹ طلب کر لی۔یہ ترّدد بھی اس وقت کیا جاتا ہے جب ظلم و زیادتی پرمبنی کسی واقعہ کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں،رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں اور سڑکوں پر ٹائر جلاکر احتجاجی مظاہر ے کرتے ہیں یا کسی واقعہ کے بارے میں سوشل میڈیا پر شور مچ جائے وگرنہ ہمارے معاشرے میں کسی مظلوم کے ساتھ کوئی زیادتی ہو جائے تو تھانے میں اس کے کہنے پر ایف آئی آر تو کیا سادہ شکایت تک درج نہیں ہوتی البتہ کسی واقعہ پر شدید عوامی ردعمل آنے کی صورت میں بیوروکریسی کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ معاملہ ٹھنڈا کرنے کیلئے پہلے سے تیار شدہ بیان از خود جاری کردے کہ اعلیٰ حکام نے فوری نوٹس لے لیا ہے اور فلاں فلاں پولیس افسر سے رپورٹ طلب کر لی گئی ہے۔دراصل یہ ہماری بیوروکریسی کے کام کرنے کا ایک مخصوص طریق کار ہے جو برسوں سے قائم ہے اوربدقسمتی سے آج بھی اسی پر عمل ہو رہا ہے یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی مظلوم کو انصاف نہیں ملا۔
ایسے بہت سے واقعات ہیں کہ جن کا نوٹس تو ضرور لیا گیا۔پولیس سے رپورٹیں بھی طلب کی گئیں مگر انصاف آج تک کسی کو نہ مل سکا۔
کیاساہیوال کے وہ معصوم بچے جن کے سامنے ان کے والدین کو گولیاں مار کر قتل کردیا گیا تھا کیاان کو انصاف مل گیا۔ان کے چچا کو ایک چیک دے کر منہ تو بند کر دیا گیا مگر قاتل کون تھے کہاں گئے یہ آج تک پتہ نہیں چل سکام۔موٹر وے پر بچوں کے سامنے ان کی ماں کے ساتھ زیادتی کرنے والے مجرموں کو جو اعتراف جرم بھی کر چکے ہیں انہیں سزا ہونے کے باوجود اس پر عمل درآمد میں غیر معمولی تاخیر کس لیے؟سیالکوٹ کاوہ واقعہ جس میں بھرے ہجوم میں مجرموں نے دو سگے بھائیوں (ان میں ایک حافظ قرآن تھا)کو ڈنڈے مار مار کر ہلاک کر دیا تھا جس پر اس وقت کے خادم اعلیٰ نے فوری نوٹس بھی لیا تھا اور بڑی رپورٹیں طلب کی تھیں کیا ان کے لواحقین کو انصاف ملا؟
حال ہی میں چوہنگ میں ماں بیٹی کے ساتھ زیادتی کیس میں جس کا فوری نوٹس لیا گیا تھا اور رپورٹ طلب کی گئی تھی کیا ابھی تک ان کو انصاف ملا۔ابھی چند روز قبل مقامی اخبارات کی خبر تھی کہ ایک ہی رو ز میں لاہور کے مختلف علاقوں میں سات خواتین سے زیادتی ہوئی۔اس پر چونکہ عوامی سطح پر احتجاج نہیں ہو ا اس لیے کسی نے اس واقعے کا کو ئی نوٹس لیا اور نہ ہی پولیس سے رپورٹ طلب کی گئی۔ایسے ہی معاشرے کے کمزور افراد سے ہونے والے ظلم پر یہ کہہ کر بقول چودھری شجاعت حسین (مٹی پاؤ) کہہ کربات ختم کر دی جاتی ہے۔مگر جس واقعہ پر لوگ جان کو آجائیں اس پرنوٹس بھی لے لیا جاتا ہے اور پولیس سے فوری رپورٹ بھی طلب کی جاتی ہے۔تاہم اس کیساتھ کیساتھ کچھ اچھے کاموں کا اعتراف کر لینے میں بھی بخل سے کام لینا اچھا نہیں۔مثلاً قصور کی زینب کا واقعہ،کوئٹہ میں قتل ہونے والے گیارہ کان کنوں اور نور مقدم کیس جس میں ملزم کے والدین بھی زیر حراست ہیں ان تینوں واقعات پراس لیے کارروائی ہوئی کہ ان واقعات نے پوری انتظامیہ کو ہلا کر رکھ دیا تھااور اگر مزید اچھی کارکردگی کا حوالہ دینا مقصود ہو تو 14اگست کو گریٹر اقبال پارک میں ہونے والے واقعے کا حوالہ بھی دیا جا سکتا ہے جس پر غفلت برتنے والے پانچ اعلیٰ افسران کو بھی برطرف کر دیا گیا تھا اور جس تک پولیس ابھی تک پرجوش انداز میں اپنی تفتیش جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ وہ کیس ہے کہ جس تک پولیس والے خوشی خوشی کام کر رہے ہیں وہ یہ کام کیوں خوشی خوشی کر رہے ہیں اس بارے میں ہم سب جانتے ہیں لہٰذا اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔
اگر اس ملک میں اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے نوٹس لینے کے بعد کوئی منطقی کارروائی ہوئی تو وہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مدت ملازمت کے آخری دن تھے جب پولیس اور اعلیٰ بیوروکریسی کی شامت آئی ہوتی تھی اورسپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں صبح سویرے ہی اعلی بیوروکریسی کی حاضریاں شروع ہو جاتی تھیں۔جب تک جسٹس ثاقب نثار اپنے عہدے پر فائز رہے ان کے احکامات پر فوری عمل درآمد بھی ہوا،ظالم کو باقاعدہ سزا ور مظلوم کو باقائدہ انصاف ملامگر جیسے ہی جسٹس ثاقب نثار کی مدت ملازمت ختم ہوئی ان کے باقی ماندہ احکامات کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیاگیا۔ہم نے سطور بالا میں جن واقعات کا حوالہ دیا ہے ان میں دیکھا جائے تو ہم سب برابر کے قصور وار ہیں کسی ایک کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔اگر پولیس پر الزامات آتے ہیں توعوام کے تحفظ کے لیے وہ اپنی جانوں کا جو نذرانہ پیش کرکے امربھی ہو جاتے ہیں اسے بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔
پولیس میں بھی کیپٹن مبین ڈی آئی جی ٹریفک اورزاہد گوندل ایس ایس پی آپریشنز کا جذبہ رکھنے والے سپوت موجود ہیں تاہم کالی بھیڑیں تو ہرجگہ ہوتی ہیں۔اسی طرح عام عوام میں بھی ایسے لوگ ہیں جولب سڑک کسی بیہوش یازخمی شخص کودیکھا کراس کو ہسپتال نہیں پہنچاتے مگر مال غنیمت کے طور پر اس کے پرس اور موبائل وغیرہ پر ضرور ہاتھ صاف کر جاتے ہیں مگر ہم بنیادی سوال یہ لے کرچلے تھے جب زیادتی کاکوئی مجرم خود ہی اعتراف جرم کر لیتا ہے اور آدھا شہر اس کی گواہی بھی دیتا ہے توپھر جان بوجھ کر تفتیش کا دائرہ کار کیوں بڑھایا جاتا ہے اورایسے ثبوت کیوں مانگے جاتے ہیں جس کا فائدہ اقرار جرم کرنے والے ملزم کو پہنچ سکتا ہے۔مثال کے طور پرموٹروے کے ملزمان نے نہ صرف اقرار جرم کیا بلکہ یہ بھی اقرار کرلیا کہ وہ ماضی میں بھی اس قسم کے گھناؤنے جرائم میں ملوث رہے ہیں۔چوہنگ کے واقعہ میں ماں بیٹی سے زیادتی کرنے والا ملزم چند روز قبل ایسے ہی ایک جرم میں سزا بھگت کر باہر آیا تھا۔سو جب تک ایسے مجرموں کو نشان عبرت نہیں بنایا جائے گا ان کے ناپاک وجود کو صفحہ ہستی سے نہیں مٹایا جائے گا اس وقت تک سانحہ موٹر وے اورسانحہ چوہنگ ایسے المیے رونما ہوتے رہیں محض فوری نوٹس لینے اور رپورٹ طلب کرنے سے بات نہیں بنے گی۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain